اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے احتساب عدالت میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس میں اسحٰق ڈار پانچویں مرتبہ پیش ہوئے تو عدالت نے ان کی پیشی سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی۔

مذکورہ کیس کی گذشتہ کی سماعت میں البرکہ بینک کے سنیئر نائب صدر طارق جاوید نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسحٰق ڈار نے 1991 میں بینک کی لاہور برانچ میں ایک اکاؤنٹ کھلوایا تھا اور عدالت کو اسحٰق ڈار کے تمام بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔

پیر کے روز احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران انہوں نے عدالت میں نیب اور بینک کے درمیان ہونے والے ای میل کے تبادلے کا ریکارڈ پیش کیا جو عدالت نے ایک ہفتے قبل طلب کیا تھا۔

طارق جاوید کا کہنا تھاکہ انہوں نے جمع کرائی جانے والی دستاویزات کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا تھا اور اسحٰق ڈار کی فرسٹ ہجویری مضاربہ کمپنی سے متعلق تفصیلات جمع کرائیں تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مضاربہ کمپنیاں کیسے کام کرتی ہیں۔

نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا تھاکہ بینک افسر کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ ایک کمپنی کیسے کام کرتی ہے اور یہ سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کا کام ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات فراہم کرے۔

عمران شفیق نے اسحٰق ڈار کے وکیل کی جانب سے ان کے موکل کو پیر کی پیشی میں حاضری سے استثنیٰ دینے کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ کیس ملزم کے لیے ایک اہم معاملہ ہے اور اگر ان کا کوئی اجلاس یا اسائمنٹ ہے تو انہیں اسے چھوڑ دینا چاہیے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سماعت کے اختتام تک اسحٰق ڈار عدالت میں موجود رہیں گے۔

جس کے بعد کیس کی سماعت 18 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

اس سے قبل پیر کے روز اسحٰق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کی عدم موجودگی کے باعث احتساب عدالت کی کارروائی کو 12 بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا، بعد ازاں مقررہ وقت پر کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، اسحٰق ڈار کے خلاف پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں جہاں نیب پراسیکیوٹر کے گواہ البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید کا بیان قلمبند کرنے کے بعد وکیل صفائی کی جانب سے جراح جاری کی گئی۔

خیال رہے کہ 8 گھنٹے طویل گذشتہ (12 اکتوبر کی) سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

بعد ازاں نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔

بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں