افغانستان سے متعلق فیصلے کیلئے تمام آپشنز زیر غور ہیں، امریکا

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2021
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے افغان صدر کو خط لکھا — فائل/فوٹو: اے ایف پی
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے افغان صدر کو خط لکھا — فائل/فوٹو: اے ایف پی

امریکا کی حکومت نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود ڈھائی ہزار فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے تمام آپشنز بدستور زیر غور ہیں اور یکم مئی سے متعلق وعدے پر کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ بیان سیکریٹری اسٹیٹ بلنکن کے اس بیان کے بعد جاری کیا جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سربراہی میں امن کوشش کے لیے زور دیا تھا جس میں یکم مئی تک امریکی فوجیوں کے انخلا کی تنبیہ بھی شامل تھی۔

بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ 'امریکا یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا پر غور کر رہا ہے اور اسی طرح دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا جائزہ لیں گے، جوبائیڈن انتظامیہ

افغان عہدیداروں کی جانب سے اشرف غنی اور امن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کو لکھے گئے خط کی تصدیق کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے آخری دورے پر افغان رہنماؤں کو آگاہ بھی کیا تھا اور تبادلہ خیال بھی کیا گیا تھا۔

عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک تقریب میں کہا کہ 'زلمے خلیل زاد کے دورہ کابل سے دو روز قبل ہی صدر اشرف غنی اور مجھے خط موصول ہوا ہے'۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'امریکا نے یکم مئی کے بعد افغانستان میں اپنی افواج کی موجودگی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور تمام آپشنز زیر غور ہیں'۔

سیکریٹری اسٹیٹ کے خط کے مطابق 'امریکا اعلیٰ سطح کی سفارتی کوششیں کر رہا ہے کہ معاملات تیزی سے حل کی جانب بڑھیں اور مکمل اور مؤثر جنگ بندی ہو'۔

انہوں نے لکھا کہ امریکا، اقوام متحدہ سے بھی کہے گا کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ کو جمع کریں تاکہ افغانستان میں امن کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس حوالے سے ترکی سے بھی کہے گا کہ 'آنے والے دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدے کو حتمی شکل دینے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی میزبانی کرے'۔

بلنکن نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد سیکیورٹی حالات پر تشویش ہے کہ مزید خرابی آئے گی اور طالبان تیزی سے معاملات ہاتھ میں لیں گے اور امید ہے کہ اشرف غنی میری جلد بازی کے رویے کو بھی سمجھ پائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی نمائندہ خصوصی، طالبان رہنماؤں کا دوحہ معاہدے سے وابستگی کا اظہار

یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن عمل کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا لیکن امریکا میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد معاملات کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اس عمل کو روک دیا گیا تھا، اس میں امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شامل تھا۔

بلنکن نے افغان صدر کو اپنے خط میں واضح کیا ہے کہ واشنگٹن نے جائزہ مکمل نہیں کیا، 'ہم اپنی فوج کا یکم مئی تک مکمل انخلا پر غور کر رہے ہیں، جس طرح ہم دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہیں'۔

افغانستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل میں تعطل کے بعد کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ وہ سخت حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ حکومت امن مذاکرات آگے بڑھانے کی خاطر نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے تیار تھی۔

افغان عہدیداروں اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے دورے میں ملک سے باہر افغان قیادت کی بڑی کانفرنس کے بعد ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

دوسری جانب دوحہ میں موجود طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ انہیں امن عمل کے حوالے سے ایک مجوزہ مسودہ موصول ہوا ہے اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے اس منصوبے کی سختی سے مخالفت کی تھی کہ عبوری حکومت قائم کی جائے اور کہا تھا کہ کوئی بھی نئی حکومت انتخابات کے ذریعے منتخب ہونی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں