سوات میں سیلاب اور طالبانائزیشن کے بعد حالات کیسے ہیں؟

سرِ دست مشہور فارسی گو شاعر انوریؔ کے یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں

ہر بلائے کز آسماں آید
گرچہ بردیگرے قضا باشد
برزمین تارسیدہ می پرسد
خانہ انوری کجا باشد

سادہ الفاظ میں اس کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ جو بلا یا مصیبت بھی آسمان سے اترتی ہے، تو مصیبت چاہے کسی اور جگہ کے لیے کیوں نہ ہو، زمین پر پہنچنے سے پہلے ’خانہ انوریؔ‘ یعنی انوریؔ کے گھر کا پتا پوچھتی ہے۔

آج اگر انوریؔ زندہ ہوتے، تو ضرور ’خانۂ انوری‘ کی جگہ وادی سوات رقم فرماتے۔ ایک بلا ابھی ٹلی نہیں ہوتی کہ دوسری گلے پڑجاتی ہے۔

25 اگست 2022ء کو سوات میں سیلاب کی صورت جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں جو نقصان ہوا، اس کے اعداد و شمار ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے 2 ستمبر 2022ء کو کمشنر مالاکنڈ ڈویژن شوکت علی یوسفزئی نے اپنے دفتر میں میڈیا کو بریفنگ دی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ سیلاب کا حجم 2010ء کے مقابلے میں دوگنا تھا۔

حالیہ سیلاب سے کتنا نقصان ہوا؟

سوات کی ایک مقامی نیوز ویب سائٹ باخبر سوات ڈاٹ کام کی 3 ستمبر 2022ء کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق کمشنر مالاکنڈ ڈویژن شوکت علی یوسفزئی نے اپنے دفتر میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ سیلاب کا حجم 2010ء کے مقابلے میں تقریباً دوگنا تھا، مگر ماضی قریب میں سوات میں بہترین کام ہونے کی وجہ سے سیلاب نے مقامی آبادیوں کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جو ماضی میں دیکھنے میں آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب اور دیگر واقعات میں مالاکنڈ ڈویژن میں 66 افراد جاں بحق اور 47 زخمی ہوئے۔ 2 ہزار 336 رہائشی مکانات مکمل تباہ ہوگئے اور 3 ہزار 197 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ 438 اسکول اور 35 مراکزِ صحت متاثر ہوئے۔ 517 سڑکیں اور 141 پُل سیلاب میں بہہ گئے۔ 183 اریگیشن چینل متاثر، 711 مویشی ہلاک، 13 اسپورٹس سہولیات اور 50 مقامی بجلی گھر متاثر ہوئے۔ اس طرح 52 ہزار 841 نجی املاک کو نقصان پہنچا۔

مالاکنڈ ڈویژن میں کون سا ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوا؟

روزنامہ مشرق کے مطابق کمشنر مالاکنڈ ڈویژن نے اپنی پریس بریفنگ میں 2 اضلاع کو زیادہ متاثر قرار دیا۔ ان کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن میں سوات اور دیر بالا بُری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ بالائی اور زیریں چترال، لوئر چترال اور شانگلہ میں بھی سیلاب نقصان کا باعث بنے ہیں۔

جہاں تک بات سیاحتی علاقے سوات کی ہے تو یہاں پورے کے پورے محلے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک محلہ مدین کے علاقے چیل کا بھی تھا، جسے ’چیل ڈپو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مدین کے علاقہ چیل کے ڈپو کا پورا گاؤں دریائے سوات میں بہہ گیا اور اس گاؤں میں ایک خاندان بھی آباد تھا۔ اس خاندان کا سربراہ کراچی میں تھا مگر جیسے ہی اسے خبر ملی تو دل کا دورہ پڑنے سے اس کا بھی انتقال ہوگیا۔

   چیل ڈپو محلے تک جانے والا پُل جسے حالیہ سیلاب میں کافی نقصان پہنچا ہے— تصویر: لکھاری
چیل ڈپو محلے تک جانے والا پُل جسے حالیہ سیلاب میں کافی نقصان پہنچا ہے— تصویر: لکھاری

   تحصیل بحرین کے علاقے قندیل میں سیلاب کی نذر ہونے والا پُل، جس کا آدھا حصہ گر گیا— تصویر: لکھاری
تحصیل بحرین کے علاقے قندیل میں سیلاب کی نذر ہونے والا پُل، جس کا آدھا حصہ گر گیا— تصویر: لکھاری

بہہ جانے والے گاؤں چیل ڈپو کے رہائشی حضرت فقیر کے مطابق ’گاؤں میں 14، 15 گھر تھے، جس میں ایک ہی خاندان کے افراد رہائش پذیر تھے۔ ساتھ میں ہر گھر والے کی زرعی زمین تھی۔ سیلاب کا پانی جب ہمارے گاؤں میں داخل ہورہا تھا تو ہم نے بھاگ کر جان بچائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں اور زرعی زمین ہماری آنکھوں کے سامنے چند منٹوں میں بہہ گئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا بڑا بھائی اور خاندان کا سربراہ مزدوری کی غرض سے کراچی میں تھا۔ وہ یہ خبر سن کر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا‘۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں کی تمام خواتین کو قریبی گاؤں کے گھروں میں منتقل کیا گیا ہے جبکہ گھر کے مرد کھلے آسمان تلے سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس روز میں خود رپورٹنگ کے لیے چیل ڈپو میں موجود تھا۔ مجھے کسی نے ایک لڑکے سے ملوایا جو چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، دراصل کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہونے والا شخص اس بچے کا والد تھا۔ اس نے بڑی معصومیت سے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ جب اسے جگایا جا رہا تھا، تو اندھیرا تھا۔ ’مجھے کہا گیا کہ جلدی اٹھو، سیلاب آگیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بھی سیلاب کی نذر ہوجائیں۔ میں جلدی جلدی اٹھا اور سامنے کھیتوں کی طرف بھاگ نکلا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ پانی کی مقدار آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی۔ پہلے ہمارے گھر کی سامنے والی دیوار گری، اس کے بعد ایک ایک کرکے تمام دیواریں زمین بوس ہوئیں اور آخر میں چھت گر پڑی۔ اپنے گھر کو یوں پانی میں بہتے ہوئے دیکھا، تو میرے آنسو نکل آئے‘۔

ابھی وہ معصوم انٹرویو دے ہی رہا تھا کہ کسی نے اسے آواز دی کہ تمہارے والد کی میت پہنچ چکی ہے۔ وہ انٹرویو بیچ میں چھوڑ کے بھاگ نکلا۔ چیل گاؤں کے لکڑی سے بنے پُل پر اس کے والد کی میت لائی جا رہی تھی۔

   سیلاب سے پہلے سوات کے بحرین بازار کا منظر— تصویر: لکھاری
سیلاب سے پہلے سوات کے بحرین بازار کا منظر— تصویر: لکھاری

   بحرین بازار میں ایک ہوٹل سے سیلاب کے بعد ریت نکالی جا رہی ہے— تصویر: لکھاری
بحرین بازار میں ایک ہوٹل سے سیلاب کے بعد ریت نکالی جا رہی ہے— تصویر: لکھاری

   بحرین بازار کا سیلاب کے بعد کا منظر— تصویر: لکھاری
بحرین بازار کا سیلاب کے بعد کا منظر— تصویر: لکھاری

متاثرین میں ہر شخص کی کہانی دوسرے سے مختلف ہے

سیلاب کے ایک ہفتے بعد میں بحرین کی صورتحال جاننے گیا۔ بازار سے گزرتے ہوئے میں وہاں ہونے والی تباہی کی تصاویر لے رہا تھا کہ ریت پر کھڑے ایک شخص نے مجھے آواز دی۔ میں اس کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نئی ہائی ایس گاڑی (جسے مقامی طور پر فلائنگ کوچ کہتے ہیں) ریت میں دبی ہوئی ہے اور اسے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس شخص کا نام عبدالحمید تھا اور س نے اپنا دکھڑا سناتے ہوئے بتایا کہ اس نے 3 ماہ قبل اقساط پر نان کسٹم پیڈ ہائی ایس خریدی، جس میں وہ بحرین تا مینگورہ اور مینگورہ تا بحرین سواریاں لایا اور لے جایا کرتا تھا۔ اس کام میں روزانہ اس کو دو ڈھائی ہزار تک بچت ہوا کرتی تھی۔

عبدالحمید نے بتایا کہ ’بچت سے میں ماہانہ گاڑی کی قسط دیتا تھا اور گھر کا چولہا جلاتا تھا، لیکن 25 اگست کو جب گاڑی کھڑی کرکے گھر گیا، تو رات کو سیلاب میں میری گاڑی پھنس گئی۔ جب 2، 3 دن بعد پانی اترا تو پورا بحرین بازار آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ میں متعلقہ جگہ آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں تو ریت ہی ریت پڑی تھی۔ آج پورے ایک ہفتے بعد ریت ہٹاتے ہٹاتے مجھے اپنی گاڑی اس شکل میں ملی ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ بچت کو تو گولی ماریں، گاڑی کی اقساط کا کیا کروں گا؟‘

وہ بہت تکلیف دہ منظر تھا جس میں عبدالحمید کا چھوٹا سا بچہ ریت کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنی گاڑی کو بے بسی سے تک رہا تھا۔ شاید ایسے ہی کسی موقع پر شاعر کہہ گئے ہوں گے کہ

آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دوہری دھار کا خنجر چلے

   عبدالحمید کا بیٹا اپنی گاڑی کو بے بسی سے تک رہا ہے— تصویر: لکھاری
عبدالحمید کا بیٹا اپنی گاڑی کو بے بسی سے تک رہا ہے— تصویر: لکھاری

سوات ارضی آفات کا بھی شکار ہے

یہ تو رہی سماوی آفت یعنی سیلاب کی داستان۔ اب آتے ہیں ایک ارضی آفت یعنی طالبانائزیشن کی طرف۔

7 اور 8 اگست 2022ء سے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ سوات میں طالبان واپس آگئے ہیں۔ 7 اور 8 اگست کی درمیانی شب تحصیل مٹہ کے علاقہ چپریال کے پولیس اسٹیشن پر حملے کی خبر نے ان افواہوں کو حقیقت کا رنگ دیا۔ اس کے بعد 13 ستمبر 2022ء کو شام کے وقت سوات کے برہ بانڈئی میں امن کمیٹی کے سربراہ کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ہلاک کردیا گیا۔

پہلے روز کی اطلاعات کے مطابق امن کمیٹی کے سربراہ ادریس خان اپنے 2 ساتھیوں اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت جاں بحق ہوگئے تھے۔ دوسرے روز کی اطلاعات کے مطابق جائے وقوعہ سے مزید 3 لاشیں برآمد ہوئیں، جس سے جاں بحق افراد کی تعداد 8 ہوگئی۔

ایک عرصے سے سوات میں بم دھماکوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا جس کی وجہ سے اہلِ سوات نے سکھ کا سانس لیا تھا، لیکن پہلے طالبان کی آمد اور پھر پولیس اسٹیشنوں پر حملوں اور آخر میں بم دھماکے نے پوری وادی کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

اغوا برائے تاوان کے واقعات

ان آفات و حادثات کے بعد اہلِ سوات کے لیے ایک چونکا دینے والی خبر مختلف افراد کے اغوا ہونے کی تھی۔ 9 اگست کو 3 افراد کو اغوا کیا گیا جن میں ایک پولیس ڈی ایس پی اور 2 فوجی افسران تھے۔ اس کے بعد ایک شخص کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔ باخبر سوات ڈاٹ کام کی 9 ستمبر 2022ء کی خبر کے مطابق سوات کی تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقے بالا سور میں مسلح شدت پسندوں نے ایک شخص کو تاوان کے لیے اغوا کرلیا۔

مغوی کے بھائی محمد حیات ولد عبدالمتین نے سی ٹی ڈی پولیس کو بتایا کہ گزشتہ روز ان کا بھائی محمد فروش قریبی پہاڑی پر گیا تھا اور شام تک واپس نہ آیا۔ اس کے بعد بھائی کے موبائل فون سے عبدالمتین کے بیٹے محمد اسحٰق کے نمبر پر فون آیا۔ فون کرنے والے نے اپنے آپ کو کالعدم تحریک طالبان کا کمانڈر بتاتے ہوئے کہا کہ محمد فروش ہمارے قبضے میں ہے۔ اس کی رہائی کے لیے جلد از جلد ایک کروڑ روپے تاوان پہنچا دیں ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔

سی ٹی ڈی پولیس مالاکنڈ ریجن نے نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف دفعات PPC365A اور 7ATA کے تحت ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کردی۔

12 ستمبر 2022ء کو خبر آئی کہ مغوی کو رہا کردیا گیا۔ اس کے بعد تو جیسے نامعلوم اغوا کاروں کی چاندی ہوگئی۔ 14 ستمبر 2022ء کو خبر گردش کرنے لگی کہ چپریال میں ایک نجی موبائل کمپنی کے 7 افراد کو اِغوا کرلیا گیا ہے۔ 15 ستمبر 2022ء کے روزنامہ مشرق پشاور نے یہ خبر شائع کی کہ تحصیل مٹہ کے علاقہ چپریال سے اغوا کیے گئے نجی موبائل کمپنی کے 7 میں سے 5 اہلکاروں کو شدت پسندوں نے رہا کردیا ہے۔ جن لوگوں کو رہا کیا گیا وہ مزدور تھے جبکہ مغوی انجینیئروں کی رہائی کے لیے شدت پسندوں نے 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس دوران ایک خبر یہ بھی آئی کہ الخدمت فاؤنڈیشن سوات کے سابق صدر آفتاب احمد کو اغوا کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جو خبر چلی وہ یہ تھی کہ مینگورہ سے الخدمت فاونڈیشن سوات کے سابق صدر آفتاب احمد کو مسلح افراد نے تاوان کے لیے اغوا کیا۔ آفتاب احمد نے مینگورہ کے تھانہ بنڑ میں درج رپورٹ میں پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے گھر دامانے، نویکلے جارہے تھے کہ ٹیلی نار ٹاور کے قریب مسلح افراد نے انہیں اغوا کیا۔ اغوا کاروں میں سے ایک شخص نے اپنا نام سیف الرحمٰن بتایا اور اپنا تعارف کالعدم تحریک طالبان سوات کے کمانڈر کے طور پر کروایا۔ اس نے ایک ہفتہ کے اندر ایک کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جس کے بعد مجھے واپس گھر کے پاس چھوڑا گیا اور ایک ہفتے کے اندر تاوان کی رقم ادا کرنے کا کہا۔

یہ خبر پوری وادی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد اہلِ ثروت شہریوں کو بھتے کے لیے فون موصول ہونے لگے۔ باقاعدہ طور پر مینگورہ شہر کے تھانوں میں رپورٹیں درج ہونے لگیں۔ ایک کارروائی میں ایک ملزم پولیس کے ہتھے بھی چڑھا۔ ایک خبر کے مطابق سوات پولیس نے 30 لاکھ روپے بھتہ مانگنے والے کو گرفتار کرلیا۔ وہ شخص سعید اللہ ساکن بنڑ سے 30 لاکھ روپے مانگ رہا تھا اور بھتہ نہ دینے پر اس کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ ڈی ایس پی بادشاہ حضرت اور ایس ایچ او انور خان پر مشتمل تفتیشی ٹیم نے تفتیش کرتے ہوئے ملزم محمد زیب ساکن بلو خان دیر لوئر کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا

ان واقعات کے اہلِ سوات پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

ان واقعات کا سب سے بڑا اثر تو سوات کی سیاحت پر پڑا۔ تمام ہوٹل اور ریسٹورنٹ ویران پڑے ہیں۔ اس طرح کاروبار بھی ٹھپ پڑا ہے۔ گویا کاروبارِ زندگی یکسر مفلوج ہے۔ مینگورہ بائی پاس (فوڈ اسٹریٹ) جہاں رات گئے تک سیاحوں اور مقامی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا وہاں اب مقامی منچلے بھی انتہائی کم تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔

نفسیاتی امراض

ڈاکٹر اشفاق حسین (اسسٹنٹ پروفیسر سائیکاٹری سیدو شریف ٹیچنگ اسپتال سوات) کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آفات چاہے ارضی ہوں یا سماوی، ان کا انسانی ذہن پر اثر لازمی پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ اثر ان لوگوں کے ذہن پر پڑتا ہے جو کسی آفت سے براہِ راست متاثر ہوجائیں۔

اس طرح کمزور اعصاب والے چاہے براہِ راست متاثر نہ بھی ہوں، ان کے ذہن پر بھی اثرات پڑتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے مخصوص مریض ہوتے ہیں۔ سیلاب کے بعد راستوں کی بندش کی وجہ سے انہیں کلینک آتے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جب سے دہشتگردی کی لہر اٹھی تو اچنبھے کی بات یہ ہے کہ مٹہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے 2، 3 پولیس اہلکار مختلف وقتوں میں کلینک آئے۔ ان کے اعصاب پر خوف سوار تھا‘۔

ڈاکٹر اشفاق حسین یہ بھی کہتے ہیں کہ اہلِ سوات ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں ارضی و سماوی آفات کا زیادہ شکار رہتے ہیں، اس لیے ان میں مقابلے کی طاقت زیادہ ہے۔

دوسری طرف مینگورہ شہر میں ایک میڈیکل اسٹور چلانے والے شہری ارشد (فرضی نام) نے بتایا کہ آج کل نشہ آور ادویات (Tranquilizer Drugs) کا استعمال زیادہ ہوچکا ہے۔ ارشد کے بقول ’بیشتر جان پہچان والے لوگ ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ڈاکٹری نسخہ نہیں ہوتا، مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ وقتی سکون کے لیے ادویات مانگ رہے ہیں تو ہم دے دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بازار میں سکون پہنچانے والی ادویات نایاب ہیں‘۔

اس حوالے سے سوات کے ایک نجی ری ہیبلی ٹیشن سینٹر ’نوے جوند‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر ریاض احمد حیران کہتے ہیں کہ عموماً سیلاب یا حالیہ صورتحال کی وجہ سے لوگوں کی نشہ آور ادویات کی طرف رغبت عام حالات کی نسبت زیادہ ہے۔ لوگ وقتی طور پر سکون حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

مگر ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس بار دہشتگردوں کے خلاف اہلِ سوات ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اب تک سوات کی تحصیل بابوزئی (مینگورہ) اور تحصیل کبل میں 2 بار، تحصیل مٹہ میں ایک بار دہشتگردوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں زیادہ تر تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی دیکھی گئی۔ ایسے والدین بھی دیکھے گئے جو اپنے بچوں کو احتجاج میں ساتھ لائے تھے۔

   تحصیل کبل میں دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بچے بھی شامل ہیں— تصویر: لکھاری
تحصیل کبل میں دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بچے بھی شامل ہیں— تصویر: لکھاری

جتنا میرا مشاہدہ ہے اس کی مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب کی بار کم از کم سوات میں دہشتگردوں کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ جہاں 4 سال کے ایک معصوم بچے سے لے کر 80، 85 سال کا بزرگ تک امن کا سفید جھنڈا ہاتھ میں لیے شہر کے چوکوں، چوراہوں میں کھڑا ہوجائے، وہاں کی فضاؤں میں امن کے شادیانے بجتے دیر نہیں لگتی۔ شاید اسی لیے جب سے مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے، تب سے دہشتگردوں کی طرف سے بھی خاموشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔