آزادی مارچ: جے یو آئی (ف) کا قافلہ اسلام آباد میں داخل

شرکا کی تعداد اور سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے پولیس اور اسلام آباد کی انتظامیہ ابہام کا شکار نظر آئی—تصویر: ٹوئٹر
شرکا کی تعداد اور سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے پولیس اور اسلام آباد کی انتظامیہ ابہام کا شکار نظر آئی—تصویر: ٹوئٹر

جمعیت علمائے اسلام (ف) کا حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہو گیا۔

مارچ کے استقبال کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں مقامی رہنماؤں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔

قبل ازیں مولانا فضل الرحمٰن کا روات میں استقبالیہ کیمپ سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ 'آپ کی یکجہتی قومی نعرے کا روپ دھار چکی ہے، عوام اسلام آباد جا کر حکمرانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ نااہل اور ناجائز حکومت قابل قبول نہیں۔

یاد رہے کہ آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور آج راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا۔

آزادی مارچ کا مرکزی اجتماع اسلام آباد ایچ- 9 میٹرو گراؤنڈ میں ہوگا اور مارچ کے شرکا کے لیے پارکنگ کی جگہ بھی مختص کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ نے ریڈزون، فیض آباد اور زیرو پوائنٹ انٹرچینجز سمیت مختلف سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ لاہور سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں

آزادی مارچ کے راستوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ضلعی ترجمان حافظ ضیااللہ نے بتایا تھا کہ احتجاجی مارچ راولپنڈی کے مری روڈ سے ہوتا ہوا براستہ فیض آباد اسلام آباد میں داخل ہوگا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے قافلے کی آمد

قبل ازیں سربراہ اسفند یار ولی کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا قافلہ 'آزادی مارچ' میں شرکت کے لیے اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ پہنچا۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسفند یار ولی نے کہا ہے 'آج 31 اکتوبر کو جلسے کی تاریخ تھی جس کا فیصلہ رہبر کمیٹی نے کیا تھا، اب کوئی پہنچے یا نہ پہنچے اے این پی پہنچ گئی۔'

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جلسے کا فیصلہ رہبر کمیٹی نے کرنا تھا، رہبر کمیٹی نے ہمیں نہیں بتایا کہ آج جلسہ نہیں ہوگا، ہمیں آج کا بتایا گيا تھا، اے این پی کے کارکن بڑی تعداد میں پہنچے ہیں اور ہم اپنا جلسہ خود کر لیں گے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔

رحیم یار خان میں ٹرین حادثے پر وزیر ریلوے شیخ رشید احمد پر تنقید کرتے ہوئے اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ 'موجودہ وفاقی وزیر ریلوے کو اپنے محکمے سے زیادہ کسی اور چیز کا شوق ہے، وہ صرف اپوزیشن کو گالیاں دینا پسند کرتے ہیں اور عجیب اتفاق ہے کہ جب سے ایک خاص شخص ریلوے وزیر بنا ہے ریل پٹڑی پر چڑھ ہی نہیں رہی۔

مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی معمولی شرکت

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ صدر پی ایم ایل این شہباز شریف اسلام آباد میں آزادی مارچ میں شریک ہوں گے۔

شہباز شریف 31 اکتوبر کی دوپہر لاہور سے اسلام آباد پہنچیں گے اور پشاور موڑ پر ہونے والے آزادی مارچ کے جلسے سے خطاب بھی کریں گے۔

اس سے قبل جے یو آئی (ف) آزادی مارچ کے لاہور پہنچنے پر مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہونے کے باوجود پارٹی کارکنان کی انتہائی معمولی شرکت دیکھنے کو ملی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گریٹر اقبال پارک میں مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں مسلم لیگ (ن) کے کوئی بھی قابل ذکر رہنما شریک نہیں ہوئے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی تعداد پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان سے بھی کم تھی جس کے رہنما قمر الزماں کائرہ تھے جو جلسے کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اسٹیج پر بھی موجود تھے۔

اسلام آباد میں فوج طلب

آزادی مارچ کے سلسلے میں حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے حساس مقامات پر فوج تعینات کردی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ لاہور کیلئے روانہ

علاوہ ازیں اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ نے حساس ترین علاقے ریڈ زون میں ٹرپل ون بریگیڈ کو تعینات کرنے کی بھی درخواست دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کی تین بڑی شاہراہیں اسلام آباد ایکسپریس وے، کشمیر ہائی وے اور 9 ایونیو صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک بند رہیں گی

اس کے ساتھ انتطامیہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ وفاقی دارالحکومت کی تین بڑی شاہراہیں اسلام آباد ایکسپریس وے، کشمیر ہائی وے اور 9 ایونیو صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک بند رہیں گی، اس کی جگہ متبادل راستوں سے ٹریفک کو گزرنے کی اجازت ہوگی۔

پولیس کے انتظامات

آزادی مارچ کے شرکا کی تعداد اور سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے پولیس اور اسلام آباد کی انتظامیہ ابہام کا شکار نظر آئی۔

اس ضمن میں پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جلسہ گاہ میں 25 سے 30 ہزار افراد کی گنجائش ہے تاہم شرکا کی تعداد اس سے زائد ہونے کی صورت میں کوئی پلان بی موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے پیش نظر اسلام آباد میں فوج طلب

پولیس حکام نے بتایا کہ صورتحال خراب ہونے کی صورت میں فوری طور پر پلان بی ترتیب دیا جائے گا جبکہ پشاور موڑ جلسہ گاہ کے گرد اضافی خار دار تاریں بھی لگائی جائیں گی۔

پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد کے حساس علاقے ریڈ زون سمیت شہر کے اہم داخلی و خارجی راستوں پر ساڑھے 5 ہزار کنٹینر لگائے گئے ہیں جبکہ حالات خراب ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر طویل اور مختصر فاصلے کے 10 ہزار آنسو گیس شیلز کا مطالبہ کردیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ سروسز معطل

علاوہ ازیں آزادی مارچ کے باعث راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف مقامات پر غیر اعلانیہ نیٹ سروس معطل کردی گئی تاہم اسلام آباد انتظامیہ اور وزیر داخلہ نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقت نے بتایا کہ انٹرنیٹ سروس بحال ہے البتہ پشاور موڑ پر جہاں آزادی مارچ کے شرکا جلسہ کریں گے اس مقام پر انٹرنیٹ کام نہیں کررہا۔

خیبرپختونخوا سے قافلے روانہ

ادھر آزادی مارچ میں شامل ہونے کے لیے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں جے یو آئی (ف) کے کارکنان جمع ہو کر 2 بجے کے بعد رنگ روڈ سے روانہ ہوئے اور قومی وطن پارٹی چارسدہ انٹرچینج سے احتجاجی مارچ کا حصہ بننے کے لیے روانہ ہوئے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کا آزادی مارچ کے دوران ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کارکنان بھی جوش و خروش کے ساتھ مارچ میں شرکت کے لیے روانگی کی غرض سے رکشئی انٹرچینج پہنچے جہاں سے اسفند یار ولی بھی ریلی میں شریک ہوئے۔

اے این پی کے کارکنان کی آزادی مارچ میں شرکت کے لیے قافلے روانہ رکشئ انٹرچینج سے روانہ ہوئے—تصویر:جے یو آئی فیس بک
اے این پی کے کارکنان کی آزادی مارچ میں شرکت کے لیے قافلے روانہ رکشئ انٹرچینج سے روانہ ہوئے—تصویر:جے یو آئی فیس بک

دلچسپ بات یہ ہے کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ میں ایک بھی خاتون شریک نہیں جبکہ اے این پی کی خواتین رکنِ صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک کی سربراہی میں مارچ میں شرکت کے لیے روانہ ہوئیں۔

جے یو آئی (ف) کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات عبدالجلیل نے مارچ میں شرکت کے لیے قافلوں کی روانگی کے مقام اور وقت سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ: جڑواں شہروں کے کون سے راستے کھلے رہیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے کبھی شناختی کارڈ بلاک کیے جارہے ہیں تو کبھی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔

اس کے ساتھ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹرز کو مارچ کے شرکا کو گاڑیاں نہ دینے کی ہدایت کرنے اور مختلف طریقوں سے رکاوٹیں ڈالنے کے خلاف جی ٹی روڈ کو احتجاجاً بند کرنے اور مظاہرہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔

جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مستعفی ہوکر گھر چلی جائے اور اگر یہ خود نہیں جاتے تو ہم ان کو گھر بھیجیں گے'۔

ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔

دوسری جانب دھرنے میں شرکت کے حوالے سے مرکزی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے درمیان بھی اختلافات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعدازاں 18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔

ادھر حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے لیکن ان کی جماعت کے رہنما نے کہا تھا کہ جماعت نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں ایک پی پی پی عہدیدار نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت پر پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ف) کا فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے کی خلاف ورزی ہے۔

پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کے بعد مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں