جھیل سیف الملوک پر اب پریاں کیوں نہیں اترتیں؟

جھیل سیف الملوک پر اب پریاں کیوں نہیں اترتیں؟

سمیرا گل

دادی سے شہزادے سیف اور پری بدری جمال کی رومانوی کہانی سن سن کر جھیل سیف الملوک کا تصوراتی خاکہ ذہن میں کچھ ایسا گھر کر گیا کہ اسے حقیقت میں دیکھنا زندگی ایک سب سے اہم تمنا بن گئی۔

بچپن تو سیف الملوک سے منسوب شہزادوں اور پریوں کی عشقیہ و طلسماتی کہانیوں کے سحر میں گزرا اور پھر بڑی ہوئی تو دنیاداری کی مصروفیت میں جیسے پھنس کر رہ گئی۔ ایک عرصہ دراز تک جھیل سیف الملوک کے نام سے نا آشنا ہو کر رہ گئی۔ پھر اچانک جب بچوں نے جھیل سیف الملوک کا ذکر چھیڑا اور وہاں سے جڑی پریوں اور دیوسائی سے متعلق کہانیاں جاننے کے لیے اصرار کیا تو بچپن کی یادوں نے آن گھیرا۔

جھیل سیف الملوک، شہزادے، اور پری بدری جمال کی کہانی بچپن میں دادی نے ہمیں ذہن نشین کروا دی تھیں۔ ان یادوں کے بیچ جھیل سیف الملوک جانے کی بھولی بسری تمنا بھی یاد آ گئی۔ جب بچوں نے وہاں جانے کی ضد کی تو اس تمنا کو اور بھی تقویت ملی۔

پشاور سے جھیل سیف الملوک کا سفر

حبس اور گھٹن بھرا ماہ اگست ہو اور منزل تین سو کلومیٹر دور جبکہ بلندی 8 ہزار فٹ ہو تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیسے رخت سفر باندھا جائے؟ سو منصوبہ یہ طے پایا گیا کہ شام کو نکلا جائے، ایبٹ آباد میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح ناران کاغان کے لیے روانہ ہوا جائے۔

اللہ کا نام لے کر صبح 9 بجے ایبٹ آباد کا سفر شروع کیا، ایبٹ آباد اور مانسہرہ شہر سے نکلنے میں کافی وقت لگا۔ وہی برسوں پرانی سڑکیں آج بھی مسافروں کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں لیکن مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث اب ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں بمپر سے بمپر ٹریفک سیاحوں کو مشکلات سے دوچار کر دیتا ہے۔ مگر اللہ بھلا کرے خیبر پختونخواہ پولیس کا، جو اس بے ترتیب اور بے ہنگم ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔

وادئ کاغان—تصویر عرفان افضل/شٹر اسٹاک
وادئ کاغان—تصویر عرفان افضل/شٹر اسٹاک

عام دنوں میں بھی ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں رش ہوتا ہے اور اگر موسم گرم ہو اور پھر ویک اینڈ بھی ہو تو پھر گاڑیوں کی رفتار کچھوے والی چال نما ہوتی ہے۔ مانسہرہ سے نکلتے ہی نہ صرف رش کم ہوا بلکہ موسم نے بھی انگڑائی لی۔ ڈھائی گھنٹے سفر کے بعد دریائے کنہار کے پانیوں کی مدھر آوازیں آنا شروع ہو گئی، جگہ جگہ ہوٹل نظر آنے لگے اور یوں بالاکوٹ شہر میں ہماری آمد کی تصدیق ہو گئی۔

2005 کے ہولناک زلزلے کو 12 سال گزر چکے ہیں لیکن آثار اب بھی نمایاں ہیں۔ حکومت نے زلزلہ زدگان کے نام پر اندرونی اور بیرونی دنیا سے کروڑوں ڈالرز کی امداد لی لیکن کوئی ایسا غیر معمولی کام نظر نہیں آیا جو قابل ذکر ہو۔ مگر ہاں قدرتی حسن جا بجا اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے۔

شیشے نما شفاف پانی اور معتدل موسم، راہ سے گزرتے سیاحوں کو رکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ دریائے کنہار کے شفاف پانی کو دیکھ کر بچے خوشی سے بے تاب ہوگئے۔ تھکن اتارنے کے لیے گاڑی سائیڈ پر پارک کی، بچے کچھ دیر دریائے کنہار کے کنارے کھیلے، جس کے بعد چائے اور پکوڑوں کا دور چلا، اور پھر آگے کی طرف روانہ ہوئے۔

دریائے کنہار —تصویر عبدالرحمن/ShutterStock
دریائے کنہار —تصویر عبدالرحمن/ShutterStock

وادئ کاغان

بالاکوٹ سے نکلتے ہی منزل تک پہنچنے کا ایک سہانا سفر شروع ہوا، کارپٹ سڑک پر چلتے ہوئے دریائے کنہار کا پانی ساتھ ساتھ تھا اور دائیں بائیں دیکھیں تو سبزہ ہی سبزہ، اوپر دیکھیں تو بادل تھے جو ہر وقت برسنے جو بے قرار نظر آئے۔ یوں ہم خوبصورت وادئ کاغان میں داخل ہوئے۔ اور ہاں، کاغان میں داخلے کے لیے کاغان ڈولپیمنٹ اتھارٹی کو چھوٹی گاڑی کے لیے 100 روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑا نہ دیتے تو رکاوٹ سے آگے جانے ہی نہیں دیا جاتا۔

سامنے وادئ ناران کے سحر انگیز مناظر تھے۔ سڑک، دریا، سبزے اور برستے مگر روئی نما سفید بادلوں کا منفرد ملاپ میلوں دور تک پھیلا تھا، جیسے قدرت نے سچ میں یہ ان جگہوں کو پریوں کا مسکن بنایا ہو۔ پورے راستے موسمی پھلوں، قدرتی خوراکوں کا لطف اٹھاتے رہے اور عصر کے وقت جب موسم اپنے جوبن پر تھا ہم ناران میں داخل ہوئے، جھیل سیف الملوک کے لیے ہماری قیام گاہ ناران ہی تھا۔

سرمئی گلیشیئر ناران

کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد سرمئی گلیشیئر ہر سیاح کا استقبال کرتا ہے۔ استقبال بھی ایسا کہ ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔ یہ سرمئی گلیشئیر راستے میں ناران بازار سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر آتا ہے۔ کتابوں اور موسم کی خبروں میں گلیشیئر کا نام تو سنا تھا لیکن حقیقی روپ میں دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، سرمئی گلیشیئر کافی وسیع و عریض ہے۔

سڑک کنارے ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام سیاح اس کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں رکتے ہیں۔ برف کے غار سے اٹھتا ٹھنڈا شفاف دھواں تھا جو کئی میٹر دور تک سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھتا ہے، گلیشیئر کے تھوڑا سا اندر گئے تو جیسے زندگی کا سب سے مسحور کن لمحہ ہو۔ تاہم بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے، اس لیے جلدی سے واپس گاڑی میں بیٹھ گئے اور منزل، جو اب چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھی، کی جانب بڑھ گئے۔

ناران بازار

شام کو ہم منزل کے قریب تر یعنی ناران بازار پہنچے اور پھر قیام گاہ، ناران بازار سے بابو سر ٹاپ کی جانب چند کلومیٹر فاصلے پر اور ایک چھوٹا مگر خوبصورت ریسٹ ہاؤس تھا۔ چائے پینے اور تھوڑے آرام کے بعد رات کے کھانے اور سیر و تفریح کے لیے ناران بازار کا رخ کیا۔ بازار کافی پر رونق ہے جہاں ہر قسم کی اشیاء باآسانی مل سکتی ہیں مگر دھیان میں رکھیے کہ یہاں قیمت عام مارکیٹ کی نسبت دگنی ہوتی ہے۔

ناران بازار —تصویر کریئٹو کامنز
ناران بازار —تصویر کریئٹو کامنز

بابو سرٹاپ

ناران میں ہم لوگ اپنی منزل یعنی پریوں، شہزادوں اور دیو کا مسکن جھیل سیف الملوک کے قریب تر آ چکے تھے۔ لیکن گائیڈ سے مشورے کے بعد جھیل پر جانے کا پلان منسوخ کر دیا اور سیدھا بابو سر ٹاپ کے لیے نکل پڑے۔

بابو سر ٹاپ تقریباً 13 ہزار فٹ بلندی پر گلگت کے راستے پر واقع ہے۔ ہم اپنی گاڑی پر ہی سوار ہوئے اور تین گھنٹے ڈرائیو کے دوران حسین مناظر سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہوئے بابو سر ٹاپ پہنچے۔

ایسے محسوس ہونے لگا جیسے ہم آسمان کے کسی حصے پر آئے ہوں اور پھر ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کرہ ارض پر خوبصورت ترین جگہ پر پہنچ گئے ہوں۔ ہر طرف دلفریب اور سحر انگیز مناظر تھے، یوں پورا دن بابو سر ٹاپ کی سحر انگیزیوں میں گزارنے کے بعد رات کو قیام گاہ واپسی ہوئی۔

بابو سر ٹاپ — تصویر ShutterStock
بابو سر ٹاپ — تصویر ShutterStock

لالہ زار

آج ہمیں اپنی منزل یعنی جھیل سیف الملوک جانا تھا جس کے لیے رات کو ہی جیپ کا بندوبست کروا لیا تھا۔ صبح ناشتہ کر کے جیپ میں بیٹھنے لگے تو ڈرائیور نے کہا کہ "لالہ زار دیکھا ہے؟" ہمارے "نہیں" کہنے پر ڈرائیور صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ پھر کیا فائدہ۔ بس پھر کیا تھا کہ لالہ زار کی طرف نکل پڑے۔ لالہ زار ناران بازار سے بابو سر ٹاپ کی طرف واقع ہے۔

یہ میدان ناران کے نزدیک تو ہیں مگر پہاڑ پر واقع ہونے کے باعث جیپ کے بغیر یہاں پہنچنا ممکن نہیں۔ چند کلومیٹر کا یہ راستہ پرخطر اور کٹھن تھا، تنگ اور کچے راستے پر جیپ ہچکولے کھاتی چلتی ہے۔ کئی بار تو سوچا کہ ارادہ ترک کر دیا جائے واپس لوٹا جائے مگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ تھا، گاڑی کی واپسی کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ راستہ ایسا تھا کہ ایک جیپ کھڑی کی جاتی تو دوسری جیپ گزر پاتی۔

لالہ زار کا سر سبز میدان —تصویر نواب تنویر/کریئٹو کامنز
لالہ زار کا سر سبز میدان —تصویر نواب تنویر/کریئٹو کامنز

راستہ کچا ہونے کے باعث دھول کے بادل اٹھتے ہیں، یوں پہاڑ پر تقریباً 45 منٹ تک پر خطر راستے پر چلنے کے بعد ہم نے آنکھوں کو فرحت بخشتی سر سبز زرخیزی دیکھی۔ چیڑ اور دیار کے لمبے درخت اور زرخیز میدان دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔

لالہ زار دراصل زرخیز میدان ہے اور یہاں ایک گاؤں ہے جہاں بہار میں مقامی لوگ واپس آ کر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ لالہ زار پہنچنے کے بعد گھنے اور تناور درختوں کے نیچے سرسبز و شاداب میدان میں کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ چائے اور چپس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے قدرتی رعنائیوں سے محظوظ ہونے لگے۔ پھر خوبصورتی سے سجائے گھوڑوں پر سوار ہو کر پورے علاقے کا ایک چکر لگایا۔

جھیل سیف الملوک

لالہ زار کی سحر انگیزی دیکھنے کہ بعد ہمارا سفر اپنی اصل منزل یعنی پریوں، شہزادے اور دیو کے مسکن جھیل سیف الملوک کی جانب شروع ہوا، اگر جھیل سیف الملوک کو جاتی ایک سیدھی سڑک ہوتی تو یہ سفر آدھے گھنٹے میں کٹ جاتا لیکن کچھ دشوار ہونے کے باعث یہ آدھے گھنٹے کا سفر بھی ڈھائی سے تین گھنٹے میں طے ہوا۔

سیف الملوک جھیل— تصویر کریئٹو کامنز
سیف الملوک جھیل— تصویر کریئٹو کامنز

جیسے ہی ہماری جیپ ناران سے سیف الملوک کے راستے پر روانہ ہوئی تو موسم نے انگڑائی لی اور شدید بارش برسنے لگی۔ راستے میں پہاڑوں پر بادلوں کا بسیرا اور جگہ جگہ راستے میں گلیشیئرز سفر کو خوبصورت اور رنگین بنا دیتے ہیں۔ پریوں کی جھیل دیکھنے کی لوگوں کی بے قراری ہی تھی کہ جیپیں ایسی چلتیں جیسے چیونٹیاں رینگتی ہو، ڈرائیور کے مطابق 1700 سے 2000 تک جیپیں بیک وقت سیف الملوک آتی جاتی ہے۔

جیپوں کو دیکھنے کا مزہ اس وقت آتا ہے جب جھیل کے زِگ زیگ راستے پر نیچے سے اوپر تک ہر قسم اور ہر رنگ کی جیپیں چیونٹیوں کی لڑی کی طرح چلتی ہیں۔ ناران سے سیف الملوک تک جیپ کا کرایہ 2500 روپے ہے، جو وہاں 2 یا ڈھائی گھنٹے کی سیر کے بعد واپس ناران پہنچا دیتی ہے۔ بالآخر ڈھائی گھنٹے کے پر خطر مگر دلکش سفر کے بعد ہم جھیل سیف الملوک پہنچ ہی گئے، وہ خواب پورا کرنے جو بچپن میں میرا اور بعد میرے بچوں کا بھی بنا۔ پریوں، شہزادے اور دیو کے مسکن جھیل سیف الملوک کا دیکھنے کا خواب۔

حد نگاہ تک برفیلے پہاڑوں کے بیچ میں نیلے رنگ کی خوبصورت جھیل تھی۔ خوبصورتی ایسی کہ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لے۔ جھیل پر نظر پڑتے ہی ہم بھی اس قدر مسحور رہے کہ کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان سے رہ گئے اور جب کنارے پر بیٹھے تو سامنے جیسے شہزادے سیف اور پری بدری جمال کی داستان حقیقت کا روپ لے رہی ہو۔

وہاں موجود ایک مقامی قصہ گو ہمار ے ذہنوں پر سالوں سے پری بدری جمال شہزادہ سیف اور دیوسائی کے نقش سوالات کو بخوبی سمجھ رہا تھا۔ قصہ گو نے مصر کے شہزادے سیف اور سیف الملوک جھیل کی پریوں اور بدری جمال سے عشق کے بارے میں کہانی بتانا شروع کی۔ انہوں نے دیو سائی کے بارے میں بتایا کہ کیسے دیو سائی نے شہزادہ سیف کے اور بدری جمال کے عشق میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ قصہ گو نے جھیل کے کنارے وہی قصہ سنایا جو دہائیوں پہلے دادی ہمیں گھر بیٹھ کر سناتی تھیں۔

ملکہ پربت

جھیل سیف الملوک سالہا سال سے ملکہ پربت کے پانیوں سے آباد ہے۔ مقامی سطح پر یہ تاثر بہت عام ہے کہ ملکہ پربت پر جنوں اور دیو سائی کا سایہ ہے وہی دیو جس نے شہزادہ سیف کا پیچھا کیا تھا۔

ملکہ پربت —تصویر کریئٹو کامنز
ملکہ پربت —تصویر کریئٹو کامنز

افسوس کہ آج آدم زادوں کے ہجوم نے قدرت کے عجوبے، اس جھیل سیف الملوک کا برا حال کر دیا ہے۔ وہ جھیل جو روایتوں میں پریوں کا مسکن ہو ا کرتا تھا اب کچروں میں تبدیل ہو گیا ہے۔ صفائی ستھرائی کا نظام ابتر ہے۔

جھیل کنارے قصہ سننے کے بعد بچوں نے پوچھا مَما پریاں اب کیوں نہیں آتی؟ میں نے جواب دیا بچوں اب آدم زادے اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ اب یہاں پریوں کی جگہ نہیں اور جھیل کے اس طلسماتی سحر کو ٹھیس پہنچ رہی ہے جس کا ذکر دادی کی کہانیوں میں اس جھیل اور ملکہ پربت کے حوالے سے ملتا تھا۔

دن بھر آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز آفتاب جب مغرب کی طرف رخت سفر باندھنے لگا تو پریوں اور جنوں سے منسوب وادی کو اداسیوں کے سائے میں الوداع کہتے ہوئے، پہاڑوں کے پیچھے چھپتے فطرت کی خوبصورتیاں اور رعنائیاں ذہن پر نقش کرتے ہوئے ہم واپس لوٹ آئے۔