اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں عدم پیشی پر ان کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں وفاقی وزیر خزانہ کے وکیل خواجہ حارث کی عدم پیشی کی وجہ سے ان کی معاون وکیل عائشہ حامد نے کیس کی پیروی کی اور دفتر خارجہ سے تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

عائشہ حامد کی جانب سے عدالت میں استدعا کی گئی کہ ان کے موکل سماعت کے دوران حاضری کے لیے ایک نمائندہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ عدالت میں عدم پیشی پر کارروائی متاثر نہ ہو اور کیس چلتا رہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ اسحٰق ڈار خود عدالت میں پیش ہوجائیں اور عدالت کو تحریری طور پر اپنا حلف نامہ جمع کرائیں کہ وہ اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے اور وہ اپنا نمائندہ مقرر کر رہے ہیں اور اس نمائندے کے ذریعے عدالتی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے اسحٰق ڈار کے عدالت سے استثنیٰ کی درخواست پر مخالفت کی اور عدالت سے استدعا کی کہ اسحٰق ڈار کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں تاہم عدالت نے ان کی اس استدعا کو منظور نہیں کیا۔

بعد ازاں احتساب عدالت کے جج نے اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعت کے دوران بھی احتساب عدالت نے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں