کورونا ویکسین کی خریدای کیلئے بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا، ترجمان دفتر خارجہ

ترجمان نے کہا کہ حبیب ظاہر کے اغوا میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں — فائل فوٹو / ڈان نیوز
ترجمان نے کہا کہ حبیب ظاہر کے اغوا میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں — فائل فوٹو / ڈان نیوز

ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے کورونا ویکسین کی خریداری سے متعلق بھارت کے ساتھ کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں کیا ہے۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران زاہد حفیظ چوہدری نے بھارت کی جانب سے پاکستان کو کورونا ویکسین کی ساڑھے 4 کروڑ خوارک کی فراہمی سے متعلق کہا کہ بین الاقوامی ویکسین الائنس 'گاوی' نے 'کوویکس' کے تحت پاکستان سمیت متعدد ممالک کو ویکسین کی خوراکیں فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ویکسین کی خریداری سے متعلق بھارت کے ساتھ کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں کیا ہے، ویکسین بھارت نہیں بلکہ گاوی فراہم کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز میڈیا رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ پاکستان کو بھارت میں تیار کی جانے والی برطانوی کورونا ویکسین ایسٹرازینیکا جلد فراہم کردی جائے گی۔

رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ وفاقی وزیر اسد عمر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت سے گاوی کے ذریعے ویکسین منگوانے کا معاہدہ گزشتہ سال طے پایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی کورونا ویکسینیشن کا 10 مارچ سے آغاز

'بھارت کی سیکیورٹی ضروریات سے زائد ہتھیاروں کی خریداری خطے کے امن کیلئے شدید خطرہ ہے'

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس مقصد کے لیے اس نے اب تک وہاں مستقل آباد کاری کے لیے 32 لاکھ غیر کشمیریوں کو جعلی ڈومیسائل جاری کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے تمام غیر قانونی اقدامات فوری منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اور عالمی تنظیمیں مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کر رہی ہیں۔

ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اپنی سیکیورٹی ضروریات سے زائد ہتھیاروں کی خریداری سے خطے کے امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

'حبیب ظاہر کے اغوا میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہیں'

پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل حبیب ظاہر کی نیپال میں گمشدگی کے بارے میں زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ حکومت پاکستان کی درخواست پر نیپال نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی، لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کے نہایت مضبوط شواہد ہیں کہ حبیب ظاہر کے اغوا میں بھارتی ایجنسیوں سمیت بھارتی شہری ملوث ہیں جنہوں نے رپورٹ کے مطابق حبیب ظاہر کے ساتھ لمبینی ایئرپورٹ میں ملاقات اور ان کے لیے ہوٹل اور ٹکٹ کی ریزرویشن کی تھی۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کے سابق کرنل کی نیپال میں پراسرار گمشدگی

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے سابق کرنل کے اہلخانہ کی درخواست پر ان کی جبری گمشدگی سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے بھی کیس رجسٹرڈ کیا ہے۔

ترجمان نے متعلقہ بھارتی حکام پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کا احترام کرے اور حبیب ظاہر کی فوری رہائی کے لیے یو این ورکنگ گروپ کے ساتھ تعاون کرے۔

یاد رہے کہ پاک فوج کے سابق کرنل حبیب ظاہر اپریل 2017 میں نیپال پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔

ان کا اپنے اہل خانہ سے آخری مرتبہ رابطہ بھارت اور نیپال کے سرحدی علاقے لمبینی سے ہوا تھا۔

افغان امن عمل میں تیزی لانے کیلئے امریکی کوششوں کا خیر مقدم

ایک سوال پر زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان، افغان امن عمل کی مسلسل حمایت کرتا آیا ہے، ہمارے مثبت کردار نے امریکا اور طالبان کے درمیان امن عمل اور اس کے نتیجے میں بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کی۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان مسلسل اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی عمل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان فریقین کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ مذاکرات جاری رکھیں اور افغانوں کی قیادت میں امن عمل کو آگے بڑھائیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان کے متحارب فریقین کو ’امن معاہدہ‘ پیش کردیا

ان کا کہنا تھا کہ تمام فریقین کو جامع ، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیہ کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم امن عمل کو نئی طاقت دینے اور حتمی سیاسی تصفیے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے امریکی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے تحت افغانستان میں مجوزہ مذاکرات کی تفصیلات باضابطہ مدعو کیے جانے کے بعد جاری کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ تین روز قبل امریکا نے تعطل کا شکار افغان امن عمل اور بڑھتے ہوئے پرتشدد حملوں سے مایوس ہوکر افغانستان کے متحارب فریقین کو 8 صفحات پر مشتمل امن معاہدے کا جائزہ لینے کی پیشکش کی تھی۔

مذاکرات کی میز پر موجود دونوں اطراف کے افغان باشندوں کے مطابق امریکا نے تمام فریقین کو آئندہ ہفتوں میں ترکی مدعو کیا ہے۔

امن معاہدے کے مسودے میں جنگ بندی سمیت خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا اور سچائی پر مبنی مفاہمتی کمیشن کا تصور پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے متعلق فیصلے کیلئے تمام آپشنز زیر غور ہیں، امریکا

اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے اشرف غنی کو سخت الفاظ میں مراسلہ ملا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن امن مذاکرات میں پیشرفت دیکھنا چاہتا ہے اور اس امن معاہدے کے مسودے کا ذکر کیا جس میں ایک نئی اور جامع حکومت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مراسلے کے جواب میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’جب تک میں زندہ ہوں کوئی عبوری حکومت نہیں بنے گی‘۔

یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن عمل کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا لیکن امریکا میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد معاملات کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اس عمل کو روک دیا گیا تھا، اس میں امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شامل تھا۔

افغانستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل میں تعطل کے بعد کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ وہ سخت حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں