گوتم بدھ اب ہمیں سوات میں دیکھ سکتے ہیں

گوتم بدھ اب ہمیں سوات میں دیکھ سکتے ہیں

امجد علی سحاب

نہ جانے کیوں مجھے جہان آباد پہنچ کر ایک عجیب سے اطمینان کا احساس ہوتا ہے؟ اس کی ایک وجہ شاید شہر کے ہنگاموں سے دور اس مقام کا پُرفضا ہونا ہے اور دوسری وجہ یہاں پتھر پر کندہ شدہ گوتم بدھ کا ایک بڑا مجسم ہے جو تقریباً 13 سے 14 صدیوں پرانی تاریخ کا امین ہے۔

منگلور نامی گاؤں ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے شمال کی طرف 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں آج بھی بدھ مت دور کے آثار جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ ان آثار میں سے ایک ’جہان آباد بدھا‘ بھی ہے جو پتھر میں کندہ کیا گیا اور اس علاقے کا دوسرا بڑا بدھ مجسمہ ہے۔

آثارِ قدیمہ کا بغور مطالعہ کرنے والے فضل خالق اپنی کتاب "The Uddiyana Kingdom: The forgotten holy land of Swat"میں جہاں آباد بدھا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ، ’شخوڑے کے مقام پر مہاتما بدھ کا یہ مجسمہ اس علاقے میں بامیان افغانستان کے بعد چٹان پر تراشا گیا دوسرا بڑا مجسمہ ہے۔ سوات میں شدت پسندوں نے ستمبر 2007ء کو اس مجسمے کے چہرے میں برموں سے سوراخ کیے اور بعد میں اسے بارود سے بھر کر اڑانے کی کوشش کی۔ تاہم وہ مجسمے کے بالائی حصے کو نقصان پہنچانے میں ہی کامیاب ہوسکے‘۔

جہان آباد بدھا کی تاریخ کے حوالے سے 2 روایات مشہور ہیں۔ فضل خالق کے بقول، ’پہلی روایت کے مطابق اس کی تاریخ چھٹی جبکہ دوسری روایت کے مطابق 7ویں صدی ہے‘۔

منگلور گاؤں کا پہاڑی سے نظارہ—تصویر امجد علی سحاب
منگلور گاؤں کا پہاڑی سے نظارہ—تصویر امجد علی سحاب

پہاڑی پر موجود بڑے پتھروں پر بدھا کا مجسمہ دکھائی دے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب
پہاڑی پر موجود بڑے پتھروں پر بدھا کا مجسمہ دکھائی دے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب

افغانستان کے بامیان کے بعد بدھا کا پتھروں میں کندہ کیا گیا اس خطے کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے—تصویر امجد علی سحاب
افغانستان کے بامیان کے بعد بدھا کا پتھروں میں کندہ کیا گیا اس خطے کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے—تصویر امجد علی سحاب

مجسمے کا چہرہ بارود سے اڑانے کے بعد کا منظر—تصویر امجد علی سحاب
مجسمے کا چہرہ بارود سے اڑانے کے بعد کا منظر—تصویر امجد علی سحاب

منگلور میں بدھا کو ایک نہایت پُرفضا مقام پر پتھر میں کندہ کیا گیا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے لیے چھٹی یا 7ویں صدی میں کوئی 200 سے زیادہ سیڑھیاں تعمیر کی گئی تھیں۔ بدھا تک پہنچنے کے بعد پہاڑی کا اوپر سے جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اسے ایک ایسے مقام پر کندہ کیا گیا ہے جہاں سے دریائے سوات کا دور دور تک نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ رہی سہی کسر وہ چھوٹی سی ندی پورا کرتی ہے، جو سوات کے پُرفضا سیاحتی مقام ’مالم جبہ‘ سے بل کھاتی ہوئی منگلور گاؤں میں سرسبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان راستہ بنا کر دریائے سوات میں جاگرتی ہے۔

مجسمہ کو بم سے اُڑانے کے حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ رات 2 بجے کے قریب انہوں نے چند لوگوں کی آوازیں سنیں، جو موبائل فون کی روشنی میں بدھا کے مجسمے پر کچھ کام کر رہے تھے۔ اس موقعے پر بعض لوگوں کا خیال تھا کہ علاقے میں چور گھس آئے ہیں جبکہ کچھ نے سوچا کہ نوادرات کے اسمگلروں کو قریبی پہاڑی میں کوئی قیمتی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اس کی کھدائی میں مصروف ہوں گے۔

مجسمے کے قریب آباد لوگوں کا کہنا ہے کہ جب شدت پسند دوبارہ آئے تو اہلِ علاقہ کو گھروں سے نکلنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ وہ مجسمے کو اُڑانا چاہتے تھے۔ پہلی بار شدت پسند اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ اِس بار انہوں نے مجسمے کے چہرے میں برموں سے کئی سوراخ کیے پھر تقریباً صبح 4 بجے کے قریب زوردار دھماکا ہوا، جس سے بدھ کے چہرے کے بالائی حصے کو نقصان پہنچا۔

10 برس بعد اطالوی آثارِ قدیمہ کے مشن نے ڈاکٹر لوکا کی قیادت میں جہان آباد (شخوڑے) کے مقام پر واقع اس مجسمے کو اپنی اصل شکل میں بحال کردیا ہے، جس کی زیارت کے لیے اب مقامی و غیر مقامی لوگ وقتاً فوقتاً آتے ہیں اور اس کے خوبصورت اور مطمئن چہرے کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرکے واپس جاتے ہیں۔

بدھا کے مجسمے تک پہچانے والی بدھ مت دور کی باقی ماندہ سیڑھیاں—تصویر امجد علی سحاب
بدھا کے مجسمے تک پہچانے والی بدھ مت دور کی باقی ماندہ سیڑھیاں—تصویر امجد علی سحاب

اٹالین مشن کی ان تھک محنت اور مشقت کے بعد بدھا کا چہرہ اب ایک بار پھر مطمئن نظر آ رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب
اٹالین مشن کی ان تھک محنت اور مشقت کے بعد بدھا کا چہرہ اب ایک بار پھر مطمئن نظر آ رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب

مجسمہ کی مسخ شدہ صورت—تصویر امجد علی سحاب
مجسمہ کی مسخ شدہ صورت—تصویر امجد علی سحاب

ایک مقامی سیاح بدھا کے مطمئن چہرے کا نظارہ کر رہا ہے—امجد علی سحاب
ایک مقامی سیاح بدھا کے مطمئن چہرے کا نظارہ کر رہا ہے—امجد علی سحاب

جہان آباد بدھا اس بات کی دلیل ہے کہ اُس دور میں سوات میں علم و تہذیب نے اتنی ترقی کی تھی کہ آرٹ یہاں اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے بقول مجسمے کو پتھر میں کندہ کرتے وقت ریاضی کے اصولوں کو مدِنظر رکھا گیا تھا۔ مجسمے کا رُخ مغرب کی طرف ہے، اس کے سامنے دریائے سوات بل کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

فضل خالق اپنی تحقیق کی بنا پر کہتے ہیں، ’تاریخ کی کُتب سے گرد جھاڑیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس مجسمے کے اوپر ’کنگ اندرا بودھی‘ کا تعمیر کردہ ایک اسٹوپا موجود تھا، جس کے آثار اب ختم ہوچکے ہیں۔ مجسمے کے اوپر ایک بڑا ہال ہے جس میں اس دور کے بدھ مت کے پیروکار باقاعدہ طور پر مراقبہ کیا کرتے تھے‘۔

کنگ اندرا بودھی سوات کے ایک پرانے بادشاہ گزرے ہیں۔ فضل خالق کے بقول اوڈیگرام میں راجا گیرا (راج گیری) کا قلعہ بھی کسی وقت میں ’کنگ اندرا بودھی‘ کا محل رہ چکا تھا۔

تاریخ سے شغف رکھنے والے کہتے ہیں کہ جہان آباد بدھا اور اس جیسے دیگر مجسمے ایک طرح سے راستوں کی نشان دہی کیا کرتے تھے۔ ان راستوں سے نہ صرف زائرین گزرتے تھے بلکہ تجارتی قافلوں کے لیے بھی یہ ایک طرح سے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔

ماہرینِ ریاضی مانتے ہیں کہ جہان آباد بدھا کو جیومیٹری کے اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ جب اس مجسمے کا نیچے سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے، لیکن اگر کسی طرح مجسمے کے چہرے کے لیول تک رسائی حاصل کی جائے تو یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ اس کا سر پورے مجسمے کے آدھے حصے کے برابر ہے۔ سر تقریباً 7 فٹ ہے اور باقی جسم 10 یا 11 فٹ۔ تاہم اسے تعمیر کرتے وقت جیومیٹری کے اصولوں کو کچھ اس انداز سے برتا گیا ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرتا کہ اس کا سر واقعی اتنا بڑا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ چھٹی اور 7ویں صدی میں بدھ مت کے پیروکاروں نے ریاضی میں کس قدر ترقی کرلی تھی۔

بدھ دور میں سوات میں علم و تہذیب نے اتنی ترقی کی تھی کہ آرٹ یہاں اپنی انتہا کو چھو رہا تھا—تصویر امجد علی سحاب
بدھ دور میں سوات میں علم و تہذیب نے اتنی ترقی کی تھی کہ آرٹ یہاں اپنی انتہا کو چھو رہا تھا—تصویر امجد علی سحاب

چھٹی یا 7ویں صدی کا میٹھے پانی کا چشمہ جو اَب بھی بہہ رہا ہے اور اس کا پانی قابلِ استعمال ہے—تصویر امجد علی سحاب
چھٹی یا 7ویں صدی کا میٹھے پانی کا چشمہ جو اَب بھی بہہ رہا ہے اور اس کا پانی قابلِ استعمال ہے—تصویر امجد علی سحاب

بدھ مت دور (چھٹی، 7ویں صدی) میں اس مجسمے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تعمیر کی جانے والی 200 سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ میٹھے پانی کا چشمہ بھی بہتا تھا۔ اگرچہ سیڑھیاں تو اب بمشکل 20 سے 25 ہی باقی رہ گئی ہیں البتہ چشمہ اب بھی بہہ رہا ہے اور میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں ٹھنڈا جبکہ سردیوں میں گرم پانی فراہم کرتا ہے۔

چین اور تبت سے جتنے بھی تاریخی زائرین کا سوات سے گزر ہوا ہے انہوں نے اپنے سفرناموں میں جہان آباد بدھا کا باقاعدہ طور پر ذکر کیا ہے۔


امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔