1935 کی لگژری بینٹلی کی ’وارڈ ایرو سیلون‘

ڈان نیوز l ڈوئچے ویلے

آج ہمارے گاڑیوں کے ماہر کرسٹوفر بوئر 1935 کی بینٹلی کی 3500 سی سی گاڑی، وارڈ ایرو سیلون چلا رہے ہیں۔

ہوسکتا ہے آپ کو علم نہ ہو مگر بینٹلی وہ گاڑی ہے جو کسی زمانے میں برطانیہ میں لگژری تصور کی جاتی تھی, تاہم 1930 کی دہائی میں یہ کمپنی مالی بحران کی زد میں تھی۔

کرسٹوفر بوئر کے بقول 1931 میں مشکلات میں گِھری کمپنی کو مالی سہارے کی اشد ضرورت تھی۔

اس وقت جہازوں کے انجن بنانے والے نیپئر، اس کمپنی کو خریدنے کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ کسی انجان شخص نے بولی لگا کر کمپنی خرید لی۔

بعد میں پتہ چلا کہ بولی دراصل بینٹلی کمپنی کی حریف کمپنی رولز رائس نے لگائی تھی۔

رولز رائس نے سوچا کہ بینٹلی کا اسپورٹی انداز نوجوان صارفین کا دل جیتنے میں مددگار ثابت ہوگا، تاہم اس نے سب سے پہلے بینٹلی کی 3 ہزار سی سی گاڑی کے شاہکار ماڈل کو مارکیٹ میں لانا بند کیا۔

ان دو کمپنیوں کے اشتراک کا پہلا شاہکار بینٹلی کی ساڑھے 3 ہزار سی سی گاڑی تھی جسے برطانوی شہر ڈربی میں تیار کیا گیا۔

اس سے پہلے رولز رائس 1929 سے ڈربی میں اسی گاڑی کا انٹری ماڈل، رولز رائس 2025 بنا رہی تھی۔

کرسٹوفر بتاتے ہیں کہ بینٹلی، کی ساڑھے تین ہزار سی سی گاڑی، پہلی ڈربی بینٹلے گاڑی تھی۔

تکنیکی اعتبار سے تو یہ گاڑی کافی حد تک رولز رائس 2025 جیسی تھی لیکن بینٹلی کا اسپورٹی انداز شامل کرنے کے لیے گاڑی میں چند تبدیلیاں کرنی پڑیں۔

ہلکے چیسز کے ساتھ اسٹریٹ سکس انجن لیس کیا گیا جبکہ رولز رائس کو شاید ہارس پاور کی تھی یا نہیں، لیکن بینٹلی کو ضرور تھی۔

ٹیکنیشئنز ساڑھے 8 ہزار سی سی انجن سے 110 ہارس پاور کی طاقت پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے اور انہوں نے ایک دھیمی لگژری سیڈان کو سائیلنٹ اسپورٹس کار میں تبدیل کر دیا تھا۔

ساڑھے 3 ہزار سی سی بینٹلی کے ایکسلز سخت تو ضرور تھے لیکن ایڈجسٹ ایبل ہائڈرولک شاک ایبزوبرز کی وجہ سے ایک اعشاریہ سات ٹن کی اس بھاری بھرکم گاڑی میں بھی آرام دہ اور اسپورٹس گاڑیوں، کا لطف ملتا۔

اس ساڑھے تین ہزار سی سی گاڑی میں اسپورٹس گاڑیوں جیسی بینٹلی کی نازک ریڈیئیٹر گِرل نصب کی گئی ہے، اور یہ ڈیزائن رولز رائس کی بھدی گِرل سے تو کہیں زیادہ اچھا ہے۔

اس کی مدد سے گاڑی میں ایروڈائنامک ڈیزائن بھی ممکن ہو جاتا ہے جبکہ کرسٹوفر کے خیال میں گاڑی کا پچھلا حصہ نمایاں طور پر ہموار نظر آتا ہے۔

ایرو سیلون کہلانے والے اس ماڈل کو برطانوی ہوائی جہاز کے انجینئر سر رائے فیڈن نے ڈیزائن کیا تھا۔

ولسڈن میں گاڑی ڈیزائن کرنے والے پارک وارڈ نے صرف تین گاڑیاں ڈیزائن کی تھیں، لہٰذا ان گاڑیوں کو نادر کہنا غلط نہ ہوگا۔

1930 کی دہائی میں رولز رائس نے پارک وارڈ کو خرید لیا، پھر پارک وارڈ نے ہی نصف کے قریب ڈربی بینٹلیز کی بیرونی بناوٹ کو ڈیزائن کیا تھا۔

انہوں نے اوپن ڈور، دی سینڈکا کوپے اور اس ماڈل اسپورٹس سیلون کو ڈیزائن کیا۔

ہر گاڑی خٓاص تو ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔

کرسٹوفر کہتے ہیں کہ گاڑی میں 1930 کے دور کا ایک مثالی ڈیزائن دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ 6 سلینڈر انجن 3 ہزار 7 سو سی سی کی طاقت فراہم کرتا ہے۔

کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بینٹلی کے ماڈل میں کمپریشن ریشو بھی کافی زیادہ تھا، اس کے ساتھ اسپورٹ گاڑیوں کے طرز کا کیم شافٹ لگایا گیا تھا جبکہ کراس فلو سلنڈر کے ساتھ دو ایس یو کاربوریٹرز بھی جوڑے گئے تھے۔

اس ملاپ سے گاڑی 110 ہارس پاور کی طاقت سے بھاگتی ہے، جو کہ 1935 میں کوئی عام بات نہیں تھی۔

بینٹلی چلانے والے چند منچلوں نے تو اس ساڑھے تین ہزار سی سی گاڑی میں 80 دنوں میں دنیا کا چکر بھی لگایا۔

مجموعی طور پر 2 ہزار 422 ایسی گاڑیاں تیار کی گئیں جن میں سے 70 فیصد آج بھی دنیا میں زیر استعمال ہیں۔

یہ واحد خاصیت ہی اس گاڑی کو کلاسک بنا دیتی ہے، لیکن بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں۔

1998 میں واکس ویگن گروپ نے رولز رائس خرید لی اور یوں یہ گروپ بینٹلی کا بھی مالک بن گیا اس گروپ نے بینٹلی میں تبدیلیاں کیں۔

آج کی بات کریں تو بینٹلی ایک بار پھر اپنی گاڑیاں بنا رہی ہے اور رولز رائس کے ساتھ زبردست مقابلہ کر رہی ہے جو اب بی ایم ڈبلیو کی ملکیت بن چکی ہے۔


یہ تحریر ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے اشتراک سے تحریر کی گئی