کاشی گری: سندھ کا ایک لازوال ثقافتی ورثہ

کاشی گری: سندھ کا ایک لازوال ثقافتی ورثہ

اختر حفیظ

یہ انسانی ہاتھوں کی ہی کاریگری ہے کہ وہ مٹی سے کیسی کیسی خوبصورت چیزیں تخلیق کر لیتا ہے۔ یہ وہی مٹی ہے جس کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا کہ "خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔"

مٹی سے انسان کا رشتہ صدیوں پر محیط ہے، اسی مٹی میں پوشیدہ سیکڑوں اشکال کو جس طرح انسان نے دریافت کیا ہے وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

حیدرآباد سے تقریباً ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہالا نام کا ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے۔ ویسے تو اس شہر کی ایک پہچان یہاں کا مخدوم خاندان ہے جو ہمیشہ سیاست میں سرگرم رہا ہے مگر ہالا شہر کی ایک اہم ترین پہچان ہاتھ کا ہنر یا ہینڈی کرافٹس بھی ہیں۔ مگر ہالا کی کاشی گری آج بھی اس شہر کا ایک الگ تعارف بنی ہوئی ہے، جسے بلو (نیلی) پوٹری بھی کہا جاتا ہے۔

کاشی کے ٹائل پر موجود خوبصورت نقوش— تصویر اختر حفیظ
کاشی کے ٹائل پر موجود خوبصورت نقوش— تصویر اختر حفیظ

کاشی ٹائلز— تصویر اختر حفیظ
کاشی ٹائلز— تصویر اختر حفیظ

کاشی کے مخصوص نقوش اور رنگ — تصویر اختر حفیظ
کاشی کے مخصوص نقوش اور رنگ — تصویر اختر حفیظ

کاشی کی ایک ٹائل جس پر رنگ ابھی ہونا باقی ہے— تصویر اختر حفیظ
کاشی کی ایک ٹائل جس پر رنگ ابھی ہونا باقی ہے— تصویر اختر حفیظ

سندھ اور ہمارے ملک کے دیگر حصوں میں کاشی کا کام زیادہ تر مزاروں اور مقبروں پر ہی نظر آتا ہے۔ اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک خیال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کاشی کے کام کا آغاز 8 ویں صدی میں ہوا۔ عربوں کی جانب سے سندھ فتح کرنے کے بعد، وہ بھی کاشی گر اپنے ہمراہ لائے تھے جبکہ مغلیہ دور حکومت میں بھی یہ کام کافی نمایاں نظر آتا ہے۔

ملتان میں کاشی کا کام ہمیں جا بجا نظر آتا ہے اور عرصہ دراز سے مختلف عمارتوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ سندھ میں اس کام کی تاریخ کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ موئن جو دڑو کے دور سے چلا آ رہا ہے مگر موئن جو دڑو سے ملنے والی اشیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کاشی کے بجائے مٹی کے برتن زیادہ نظر آتے ہیں۔

سندھ میں اس کام کی شروعات سمہ دور میں ہوئی، اس کے بعد یہ مختلف شہروں میں پھیلتا گیا۔ جبکہ تالپور دور میں کاشی کے کام پر کافی توجہ دی گئی۔ آج سندھ میں کاشی کا کام ہالا، کھانوٹھ، نصرپور اور سیہون میں کیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹھٹھہ میں آج بھی کاشی گر محلہ موجود ہے۔

کاشی گر ایک ٹائل پر نقش و نگاری کر رہا ہے— تصویر اختر حفیظ
کاشی گر ایک ٹائل پر نقش و نگاری کر رہا ہے— تصویر اختر حفیظ

کاشی گری کے مختلف نمونے — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری کے مختلف نمونے — تصویر اختر حفیظ

کاشی کے شوپیز— تصویر اختر حفیظ
کاشی کے شوپیز— تصویر اختر حفیظ

کاشی کے کام کے لیے سب سے اہم چیز مٹی ہے، جسے مختلف اشکال دے کر مختلف اقسام کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ سندھ اور ملتان میں جتنے بھی پرانے مزار اور مقبرے ہیں، ان کی دیواریں کاشی کی ٹائلز سے سجی ہوئی ہیں۔ نیلے رنگ والی کاشی سے تیار کیے گئے ٹائلز نہ صرف ایک زمانے میں جدید طرز تعمیر کا حصہ تھے اور تعمیرات میں شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

مجھے چند دن پہلے کاشی کے کاریگروں اور ان کی کاریگری کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، آپ جیسے ہی ہالا شہر میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو نہ صرف ہینڈی کرافٹس کی دکانیں نظر آئیں گی بلکہ کاشی کی دکانیں اور چھوٹے چھوٹے کارخانے بھی نظر آ جائیں گے، جہاں مزدور اپنے ہاتھوں کی مشقت سے برتن، ٹائلز، کھلونے، پرندے اور چھوٹے چھوٹے مٹی سے بنے جانور بناتے اور ان پر رنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

کاشی کے کام میں ہر چیز گول چکرے پر نہیں بنائی جاتی، بلکہ اس کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ گول چکرے کو سندھی زبان میں ”چَک“ کہا جاتا ہے، کسی زمانے میں یہ چک لاٹھی سے چلائے جاتے تھے مگر بجلی کی سہولت آنے کے بعد اب موٹر کے ذریعے انہیں گول گول گھمایا جاتا ہے اور گیلی مٹی بیچ میں رکھ کر مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔

محمد حنیف پیشے کے اعتبار سے کمہار ہیں اور وہ کئی برسوں سے اپنے چک پر برتن، پیالے، گلدان اور گملے وغیرہ بنا رہے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا اس وقت بھی ایک کاریگر اپنے کام میں مصروف تھا، اپنے ہاتھوں کی حرکت سے جلد ہی خوبصورت چھوٹے برتن تیار کر لیتا۔

ایک کاشی گر چک پر برتن بنا رہا ہے— تصویر اختر حفیظ
ایک کاشی گر چک پر برتن بنا رہا ہے— تصویر اختر حفیظ

ایک کاشی گر چک پر برتن بنا رہا ہے— تصویر اختر حفیظ
ایک کاشی گر چک پر برتن بنا رہا ہے— تصویر اختر حفیظ

بجلی کی موٹر سے چک چلانا کافی آسان ہو گیا ہے— تصویر اختر حفیظ
بجلی کی موٹر سے چک چلانا کافی آسان ہو گیا ہے— تصویر اختر حفیظ

کاشی گری کا ایک جدید نمونہ —تصویر اختر حفیظ
کاشی گری کا ایک جدید نمونہ —تصویر اختر حفیظ

اس کے چہرے پر اپنے کام کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ وہ اپنے کام سے بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے پوچھا کہ، 'کیسا چل رہا ہے آپ کا کام؟'

'کام اچھا چل رہا ہے، میں اپنے کام سے بہت خوش ہوں۔' اس نے تیار برتن کو چک سے اتارتے ہوئے کہا اور ایک اور برتن تیار کرنے کے لیے گیلی مٹی چکرے پر رکھ دی۔

'تو کیا آپ کو اتنی اجرت مل جاتی جس سے ضروریات زندگی پوری ہو جائیں؟'

’ایک غریب آدمی کی ضرورت اتنی ہوتی بھی نہیں ہے۔ بس رب کا شکر ہے، کام اچھا چل رہا ہے اور رزق اچھا مل جاتا ہے۔' اس نے اپنے ہاتھ روکتے ہوئے مجھے جواب دیا۔

کاشی کا کام صرف کسی بھی برتن یا ٹائل کو بنا کر سُکھانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ دیگر مراحل اس کے بعد شروع ہوتے ہیں، کسی بھی تیار شدہ چیز کو سُکھانے کے بعد اسے بَھٹی میں پکایا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹائلز پکانے کے لیے چھوٹے چھوٹے فریم کا استعمال کیا جاتا ہے جن پر انہیں ترتیب سے رکھا جاتا تاکہ وہ ٹوٹنے سے محفوظ رہیں اور اچھی طرح پک جائیں۔

تیار شدہ کاشی کے ٹائلز— تصویر اختر حفیظ
تیار شدہ کاشی کے ٹائلز— تصویر اختر حفیظ

کاشی گری کے مختلف نقوش — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری کے مختلف نقوش — تصویر اختر حفیظ

کاشی کی چیزیں پکائے جانے کے لیے استعمال ہونے والی بھٹی — تصویر اختر حفیظ
کاشی کی چیزیں پکائے جانے کے لیے استعمال ہونے والی بھٹی — تصویر اختر حفیظ

ٹائلز پکاتے وقت استعمال ہونے والے فریم — تصویر اختر حفیظ
ٹائلز پکاتے وقت استعمال ہونے والے فریم — تصویر اختر حفیظ

پھر ان پر پہلے باریک نقوش بنائے جاتے ہیں اور ان نقوش میں کاشی کا نیلا رنگ بھر دیا جاتا ہے اور آخر میں انہیں پالش کیا جاتا ہے۔

کاشی گر فقیر محمد کا یہ خاندانی پیشہ ہے، ان کے آباؤ اجداد بھی پشتوں سے اس کام کو سنبھال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ کتبے اور ٹائلز بنانے کے آرڈر ہی ملتے ہیں۔

فقیر محمد کہتے ہیں کہ، 'ہمیں پورے ملک سے کاشی کے ٹائلز اور دیگر سامان کا آرڈر ملتا ہے اور آپ کو سب سے زیادہ تیار کی جانے والی چیز یہاں نیلے رنگ والی ٹائل ہی ملے گی، کیونکہ مارکیٹ میں اس کی کافی طلب ہے۔ مقبروں اور مزاروں کو پکا کرنے کے لیے اسی ٹائل کا استعمال کیا جاتا ہے۔'

میں نے پوچھا کہ، 'سندھ میں تیار کی جانے والی کاشی میں آپ کون سی مٹی کا استعمال کرتے ہیں، ملتانی یا سندھ کی مٹی؟'

'ہم سندھ کی ہی مٹی استعمال کرتے ہیں، جسے چیکی مٹی کہا جاتا ہے۔ یہ کاشی کے کام کے لیے کافی بہتر اور پائیدار بھی ہے۔' وہ ٹائلز پہ نقش بنانے میں جت گیا۔

مگر میری نظر ان اشیا پر پڑی جو ٹائلز اور کتبوں سے الگ تھیں۔

کاشی گری سے مزین ایک کتبہ — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری سے مزین ایک کتبہ — تصویر اختر حفیظ

کاشی کے ٹائلز — تصویر اختر حفیظ
کاشی کے ٹائلز — تصویر اختر حفیظ

کاشی گری کے دیگر نمونے — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری کے دیگر نمونے — تصویر اختر حفیظ

میں نے پوچھا کہ، 'لیکن یہاں میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے گنبد، کھلونے، برتن، جانور اور پرندے بھی بنائے ہیں۔ کیا کاشی کے کام میں اب ان چیزوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔'

'جی اب لوگ ان چیزوں کو بھی پسند کرنے لگے ہیں، سو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی چیزیں بھی تیار کی جائیں جو لوگوں کو پسند بھی ہیں اور تھوڑی سی الگ بھی لگیں۔' فقیر محمد نے کہا

یہ کاشی کے کام میں کسی جدت سے کم نہیں ہے، جہاں کاشی کا کام صرف کتبوں اور رنگیں ٹائلز تک محدود تھا، فقیر محمد جیسے کاریگروں نے جدت لاکر اسے اور بھی وسیع کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے خریدار بھی اپنی پسند کی اشیا خرید سکتے ہیں۔

ان کے لیے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بھٹی میں گیس کا مسئلہ ہے، گیس کی عدم دستیابی سے انہیں لکڑیاں جلا کر بھٹی کو گرم کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر انہیں گیس فراہم کی جائے تو وہ بہتر انداز سے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو پکا سکتے ہیں اور کئی درخت کٹنے سے بچ سکتے ہیں۔

کاشی گری میں استعمال ہونے والی چیکی مٹی — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری میں استعمال ہونے والی چیکی مٹی — تصویر اختر حفیظ

کاشییگر چیکی مٹی کو سانچے میں ڈھال رہا ہے— تصویر اختر حفیظ
کاشییگر چیکی مٹی کو سانچے میں ڈھال رہا ہے— تصویر اختر حفیظ

کاشی گری کا ایک ڈیزائن — تصویر اختر حفیظ
کاشی گری کا ایک ڈیزائن — تصویر اختر حفیظ

ہالا میں کاشی کے پانچ کارخانے موجود ہیں، اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کوئی ٹھیکیداری نظام نہیں، ہر کارخانیدار اپنے کام کام مالک خود ہے۔ سامان بنانے سے لیکر فروخت کرنے تک صرف کاریگر کا ہی عمل دخل ہوتا ہے، اس لیے انہیں مالی مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فقیر محمد جیسے کاریگر اپنے کام سے کافی خوش اور مطمئن ہیں۔

کاشی کاری ایک محنت طلب کام ہے اور یہ وہ کاریگر ہیں جو پشتوں سے یہ کام سنبھال رہے ہیں، انہوں نے اپنے کام میں نہ صرف پرانی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ اسے جدید انداز میں پیش کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

فقیر محمد کا کہنا تھا کہ حکومت یہاں مزید ایسے دیگر کارخانے قائم کروائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ کاشی گری سندھ کا ایک ایسا ورثہ ہے جسے فقیر محمد جیسے لوگ آج بھی فرض سمجھ کر سنبھال رہے ہیں اور یہ ان کاریگروں کی ہی محنت ہے جو آج ہم اس فن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اگر اسے آنے والے وقتوں میں بہتر کرنا ہے تو ہر سطح پر اسے سرہانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کام آنے والی نسلوں کو بھی منتقل ہوتا رہے۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔