نیپال میں پراسرار طورپر لاپتہ ہونے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل حبیب ظاہر کو ملازمت دینے کے لیے جہاز کا ٹکٹ بھیج کر بلایا گیا تھا جہاں ان کی اپنے اہل خانہ سے آخری مرتبہ رابطہ بھارت کی سرحد کے قریبی علاقے لمبینی سے ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے سابق کرنل حبیب ظاہر دوروز قبل نیپال پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے وزارت خارجہ کو آگاہ کیا تھا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کھٹمنڈو میں پاکستانی امور کے ذمہ دار جاوید عمرانی نے کہا کہ 'ہم نے نیپالی وزارت خارجہ کو پاکستانی شہری کی گمشدگی سے آگاہ کیا ہے لیکن ابھی ہمیں ان کے جواب کا انتظار ہے'۔

ریٹائرڈ کرنل کی گمشدگی کی اطلاع ابتدائی طور پر فوج کے سابق افسران کے سوشل میڈیا کے گروپ میں سامنے آئی تھی جہاں سے یہ خبر میڈیا نے اٹھائی تھی۔

اطلاعات کے مطابق حبیب ظاہر 2014 میں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے جہاں وہ آرٹلری سے تعلق رکھتے تھے جبکہ نیپال جانے سے قبل وہ ایک نجی فرم میں کام کررہے تھے اور ملازمت کے لے آن لائن اپنے کوائف جمع کررکھے تھے۔

ان کی گمشدگی کی حوالے سے ملنے والی عام اطلاعات کے مطابق مارک تھامسن نامی شخص نے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا اور حبیب ظاہرکو انٹرویو کیلئے کھٹمنڈو بلایا تھا جس کے لیے اسی شخص نے جہاز کا ٹکٹ بھی بھجوا دیا تھا۔

کرنل حبیب ظاہر بدھ کو لاہور سے نیپال کے لیے روانہ ہوئے اور جمعرات کو کھٹمنڈو پہنچے اور وہاں سے لمبینی پہنچ گئے جہاں ان کا استقبال کرنے والے جاوید انصاری نے نیپالی موبائل فون سم کاررڈ بھی فراہم کیا۔

حبیب ظاہر نے آخری پیغام خیریت کے ساتھ لمبینی پہنچنے کا دیا جس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

را کے ملوث ہونے کا خدشہ

کرنل حبیب کے اہل خانہ اور دوستوں کے مطابق برطانوی نمبر سے انٹرویو کے لیے آنے والا فون کمپیوٹرائزڈ تھا جبکہ ای میل اور اس سے منسلک ویب سائٹ کا ڈومین بھارت میں رجسٹرڈ ہے جس کے باعث تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ اس اغو کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

بھارت ہمیشہ سے نیپال پر ہمالیہ کے اہم معاشی اور دفاعی شراکت دار ملک کی حیثیت سے بڑا اثر ورسوخ رکھتا ہے، نیپالی فوجیوں کو بھارت میں تربیت دی جاتی ہے اور نیپال کو اسلحہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

ناقدین بھارت کے نیپال کے ساتھ تعلقات کو 'نیم نو آبادیاتی' سے تعبیر کرتے ہیں۔

بھارت خفیہ ایجنسی را کے ذریعے نیپال پر اپنا اثر رسوخ چلاتا ہے یاد رہے کہ نیپالی حکومت نے گزشتہ سال را پر حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام دیتے ہوئے صدر بدیا بھاندری کا دورہ بھارت بھی منسوخ کیا تھا۔

تاہم بعد ازاں تعلقات میں کشیدگی کم ہوئی تھی اور را اپنے پنجے وہاں برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔

یونیورسٹی آف لندن کے نیپالی اینڈ ہمالیان اسٹڈیز کے پروفیسر مائیکل ہٹ نے ایک مرتبہ بی بی سی کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ 'بھارت، نیپال میں ایک سیاسی کھلاڑی ہے جس طرح نیپال کی کوئی بھی سیاسی جماعت ہے'۔

پاکستان میں گزشتہ سال گرفتار ہونے والے را کے افسر کلبھوشن یادیو کا تعلق بھی بھارت سے ہے اور ان پر یہاں بھی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں