کیا ہوا جب دو سپاہی اور ایک استاد 'پارسی' کے گھر گئے

کیا ہوا جب دو سپاہی اور ایک استاد ایک پارسی کے گھر گئے

لینیٹ وکاجی

ایک پولیس اہلکار، ایک رینجرز اہلکار اور ایک سرکاری اسکول ٹیچر ایک عیسائی سے شادی کرنے والے ایک پارسی کے گھر آتے ہیں۔ اگر آپ کو لگے کہ یہ ایک لطیفے کی ابتداء ہے تو آپ کچھ کچھ صحیح ہیں۔

میرے ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ مردم شماری کی ٹیم آئی تھی۔ وہ ایک خشک دن تھا اور وقفے وقفے سے ہوا چل رہی تھی، اور ان تینوں کا حلیہ بھی گرمی اور گرد کی وجہ سے بگڑا ہوا تھا۔ میں نے انہیں اندر آنے اور بیٹھنے کی دعوت دی، مگر انہوں نے منع کر دیا اور کہا کہ نہیں بس اس میں چند منٹ ہی لگیں گے۔

تو ہم جمع شدہ گرد کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کے درمیان ہمارے دروازے میں ہی کھڑے ہوگئے۔ اسکول ٹیچر نے اپنے بازو پر رجسٹر جماتے ہوئے قلم کی نوک کاغذ پر رکھی اور کہا:

"نام؟"

میں نے خود سے کہا، "اوہو، اب ایک بار پھر۔" پاکستانی سرکاری اداروں نے ہمارے ناموں کو اتنا توڑا مروڑا اور ان میں اتنی اختراعات کی ہیں کہ اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ میرا نام کتنی طرح سے لکھا اور پکارا جا سکتا ہے۔ انہیں اور خود کو اس پریشانی سے بچانے کے لیے میں نے اپنے نام خود لکھ کر دینے کی پیشکش کی، مگر انہیں یہ قبول نہیں تھا۔ وہ اردو میں لکھ رہے تھے، چنانچہ انہیں تلفظ کے ساتھ لکھنا تھا۔

میں نے اپنے گھرانے کے تمام نام انہیں بڑی احتیاط سے اور آہستہ آہستہ بتائے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ ان عجیب و غریب ناموں کو حروف میں تبدیل کرنے میں مشکل کا شکار ہیں۔

پھر اگلا سوال، "کیا آپ پاکستانی ہیں؟"

میں نے اسے یقین دلایا کہ ہاں، ہم سب پاکستانی ہیں۔

انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا ہم کسی اور ملک سے کراچی آ بسے ہیں۔

میں نے انہیں بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

"میرے شوہر اپنے والدین کے ساتھ بچپن میں ہندوستان سے پاکستان آئے تھے، مگر اب وہ بالکل پاکستانی ہی ہیں، اور ہم میں سے باقی سب تو یہیں پیدا ہوئے تھے۔"

"جی، ہماری مادری زبان انگریزی ہے۔ جی ہم پاکستانی ہیں، مگر ہم نے پہلے انگلش بولنی سیکھی ہے۔ دیکھیں میں آپ سے ابھی اردو میں بات کر رہی ہوں، نہیں؟"

عمریں، شادیاں، تعلیم، اور ملازمت کے خانے آسانی سے بھرے گئے۔ پھر مذہب کا خانہ آیا، اور قلم میرے شوہر کے نام پر آ کر رک گیا۔

میں نے کہا، "پارسی"۔

جواب میں خالی نگاہیں۔

"زرتشتی"۔

مزید خالی نگاہیں۔

"جی یہ واقعی ایک مذہب ہے،" میں نے انہیں یقین دلایا۔

اب تینوں سر آپس میں جڑ گئے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ فارم میں مسلم، ہندو، عیسائی، احمدی اور شیڈول کاسٹ تو ہیں، مگر پارسی؟ یہ کیا ہوتا ہے؟

بالآخر پولیس اہلکار کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے کہا، "دیگر!"، اور فاتحانہ انداز میں آخری آپشن کی جانب اشارہ کیا۔ سب نے سکھ کا سانس لیا اور 'دیگر' کے خانے پر نشان لگا دیا گیا۔

لکھاری اور ان کے شوہر اپنے دوستوں کے ساتھ۔
لکھاری اور ان کے شوہر اپنے دوستوں کے ساتھ۔

وہ مجھے بھی 'دیگر' کے خانے میں ڈالنے لگے تھے مگر اس سے پہلے ہی میں نے ان پر ایک اور دھماکہ کر دیا۔ "میں عیسائی ہوں، دیگر پر نشان نہ لگائیں۔" اب میرے لیے تو زمرہ موجود تھا، مگر پھر بھی انہوں نے غیر یقینی کی سی شکل بنا کر مجھے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ پوچھتے، میں نے انہیں دوبارہ یقین دلایا کہ میں واقعی پاکستانی ہوں۔ انہیں میرا شناختی کارڈ نمبر درکار تھا، چنانچہ میں نے انہیں اپنا کارڈ نکال کر دیا، جس سے انہیں میری پاکستانی شہریت کا یقین آ گیا۔

اب ایک استاد کو تو ویسے بھی سکھانے کے لیے موقع چاہیے ہوتا ہے، چنانچہ میں نے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ میں نے ان سے پوچھا، "آپ نے پارسیوں کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا؟"

"ان میں سے بہت کم باقی رہ گئے ہیں، مگر وہ اس شہر کا ایک اہم حصہ تھے اور اب بھی ہیں۔ آپ نے جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے بارے میں سنا ہے؟"

انہوں نے اس بارے میں نہیں سنا تھا۔

"آواری؟ آواری ہوٹل؟ وہ تو معلوم ہی ہوگا؟"

"جی جی، آواری ہوٹل۔"

جب میں نے انہیں بتایا کہ مسٹر آواری پارسی ہیں، تو انہیں ماجرا سمجھ آنے لگا۔

اور پھر میں آخری بات کہنے سے بھی نہ رک سکی: "آپ نے قائدِ اعظم کی اہلیہ رتی جناح کے بارے میں سنا ہے؟ وہ بھی پارسی تھیں۔"

انہوں نے ہنستے ہوئے ایک دوسرے کی جانب حیرت سے دیکھا۔ واضح تھا کہ انہوں نے تاریخ کا یہ حصہ کبھی نہیں پڑھا تھا۔

انہوں نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا، "آج ہماری معلومات میں کافی اضافہ ہوا ہے!"، اور پھر میرا شکریہ ادا کیا۔

اور جب وہ جانے لگے تو میں نے انہیں ان کی خدمات کے شکریے کے طور پر پانی کی ایک ٹھنڈی بوتل پیش کی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لینیٹ وِکاجی کراچی میں رہتی ہیں، پیشے کے اعتبار سے استاد اور اساتذہ کی تربیت کار ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔