لکی: پُررونق مندروں کا مرکز اب ویرانیوں کا جہاں

لکی: پُررونق مندروں کا مرکز اب ویرانیوں کا جہاں

زاہدہ رحمان جٹ

رواں سال کے آغاز میں سیہون سے 18 کلومیٹر دور واقع علاقے لکی جانا ہوا۔ لکی اپنے فطری پانی کے چشموں کی وجہ سے کافی مشہور ہے، مگر وہاں پہنچ کر یہ بھی احساس ہوا کہ ہندومت سندھ کے لیے کس قدر اہم رہا ہے اور یہ مذہب کس قدر اس خطے کے جغرافیا میں رچا بسا ہوا ہے۔ 19 ویں صدی کے برٹش دانشور اور سیاح رچرڈ برٹن اپنے سحر انگیز سفرنامے میں لکی کو ہندوؤں کے ایک مقدس مقام کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ عقیدتمند ان چشموں کو ’دھرنا تیرتھا’ پکارتے، جس کا مطلب ہے، "بہتے ہوئے پانی کی زمین پر مقدس مقام۔"

لکی میں موجود پانی کا چشمہ— تصویر زاہدہ رحمان جت
لکی میں موجود پانی کا چشمہ— تصویر زاہدہ رحمان جت

میں نے مرد، خواتین اور بچوں کو بزرگ، دھرن پیر سے منسوب غار پر جانے کے لیے پہاڑیوں پر چڑھائی کرتے دیکھا۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے تھی، اوپر چڑھائی کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک درخت ہے جہاں لوگوں نے رنگین سوت کے دھاگے باندھے ہوئے تھے۔ وہ ایک ’منت والا درخت’ ہے جہاں یہ دھاگے صرف اس صورت میں ہی کھولے جاتے ہیں جب ایک بار باندھنے والے شخص کی منت پوری ہو جاتی ہے۔

غار بہت ہی چھوٹا تھا اور اندر زیادہ روشنی بھی نہیں تھی۔ وہاں تھوڑی اونچائی پر ایک جگہ بنی ہوئی تھی جس پر خواتین تعظیم کے ساتھ جھک رہی تھیں اور وہاں پھول، ٹافیاں اور دیگر چیزیں بانٹ رہی تھیں۔ غار سے باہر آنے کے بعد میں اس پُل کی جانب بڑھی جو مجھے اونچی، ناہموار سیڑھیوں تک لے گیا۔

پہاڑوں پر چڑھتے وقت مجھے منت والا درخت دیکھنا اتفاق ہوا— تصویر زاہدہ رحمان جت
پہاڑوں پر چڑھتے وقت مجھے منت والا درخت دیکھنا اتفاق ہوا— تصویر زاہدہ رحمان جت

ایک خاتون غار کی طرف جا رہی ہے— تصویر زاہدہ رحمان جت
ایک خاتون غار کی طرف جا رہی ہے— تصویر زاہدہ رحمان جت

میں جیسے سیڑھیوں پر سے پہاڑ پر پہنچی تو، ایک عجیب فرحت بخش احساس میرے اندر تک سما گیا تھا۔ نیچے سبز پانی کے چشموں کے ساتھ لکی کے پہاڑوں کی رعنائیوں میں کھو گئی تھی۔ وہاں اتنی خاموشی تھی کہ میں اپنے دل کی دھڑکن بھی سن پا رہی تھی۔

اگرچہ ماحول میں خشکی پھیلی تھی مگر مقامی عورتوں کے رنگین کڑھائی سے سجے کپڑوں نے وہاں کے منظرنامے میں ایک منفرد امتزاج پیدا کر دیا تھا۔ اب بھی زائرین کی جانب سے نہانے کی رسومات ادا کی جاتی ہیں، جو گناہوں کو دھونے کے لیے نہیں بلکہ خاص طور پر جلد کی بیماریوں سے نجات کے لیے ادا کی جاتی ہیں۔

اونچائی پر بنی سیڑھیاں جن پر چڑھ کر ہی غار میں گئی تھی— زاہدہ رحمان جت
اونچائی پر بنی سیڑھیاں جن پر چڑھ کر ہی غار میں گئی تھی— زاہدہ رحمان جت

بلوچ خواتین غار سے لوٹ رہی ہیں— زاہدہ رحمان جت
بلوچ خواتین غار سے لوٹ رہی ہیں— زاہدہ رحمان جت

صدیوں پہلے لکی ان سنیاسیوں کے لیے سب سے پسندیدہ جگہ تصور کی جاتی تھی جو خودکشی کرنے کی رسم ادا کرنا چاہتے تھے۔ سنیاسی آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ جاتے اور طہارت، دعاؤں اور مراقبے کے بعد، پہاڑی کے کنارے پر رات قیام کرتے۔ اگر ان کے دلوں کو خوف اپنی لپیٹ میں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ابھی تیار نہیں۔ لیکن اگر انہیں وہاں پرسکون نیند آ گئی تو اگلی صبح ہی اپنی جان لے لیتے۔

لکی دیوتا شِو کے عقیدتمندوں کے لیے بھی ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ فرانسیسی محقق مائیکل بوئی ون اپنی کتاب ’سندھ تھرو ہسٹری اینڈ ری پریزینٹیشنز’ میں رقم طراز ہیں کہ، لکی ’سندھ میں موجود دیوتا شِو کے ماننے والوں کے لیے ایک سب سے خاص مقامات میں سے ایک ہے اور ان یاتریوں (زائرین) کے لیے ایک عارضی قیام کا مقام بھی ہے جو بلوچستان میں یاترا منانے ہنگلاج ماتا کے مندر کے سفر پر گامزن ہوتے ہیں۔

مندروں کو جاتا راستہ— تصویر زاہدہ رحمان جت
مندروں کو جاتا راستہ— تصویر زاہدہ رحمان جت

ایک بلوچ آدمی اپنے بچے کے ساتھ مندر جا رہا ہے — تصویر زاہدہ رحمان جت
ایک بلوچ آدمی اپنے بچے کے ساتھ مندر جا رہا ہے — تصویر زاہدہ رحمان جت

مگر آج لکی میں صرف مٹھی بھر ہی شوالے یا مندر موجود ہیں۔ کسی زمانے میں ان مندروں کی شان تھی، مگر چونکہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی بھی نہیں بچا تو یہ مندر بھی ویرانیوں اور خستہ حالیوں کا پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ ماضی کے مقابلے بالکل مختلف ہے جب اس علاقے میں جگہ جگہ شوالے اور ہندو سادھوؤں کے ٹھکانے ہوتے تھے۔ دانشور اور سیاح ہین سانگ نے ساتویں صدی میں سندھ کا سفر کیا تھا اور بیان کیا کہ یہاں 273 مندر تھے، جن میں سے 235 مندر پشوپتا شیوا پیروکاروں کے تھے، جو شیوا بھگتی کا ہی ایک دوسرا سلسلہ تھا۔

مجھے یہ پتہ نہیں کہ عظیم شاعر شاہ عبداللطیف نے یہ شاعری کس تناظر میں لکھی تھی، مگر یہ شاعری میرے درد کی درست ترجمانی کرتی ہے جو مجھے اس زمین سے ہندو مت کے گمشدہ مندروں کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوا جن کا کبھی یہاں عروج ہوا کرتا تھا۔

اب نہ وہ بیٹھکیں نہ وہ باتیں، سونی سونی فضائے قرب و جوار،

کتنی ویران ہے رہ پر پیچ، کتنے سنسان ہیں در و دیوار،

یہ چپ و راست ڈھیر یادوں کے، یہ بھٹکتا سا دیدہ خوں بار،

یہ خموشی یہ رات کے سائے، کون جانے وہ کہاں گئے یار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے میرے آگئے جوگی، اپنا جلوہ دکھا گئے جوگی،

اس طرح مسکرا گئے جوگی، مست و بے خود بنا گئے جوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اپنا بنا گئے جوگی، دیدہ و دل پہ چھا گئے جوگی،

جا کے پھر یاد آگئے جوگی، کچھ نئے گل کھلا گئے جوگی۔

مندروں کو جاتے راستے سے ایک منظر — تصویر زاہدہ رحمان جت
مندروں کو جاتے راستے سے ایک منظر — تصویر زاہدہ رحمان جت

مندر پر جانے کے بعد ایک خاتون اپنے گھر جا رہی ہے — تصویر زاہدہ رحمان جت
مندر پر جانے کے بعد ایک خاتون اپنے گھر جا رہی ہے — تصویر زاہدہ رحمان جت

ایک خستہ حال مندر کا دروازہ — تصویر زاہدہ رحمان جت
ایک خستہ حال مندر کا دروازہ — تصویر زاہدہ رحمان جت


زاہدہ رحمان جت اینتھروپولاجسٹ اور سوشل سائنس ریسرچر ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کے اینتھروپولاجی اینڈ آرکیولاجی ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔