کیا پشاور زلمی اعزاز کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

کیا پشاور زلمی اعزاز کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

اسامہ افتخار


یہ اس سلسلے کی چھٹی اور آخری قسط ہے اور اس سے قبل پانچ قسطوں میں ہم نے بالترتیب ملتان سلطان، کراچی کنگز، لاہور قلندرز، اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیموں کا تجزیہ کیا۔


پاکستان سپر لیگ کے ابتدائی دونوں ایڈیشنز میں پشاور زلمی وہ واحد ٹیم ہے جس نے توقعات کے عین مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور شائقین کرکٹ کو خوب محظوظ کیا۔ ایونٹ کے پہلے ایڈیشن میں شاہد آفریدی کی زیرِ قیادت ٹیم نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے گروپ مرحلے میں 8 میں سے 6 میچ جیت کر کوالیفائرز میں جگہ بنائی اور ایونٹ جیتنے کے لیے فیورٹ قرار دی جانے لگی، لیکن بدقسمتی سے دونوں کوالیفائر میں ناکامی کے سبب یہ ٹیم فائنل کھیلنے سے محروم رہی۔

ورلڈ ٹی 20 کے فاتح کپتان ڈیرن سیمی سے ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کے خراب رویے کو دیکھتے ہوئے شاہد آفریدی نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی حمایت کرتے ہوئے ٹیم کی قیادت انہیں سونپنے کا اعلان کیا۔

ڈیرن سیمی کی زیرِ قیادت یہ ٹیم راونڈ میچوں میں پہلے ایڈیشن کی طرح شاندار کھیل پیش تو نہ کرسکی لیکن اس کے باوجود کوالیفائر مقابلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی، جہاں سے اس ٹیم نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور لاہور میں منعقدہ تاریخی فائنل میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دے کر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

کامران اکمل، محمد حفیظ اور ڈیرن سیمی
کامران اکمل، محمد حفیظ اور ڈیرن سیمی

ان دونوں ایونٹس میں شاندار کارکردگی سے بڑھ کر پشاور کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے قومی ٹیم کو حسن علی جیسا عمدہ باؤلر فراہم کیا جو اس وقت باؤلنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اگر مجموعی طور پر پشاور زلمی کی سابقہ کارکردگی کو اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس نے اب تک کھیلے گئے 16 میچوں میں سے 10 جیتے جبکہ ایک میچ بے نتیجہ رہا اور یوں وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ اب تک ایونٹ کی کامیاب ترین ٹیم ہے۔

پی ایس ایل کے گزشتہ 2 ایونٹس کی طرح ایک مرتبہ پھر پشاور زلمی کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے اور دفاعی چیمپیئن ہونے کی وجہ سے اس ٹیم سے اور بھی زیادہ توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔

لیکن شاید یہ ٹیم اس بار اپنے اعزاز کا دفاع نہیں کرسکے اور ایسا کہنے کی وجہ وہ 3 بڑے نقصانات ہیں جن پر قابو پانا کافی مشکل ہے، ہاں ایسا ہوجائے تو پھر شاید فتح کے امکانات بحال رہ سکتے ہیں۔

اس ٹیم کے لیے پہلا بڑا دھچکا سابق کپتان شاہد آفریدی کی کراچی کنگز میں شمولیت ہے جو زلمی کے مالک جاوید آفریدی سے چند امور پر اختلافات اور دیگر مسائل کے سبب فرنچائز سے علیحدہ ہوکر کراچی کنگز کا حصہ بن گئے۔

جبکہ پشاور زلمی کے لیے مزید بُری خبر حسن علی اور شکیب الحسن کی انجری ہے جس کی وجہ سے حسن ابتدائی 3 سے 4 میچوں میں ٹیم کو دستیاب نہیں ہوں گے، تاہم شکیب الحسن پورے ایونٹ کے لیے ہی باہر ہوگئے ہیں، جن کی جگہ بنگلہ دیش سے ہی تعلق رکھنے والے شبیر رحمان کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مضبوط پشاور ان بڑے نقصانات کی کمی کو پورا کرسکے گی۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ کمی کو پورا کیا جاسکے گا کیونکہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ٹیم متوازن نظر آتی ہے۔

اس ٹیم کی بیٹنگ لائن کی بات کی جائے تو اب بھی لیگ کی بقیہ ٹیموں کی نسبت کافی مضبوط ہے۔ اگر ٹیم پر نظر دوڑائی جائے تو اوپننگ کے شعبے میں کامران اکمل، تمیم اقبال، جارحانہ مزاج آندرے فلیچر کے ساتھ ساتھ نیٹ ویسٹ بلاسٹ میں 559 رنز کے ساتھ دوسرے کامیاب ترین بلے باز رکی ویسلز بھی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے موجود ہوں گے۔

ٹیم کا مڈل آرڈر بھی کسی سے کم نہیں جہاں محمد حفیظ کے ساتھ ساتھ آل راؤنڈرز حارث سہیل، شبیر رحمان، ڈیوین براوو، حماد اعظم اور کپتان ڈیرن سیمی بھی موجود ہوں گے۔

پشاور زلمی کا آفیشل لوگو
پشاور زلمی کا آفیشل لوگو

زلمی کا باؤلنگ کا شعبہ بھی یکساں مضبوط نظر آتا ہے جس میں وہاب ریاض، حسن علی، کرس جورڈن، براوو، حماد اعظم اور سیمی کے ساتھ ساتھ محمد اصغر اور حارث سہیل جیسے اسپنرز بھی موجود ہیں جو اسے ایک مکمل اور مضبوط ٹیم کی شکل دیتے ہیں۔

اس ایونٹ میں ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز گزشتہ ایونٹ کے سب سے کامیاب بلے باز کامران اکمل ہوں گے جو تسلسل سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور پشاور زلمی کو ان سے ایک مرتبہ پھر فاتحانہ کارکردگی کی امید ہوگی۔

لیکن یہ ایونٹ سب سے زیادہ وہاب ریاض کے لیے اہمیت کا حامل ہے جو ناقص فارم کے سبب قومی ٹیم سے باہر ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اگر وہاب ریاض اپنی فارم میں ہوں تو انہیں کھیلنا ہرگز آسان نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تسلسل کے ساتھ غیر مستقل مزاجی کے لیے بھی مشہور ہیں اور اسی وجہ سے ان دنوں قومی ٹیم سے بھی باہر ہیں، لہٰذا ان کی پی ایس ایل 2018ء میں کارکردگی پشاور زلمی سے زیادہ ان کے اپنے کیریئر پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

کرس جورڈن، حسن علی اور وہاب ریاض
کرس جورڈن، حسن علی اور وہاب ریاض

وہاب ریاض کے ساتھ ساتھ محمد حفیظ بھی توجہ کا محور ہوں گے جن کے باؤلنگ کروانے پر ان دنوں پابندی عائد ہے لہٰذا انہیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا اظہار صرف بلے سے ہی کرنا ہوگا۔ باؤلنگ پر پابندی کے بعد آل راؤنڈر کے درجے سے محروم ہونے والے حفیظ کی کارکردگی میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کی قومی ٹیم میں شمولیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں اور یہ ایونٹ ان کے لیے بھی خود کو اسپیشلسٹ بیٹسمین ثابت کرنے کا بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے۔

تمام تر نقصانات کے باوجود مجموعی طور پر پشاور زلمی کا اسکواڈ بہترین یونٹ کی تصویر کشی کرتا ہے اور اس ٹیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج شائقین کرکٹ کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب کسی سے زیادہ توقعات وابستہ کرلی جائیں تو دباو بھی بڑھ جاتا ہے بس یہی دباو اس ٹیم کی ٹائٹل تک رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر پشاور زلمی شائقین کی توقعات کا بوجھ برداشت کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ٹیم ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع نہ کرسکے۔