پٹری کی خاموش چیخیں، بابِ خیبر اور تورخم بارڈر

پٹری کی خاموش چیخیں، بابِ خیبر اور تورخم بارڈر

عظمت اکبر

سیاہ رات کی خاموشی ہو یا کھلی دوپہر میں شور و غل، دور سے آنے والی ٹرین کی آواز اسٹیشن پر کھڑے منتظر مسافر کے لیے منزل پر پہنچنے کی اُمید زندہ کرتی ہے۔ ویسے بھی راستے جہاں فاصلوں کو بڑھادیتے ہیں وہیں جدائیوں کو بھی دور کردیتے ہیں۔ مگر میں ایک ایسے مقام بر بیٹھا ٹرین کی ایک پٹری کی خاموش چیخیں سُن کر آیا ہوں جہاں صرف مسافر ہی نہیں خود راستے بھی کسی ٹرین کے منتظر ہیں۔

2006ء میں سیلابی ریلے نے لنڈی کوتل کے مقام پر جگہ جگہ ٹرین کی پٹری کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچا کر اس کا پشاور سے تعلق ایسا توڑا جس کو 12 سال گزر جانے کے باوجود بھی اب تک نہیں جوڑا جاسکا ہے۔

اس پٹری نے جہاں اپنی ٹوٹی کمر کے ساتھ ان 12 برسوں میں خیبر ایجینسی میں جاری دہشت گردی اور خوف کا دور خاموشی اور لاتعلقی کے ساتھ گزارا وہاں اپنی تعمیر کے پہلے دن سے لے کر اب تک کئی ادوار کا قریبی مشاہدہ بھی کیا۔

برطانوی راج میں تعمیر کی گئی اس ریلوے لائن پر 4 نومبر 1924ء کو پشاور ریلوے اسٹیشن سے اسٹیم انجن والی پہلی مسافر ٹرین خیبر پاس کے سنگلاخ و بلند پہاڑی سلسلے میں 34 ٹنلز اور 92 پلوں سے ہوتے ہوئے لنڈی کوتل تک پہنچی۔ خیبر پاس کے بلند پہاڑوں میں 3900 فٹ بلندی پر تعمیر کی گئی یہ ریلوے لائن یقیناً اُس دور میں برطانوی راج کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔

اپنے آغاز کے صرف 2 سال بعد لنڈی کوتل سے لنڈی خانہ تک مزید 3 کلومیٹر لائن بچھا کر تورخم پاک افغان بارڈر کے قریب ریل کی آمد و رفت کو وسعت دے دی گئی۔ لیکن 1932ء میں افغان حکومت کے اعتراض کے بعد اس سروس کو بند کرکے ٹرین سروس کو صرف پشاور سے لنڈی کوتل تک محدود کیا گیا جو بلاتعطل مقرر کردہ شیڈول کے مطابق 1982ء تک چلتی رہی، بعد ازاں مالی وسائل کی کمی کے باعث پاکستان ریلوے نے پشاور سے لنڈی کوتل سروس بھی بند کردی۔

خیبر پاس کے بلند پہاڑوں میں 3900 فٹ بلندی پر تعمیر کی گئی یہ ریلوے  لائن برطانوی راج کا ایک بڑا کارنامہ تھا —فوٹو: عظمت اکبر
خیبر پاس کے بلند پہاڑوں میں 3900 فٹ بلندی پر تعمیر کی گئی یہ ریلوے لائن برطانوی راج کا ایک بڑا کارنامہ تھا —فوٹو: عظمت اکبر

خیبر اسٹیم سفاری کے نام سے چلنے والی ٹرین شگئی کے مقام پر—فائل فوٹو
خیبر اسٹیم سفاری کے نام سے چلنے والی ٹرین شگئی کے مقام پر—فائل فوٹو

1996ء میں صحرائی ٹریولز اور سرحد ٹؤرزم کارپوریشن نے مقامی و بین الاقوامی سیاحوں کے لیے ’خیبر اسٹیم سفاری‘ کے نام سے دوبارہ سروس کا آغاز کرکے اس ریلوے لائن کی خاموشی کو توڑا اور یہ سلسلہ 2006ء کے سیلاب تک جاری رہا۔ اس دوران خیبر اسٹیم سفاری ٹرین ہر ماہ کے پہلے اتوار کو سینکڑوں سیاحوں اور مسافروں کو لنڈی کوتل لے کر پہنچتی تھی۔ اس سفر کے آغاز پر مشہور جریدے ٹائمز میگزین نے اس سفر کو ’حال اور ماضی کا سفر‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ

’مسافر جہاں بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان گزرتے ہوئے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں خیبر ایجنسی کے صدیوں پرانے تاریخی مقامات کی سیر بھی کرلیتے ہیں۔‘

لیکن سیلاب کی تباہی کے بعد سیاحوں کی آمد کا سلسلہ تاحال بند ہے اور حکومتی عدم توجہی کے سبب اس تاریخی ریلوے لائن کو دوبارہ بحال نہیں کیا جاسکا ہے۔

چند دن پہلے گوجرانوالہ سے آئے ہوئے دوستوں توصیف احمد، سلمان بھٹہ اور پشاور کے ڈاکٹر اُسامہ کے ساتھ خیبر ایجنسی سے متصل کارخانو مارکیٹ، پشاور جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں نصب سنگِ میل پر صرف 36 کلومیٹر کا فاصلہ دیکھ کر خود خیبر ایجنسی کو کھنگالنے اور تورخم بارڈر تک جانے کا خیال آیا اور مزے کی بات یہ کہ خیال کو عملی شکل دینے کے لیے جلد پروگرام بھی بن گیا۔ ایک دن کے اس مختصر دورے میں 2006ء کے سیلابی ریلے سے جہاں تباہ حال ٹرین کی اس پٹری کا مرثیہ سننے کو ملا وہیں تاریخ کے جھروکوں میں جاکر غیرت مند قبائل کی داستانوں و قربانیوں کی یادیں تازہ ہوئیں۔

تیراہ کی خوبصورت اور سرسبز وادی سے پشاور تک 995 مربع میل پر پھیلی ہوئی خیبر ایجنسی کو 1873ء میں ایجنسی کا درجہ دیا گیا۔ جس کا ہیڈ کوارٹر پہلے دن سے لنڈی کوتل رہا۔ تقریباً 10 لاکھ نفوس اور 3 تحصیلوں (باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل) پر مشتمل خیبر ایجنسی اپنی تاریخی نوعیت کے اعتبار سے پورے قبائلی علاقے میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ یہاں پر بابِ خیبر سے لے کر تورخم بارڈر تک بہت سے مقامات ایسے ہیں جو عشروں سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے چلے آرہے ہیں جن میں بابِ خیبر سرِفہرست ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کی شمالی مغربی سرحد ہمیشہ سے ہی حملوں کا شکار رہی ہے، اور اگر یہ کہا جائے کہ اس سرحد پر ہر وقت تاریخ بنتی اور بگڑتی رہی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔

خیبر ایجنسی کے بارڈر سے متصل کارخانو مارکیٹ پشاور کا ایک منظر—فوٹو: توصیف احمد
خیبر ایجنسی کے بارڈر سے متصل کارخانو مارکیٹ پشاور کا ایک منظر—فوٹو: توصیف احمد

بابِ خیبر تمام پرُانی تہذیبوں اور اُس سے جڑے مختلف النوع لوگوں کو خوش آمدید کہتا رہا ہے—فوٹو: عظمت اکبر
بابِ خیبر تمام پرُانی تہذیبوں اور اُس سے جڑے مختلف النوع لوگوں کو خوش آمدید کہتا رہا ہے—فوٹو: عظمت اکبر

یہ خطہ تاریخ میں مختلف تہذیبوں کا سنگم رہا ہے جبکہ خیبر کا یہ قدیم دروازہ ان تمام تہذیبوں اور اُس سے جڑے مختلف النوع لوگوں کو خوش آمدید کہتا رہا ہے۔ یہ اہم اور شہرہءِ آفاق دروازہ ہے جو وسطی ایشیاء اور برِصغیر کے درمیاں تجارت اور آمد و رفت کی گزرگاہ ہے۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جہاں سے لاتعداد حملہ آور آئے۔ جن میں سکندر اور چنگیز خان جیسے فاتحین کے بھی نام بھی شامل ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو اپنی طاقت سے لرزا دیا تھا۔

پشاور سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر جمرود کے مقام پر تعمیر کیے گئے اس دراوزے ’بابِ خیبر‘ سے خیبر پاس کے سنگلاخ پہاڑوں کی وادی شروع ہوکر تورخم اور پھر کابل تک جا پہچنتی ہے۔ اس بین الاقوامی شاہراہ کو جہاں تاریخی اہمیت حاصل ہے وہیں پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے بھی یہ شاہراہ کلیدی کردار کررہی ہے۔ افغانستان اور وسطی ایشیاء کے دیگر ممالک کی منڈیوں تک رسائی اسی روٹ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔

بابِ خیبر کے قریب تاریخی جمرود قلعہ جس کو پاکستان کے قدیم مقامات میں اعلٰی مقام حاصل ہے۔ قدیم نوادرات کے شوقین سیاحوں کے لیے یہ ایک اہم جگہ ہے۔ یہ قلعہ 1836ء میں صرف 54 دنوں میں سکھ راجہ سردار ہری سنگھ نلوی نے تعمیر کروایا تھا۔ 10 فٹ چوڑی دیواروں والے اس قلعے کی نگرانی اور انتظام خیبر رائفلز کے پاس ہے۔

تاریخی قلعہ جمرود جو 1836ء میں تعمیر کیا گیا تھا —فوٹو: عظمت اکبر
تاریخی قلعہ جمرود جو 1836ء میں تعمیر کیا گیا تھا —فوٹو: عظمت اکبر

بابِ خیبر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر علی مسجد کے مقام سے تاریخی درے خیبر پاس کا آغاز ہوتا ہے۔ مقامی افراد بتاتے ہیں کہ یہ راستہ انتہائی تنگ تھا جس کے درمیان سے گزرتی ہوئی شاہراہ پر سفر کرنا ہمیشہ ہی مشکل رہا تھا، مگر 2012ء میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے اس شاہرہ کو مزید کھلا اور کشادہ کیا گیا۔ جس سے اب اس بین الاقوامی اور اہم شاہراہ پر سفر کرنا انتہائی آسان و آرام دہ ہوگیا ہے اور گھنٹوں کا سفر اب منٹوں میں ختم ہوجاتا ہے۔

جمرود سے 13 کلو میٹر کے فاصلے پر اس تاریخی درے کے درمیان 1927ء میں تعمیر کیے گئے شگئی قلعے کو بھی آثارِ قدیمہ کے مقامات میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قلعہ آج کل پاکستان آرمی اور خیبر رائفلز کے زیرِانتظام ہے جو کہ خیبر رائفلز کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ پاک فوج، افغان فوج اور نیٹو فورسز کے درمیان فلیگ میٹینگز بھی اسی مقام پر منعقد ہوتی رہی ہیں۔

خیبر پاس میں بل کھاتی ہوئی شاہراہِ تورخم—فوٹو عظمت اکبر
خیبر پاس میں بل کھاتی ہوئی شاہراہِ تورخم—فوٹو عظمت اکبر

شگئی فورٹ کا منظر—فوٹو: عظمت اکبر
شگئی فورٹ کا منظر—فوٹو: عظمت اکبر

خیبر ایجنسی میں کئی مقامات میں مہاتما بدھ کے دور کے آثار و نوادرات موجود ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں جب پہلی صدی قبل مسیح میں کشان خاندان نے وسطی ایشیاء میں اپنی سلطنت قائم کی تو پشاور کو اس کا دارلحکومت بنایا۔ جس کی وجہ سے درہ خیبر بین الاقوامی آمد و رفت کی مستقل شاہراہ بن گئی اور اسی زمانے میں مہاتما بدھ کی پاکیزہ تعلیمات اس علاقے میں عام ہوئیں۔

خیبر پاس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سلطان خیل کے قریب اسٹوپا اور 1890ء سے 1930ء کے دوران روسی افواج کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنے کے لیے تعمیر کیے گئے بنکرز گزرے ادوار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

سلطان خیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر لنڈی کوتل کا تاریخی بازار جہاں صدیوں سے قافلے آکر پڑاؤ ڈالتے رہے ہیں۔ آج بھی اپنی بلند روایات کے مطابق مہمانوں کے قیام و طعام کے بندوبست میں مشغول ہے۔ یہاں کی مشہور نمکین کڑاہی اور تکہ سیاحوں اور مسافروں کی پسندیدہ غذا ہیں۔

سلطان خیل کے مقام پر بدھ مت دور کا اسٹوپا —فوٹو: عظمت اکبر
سلطان خیل کے مقام پر بدھ مت دور کا اسٹوپا —فوٹو: عظمت اکبر

لنڈی کوتل بازار کی مشہور نمکین کڑاہی اور تکہ سیاحوں اور مسافروں کی پسندیدہ غذا ہیں
لنڈی کوتل بازار کی مشہور نمکین کڑاہی اور تکہ سیاحوں اور مسافروں کی پسندیدہ غذا ہیں

لنڈی کوتل سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 3600 فٹ بلندی پر واقع 1920ء میں تعمیر ہونے والا میچنی فورٹ وہ مقام ہے جہاں سے ایک طرف خیبر پاس اور ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں اور چوٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف دریائے کابل، افغانستان کا شہر جلال آباد، تیمور بادشاہ کا تعمیر کردہ پھانسی گھاٹ اور خیبر سفاری ٹرین کے لیے بچھائی گئی ریلوے لائن کا دیدار بھی کیا جاسکتا ہے۔

میچنی قلعے سے کابل شہر کا فاصلہ 232 کلومیٹر جبکہ جلال آباد کا 76 کلومیٹر ہے۔

دوسری جنگِ عظیم اور روس کے افغانستان پر قبضہ کے دوران پاکستان پر فائر کیے گئے میزائل یہاں پر اب بھی موجود ہیں۔ سیاحوں کے لیے بریفنگ ہال اور دیگر سہولیات اس قلعے میں سیاحوں کی آمد کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

میچنی فورٹ پر سیاحوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں—فوٹو: عظمت اکبر
میچنی فورٹ پر سیاحوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں—فوٹو: عظمت اکبر

افغانستان کی طرف سے فائرکردہ روسی ساختہ میزائل —فوٹو: عظمت اکبر
افغانستان کی طرف سے فائرکردہ روسی ساختہ میزائل —فوٹو: عظمت اکبر

وقت کی کمی اور ٹریفک جام کی وجہ سے ہم تورخم بارڈر گیٹ تک تو نہیں پہنچ پائے لیکن تورخم بارڈر کے ذریعے باہمی تجارت کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ بارڈر پر ہونے والی تجارت جہاں ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے وہیں اس سرحدی پٹی پر آباد لاکھوں قبائل و پختونوں کے گھر کا چولہا جلانے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

ماضی میں بارڈر کی بندش اور اس پوری سرحدی پٹی میں امن وامان کی صورتحال سے لاکھوں قبائل کا روزگار متاثر ہوتا رہا ہے، گوکہ آج کل سیکیورٹی کے مسائل تو تقریباً ختم ہوگئے ہیں تاہم پاکستان اور افغان حکومتوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے آئے روز بارڈر تجارت کے لیے بند کردیا جاتا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق اس کشیدگی کے سبب حالیہ مہینوں میں پاک افغان تجارت ماضی کی نسبت 3 گنا تک کم ہوگئی ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات، ویزہ پالیسی اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہی اس تجارتی راہ داری کو دونوں ممالک کی معیشت کے لیے مزید کارگر بنایا جاسکتا ہے۔

شاہراہِ تورخم پر ٹریفک جام کا منظر—فوٹو: عظمت اکبر
شاہراہِ تورخم پر ٹریفک جام کا منظر—فوٹو: عظمت اکبر

2006ء میں دوربین کی مدد سے میچنی فورٹ سے تورخم بارڈر اور جلال آباد شہر کی ایک یادگار تصویر—فوٹو: عظمت اکبر
2006ء میں دوربین کی مدد سے میچنی فورٹ سے تورخم بارڈر اور جلال آباد شہر کی ایک یادگار تصویر—فوٹو: عظمت اکبر

خیبرایجنسی کے اس مختصر دورے میں ہم تاریخی مقامات کے دلکش مناظر اور اپنے میزبان دوستوں ارشد علی آفریدی اور شریف اللہ آفریدی کی محبت اور مہمان نوازی کی یادیں لیکر رات 10 بجے کے قریب واپس پشاور کے لیے روانہ ہوگئے۔


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔