اسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی اور انہیں مفرور قرار دے دیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو مسلسل غیر حاضر رہنے پر مفرور قرار دے دیا جبکہ انہیں اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم دیتے ہوئے نیب پروسیکیوٹر کو کارروائی 10 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

وفاقی وزیر خزانہ کے خلاف دائر ریفرنس کے سلسلے میں تفتیشی افسر نے ان کے سمن کی تفصیلات کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرادیں۔

سماعت کے آغاز میں اسحٰق ڈار کے وکیل قوسین فیصل مفتی عدالت نہیں پہنچ سکے تھے جس پر اسحٰق ڈار کے ایک نمائندے جنرل (ر) ریحان عدالت میں پیش ہوئے اور خود کو اسحٰق ڈار کا اٹارنی قرار دیتے ہوئے وکیلِ صفائی کی غیر حاضری پر عدالتی کارروائی کو کچھ دیر کے لیے مؤخر کرنے کی استدعا کی۔

قوسین فیصل مفتی کچھ دیر بعد عدالت پہنچے جس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر جنرل (ر) ریحان کو اسحٰق ڈار کا اٹارنی مقرر کرنے اور اٹارنی کے ذریعے نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست جمع کرائی جس پر نیب پروسیکیوٹر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ قانون صرف سول مقدمات میں اٹارنی مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ قانون کرمنل مقدمات میں اٹارنی مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کی اٹارنی مقرر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کو کچھ دیر کے لیے مؤخر کیا تھا تاہم بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے درخواست مسترد کردی۔

احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 نومبر تک اپنا جواب عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

گزشتہ سماعت کے دوران احتساب عدالت نے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں