اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس میں استغاثہ کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیان ریکارڈ کرادیئے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

استغاثہ کے گواہ ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے بھی اپنا بیان قلمبند کرادیا جبکہ انہوں نے اسحٰق ڈار کی بطور وزیر اور دیگر تعیناتیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔

واصف حسین نے عدالت کو بتایا کہ 25 جون 1997 کو اسحٰق ڈار بورڈ آف انویسٹمنٹ کے انچارج مقرر ہوئے، 11 جولائی 1997 میں اسحٰق ڈار کو وزراتِ تجارت کا قلمدان سونپا گیا، اور 6 نومبر 1998 کو اسحٰق ڈار کو وزارتِ خزانہ کے اکنامک آفیرز اور شماریات کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 16 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے ساتھ ہی اسحٰق ڈار سمیت نواز شریف کی کابینہ کے دیگر وزراء کو بھی کام سے روک دیا گیا۔

مزید پڑھیں: معلوم ہوتا ہے اسحٰق ڈار کو دل کی بیماری نہیں،احتساب عدالت کافیصلہ

ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ 31 ماچ 2008 کو اسحٰق ڈار کی بطور وزیر خزانہ ریونیو اکنامک افیئرز اور شماریات کا نوٹیفکیشن جاری ہوا جبکہ اسی سال 13 ستمبر کو ان کا بطور وزیر استعفی قبول کیا گیا تھا۔

استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 7 جون 2013 کو اسحٰق ڈار کو اکنامک افیئرز، ریونیو، شماریات اور خزانہ کا وزیر مقرر کیا گیا تھا اور اس کے علاوہ اسحٰق ڈار کو پرائیویٹائزیشن کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 28 جولائی نواز شریف کی بطور وزیراعظم برطرفی کے بعد اسحٰق ڈار سمیت پوری کابینہ کو کام سے روک دیا گیا جبکہ 4 اگست 2017 کو اسحٰق ڈار نے ایک مرتبہ پھر وزیر خزانہ، ریونیو، شماریات اور اکنامک افئیرز کا قلمدان سنبھالا جبکہ 22 نومبر 2017 کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

واصف حسین نے بتایا کہ تمام نوٹیفکیشن کی اصل کاپیاں بھی دستیاب ہیں۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف نیب لاہور رانا محمد علی کو تمام مطلوبہ دستاویزات کی کاپیاں ارسال کی گئیں جبکہ انہوں نے تفتیشی افسر نادر عباس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی اسحٰق ڈار کا نام ’ای سی ایل‘ میں ڈالنے کی سفارش

جج محمد بشیر نے دستاویزات پر موجود دستخط اور انگوٹھے کے نشان کو گواہ سے تصدیق کروائی۔

دوسری جانب استغاثہ کے گواہ قمر الزماں نے بھی اسحٰق ڈار کی تنخواہ، لوکل ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

نجی بینک کے افسر فیصل شہزاد اور ڈائریکٹر قومی اسمبلی شیر دل خان کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے۔

فیصل شہزاد نے اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کیں۔

شیر دل خان نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 95 لاہور سے 1993 میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے 16 دسمبر 1993 کو بطور رکنِ قومی اسمبلی حلف اٹھایا۔

ڈائریکٹر قومی اسمبلی نے بتایا کہ اسحٰق ڈار 4 نومبر 1996 تک رکنِ قومی اسمبلی رہے جبکہ یہ بھی بتایا کہ جب کوئی بھی فرد رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے تو اسے تنخواہ کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے اور اسحٰق ڈار 1993 میں 14 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتے تھے۔

اسحٰق ڈار دوسری مرتبہ این اے 97 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 15 جنوری 1997 کو حلف اٹھایا اور 5 فروری 1997 کو وزیر بن گئے۔

نیب پروسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کے وکیل کی جائیداد قرق کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

بعدِ ازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت 21 دسمبر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس سے قبل 14 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے جبکہ عدالت نے مزید 5 گواہان کو طلب کیا تھا اور اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی۔

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسحٰق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے اور ان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

11 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے یا تین روز میں 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔

24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو مفرور قرار دے دیا

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں