وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں چوتھی مرتبہ پیش ہوئے، جہاں استغاثہ کے مزید گواہان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف دائر نیب ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے مزید 2 گواہان کو عدالت میں پیش کردیا۔

نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان گواہان میں البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز شامل ہیں، جنہوں نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے۔

این آئی ٹی کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار نے دو سال قبل 2015 میں 12 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تاہم پاناما پیپرز کیس کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد جنوری 2017 میں انہوں نے اپنی رقم واپس نکال لی تھی۔

البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار نے 1991 میں لاہور میں موجود البرکہ بینک کی برانچ میں اکاؤنٹ کھلوایا تھا جس کے حوالے سے تمام دستاویزات نیب لاہور کے حکام کو فراہم کر دی گئیں ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے پاس اسحٰق ڈار کے خلاف 28 گواہان موجود ہیں جن کو کسی بھی وقت عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

سماعت کے بعد عدالت نے مزید 2 گواہوں طارق جاوید اور مسعود خان کو سمن جاری کرتے ہوئے نیب ریفرنس کی سماعت 16 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

بعد ازاں نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

جس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔

بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں