کہانی مسلمان استانی اور ہندو طلباء کے انمول تعلق کی

کہانی مسلمان استانی اور ہندو طلباء کے انمول تعلق کی

سدرہ ڈار

65 سالہ روپ چند کی جھونپڑی کے اندر قائد اعظم کی تصویر آویزاں تو باہر قومی پرچم لہرا رہا ہے۔ روپ چند اس بستی کے بڑے بزرگ یعنی ’مُکھی‘ کہلاتے ہیں۔ روپ چند کہتے ہیں کہ ان کا تعلق گھوٹکی سے ہے لیکن کراچی کی اعظم بستی میں 40 برس سے آباد ہیں۔ پہلے یہاں 9 سے 10 گھر آباد تھے اور پہلے وہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے لیکن پھر یہ آبادی گنجان ہوتی گئی، گھر بنتے گئے اور پھر ہندوؤں کے خاندان بھی بڑھتے بڑھتے 100 سے زائد جھونپڑیوں پر مشتمل ہوگئے۔

اب درد کی انجمن بنی ان تاریک جھونپڑیوں میں علم کی روشنی کی لُو کا جلنا کیا کسی معجزے سے کم ہے؟ اور میں نے یہاں علم کی شمع جلتے دیکھی جسے ایک نعت خواں اور سماجیات کی طالبہ نے جلایا ہے۔ انعم آغا اپنے سراپے کو بڑے سے دوپٹے میں لپیٹے اور حجاب اوڑھے آج سے ڈیڑھ برس قبل اس بستی میں داخل ہوئی اور مدعا بیان کیا کہ وہ اب پڑھ لکھ گئی ہے اور اس پر فرض ہے کہ اب ان میں علم کا اُجالا پھیلائے جو اس روشنی سے محروم ہیں۔

مکھی، روپ چند—تصویر سدرہ ڈار
مکھی، روپ چند—تصویر سدرہ ڈار

انعم آغا نے سماجیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور نعت گوئی ان کا شوق بھی ہے اور عقیدت بھی۔ انعم کو دنیا والوں کا روایتی دباؤ سہنا پڑا جب اس نے یہ ٹھانی کے وہ ہندو برادری کے بچوں کو تعلیم دے گی۔ تنقید کرنے والوں میں بڑی تعداد نہ صرف پڑھے لکھے لوگوں کی تھی بلکہ ان کے گھر والے بھی ان میں شامل تھے۔ دنیا والے انعم کو یہ طعنہ دیتے رہے کہ تعلیم ہی دینی ہے تو مسلمان بچوں کو دو، ہندو بچوں سے اتنی انسیت کیوں جتائی جارہی ہے؟ جبکہ انعم کے اہلِ خانہ کا خیال تھا کہ اگر وہ سماج کی خدمت کا ارادہ رکھتی بھی ہیں تو کوئی سہل راستہ اپنائیں اور خود کو کسی ایسی مشکل میں نہ ڈالیں جو انہیں پچھتانے پر مجبور کرے۔ انعم سے میرا سوال یہی رہا کہ فیصلہ تو کرلیا پھر آگے کیا ہوا؟

انعم نے ایک گہری سانس لی، مسکرا کر اپنی عینک جمائی اور پھر داستان شروع کی۔

چونکہ میں سماجیات کی طالبہ رہی لہٰذا سماج میں ہونے والی ناہمواریوں سے واقفیت بھی زیادہ رہی۔ جیسے معاشرہ کیسے سدھارا جاسکتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں پر کیسے کام کیا جاسکتا ہے یہ سب کتابوں میں پڑھنا اور پھر امتحان میں لکھ کر آنا اچھے نمبروں سے پاس تو کروادیتا ہے لیکن بحیثیتِ مسلمان روزِ محشر جو امتحان دینا ہے اس کے لیے کیا تیاری کی یہ سب سے اہم ہے۔ میں جب گلی محلوں اور سڑکوں پر ایسے بچے دیکھتی جن کے پاؤں میں چپل نہیں اور وہ کچرا چُن رہے ہوتے تو سوچا کرتی تھی کہ کیا یہ بچے تعلیم کا حق نہیں رکھتے؟ کیا یہ کسی کو نظر نہیں آتے؟

انعم آغا—تصویر سدرہ ڈار
انعم آغا—تصویر سدرہ ڈار

انعم آغا بچوں کی حاضری لگا رہی ہیں—تصویر سدرہ ڈار
انعم آغا بچوں کی حاضری لگا رہی ہیں—تصویر سدرہ ڈار

یہ سوالات مجھے روز تنگ کیا کرتے تھے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد میں نے سماجی خدمت کے لیے ایک ایسے ادارے کو چنا جو اسٹریٹ چلڈرن کی تعلیم کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے میں ان علاقوں میں جاکر اساتذہ کام کرتے ہیں جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا یا وہاں کی کمیونٹی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا نہیں چاہتی۔ سب سے بڑا چیلنج ہی یہی ہے کہ پہلے اس علاقے کے لوگوں کو اس بات کے لیے قائل کیا جائے کہ ان کے بچوں کے لیے تعلیم کیوں ضروری ہے؟

یہ نہ صرف صبر آزما کام ہے بلکہ کئی بار تو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کوشش بار آور ثابت نہیں ہوگی۔ میں جب اس علاقے میں آئی تو نظر آیا کہ یہاں آس پاس سرکاری اسکول بھی ہیں لیکن جھونپڑیوں میں بسنے والے یہ لوگ ڈرے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودگی کو ابھی تک کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، لہٰذا ان کے بچے کیسے دوسرے مذاہب کے بچوں کے ساتھ اسکول میں جاکر پڑھ سکتے ہیں؟

پھر یہ بچے کم عمری سے ہی بھیک مانگنے یا کمانے میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی بچہ سگنل پر بھیک مانگتا ہے، کوئی لوہا چنتا ہے، تو کوئی کباڑیے کا کام کرتا ہے۔ ان حالات میں یہ بچے سڑک پر بہت کچھ سہتے اور جھیلتے ہیں اور ہم سب سے کہیں زیادہ پریکٹیکل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان کا بول چال، طرزِ عمل عام بچوں کے مقابلے میں بہت الگ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا اعتبار حاصل کرنا اور انہیں قائل کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد انعم نے سماجی خدمت کے لیے ایک ایسے ادارے کو چنا جو اسٹریٹ چلڈرن کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے—تصویر سدرہ ڈار
تعلیم مکمل ہونے کے بعد انعم نے سماجی خدمت کے لیے ایک ایسے ادارے کو چنا جو اسٹریٹ چلڈرن کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے—تصویر سدرہ ڈار

شروع شروع میں، میں نے یہاں کے بڑے مُکھی جی سے بات کی تو انہوں نے حامی بھرلی اور کہا کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ بچے پڑھیں اور کچھ بن جائیں۔ پھر انہوں نے پنچائیت لگا کر سب کو راضی کیا کہ بچوں کو پڑھانا ہے۔ اب مسئلہ جگہ کا تھا کیونکہ اس بستی میں لگ بھگ 500 بچے ہیں جنہیں مختلف اوقات میں ایک جگہ پڑھانے کے لیے جگہ درکار تھی تو پھر طے یہ پایا کہ جھونپڑیوں کے وسط میں قائم مندر میں اسکول کھولا جائے گا جہاں صبح سے دوپہر 2 بجے تک تعلیم دی جائے گی اور شام میں یہ جگہ پوجا کے لیے استعمال میں لائی جائے گی۔

مندر کا اندرونی منظر جہاں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جارہا ہے—تصویر سدرہ ڈار
مندر کا اندرونی منظر جہاں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جارہا ہے—تصویر سدرہ ڈار

مندر چہار دیواری تو رکھتا ہے لیکن وہاں پکی چھت نہیں، لہٰذا دھوپ اور برسات سے بچاؤ کے لیے اس پر ترپال ڈالا ہوا ہے۔ انعم یہاں پچھلے ڈیڑھ برس سے آرہی ہیں اور بچوں کو بنیادی تعلیم دے رہی ہیں جسے عام زبان میں کچی کا سلیبس کہا جاتا ہے، جس میں نظمیں، دعائیں، لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔

انعم کی محنت سے بچوں میں اتنی لگن بڑھی کہ انہوں نے خود کو بدل کر دکھایا اور بہت حد تک لکھنا پڑھنا سیکھ لیا، جس کے بعد ان کا داخلہ سرکاری اسکول میں کروادیا گیا جہاں اب وہ پابندی سے جاتے ہیں اور جب اسکول سے چھٹی کے بعد واپس گھروں کو لوٹتے ہیں تو انعم سے ملنے اور سارے دن کا احوال سنانے لازمی آتے ہیں۔

'تنقید کو برداشت کیا، لوگوں کی باتیں سنیں، اور پھر بھی ہندو بچوں کو تعلیم دینے کی ضد جاری رکھی، کیوں؟' میں نے رخصت لینے سے قبل آخری سوال کیا۔

'اچھے کام کی شروعات کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے۔ تعلیم پر سب کا حق ہے یہ مذہب اور ذات کو نہیں دیکھتی۔ میں جس نبی ﷺ کی ماننے والی ہوں انہوں نے بھی تو پیغام سب کو بلاتفریق دیا تھا۔ انہوں نے بھی تو شفقت اور محبت کا ہاتھ ہر سر پر رکھا تھا۔ ان کی پناہ میں تو کافر بھی خود کو محفوظ سمجھتا تھا، میں ان کی خاک کے برابر بھی نہیں لیکن یہی وہ تعلیمات ہیں جس نے مجھے یہ کام کرنے کی ہمت دی اور میں خوش ہوں کہ میں نے اگر دو قدم بڑھائیں تو آگے سے مجھے اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ملا،' انعم نے سوال کا تفصیل جواب دیا۔

انعم کہتی ہیں کہ تعلیم پر سب کا حق ہے یہ مذہب اور ذات کو نہیں دیکھتی—تصویر سدرہ ڈار
انعم کہتی ہیں کہ تعلیم پر سب کا حق ہے یہ مذہب اور ذات کو نہیں دیکھتی—تصویر سدرہ ڈار

'میں خوش ہوں کہ میری کوششوں سے بہتری آنا شروع ہوئی'—تصویر سدرہ ڈار
'میں خوش ہوں کہ میری کوششوں سے بہتری آنا شروع ہوئی'—تصویر سدرہ ڈار

انعم سے تو اس حوالے سے بات ہوگئی، لیکن سوچا کہ کیوں نا مُکھی جی سے بھی اس حوالے سے بات کی جائے۔

'مُکھی جی یہ سب دیکھ کر کیسا لگتا ہے کہ اب بچے پڑھ رہے ہیں؟'

مُکھی جی نے انتہائی خوشی میں جواب دیا کہ بہت اچھا لگتا ہے کہ اب بچے صاف ستھرے رہنے لگے ہیں، پڑھ کر آتے ہیں تو اپنے ماں باپ کے پاؤں چھوتے ہیں، اسکول کی وردی پہن کر خوشی خوشی جاتے ہیں۔ یہ بھی تو پاکستان کے بچے ہیں کچھ پڑھ لکھ جائیں تو اچھے بن جائیں گے اور جو ان کی استانی ہے وہ تو ہم سب کی بیٹی ہے۔ بیٹا ایک بات یاد رکھنا یہ ذات کسی کی نہیں سب اللہ کے بندے ہیں، یہ تو ہم سب مذاہب میں بٹ گئے کوئی مسلمان تو کوئی ہند اور کوئی عیسائی تو کوئی سکھ بن گیا لیکن سب کا رشتہ خدا کے ساتھ ہے اور اس ذات کے سامنے سب ایک جیسے ہیں۔

سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھوا کر اور بچوں سے مل کر جب میں رخصت ہونے لگی تو اذانِ ظہر ہورہی تھی۔ اذان ختم ہوئی تو مندر سے ایک بار پھر بچوں کے پڑھنے کی آواز آنے لگی، ہم سب کا مالک کون؟ اللہ تعالی۔ ہم سب کو کس نے پیدا کیا؟ اللہ تعالی نے۔ ہم سب کس کی مخلوق ہیں؟ اللہ تعالی کی۔

نگاہ آسمان کی جانب اٹھی اور کائنات کے بادشاہ سے مخاطب ہوئی، واقعی تیری بنائی دنیا کے راز تو ہی جانے۔ دلوں کے بھید اور سارے حال بھی تو ہی جانے۔ بے شک تُو غیب سے مدد کرنے والا ہے، ایک در بند تو کئی کھولنے والا ہے۔ تو ہی ہے جو چاہے تو کھرا لین دین بنا کسی کھوٹ کے مندر میں اپنے ہی بندوں سے کروادیتا ہے راستے بنادیتا ہے۔


سدرہ ڈار نیو نیوز میں رپورٹر ہیں اور ماحولیات، موسم، اور سماجی مسائل پر فیچر اسٹوریز پر کام کر رہی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔