جماعت اسلامی

جماعت کا قیام

جماعت اسلامی (جے آئی) 26 اگست 1941 میں لاہور میں وجود میں آئی۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔

اہم رہنما

  • سراج الحق
  • لیاقت بلوچ
  • ڈاکٹر معراج الہدیٰ
  • پروفیسر ابراہیم
  • میاں مقصود
  • مشتاق احمد خان
  • فرید پراچہ
  • عبدالحق ہاشمی
  • عبدالغفار عزیز

پارٹی منشور

  • اسلامی انقلاب
  • اسلامی فلاحی ملک
  • اتحاد بین المسلمین
  • کرپشن سے پاک ملک
  • جمہوریت

انتخابات 1970

سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔

انتخابات 1977

1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔

انتخابات 1990

1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔

انتخابات 1993

1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔

انتخابات 1997

1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔

انتخابات 2002

سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔

انتخابات 2008

2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔

انتخابات 2013

پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس نے قومی اسمبلی کے 166 حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے تھے جہاں سے اسے 9 لاکھ 67 ہزار 651 یا 2.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ پنجاب میں پارٹی صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی جہاں اس نے 208 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پنجاب میں پارٹی نے 4 لاکھ 90 ہزار 706 ووٹ حاصل کیے جو کاسٹ کیے گئے کُل ووٹوں کا 2 فیصد تھا۔ سندھ اور بلوچستان میں جماعت اسلامی نے بالترتیب 46 اور 19 امیدوار کھڑے کیے لیکن کسی نشست پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ پارٹی نے سندھ میں ایک لاکھ 31 ہزار 140 اور بلوچستان میں 3 ہزار 627 ووٹ حاصل کیے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں پارٹی کے لیے کچھ رغبت دکھائی دی اور جماعت اسلامی نے وہاں سے 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ صوبے میں پارٹی نے 86 امیدوار کھڑے کیے جنہوں نے 4 لاکھ 5 ہزار ووٹ حاصل کیے۔

قراردادِ مقاصد

پارٹی نے ’قراردادِ مقاصد‘ متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا جو بعد ازاں آئین کا دیباچہ بنا۔ پارٹی نے قرارداد کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی نے تمام دستیاب فورمز پر معاملہ اٹھانے اور قرارداد کے مسودے میں بھی فعال کردار ادا کیا۔

جماعت اسلامی نے ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی حمایت کی

7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے کمانڈر اِن چیف اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ چند سال بعد آمر نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کیا اس لیے جنوری 1965 میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرح ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ جماعت اسلامی، ایوب خان کے خلاف جنم لینے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اصل روح تھی۔ جب ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے ’خاتون‘ کی حمایت سے متعلق سوال اٹھایا گیا تو پارٹی کی قیادت نے قرار دیا کہ ’آمریت‘ کسی خاتون کے صدر بننے سے زیادہ بدتر اور غیر اسلامی ہے۔ فاطمہ جناح یہ انتخاب ہار گئیں۔

جماعت اسلامی نے البدر بنائی

1971 میں مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے اپنا وزن آرمی کے پلڑے میں ڈالا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ مُکتی باہِنی، جسے مبینہ طور پر بھارت فنڈ کر رہا تھا، سے نمٹنے کے لیے آرمی نے ’البدر‘ بنائی۔ یہ بٹالین جماعت اسلامی کے رضاکاروں اور اس کے طلبہ ونگ پر مشتمل تھی جس نے مکتی باہنی اور بھارتی آرمی کے خلاف مسلح کارروائیوں میں حصہ لیا۔

بائیں سے تصادم

پارٹی، بالخصوص اس کا طلبہ ونگ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ دائیں بازو کی سب سے مضبوط نظریاتی قوت بن کر سامنے آئی۔ اس نے بائیں بازو کے نظریات کا صنعتی یونٹس، تعلیمی اداروں، پریس اور دانشورانہ فورمز پر مقابلہ کیا۔

نظام مصطفیٰ

خود کو سوشلسٹ رہنما کے طور پر متعارف کروانے والے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’نظام مصطفیٰ موومنٹ‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تاہم اس سے قبل کہ یہ موومنٹ کوئی نتیجہ سامنے لاتی، اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاالحق نے جولائی 1977 میں ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا۔

ضیاالحق کے ساتھ شمولیت اور علیحدگی

اگرچہ ابتداء میں جماعت اسلامی نے ضیاالحق حکومت کے ’اسلامائزیشن‘ پروگرام کی حمایت کی، لیکن بعد ازاں اس کے حکومت کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ پارٹی کے 3 اراکین نے اس شرط کے ساتھ کابینہ میں شمولیت اختیار کی کہ آرمی سویلین حکومت کو چارج دے دے گی۔ تاہم پارٹی نے 3 ماہ سے بھی کم عرصے میں علیحدگی اختیار کرلی۔

افغانستان و کشمیر میں جہاد

جماعت اسلامی نے ہمیشہ جہاد کے حق میں آواز اٹھائی اور افغانستان و کشمیر میں جہادی تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا۔ گلبدین حکمت یار کی قیادت میں ’تنظیم اسلامی‘، جو افغان جہاد میں پیش پیش تھی، کو افغانستان میں جماعت اسلامی کی شکل کہا جاتا رہا۔ اسی طرح کشمیر کی سب سے بڑی جہادی تحریک ’حزب المجاہدین‘ بھی جماعت اسلامی کی سِسٹر تنظیم ہے۔

ایم ایم اے کا قیام

نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کردی اور اسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی بمباری پر پاکستان میں شدید تنقید کی گئی۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد، دفاع افغانستان کونسل کے قیام کے پیچھے اہم طاقت تھے، جس نے افغانستان میں امریکی حملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کیا۔ 2002 میں نتیجتاً مذہبی سیاسی جماعتون نے ’دفاع افغانستان کونسل‘ کے نام سے جو اتحاد بنایا تھا، وہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے سیاسی اتحاد میں تبدیل ہوگیا۔

آمر پرویز مشرف سے محبت اور نفرت کا رشتہ

جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اس وقت کے آمر کو ان کی ملکی و غیر ملکی پالیسیوں پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم پارٹی نے، جو اس وقت ایم ایم اے کا حصہ تھی، پرویز مشرف کے قانونی فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کی حمایت کی۔ چونکہ پرویز مشرف نے ایل ایف او کی حمایت پر ایم ایم اے سے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا، پارٹی نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ جماعت اسلامی نے دیگر جماعتوں کی طرح پرویز مشرف کے خلاف وکلاء تحریک میں اپنا وزن ڈالا۔

بی ٹیم کے الزامات

ضیاالحق کے اسلامائزیشن پروگرام، افغانستان اور کشمیر میں جہاد کی حمایت کرنے (جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ آرمی کی بھی اس کو حمایت حاصل ہے) اور دیگر کئی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی حمایت کرنے پر جماعت اسلامی کو اس کے مخالفین کی جانب سے آرمی کی ’بی ٹیم‘ کہلایا جانے لگا۔

طالبان کے ساتھ رومانس اور اس کی قیمت

کیونکہ کابل میں افغان طالبان نے جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ حزب اسلامی کی جگہ لے لی تھی، اور خلیج ہمیشہ طالبان اور جماعت اسلامی کے درمیان غالب رہی لیکن اس کے باوجود پارٹی نے ان کی کابل میں حمایت کی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کھلے عام افغانستان میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں طالبان کی شکست سے انکار کیا۔ اس نے طالبان کی نہ صرف اخلاقی حمایت کی بلکہ اسلامی جمعت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کئی کارکن طالبان کے ساتھ شامل ہوئے اور افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ پارٹی کے متعدد مخالف رائے رکھنے والے افراد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل پائے گئے۔ تاہم پارٹی قیادت نے ہمیشہ واضح کیا کہ پارٹی پاکستان میں پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔

احمدیہ برادری کے خلاف مہم

جماعت اسلامی نے 1953 میں پاکستان میں احمدیہ برادری کے خلاف مہم چلائی۔ مہم کے دوران کئی افراد ہلاک و گرفتار ہوئے اور امن کو بُری طرح نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موومنٹ پنجاب میں مارشل لاء اور وفاقی کابینہ برطرفی کی وجہ بنی۔

مارشل لاء انتظامیہ نے 11 مئی کو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق کتاب لکھنے پر جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی جسے بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔

بالآخر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ موومنٹ کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی کے ذریعے احمدی برادری کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوادیا گیا۔

پاناما پیپرز کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والی پہلی جماعت

جماعت اسلامی وہ پہلی جماعت تھی جس نے پاناما پیپرز کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسی اسکینڈل کے خلاف دائر متعدد درخواستیں یکجا کردیں۔ کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مختصر اتحاد

2013 کے انتخابات کے بعد پارٹی، خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بنی۔ تاہم اس اتحاد میں چند اتار چڑھاؤ آئے اور حکومتی مدت پوری ہونے سے کچھ عرصے قبل دونوں اتحادی پارٹنرز نے اپنی، اپنی راہ لے لی۔

تنازعات

  • جماعت اسلامی کی کہانی، جو آٹھ دہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، خود اپنے تنازعات کا پتہ دیتی ہے۔ پارٹی کے کئی فیصلوں پر تنقید کی گئی۔
  • پارٹی کو 1957 میں اس وقت بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے بانی سید ابولاعلیٰ مودودی نے پارٹی کے جنرل کنونشن میں تحریک پیش کی۔ یہ تحریک تقریباً 98 فیصد ووٹوں (920 ووٹوں) سے منظور ہوئی اور مخالفت میں صرف 15 ووٹ آئے۔ یہ پارٹی کی تاریخ میں اہم موڑ تھا، جس کے نتیجے میں ارشاد احمد حقانی اور امین احسن اصلاحی سمیت کئی نامور اسکالرز نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔

مشرف کے جھوٹے وعدے کے بدلے ’ایل ایف او‘ کی حمایت

  • ایم ایم اے کے حصے کے طور پر جماعت اسلامی نے پرویز مشرف کے زبانی وعدے کے بدلے ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
  • اس قدم کو بڑے پیمانے پر غیر جمہوری عمل کے طور پر دیکھا گیا، تاہم پارٹی رہنما اس فیصلے کا دفاع کرتے رہے اور اسے مشرف کی جانب سے ملک کی بھاگ دوڑ سویلین سیٹ اپ کو سپرد کرنے کے لیے اس وقت آخری دستیاب آپشن قرار دیتے رہے۔

شہادت پر منور حسن کا سلیم صافی کو متنازع جواب

جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے اپنے دورِ امارت کے دوران امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ’شہید‘ قرار دیا۔ انہوں نے یہ بحث بھی کی کہ ایک امریکی جو میدان جنگ میں ہلاک ہوتا ہے اگر اسے شہید نہیں کہا جاتا تو پاکستان آرمی کے جوانوں کو (جو امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں) کیسے شہید کہا جاسکتا ہے؟

اس بیان پر آرمی کی جانب سے سخت ردِ عمل آیا اور جماعت اسلامی کے امیر سے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والے ہزاروں فوجیوں کے لواحقین کے جذبات کو مجروح کرنے پر غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ جماعت کے رہنماؤں نے آرمی کے مذمتی بیان کے باوجود اپنے قائد کا دفاع کیا، لیکن انہوں نے منور حسن کے اس بیان سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی یہ ان کا ’ذاتی خیال‘ تھا۔

اندرونی اختلافات

  • پارٹی رہنماؤں کے درمیان واحد تنازع 1957 میں مچھی گوٹھ میں سامنے آیا۔ اس معاملے نے پارٹی کے کئی رہنماؤں کو کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی قریب میں جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے خود کو ایک اور مدت کے لیے پارٹی کے مرکزی معاملات چلانے سے محروم کیا، کیونکہ انہیں ان کے متنازع بیانات پر ایسا کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ پارٹی کے اسٹرکچر، پالیسیاں اور تاریخ اس نکتہ نظر کی حمایت نہیں کرتیں۔
  • تاہم کہا جاتا ہے کہ پارٹی کو مشکل وقت سے گزرنا پڑا اور پارٹی قیادت کو پارٹی کے اندر سے ہی سیاسی معاملات چلانے کے لیے حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے اپنی ذاتی ملاقاتوں میں قیادت پر، سیاسی معاملات کو زیادہ ترجیح دینے اور اپنے قیام کے اصل مقصد سے ہٹنے کا الزام لگایا۔

1996 میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف دھرنا

پارٹی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین سید نے 27 ستمبر کو سینیٹ رکنیت سے استعفیٰ دے کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا آغاز 27 اکتوبر 1996 کو ہوا۔ 4 نومبر کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت ختم کردی۔

مسلم لیگ (ن) کے خلاف دھرنا

پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف بھی اس وقت دھرنا دیا جب حکومت نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو دورہ لاہور کی دعوت دی اور ان کا بھرپور استقبال کیا۔

مستقبل میں امیدیں

بظاہر پارٹی کی آئندہ عام انتخابات میں کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آرہی۔ پارٹی عام طور پر قومی اسمبلی میں 3 سے 4 نشستیں حاصل کرتی ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا اور کراچی میں کسی حد تک کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔

یہ جماعت خیبر پختونخوا کی بلدیاتی حکومت کی کارکردگی کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اسی طرح، کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین گروپ کے تقریباً ختم ہونے سے دیگر جماعتوں کو موقع ہاتھ آیا ہے۔ جماعت اسلامی ’کے الیکٹرک‘ اور نادرا کے ’مظالم‘ کے خلاف مہمات چلاتی رہی ہے۔ اس نے پانی کی کمی اور دیگر شہری سہولیات کی کمی کے خلاف بھی مہمات چلائی ہیں جو اسے فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔