ضمنی انتخابات، کون کس کے مقابلے میں؟

ضمنی انتخابات، کون کس کے مقابلے میں اور کیوں؟

نوید نسیم

عام انتخابات کے بعد وفاق سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) بڑی پارٹی بن کر ابھری اور حکمرانی کا تاج اسی کے سر پر ہے، جبکہ بلوچستان میں تحریکِ انصاف حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے پاس 175 نشستیں ہیں، جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور عوامی نیشنل پارٹی کی نشستوں کی تعداد 97 اور پیپلز پارٹی کے 54 اراکین اسمبلی میں موجود ہیں۔ اگر اپوزیشن کی کل سیٹوں کو گنا جائے تو یہ 151 بنتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومتی اور اپوزیشن بینچوں میں فرق 24 نشستوں کا ہے۔ لیکن یہ فرق آنے والے ضمنی انتخابات میں بڑھ بھی سکتا ہے اور مزید کم بھی ہوسکتا ہے۔

25 جولائی کے انتخابی نتائج کے بعد 12 اراکینِ قومی اسمبلی کی طرف سے خالی کی گئی نشستوں میں سے 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات 14 اکتوبر کو اور ایک نشست جو نو منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے چھوڑی، اس پر ضمنی انتخاب 21 اکتوبر کو ہوگا۔

11 نشستوں پر 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے 6 حلقوں پر پی ٹی آئی، 2 حلقوں پر پاکستان مسلم لیگ (ق) اور ایک نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 60 اور 103 پر انتخابات ملتوی کردیے گئے تھے۔

11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے 102 دنوں بعد 22 اگست 2013ء کو قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ جن میں قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر اپ سیٹ دیکھا گیا، یعنی ضمنی انتخابات میں اُس جماعت کا امیدوار نہیں جیتا جس جماعت کا امیدوار عام انتخابات میں جیتا تھا۔

ان ضمنی انتخابات میں بڑے اپ سیٹس قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 1 پشاور-1 اور این اے 71 میانوالی-1 کے ضمنی انتخابات میں ہوئے تھے جہاں سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان 11 مئی کے انتخابات میں تو کامیاب ہوئے تھے مگر مگر ضمنی انتخابات میں پشاور کی نشست سے عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور اور میانوالی کی نشست سے نواز لیگ کے عبیداللہ شادی خیل بازی لے گئے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی ف) مولانا فضل الرحمان کی خالی کردہ 2 نشستوں، حلقہ این اے 25 اور این اے 27 کے ضمنی انتخابات میں بھی جے یو آئی (ف) کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے فتح اپنے نام کی۔ اس طرح حلقہ این اے 103 حافظ آباد-2، این اے 177 مظفر گڑھ-2، این اے 235 سانگھڑ کم میرپور کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی اپ سیٹ ہوئے۔

موجودہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی نشستوں کو اگر دیکھا جائے تو ان ضمنی انتخابات کے نتائج حکومت پر بہت زیادہ تو اثر انداز نہیں ہوں گے، لیکن مستقبل میں حکومتی اتحاد میں شامل کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی پر یہ نتائج عمران خان کی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

14 اکتوبر کو کن کن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں اور وہاں ماضی میں کیا نتائج رہے ہیں، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

این اے 35 بنوں

خیبر پختونخوا کے حلقہ این اے 35 سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان 113843 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے جبکہ جے یو آئی (ف) کے اکرم خان درانی 106842 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 35 ضلع بنوں پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستیں پی کے 87 سے پی کے 90 شامل ہیں۔ 2002ء میں کی جانے والی انتخابی حلقہ بندیوں کے مطابق حلقہ این اے 35، این اے 26 تھا۔

ضمنی انتخابات میں مدِمقابل ایم ایم اے کے امیدوار اکرم خان درانی، جے یو آئی (ف) کی ٹکٹ پر اور تحریک انصاف کے امیدوار نسیم علی شاہ آزاد حیثیت سے 2013ء کے انتخابات میں بھی مدِمقابل تھے۔ اس وقت اکرم خان درانی، نسیم علی شاہ کو ملنے والے 45270 کے مقابلے میں 78294 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے تھے۔

2008ء کے انتخابات میں اسی حلقے سے ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمٰن اور 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کے ہی امیدوار مولانا نصیب علی شاہ کامیاب ہوئے تھے۔

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار علی محمد شاہ 2002ء کے فاتح نصیب علی شاہ کے صاحبزادے ہیں۔

این اے 53 اسلام آباد-II

2017ء میں کی جانے والی حلقہ بندیوں میں اسلام آباد کے 2 حلقوں این اے 48 اور این اے 49 کے چند علاقوں کو ملا کر این اے 53 اسلام آباد-2 کا حلقہ بنایا گیا، جہاں سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 93110 ووٹ حاصل کیے، جبکہ سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی صرف 44347 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔

ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار علی نواز اعوان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے وقار احمد سے ہوگا۔

2013ء اور 2008ء کے انتخابات میں حلقہ این اے 48 سے مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر فضل چوہدری اور 2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نیئر علی بخاری کامیاب قرار پائے تھے۔

اسلام آباد کے پرانے حلقہ این اے 49 سے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے جاوید ہاشمی فاتح قرار پائے۔ تاہم جاوید ہاشمی کی طرف سے یہ نشست خالی کرنے کی وجہ سے ضمنی انتخاب میں موجودہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2008ء کے انتخابات میں یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے عقیل انجم اور 2002ء کے انتخابات میں یہ نشست ایم ایم اے کے میاں محمد اسلم نے جیتی تھی۔

این اے 56 اٹک-II

ضلع اٹک کے 2 حلقوں میں سے ایک حلقہ این اے 56 اٹک-2 میں پرانے حلقے این اے 58 کے اکثریتی علاقے شامل ہیں۔ جہاں سے 25 جولائی کو پی ٹی آئی کے امیدوار طاہر صادق 164178 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سہیل خان رنر اپ ٹھہرے۔

پی ٹی آئی کے طاہر صادق نے این اے 55 کی نشست رکھتے ہوئے یہ نشست چھوڑی۔ جس پر 14 اکتوبر کو پی ٹی آئی کے ملک خرم علی خان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے ملک سہیل خان سے ہوگا، جو 2013ء کے انتخابات حلقہ این اے 58 سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑے تھے اور نواز لیگ کے امیدوار ملک اعتبار خان سے ہارے تھے۔

14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے این اے 56 سے امیدوار ملک سہیل خان 2008ء کے انتخابات میں نواز لیگ کی ٹکٹ پر مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی سے اور 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے ہی ملک اللہ یار خان سے بھی شکست کھا چکے ہیں۔

این اے 60 راولپنڈی-IV

ایفیڈرین کیس میں حنیف عباسی کی گرفتاری کی وجہ سے ملتوی ہونے والے انتخابات کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے سجاد خان اور پی ٹی آئی کی طرف سے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے درمیان ہوگا۔

نئی حلقہ بندیوں سے پہلے این اے 60 کے بیشتر علاقے حلقہ این اے 56 میں آتے تھے۔ 1985ء سے 2002ء تک ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے سے شیخ رشید منتخب ہوتے آئے ہیں۔ جبکہ 2008ء کے انتخابات میں حلقہ این اے 56 سے حنیف عباسی اور 2013ء میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کامیاب ہوئے۔

این اے 63 راولپنڈی-VII

وزیر پٹرولیم غلام سرور کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات میں مقابلہ پی ٹی آئی کے منصور حیات خان اور نواز لیگ کے عقیل ملک کے درمیان ہوگا۔

2017ء کی حلقہ بندیوں سے پہلے اس حلقے کے اکثریتی علاقے این اے 53 میں شامل تھے۔ جہاں سے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار غلام سرور، مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار کے مقابلے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ 2008ء کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار، مسلم لیگ (ق) کے امیدوار غلام سرور کے مقابلے میں کامیاب ہوئے تھے۔ غلام سرور 2002ء کے انتخابات میں اس حلقے سے آزاد حیثیت سے کامیاب قرار پائے تھے۔

این اے 65 چکوال-II

ضلع چکوال کا یہ حلقہ پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق این اے 61 کہلاتا تھا۔ جہاں سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی 158477 ووٹ حاصل کرکے 25 جولائی کو کامیاب ہوئے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہونے کے بعد چوہدری پرویز الہٰی نے یہ نشست چھوڑ دی۔ اب اس سیٹ پر سربراہ مسلم لیگ (ق) چوہدری سالک حسین کا مقابلہ تحریکِ لبیک پاکستان کے محمد یعقوب سے ہوگا جو 25 جولائی کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر تھے۔

قومی اسمبلی کے موجودہ حلقے این اے 61 سے 2013ء کے انتخابات میں نواز لیگ کے سردار ممتاز خان نے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی کو تقریباً 15 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

2008ء کے انتخابات میں بھی نواز لیگ کے سردار ممتاز خان ہی اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2002ء کے انتخابات میں آزاد امیدوار محمد فیض ملک نے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار سردار ممتاز خان کو تقریباً 25 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

این اے 69 گجرات-II

چوہدری پرویز الہٰی کی خالی کردہ اس نشست پر ان کے بیٹے چوہدری مونس الہٰی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے عمران ظفر کے مدِمقابل ہوں گے۔

موجودہ این اے 69 اور سابقہ حلقہ این اے 105 میں ہونے والے 2013ء کے انتخابات میں بھی اس حلقے سے چوہدری پرویز الہٰی کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2008ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی یہ نشست چوہدری احمد مختار اور 2002ء کے انتخابات میں چوہدری شجاعت حسین نے اپنے نام کی۔

این اے 103 فیصل آباد-III

آزاد امیدوار مرزا محمد احمد کی وفات کے بعد ملتوی کیے جانے والے انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے علی گوہر خان اور پی ٹی آئی کے محمد سعداللہ خان کے درمیان ہوگا۔

موجودہ این اے 103 اور سابقہ حلقہ این اے 77 سے محمد عاصم نذیر 2013ء میں نواز لیگ کی ٹکٹ پر اور 2008ء اور 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔

این اے 124 لاہور-II

حمزہ شہباز شریف کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی نشست رکھنے کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخابات میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور پی ٹی آئی کے غلام محی الدین کے درمیان ہوگا۔

اندرونِ لاہور کے علاقوں پر مشتمل یہ حلقہ پہلے حلقہ این اے 119 تھا، جہاں سے حمزہ شہباز 2013ء اور 2008ء کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ 2002ء کے انتخابات میں اس حلقے سے خواجہ سعد رفیق کامیاب ہوئے۔

این اے 131 لاہور-IX

وزیرِاعظم عمران خان کی طرف سے میانوالی کی نشست رکھنے اور باقی نشستیں چھوڑنے کے بعد لاہور کے اس حلقے میں ضمنی انتخاب 14 اکتوبر کو ہوگا۔ جس میں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر کے مدِمقابل ہوں گے۔ 25 جولائی کے انتخابات میں عمران خان صرف 756 ووٹوں کے فرق سے یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

پرانے حلقہ این اے 125 کے چند علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں لاہور کے پوش علاقے شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدوار ہمایوں اختر 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر اس حلقے سے کامیابی اپنے نام کرچکے ہیں۔ جبکہ 2008ء اور 2013ء میں اس حلقے کے ووٹرز نے نواز لیگ کے سعد رفیق کو منتخب کیا تھا۔

این اے 243 کراچی ایسٹ-II

کراچی کے اس حلقے میں بھی عمران خان کی طرف سے نشست چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی انتخاب ہورہا ہے۔ جس میں تحریک انصاف کے امیدوار عالمگیر خان کا مقابلہ متحدہ کے عامر ولی الدین کے ساتھ ہوگا۔ 25 جولائی کے انتخابات میں عمران خان نے متحدہ کے امیدوار علی رضا عابدی کو تقریباً 67 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔

پرانے حلقہ این اے 253 کے بیشتر علاقے نئی حلقہ بندیوں کے حلقہ این اے 243 میں شامل ہیں۔ ماضی میں این اے 253 سے 2013ء کے انتخابات میں متحدہ کے مزمل قریشی اور 2008ء کے انتخابات میں متحدہ کے ہی حیدر عباس رضوی کے نام رہی۔ جبکہ 2002ء کے انتخابات میں یہ نشست ایم ایم اے کے اسداللہ بھٹو نے اپنے نام کی۔

قومی اسمبلی کی 11 نشستوں کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 26 خالی نشستوں پر بھی 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہوں گے۔ جن میں پنجاب کی 13، سندھ کی 4 اور خیبر پختونخوا کی 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔

ان ضمنی انتخابات کے نتائج قومی اسمبلی سمیت کسی بھی صوبائی اسمبلی میں موجود اکثریت پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ تاہم قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی سے اگر کوئی جماعت حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوتی ہے تو ان ضمنی انتخابات کے نتائج مستقبل میں حکومت پر بھاری پڑسکتے ہیں۔


بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@