لاہور کے قلندرز کیا مسلسل ناکامیوں سے جان چھڑا سکیں گے؟

لاہور کے قلندرز کیا مسلسل ناکامیوں سے جان چھڑا سکیں گے؟

اسامہ افتخار


یہ اس سلسلے کی تیسری قسط ہے اور پہلی اور دوسری قسط میں ہم نے بالترتیب ملتان سلطان اور کراچی کنگز کی ٹیموں کا تجزیہ کیا تھا۔


پاکستان سپر لیگ کے ایونٹ کے پہلے ایڈیشن میں کراچی کنگز کے بعد جس ٹیم کو سب سے زیادہ فیورٹ کا درجہ حاصل ہوا وہ کوئی اور نہیں بلکہ لاہور قلندرز کی ٹیم ہی تھی لیکن کنگز کی طرح قلندرز نے بھی اپنے شائقین کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہ دیا۔

پہلے ایڈیشن میں ٹیم کی تیاریوں کو اُس وقت دھچکا لگا جب یاسر شاہ پر ڈوپنگ کے سبب پابندی لگی اور بنگلہ دیش نے اپنے نوجوان فاسٹ باؤلر مستفیض الرحمان کو این او سی دینے سے انکار کردیا، جس کے سبب ٹیم کامبی نیشن ایونٹ سے قبل ہی خراب ہوگیا اور کراچی کنگز کی طرح ایونٹ کے دوران ہی قیادت کی تبدیلی ہوگئی اور اظہر علی کی جگہ ڈیوین براوو کو کپتان بنادیا گیا، مگر اس تبدیلی کے باوجود بھی یہ ٹیم اپنی قسمت نہ بدل سکی اور ایونٹ کا اختتام سب سے آخری ٹیم کی حیثیت سے کیا۔

دوسرے ایڈیشن میں بہتر کارکردگی کے عزم کے ساتھ لاہور قلندرز نے نیوزی لینڈ کے سابق کپتان برینڈن میک کولم کو قیادت کا منصب سونپا لیکن ایونٹ سے قبل انہیں اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب نامور ویسٹ انڈین آل راؤنڈر ڈیوین براوو انجری کا شکار ہوکر پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن سے باہر ہوگئے۔

اگرچہ ٹیم نے پہلے ایڈیشن کی نسبت قدرے بہتر کھیل پیش کیا لیکن اس کے باوجود وہ پورے ٹورنامنٹ میں 3 سے زیادہ فتوحات سمیٹنے میں ناکام رہی اور ایک مرتبہ پھر سب سے ناکام ترین ٹیم کی حیثیت سے ٹورنامنٹ کا اختتام کیا تاہم اس ایونٹ میں ناکامی سے قطع نظر لاہور قلندرز نے قومی ٹیم کو فخر زمان جیسا اوپنر فراہم کیا جنہوں نے چیمپیئنز ٹرافی میں قومی ٹیم کو ملنے والی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا، اور کارکردگی میں تسلسل کی وجہ سے فخر زمان اِس وقت قومی ٹیم کے اہم ترین اراکین میں سے ایک تصور کیے جاتے ہیں۔

کرس لِن، فخر زمان اور کپتان برینڈن میک کولم—تصویر بشکریہ psl-t20.com
کرس لِن، فخر زمان اور کپتان برینڈن میک کولم—تصویر بشکریہ psl-t20.com

مجموعی طور پر ایونٹ کے دونوں ایڈیشنز میں لاہور قلندرز نے 16 میچ کھیلے، جس میں سے 11 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ایونٹ کے لیے تیسرے ایڈیشن کے لیے لاہور قلندرز کا اسکواڈ انتہائی مضبوط و متوازن ہونے کے ساتھ ساتھ ایونٹ کی تمام ہی ٹیموں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ اتنا بڑا دعویٰ کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیم نوجوان اور تجربہ کار کھلاڑیوں کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔

گزشتہ 2 ایونٹس کی طرح ایک مرتبہ پھر لاہور قلندرز کی توجہ کا محور جارح مزاج بیٹنگ ہی ہوگی، جنہوں نے گزشتہ دونوں ایڈیشنز میں ڈرافٹ کے عمل میں بالترتیب کرس گیل اور برینڈن میک کولم کا انتخاب کیا تو اِس مرتبہ بھی قلندرز نے یہ سلسلہ برقرار رکھا، جس کا سب سے بڑا ثبوت آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ٹی 20 اسپیشلسٹ بلے باز کرس لن کا انتخاب ہے۔

لیکن اس مرتبہ صرف بیٹنگ پر ہی توجہ نہیں دی گئی ہے بلکہ قلندرز نے دیگر شعبوں میں بھی شاندار انتخاب کے ذریعے اپنے اسکواڈ کو ایک مضبوط دستے کی شکل دی ہے۔

ٹیم کے پاس ابتدائی 3 نمبروں کے لیے فخر زمان، کرس لن اور برینڈن میک کولم جیسے بلے باز موجود ہیں جبکہ مختصر کرکٹ میں خود کو ایک جارحانہ بیٹسمین کی شکل میں ڈھالنے والے سنیل نارائن بھی ابتدائی نمبروں پر کھیلنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

مڈل آرڈر میں ٹیم کا بوجھ اٹھانے کے لیے کیمرون ڈیلپورٹ اور عمر اکمل کے بعد آل راؤنڈرز بلال آصف، عامر یامین اور انجری کا شکار سری لنکن آل راؤنڈر اینجلو میتھیوز کی جگہ شامل کیے گئے اینٹن ڈیوچک بھی موجود ہوں گے۔

بیٹنگ کے ساتھ لاہور قلندرز کی باؤلنگ بھی یکساں مضبوط نظر آتی ہے جسے گزشتہ سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے سہیل خان، مستفیض الرحمان، سنیل نارائن، یاسر شاہ، مچل میک کلینیگن، رضا حسن اور ابھرتے ہوئے اسٹار شاہین آفریدی کی خدمات حاصل ہیں۔

سنیل نارائن، عمر اکمل اور کیمرون ڈیلپورٹ—تصویر بشکریہ psl-t20.com
سنیل نارائن، عمر اکمل اور کیمرون ڈیلپورٹ—تصویر بشکریہ psl-t20.com

کیریئر کا متاثر کن انداز میں آغاز کرنے والے رضا حسن ڈوپنگ قوانین کی خلاف ورزی پر پابندی کا شکار ہوئے اور اب پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ میں ایکشن میں نظر آئیں گے، لہٰذا یہ ٹورنامنٹ ان کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اس ایونٹ میں نوجوان ابھرتے ہوئے اسٹار شاہین آفریدی بھی سب کی توجہ کا مرکز ہوں گے جنہوں نے حالیہ انڈر 19 ورلڈ کپ میں عمدہ باؤلنگ سے تمام کرکٹ پنڈتوں سے داد و تحسین سمیٹی۔ اگر پی ایس ایل میں بھی شاہین آفریدی نے متاثر کن کارکردگی کو جاری رکھا تو یہ عین ممکن ہے کہ بہت جلد قومی ٹیم تک اُن کی رسائی ممکن ہوسکے۔

اس ٹیم کی معاونت اور رہنمائی کے لیے ایک بہترین کوچنگ اسٹاف بھی تشکیل دیا گیا ہے، جہاں ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں عاقب جاوید کے پاس ہیں تو بیٹنگ میں ماضی کے عظیم بلے باز انضمام الحق کھلاڑیوں کی رہنمائی کرتے نظر آئیں گے جبکہ دنیا کے تیز ترین فاسٹ باؤلر شعیب اختر تیز گیند بازوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے موجود ہوں گے۔

لاہور قلندرز کی جانب سے ایک اور اہم قدم فخر زمان نائب کپتان کی ذمہ داریاں سونپنا ہے۔ اس فیصلے سے ٹیم انتظامیہ کے مستقبل کے ارادے جھلک رہے ہیں کہ برینڈن میک کولم جیسے تجربے کار کپتان کی زیر نگرانی کھلا کر انہیں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

اس ایونٹ میں ایک مرتبہ پھر سب کی توجہ کا محور قومی ٹیم کا ’بگڑا بچہ‘ اور تنازعات کے بادشاہ عمر اکمل ہوں گے جو بیش بہا ٹیلنٹ کے باوجود آج تک اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں عمر اکمل سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تھے لیکن دوسرے ایڈیشن میں وہ کامیاب نہ ہوسکے اور پورے ٹورنامنٹ میں صرف 164 رنز ہی بنا سکے۔

لاہور قلندرز کا آفیشل لوگو
لاہور قلندرز کا آفیشل لوگو

عمر اکمل کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں بھی خبروں میں رہنے کا بہت شوق ہے، لہٰذا جب وہ بلے سے کارکردگی تو نہ دکھا سکے تو انہوں نے منفی حرکات اور تنازعات کی بدولت خبروں کی زینت بننے کا سلسلہ ترک نہ کیا۔

چیمپیئنز ٹرافی کے لیے انہیں قومی ٹیم کے اسکواڈ کا حصہ بنانے پر کئی حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا تاہم نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں مثالی فٹنس کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ بننے والے عمر اکمل کو چند ہی دن بعد ناقص فٹنس پر کوچ مکی آرتھر نے انگلینڈ سے وطن واپسی کا پروانہ تھما دیا۔

اس خفت پر شرمندگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عمر اکمل نے اُلٹا ہیڈ کوچ مکی آرتھر پر متعصبانہ رویہ رکھنے اور دھمکانے کا الزام عائد کیا، لیکن جب الزام کو سچ ثابت کرنے میں ناکام رہے تو خاموش ہونے میں ہی عافیت جانی۔

2018ء میں ہر طرح سے ناکامی اور تنازعات کے باوجود لاہور قلندرز نے عمر اکمل پر اعتماد قائم رکھتے ہوئے اُنہیں اسکواڈ کا حصہ برقرار رکھا ہے اور اب یہ اس مشہور و معروف ’ینگ اور ٹیلنٹڈ‘ بلے باز پر منحصر ہے کہ وہ اس اعتماد پر کس طرح پورا اترتے ہیں کیونکہ ایونٹ میں ایک اور ناکامی ان کے کیریئر کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

بلاشبہ کاغذ پر لاہور قلندرز کی ٹیم انتہائی مضبوط، متوازن اور مکمل نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود تمام تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ ٹیم میں شامل کھلاڑی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ ماضی میں بھی یہ ٹیم کاغذ پر تو دھارتی تھی، لیکن میدان میں کاغذی شیر ہی ثابت ہوئی ہے۔