اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس کے سلسلے میں احتساب عدالت میں چھٹی مرتبہ پیش ہوئے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں اسحٰق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل ایڈووکیٹ مومنہ نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث اس وقت ملک سے باہر ہیں تاہم عدالتی کارروائی جاری رکھی جاسکتی ہے جبکہ وہ اپنی واپسی کے بعد عدالت میں گواہان سے جراح کریں گے جس پر جج محمد بشیر نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اتنا اہم کیس مسلسل تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔

جج محمد بشیر نے پہلی مرتبہ اسحٰق ڈار کو بطور ملزم کٹہرے میں بلوایا اور خواجہ حارث کی عدم موجودگی کے حوالے سے سوال کیا جس پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل کو عدالت میں پیش ہونا تھا تاہم وہ اچانک بیرونِ ملک روانہ ہوگئے جس کا علم انہیں صبح ہوا۔

ایڈووکیٹ مومنہ نے عدالت سے 25 اکتوبر تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی جبکہ پراسیکیوٹر کے وکیل نے عدالت سے آئندہ سماعت کے لیے 20 اکتوبر کی درخواست کی۔

تاہم جج محمد بشیر نے دونوں وکلا کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سماعت کو 23 اکتوبر تک ملتوی کردیا۔

گزشتہ سماعت (16 اکتوبر) کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

بعد ازاں نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔

بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں