قلعہء دراوڑ: شاندار ماضی کے زبون حال جھرونکے

قلعہء دراوڑ: شاندار ماضی کے زبون حال جھرونکے

فیصل فاروق

فراٹے بھرتی جدید سہولتوں سے آراستہ کار میں سفر کرتے ہوئے جب پہلی نظر تاریخ کی اس عظیم عمارت پر پڑتی ہے تو ذہن صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرتے ہوئے اس دور میں پہنچ جاتا ہے جب کوئی حسنِ ذوق رکھنے والا بادشاہ سج دھج کے چار یا چھ گھوڑوں والی بگھی میں اپنی ساخت اور فنِ تعمیر میں منفرد اس قلعے میں داخل ہوتا ہوگا۔

میلوں دور سے اس کے برج دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ فنِ تعمیر کا نادر نمونہ، قلعہ دراوڑ، بہاولپور سے دو گھنٹے کی مسافت پر یزدان کے علاقے میں واقع ہے۔ اس کے پہلے معمار کے بارے میں تاریخ اگرچہ اختلافات میں گھری دکھائی دیتی ہے لیکن کچھ مورخین کا خیال ہے کہ یہ عظیم شاہکار نویں صدی میں بھٹی قبیلے کے ایک راجپوت بادشاہ رائے ججا بھٹی نے تعمیر کروایا تھا۔

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

لیکن اس کی موجودہ شکل 17 ویں صدی میں عباسی حکمرانوں کے فنِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چاروں اطراف سے ایک جیسی نظر آنے والی یہ پختہ اینٹوں کی عمارت بہاولپور کے نواب محمد خان اول نے 1733 میں قبضہ کرنے کے بعد دوبارہ تعمیر کروائی۔ 1747 میں راول رائے سنگھ نے نواب محمد بہاول خان دوم سے قلعہ واپس چھین لیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور عباسی حکمران نواب مبارک خان نے 1804 میں ایک بار پھر قلعہ مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کیا۔

قلعے کا مرکزی دروازہ بلندی پر ایستادہ ہے جہاں سے دربان گرد و نواح کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے آپ کو موجودہ دور کے دربان کو نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ قلعے میں قریب چالیس برج ہیں ہر طرف پھیلے یہ برج میلوں دور سے ہی نظر آتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی حالت تیزی سے کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

بلند و بالا فصیلوں کے اندر سے مناظر کسی بھی تاریخ سے محبّت رکھنے والے شخص کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ جگہ جگہ گڑھے، اطراف میں پھیلی ہوئی مٹی کے ڈھیر اور اینٹیں آپکو زیادہ دیر تک ماضی کے اس عظیم ورثے کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں دیں گے۔ تمام مرکزی عمارتیں، پھانسی گھاٹ، تہ خانے، چبوترے، اور قلعے کے اندر واقع چھوٹی مسجد کسمپرسی کی حالت میں نظر آتی ہیں۔

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ کا ایک برج— تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کا ایک برج— تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ درواڑ پر سے ایک نظارہ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ درواڑ پر سے ایک نظارہ — تصویر فیصل فاروق

نواب محل، جو مرکزی دروازے کے دائیں جانب آخری برج کے اوپر واقع ہے اب بس کچھ ہی سالوں کا مہمان معلوم ہوتا ہے۔ اپنے جوبن کے وقت یہ لاہور کے شیش محل سے کم نہ ہوگا لیکن آج اس کی حالت ناگفتہ بہ نظر آتی ہے۔

خوبصورت اور دلنشیں پچی کاری سے آراستہ گرتی ہوئی چھت میں اس دور کے فنِ تعمیر کو دیکھ کر داد دیے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔ اس کی بالکونیوں سے صحرا میں نکلنے والے سورج اور چاندنی راتوں میں چمکتی ریت کے نظارے آج بھی دل کو موہ لیتے ہیں۔

یہاں کے جھروکوں سے عباسی مسجد اور شاہی قبرستان کا نظارہ بھی ہوتا ہے جو وقت کے ان فرمانرواؤں کو یاد دلاتا رہتا تھا کے ایک دن اس قلعے سے ان مقبروں کا فاصلہ کم ہی ہے۔ یہ مسجد قلعہ دراوڑ سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ یہ مسجد کسی حد تک لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی موتی مسجد کی جھلک لیے ہوئے ہے

قلعہ دراوڑ کا اندرونی منظر — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کا اندرونی منظر — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ کے فن تعمیر کا ایک نمونہ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کے فن تعمیر کا ایک نمونہ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ کا ایک منظر — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کا ایک منظر — تصویر فیصل فاروق

قلعہ درواڑ سے تھوڑے فاصلے پر واقع مسجد — تصویر فیصل فاروق
قلعہ درواڑ سے تھوڑے فاصلے پر واقع مسجد — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ کی زبون حالی — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کی زبون حالی — تصویر فیصل فاروق

ٹيکسلا‎ کے کھنڈرات میں گھومنا یقیناً یہاں سے بہتر معلوم ہوتا ہوگا۔ دروازے پر نذرانے والے دربان کے علاوہ قلعے کے اندر آپ کو کوئی محافظ یا ملازم نہیں نظر آتا، نہ کوئی تحریر، نہ کوئی سائن بورڈ، بس اینٹوں کے وسیع قبرستان میں گھومتے ہوئے آپ خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ جیل کے باہر اور اندر آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ہے۔

صحن میں نصب توپ بچوں کے کھیلنے اور اس کے اوپر بیٹھ کر تصویریں بنوانے والوں کے لیے کھلی پڑی ہے۔ جنوبی مرکزی فصیل کے ساتھ چند نامعلوم لوگوں کی قبریں بھی ہیں لیکن ان پر نصب سنگ مرمر کے کتبے ان کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔

قلعہ درواڑ میں واقع نامعلوم افراد کی قبریں — تصویر فیصل فاروق
قلعہ درواڑ میں واقع نامعلوم افراد کی قبریں — تصویر فیصل فاروق

بلندی سے قلعے دراوڑ کا ایک منظر — تصویر فیصل فاروق
بلندی سے قلعے دراوڑ کا ایک منظر — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعہ دراوڑ کا ایک اندرونی منظر — تصویر فیصل فاروق
قلعہ دراوڑ کا ایک اندرونی منظر — تصویر فیصل فاروق

قلعہ درواڑ — تصویر فیصل فاروق
قلعہ درواڑ — تصویر فیصل فاروق

قلعے کی گرتی دیواریں ہماری اجتماعی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ ریاست بشمول عباسی سلطنت کے خانوادے اگر چاہیں تو ماضی کے اس عظیم تہذیبی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں اور ترجیحی بنیادوں پر کام کر کے اس علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے نہ صرف یہ بلکہ اس سے خاطر خواہ آمدنی بھی کمائی جا سکتی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ بہاولپور کا نور محل تو پوری آب و تاب کے ساتھ سیاحوں کو شاندار ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع دیتا ہے لیکن اسی عباسی خاندان کے زیر قبضہ یہ قلعہ گزرے وقت کے ساتھ اپنی آب و تاب کھوتا جا رہا ہے۔


فیصل فاروق اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں اور سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔