متنازع ناولز پر بنائی گئی کامیاب فلمیں

خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی فلم کی کامیابی میں بہترین ہدایتکاری، اداکاری اور موسیقی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، تاہم در حقیقت کسی بھی فلم کی کامیابی کا کوئی ایک فارمولا نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلم کی کامیابی کا آغاز دراصل اسی وقت ہو جاتا ہے جب ایک منجھا ہوا ہدایت کار کسی جاندار کہانی کا انتخاب کر کے اس کے اسکرین پلے پر بھی بھرپور محنت کرتا ہے۔

لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ فلم کی کامیابی کا کوئی ایک فارمولا نہیں ۃے اور اس کی ایک حالیہ مثال بھارت میں کثیر سرمایے سے بننے والی بہترین کاسٹ کی فلم " ٹھگز آف ہندوستان" ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وہ ہولی وڈ فلمیں جنہیں 2018 میں دیکھا جانا چاہیے تھا

اس فلم کی کہانی میں جان نہ ہونے کے باعث ایک بہترین ہدایت کار اور با صلاحیت کاسٹ بھی اسے کامیاب کروانے میں ناکام رہی اور یہ فلم چند ہی دنوں میں باکس آفس پر بری طرح فیل ہو گئی، یہی وجہ ہے کہ ہولی ووڈ میں فلمیں بناتے وقت سب سے زیادہ توجہ کہانی اور اسکرین پلے پر دی جاتی ہے اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہولی ووڈ کے باصلاحیت اور باہمت ہدایت کاروں نے ایسی کتابوں اور ناولوں پر فلمیں بنانے کا بیڑا اٹھایا جو کتابی شکل میں کسی نہ کسی وجہ سے بین کر دی گئی تھیں جس کی وجہ یقینا ان کے متنازع موضوعات تھے مگر اسکرین پلے پر مکمل توجہ دینے اور متنازع امور کو بہترین انداز میں پیش کرنے کے باعث نہ صرف یہ فلمیں کامیاب رہیں بلکہ ان کی کامیابی سے دیگر ہدایت کاروں کو بھی حوصلہ ملا اور ان فلموں کے ذریعے بہت سے ایسے موضوعات سامنے آئے جنھیں ان کی کتابوں کے ساتھ ہی تنازعات کے قبرستان میں دفن کر دینے کی کوشش کی گئی تھی۔

ایسی چند کامیاب فلموں میں درج ذیل فلمیں بھی ہیں جن کی کہانی پابندی کے شکار ناولوں سے لی گئی تھی اور ان کی ہدایات پر بھی مکمل توجہ دی گئی۔

لارڈ آف دی رنگز

مایہ ناز مصنف جے آر آر ٹالکین کی کتاب لارڈ آف رنگز 1950میں شائع ہوئی، اس کتاب نے نہ صرف جدید انگریزی ادب بلکہ پاپولر کلچر پر بھی بڑے اثرات مرتب کیے، اس کی کہانی سے متاثر ہو کر نہ صرف اسی طرح کے موضوعات پر کچھ اور کتابیں لکھی گئیں بلکہ اس نام سے ویڈیو گیم بھی بنائے گئے، کتاب پر سب سے زیادہ اعتراض یہ اٹھایا گیا تھا کہ اس میں عیسائیت کا کافی پرچار کیا گیا ہے، مگر جب نامور ہدایت کار پیٹر جیکسن نے اسے بہترین اسکرین پلے کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا تو شائقین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جیکسن نے ایک متنازع موضوع کو اس خوبصورت انداز میں اسکرین پر کیسے ڈھالا۔

لارڈ آف رنگ کی کتاب اور فلم دونوں ہی پر وقتاً فوقتاً اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ اس میں حد سے زیادہ مار دھاڑ اور جنگ و جدل دکھایایا گیا ہے جو بچوں کے ذہنوں کے لیے خطر ناک ہے، اس وجہ سے متعدد ممالک میں کتاب کے بعد اس فلم کو بھی بندش کا سامنا کرنا پڑا اور کئی ممالک میں آ ج بھی والدین اس کے شدید مخالف ہیں، مگر اس فلم کی حمایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ حقیقت سے زیادہ فینٹیسی ہے جس سے بچے اتنے متاثر نہیں ہوتے بلکہ آج کل کے ٹی وی شوز اور کارٹونوں میں اس سے کہیں زیادہ خون خرابہ اور تشدد دکھایا جا رہا ہے۔

گون ود دی ونڈ

مارگریٹ مچلز کی کتاب " گون ود دی ونڈ" کو اس کی اشاعت کے بعد سے ہی بے پناہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا،سب سے پہلا اعتراض اس کتاب میں استعمال کی جانے والی عامیانہ زبان اور جملوں پر کیا گیا اور متعدد ممالک میں اسے بین کردیا گیا، اس کے باوجود یہ کتاب اپنے وقت کی بیسٹ سیلر کتابوں میں شمار ہوئی۔

اگرچہ اس ناول کی ہیروئن اسکارلٹ کی زیادہ شادیوں پر کافی زیادہ تنقید سامنے آئی تھی اس کے باوجود وکٹر فلیمنگ نے سول وار کے پس منظر پر مبنی اس کہانی پر ایک فلم بنا نے کا بیڑا اٹھایا۔

اگرچہ اس فلم کو باکس آفس پر توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی مگر اپنی ریلیز کے فورا بعد ہی سے یہ فلم بھی تنازعات کا شکار رہی جس کی ایک وجہ اس کا تین گھنٹے 37 منٹ کا طویل دورانیہ بھی تھا، مگر اس فلم کی کامیابی میں سب سے اہم کردار اس کے بہترین اسکرین پلے نے ادا کیا ۔

اگرچہ اوریجنل اسکرین پلے سڈنی ہوورڈ نے تحریر کیا تھا مگر فلم کی تیاری کے دوران درجن بھر دیگر مصنفین نے اس میں ترامیم کرنے میں اہم کرداد ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ فلم کا آغاز مارگریٹ مچلز کی کتاب کے پہلے جملے سے ہوا اور اختتام بھی کتاب ہی کے ڈائیلاگ پر تھا مگر اس کے باوجود فلم میں ناظرین نے ایک انوکھا پن اور کشش محسوس کی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ کسی فلم کی کامیابی میں سب سے اہم اس کا اسکرین پلے ہوتا ہے۔

فرام ہیئر ٹو اٹرنیٹی

مایہ ناز مصنف جیمز جانز کی کتاب "فرام ہیئر ٹو اٹرنیٹی" کی اشاعت کے وقت پبلشر نے اس میں ہم جنس پرستی اور ملحدانہ زبان و طرز فکر کا پرچار حذف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کی اشاعت روک دی تھی مگر اس کے باوجود اشاعت کے بعد یہ کتاب نیشنل بک ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہی، جس سے متاثر ہو کر ہدایت کار فریڈرک زن مین نے اس پر فلم بنا نے کا ارادہ کیا۔

ہم جنس پرستی کے موضوع پر ہونے کے باعث فلم میں سے کئی سین حذف کیے گئے اور کئی ممالک میں اسے بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا، فلم کی کہانی ہوائی میں ایک آرمی بیرک میں گزارے دنوں کے گرد گھومتی ہے جس کے بعد پرل ہاربر پر فضائی حملہ کیا گیا، کئی متنازع سین کے باعث یہ فلم اب بھی متعدد ممالک میں بین ہے۔

ون فلیو اوور دی کوکوز نیسٹ

عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ جن کتابوں پر بندش لگائی جاتی ہے ان میں مخربہ اخلاق اور قابل اعتراض مواد شامل ہوتا ہے یا پھر ان میں مذہی شدت پسندی کا پرچار کیا گیا ہوتا ہے مگر "ون فلیو اوور دی کوکوز نیسٹ" اس حوالے سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں اس طرح کا کوئی بھی مواد نہ ہونے کے باوجود دیگر وجوہات کی بناء پر اسے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

جاندار کہانی ہونے کی وجہ سے ہدایت کار نلسو فورمین نے اس پر فلم بنا نے ارادہ کیا اور کن کیسی کے بہترین اسکرین پلے نے اس فلم کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا۔

فلم کی کہانی ایک ذہنی مریض مک مرفی کے گرد گھومتی ہے جو علاج کے لیے جیل سے ایک مینٹل انسٹی ٹیوشن منتقل ہوتا ہے تو اس کی سوچ کے برعکس اسے وہاں جیل سے بھی زیادہ شدید سخت ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وارڈ نرس اپنے مریضوں کو ظالمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنا نے میں ماہر ہوتی ہے، جس کے بعد مک مرفی اور نرس ریچڈ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے اور پورے وارڈ کے مریض اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

کتاب کے برعکس اسکرین پر ریچڈ کے ذہنی مریضوں پر تشدد کے مناظر اس قدر خوفناک نہیں ہیں جن سے دیکھنے والے کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

آف مائس اینڈ مین

جیمز اسٹین بیک کا تحریر کردہ ناول " آف مائس اینڈ مین" بھی انہی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے جنھیں صرف ایک متنازع موضوع ہونے کے باعث بندش کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ اعتراض اس دور میں صرف ان لوگوں کی طرف سے اٹھایا گیا جو نسل پرستی کے حامی تھے کیوں کہ ناول میں سیاہ و سفید فام افراد اور خصوصی طور پر عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور انھیں عملی میدان میں مفلوج سمجھنے جیسے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

ہدایت کار گیری سنسی نے اس کی جاندار کہانی کو دیکھتے ہوئے اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا، ایک گھنٹے 55 منٹ دورا نیے پر مشتمل اس فلم کا اسکرین پلے ہورٹن فوٹ نے لکھا تھا، فلم کی کہانی 2 افراد جارج اور لینی کے طویل سفر کے گرد گھومتی ہے جن میں سے ایک لینی بچوں جیسی خصوصیات کا حامل معصوم سا شخص ہوتا ہے، سفر کے دوران انھیں ملازمت مل جاتی ہے مگر یہاں لینی کو اپنے مالک کی بیٹی سے محبت ہوجاتی ہے جس کے بعد وہ دونوں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ٹو کل اے موکنگ برڈ

ٹو کل اے موکنگ برڈ فلم کا شمار ان چند گنی چنی فلموں میں کیا جاتا ہے جس میں ناول کی کہانی کو ہوبہو اسی انداز میں پیش کیا گیا اور فلم باکس آفس پر بے انتہا کامیاب بھی ثابت ہوئی، ورنہ عموما بہترین ناولز پر اسکرین لکھتے وقت کمرشلائیزیشن کے چکر میں کہانی کو بہت حد تک تبدیل کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے فلم اور ناول دونوں میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔

ٹو کل اے موکنگ برڈ ایک ایسی بہترین فلم ہے جس نے نسل پرستی، بھوک، افلاس اور نا انصافی جیسے سنگین مسائل کو اجاگر کیا۔

فلم کی کہانی جنوبی امریکا میں مقیم چند بچوں کے گرد گھومتی ہے جن کے بچپن کی معصوممیت حالات زمانہ کی نظر ہو جاتی ہے، ان بچوں کے والد جو ایک وکیل ہیں ریپ کے ایک کیس کی پیروی کر تے ہیں جس میں ایک سیاہ فام معصوم شخص پر ایک سفید فام نوجوان لڑکی کے ریپ کا الزام ہوتا ہے۔

یہ بچے چھپ کر اس کیس کی پیروی دیکھتے ہیں اور جوں جوں کیس آگے بڑھتا ہے ان کے والد اور خود ان کے لیے مسائل سنگین ہوتے چلے جاتے ہیں، ہارٹن فوٹ کے بہترین اسکرین پلے اور رابرٹ ملی گن کی ہدایتکاری نے اس فلم کو کامیاب بنا نے میں اہم کردار ادا کیا۔

جیمز اینڈ دی جائنٹ پیچ

جیمز اینڈ دی جائنٹ پیچ بچوں کے فکشن کی ایک ایسی کتاب ہے جسے متعدد بار بندش کا سامنا کرنا پڑا ہے، کئی دفعہ اسے بین کتابوں کی لسٹ سے نکالا گیا مگر بعد میں عوامی رد عمل کے باعث دوبارہ شامل کردیا گیا۔

رولڈ ڈھال کی تصنیف کردہ اس کتاب کے اسپائڈر سین پر سب سے زیادہ اعتراض کیا گیا کہ اس سے بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، مگر یہ کتاب ہر عمر کے بچوں میں بے حد پسند کی گئی، اس پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار ہنری سیلک نے اس پر ایک اسٹاپ-اینی میشن فلم بنانے کا ارادہ کیا اور اپنی اس کوشش میں وہ بے حد کامیاب بھی رہے۔

فلم کی کہانی ایک یتیم بچے جیمز کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ظالم آنٹی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے،مگر پھر وہ کسی طرح ان حالات سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور یوں اس کے ایک نئے ایڈونچر سفر کا آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ نیویارک پہنچ جاتا ہے۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔