ٹسیٹنگ کٹس کے ’محتاط استعمال‘ سے وائرس کی تشخیص میں تاخیر

14 اپريل 2020
ملک میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے 55 ہزار افراد کے ٹسیٹ کیے گئے۔
ملک میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے 55 ہزار افراد کے ٹسیٹ کیے گئے۔

اسلام آباد: جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کووڈ 19 کے ہر مشتبہ مریض کا ٹیسٹ کرنے اور مصدقہ مریضوں کو آئیسولیٹ (تنہا) کرنے کا مطالبہ رہا ہے وہیں حکومت کی جانب سے ٹیسٹنگ کٹس کے استعمال میں محتاط پالیسی کے نتیجے میں بعض علاقوں میں وائرس پھیلنے کا باعث بنی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فروری کے آخری ہفتے سے اب تک ملک میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے 55 ہزار افراد کے ٹسیٹ کیے گئے۔

اسلام آباد کے علاقے ترماڑی کے ایک مشتبہ مریض کو گھر جانے اور ٹیسٹ کروانے کے لیے اس وقت تک انتظار کرنے کی ہدایت کی گئی جب تک علاماتیں ظاہر نہ ہوجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان: نشتر ہسپتال کے 18 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص

چونکہ متاثرہ شخص کا ٹیسٹ نہ ہوسکا اس لیے دکانداروں سمیت ان کی پوری گلی کے متعدد رہائشی جو ان سے رابطوں میں آئے وائرس کا شکار بن گئے اور پھر وہ گلی سیل کرنا پڑی۔

اسی طرح ایک ویڈیو میں مبشر احمد نامی شخص نے بیان دیا کہ ان کے والد کو گزشتہ ماہ سے کھانسی تھی جس کے بعد ان کی والدہ کو بھی کھانسی کی شکایت ہوگئی، بعدازاں جب انہیں خود کھانسی ہوئی تو وہ اپنے والدین کے ہمراہ کووِڈ 19 کا ٹیسٹ کروانے کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گئے۔

وہاں موجود ڈاکٹر سعد علی نے ان کا معائنہ کر کے ایکسرے تجویز کیا اور کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں جس کی وجہ سے ہم گھر واپس آگئے۔

مبشر احمد نے ویڈیو میں کہا کہ ہماری طبیعت بہتر نہیں ہوئی اور میری اہلیہ کو بھی نزلہ زکام شروع ہوگیا جس کی وجہ سے 30 مارچ کو وہ ایک دوسرے ہسپتال گئے جہاں سے ہم سب کو بینظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی بھیج دیا گیا لیکن وہاں بھی ڈاکٹر نے بتایا کہ ہمیں ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں: گرم موسم میں کورونا وائرس کے خاتمے سے جُڑا راز سامنے آگیا

انہوں نے مزید بتایا کہ بعد میں وہ اپنے والد کو اٹامک انرجی ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے فوری طور پر ان کے والد کا کورونا ٹیسٹ تجویز کیا جس کا نتیجہ مثبت آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کسی نے ہمارا ٹیسٹ کرنے کی زحمت نہیں کی اور اب پوری گلی کو کورونا کیسز کی وجہ سے سیل کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز مشتبہ مریضوں میں علامات ظاہر ہونے تک ٹیسٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس پالیسی کی وجہ سے مریض میں تشخیص نہیں ہو پاتی اور وہ بیماری کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔

اس حوالے سے پمز کے میڈیا کووآرڈینیٹر ڈاکٹر وسیم خواجہ نے ڈان کو بتایا کہ ’ہر ایک کا ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں، ’اب تک ہمارے پاس ایسے 2 ہزار مریض آئے جنہیں کووِڈ19 کا شبہ تھا لیکن اس میں سے ہم نے صرف 300 کا ٹیسٹ کیا جس میں 45 مثبت آئے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کا ایک اور طریقہ علاج تیار کرلیا

دوسری جانب پمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر انصار مسعود کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی ایک مریض کا ویڈیو بیان دیکھا ہے اور متعلقہ شعبے کو اس معاملے جانچ پڑتال کی ہدایت کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں