اسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسحق ڈار کے خلاف دائر آمد سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں سابق وزیر خزانہ پیش نہیں ہوئے تاہم احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے ضامن کو 4 دسمبر تک ملزم کو پیش کرنے کی مہلت دے دی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا کہنا تھا کہ اگلی سماعت میں ضمانتی مچلکوں کے ضبط کیے جانے کے معاملے کو دیکھا جائے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 4 دسمبر تک کا وقت دے رہے ہیں کوشش کریں کہ ملزم کو پیش کریں۔

نیب استغاثہ عمران شفیق نے اس حوالے سے عدالت کو بتایا کہ احتساب عدالت ضامن کو پہلے ہی کافی وقت دے چکی ہے جبکہ ضامن نے اسحٰق ڈار کے میڈیکل سرٹیفیکیٹس کی اب تک تصدیق بھی نہیں کرائی ہے۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار نے پیش ہونے کیلئے مزید 3 ہفتوں کی مہلت مانگ لی

تاہم عدالت نے احتساب عدالت کی کارروائی کو 4 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردیا۔

قبل ازیں اسحٰق ڈار کے ضامن اور وکیل احتساب عدالت میں کارروائی کے آغاز میں پیش نہیں ہوسکے تھے تاہم ان کے ضامن اور وکیل کے عدالت پہنچنے تک عدالتی کارروائی میں وقفہ دے دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ نیب نے احتساب عدالت کے باہر اسحٰق ڈار کو 10 دن میں پیش ہونے کا آخری نوٹس آویزاں کردیا۔

احتساب عدالت کے باہر اسحٰق ڈار کی طلبی کے نوٹس میں بتایا گیا کہ اگر 10 دن میں اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق اگر اسحٰق ڈار 4 دسمبر تک احتساب عدالت میں پیش نہ ہوئے تو مذکورہ نوٹس کے حوالے سے نیب عدالت کو آگاہ کردے گی جس کے بعد سابق وزیر خزانہ کو اشتہاری قرار دیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ آج کی کارروائی میں اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کے ضمانتی مچلکوں کی ضبطگی کے حوالے سے فیصلہ کیا جانا تھا تاہم اس فیصلے کو اگلی سماعت کی کارروائی تک کے لیے روک دیا گیا۔

24 نومبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران اسحٰق ڈار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے ضامن نے ان کو پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتے کی مہلت مانگی تھی۔

خیال رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

قبل ازیں 14 نومبر کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کی رخصت منظور، وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں بھی واپس

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں