• KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:18am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:13am Sunrise 4:57am
  • KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:18am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:13am Sunrise 4:57am

کیا اسرائیل اور حماس کے رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آئے گی؟

یہ پہلا موقع ہے کہ جب انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے ایک ایسے سربراہِ مملکت کے خلاف فیصلہ دیا ہے جسے مغرب کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔
شائع May 22, 2024

دوسری جنگِ عظیم کے بعد چلنے والے نیورمبرگ ٹربیونل کی افتتاحی تقریر میں امریکی جج رابرٹ جیکسن نے مشہورِ زمانہ وعدہ کیا تھا، ’یکے بعد دیگرے جنگیں جو عالمی قوانین نہ ہونے کی وجہ سے ناگزیر ہیں، اس سے اجتناب کا راستہ یہی ہے کہ ریاستوں کو قانون کی پاسداری کا ذمہ دار بنایا جائے۔ اور میں واضح کرتا چلوں کہ یہ جہاں سب سے پہلے جرمن جارحیت پسندوں کے خلاف لاگو ہوتا ہے وہیں اگر یہ قانون کارآمد ثابت ہوسکے تو یہ دیگر اقوام کی جانب سے جارحیت کی مذمت کرے گا اور ان میں وہ اقوام بھی شامل ہوں گی جو آج یہاں فیصلہ لینے بیٹھی ہیں‘۔

79 سال بعد یہ وعدہ پورا ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) نے ایک ایسے سربراہِ مملکت کے خلاف فیصلہ دیا ہے جسے مغرب کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔

  امریکی جج رابرٹ جیکسن کی نیورمبرگ ٹرائل میں افتتاحی تقریر—تصویر: ایکس
امریکی جج رابرٹ جیکسن کی نیورمبرگ ٹرائل میں افتتاحی تقریر—تصویر: ایکس

کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں؟

20 مئی 2024ء کو آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے اعلان کیا کہ انہوں نے عالمی عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتین یاہو اور وزیرِدفاع یوآو گلانٹ سمیت حماس رہنماؤں اسمعٰیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور محمد دیاب کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔

حماس رہنماؤں کے خلاف الزامات میں یرغمالی بنانا، یرغمالیوں کا ریپ اور جنسی استحصال، عقوبت، ظالمانہ سلوک اور قتل کرنا شامل ہیں۔ نیتن یاہو اور یوآو گلانٹ کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے، دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے، محکوم بنانے، ظالمانہ سلوک اور قتل کے الزامات شامل ہیں۔

اگرچہ وارنٹ گرفتاری متوقع تھے لیکن ان دونوں فریقین نے اس وسیع نوعیت کے جرائم کے الزامات کی توقع نہیں کی تھی۔ جب یوکرین پر حملے کے بعد صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے تب ان پر یوکرین سے غیرقانونی طور پر بچوں کو ملک بدر کرنے کا ہی الزام تھا۔ اس جرم کا اعتراف انہوں نے ریاستی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ زیادہ الزامات لگا کر پراسیکیوٹر امید کررہے ہوں کہ جب عدالتی سماعت کے دوران ان الزامات کی تصدیق یا ٹرائل میں اس حوالے سے تحقیق ہوگی تو ان میں سے کچھ تو الزامات درست ثابت ہوجائیں گے۔

زیرِ بحث مقدمے میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں لیکن نسل کشی کا الزام شامل نہیں۔ اس کا عالمی عدالت برائے انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر درخواست پر اثر پڑسکتا ہے۔ جب عالمی عدالت نے سریبرینیکا کو نسل کشی کا مرتکب پایا تو اس نے جرائم کے عالمی ٹربیونل کے اخذ کردہ نتائج پر انحصار کیا جس کے تحت عالمی عدالت نے سابق یوگوسلاویہ کو نسل کشی کے جرم کا مرتکب پایا۔ اسرائیل کے معاملے کی بات کریں تو جب آئی سی سی نے اپنی رپورٹ میں نسل کشی کے کوئی شواہد فراہم ہی نہیں کیے تو یہ امکان کم ہی ہے کہ عالمی عدالت جنوبی افریقہ کی درخواست کے فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب ٹھہرائے۔

پراسیکیوٹر کریم خان نے ’قتل عام‘ کی اصطلاح شامل کرکے نسل کشی کو حذف کردیا۔ کسی تنظیمی پالیسی یا ریاست کی جانب سے شہری آبادی پر منظم حملوں کے طور پر قتل عام کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ فلسطینیوں کو ختم کرنے کے اسرائیلی نسل کش ارادوں کو ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے جو اصطلاح پراسیکیوٹر نے استعمال کی اور یہی وہ تعریف ہے جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔

استدعا منظور ہوگئی تو آگے کیا ہوگا؟

اب پراسیکیوٹر اپنی درخواست پری ٹرائل چیمبر میں جمع کروائیں گے جو یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا ان الزامات کو قبول کیا جائے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے اور ملزمان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو ان الزامات کی بنیاد پر ان پر ٹرائل چلایا جائے گا۔ آئی سی سی میں ملزمان کی عدم موجودگی میں ٹرائل نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل 5 ارکان (بشمول امریکا) کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عالمی عدالت میں ایک سال تک کسی بھی مقدمے کو مؤخر کرسکتے ہیں۔ التوا کے خواہشمند کسی بھی رکن کو ویٹو کے بغیر (جس کا امکان کم ہی ہے) اپنے حق میں صرف 9 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

دوسری جانب حماس کے رہنماؤں بالخصوص اسمعٰیل ہنیہ جو قطر میں مقیم ہیں، انہیں عالمی عدالت کے حوالے کیا جاسکتا ہے اور جہاں تک نیتن یاہو کا ذکر ہے تو ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے وہ فائدے میں ہیں۔ یہ سوال اس وقت بھی کھڑا ہوا تھا جب سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف آئی سی سی نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

چونکہ آئی سی سی کے پاس اپنی پولیس نہیں ہے اس لیے گرفتاریوں کے لیے اسے متعلقہ ریاستوں کی پولیس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے قبل عدالت اپنے 124 اراکین (ان میں پاکستان شامل نہیں جو عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کو قبول نہیں کرتا) کو پابند کرچکی ہے کہ ان کے لیے عالمی عدالت کے جاری کردہ وارنٹ پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے اور وہ اپنے ملک میں مقیم اس شخص کو گرفتار کریں جن کے خلاف عالمی عدالت نے وارنٹ جاری کیے ہیں۔

بہت سے ممالک اس طرح کی درخواستوں کو مسترد کرچکے ہیں۔ عمر البشیر کے حوالے سے مشہور ہے کہ انہوں نے 22 ممالک میں سفر کیا لیکن ان میں سے کسی ملک نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ موجودہ وقت میں ایسے 17 ملزمان ہیں جن کے خلاف آئی سی سی نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے لیکن وہ مفرور ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ عمر البشیر اور ولادیمیر پیوٹن دونوں کو گرفتاری سے استثنیٰ حاصل تھا اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ بھی ایسا ہی کوئی معاملہ ہوگا۔ ریاست کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے کی وجہ سے وہ استغاثہ سے محفوظ رہیں گے اور ان کی گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔

  عمر البشیر 22 ممالک کا سفر کرچکے ہیں لیکن کسی ملک نے انہیں گرفتار نہیں کیا—تصویر: اے ایف پی
عمر البشیر 22 ممالک کا سفر کرچکے ہیں لیکن کسی ملک نے انہیں گرفتار نہیں کیا—تصویر: اے ایف پی

تاہم مغربی ممالک اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف وارنٹ گرفتاری کو ’جائز‘ قرار دیا تھا لیکن ان کے اسٹیٹ سیکریٹری اینٹونی بلنکن نے نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ کی استدعا کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔ اسی دوران یورپی یونین نے عمر البشیر کو گرفتار نہ کرنے پر افریقی ریاستوں پر تنقید کی۔

اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ ریاستیں نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری پر کیا ردعمل دیتی ہیں بالخصوص جرمنی جس نے کہا تھا کہ پیوٹن کے خلاف وارنٹ گرفتاری ظاہر کرتا ہے کہ ’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں‘ اور اس نے عمر البشیر کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی حمایت بھی کی تھی اور ساتھ ہی سوڈان سے کہا کہ وہ اس معاملے کو ’پُرامن انداز‘ میں سنبھالے۔ تو اب نیتن یاہو کے لیے میونخ میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کا امکان خارج ہوجانا چاہیے۔

کیا کرمنل جسٹس کارگر ثابت ہوگا؟

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب یہ سوچا جارہا تھا کہ شکست خوردہ نازیوں کے ساتھ کیا کیا جائے تو سوویت یونین کے جوزف اسٹالن نے تجویز دی کہ انہیں مار دینا چاہیے۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ان سے اتفاق کیا اور کہا کہ انہیں گولی مار دینی چاہیے۔ تاہم امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے اتفاق نہیں کیا اور باقی دونوں رہنماؤں کو عالمی عدالت میں نازیوں کے خلاف ٹرائل چلانے پر آمادہ کیا۔ جسٹس رابرٹ جیکسن نے (انتہائی خوبصورتی سے) ریمارکس دیے تھے کہ ’چار عظیم قومیں جو فاتح ہیں اور نقصانات کا بھی سامنا کیا ہے، انتقام کی آگ میں سلگ رہے تھے لیکن انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اسیروں کو قانون کے کٹہرے میں پیش کیا جوکہ ایک بہت اہم خراجِ تحسین ہے جو طاقت نے منطق کو دیا ہے‘۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جرائم کے خلاف عالمی قوانین کا جنم نیورمبرگ ٹرائلز کے موقع پر ہوا۔

ایک اہم وجہ جس کے لیے نیورمبرگ کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس ٹرائل سے نازی رہنماؤں کی کمر ٹوٹ گئی اور اس سے مغربی خیالات اور اقتدار کے مطابق جرمن شہریوں کو ڈھالنے میں مدد ملی۔ لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ نیورمبرگ ٹرائلز نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ 1946ء سے 1958ء کے درمیان پر سال جرمنی میں رائے عامہ کے لیے پولز ہوئے جن میں جرمن باسیوں سے دو سوال کیے جاتے۔

  • کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہیرمان گوئرنگ اور دیگر نازی رہنما قصور وار تھے؟
  • کیا عالمی عدالت میں ہیرمان گوئرنگ اور دیگر نازیوں کا منصفانہ ٹرائل ہوا؟

ان 12 سالوں میں ہر سال 85 سے 90 فیصد جرمن شہریوں نے دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیا۔

  جرمن شہریوں کے نزدیک ہیرمان گوئرنگ کا منصفانہ ٹرائل نہیں ہوا—تصویر: ایکس
جرمن شہریوں کے نزدیک ہیرمان گوئرنگ کا منصفانہ ٹرائل نہیں ہوا—تصویر: ایکس

ان پولز کو 50 سالوں تک خفیہ رکھا گیا کیونکہ ان سے ظاہر ہوا کہ ٹربیونل لوگوں کو یہ شعور دینے میں ناکام رہا کہ درحقیقت جنگ کے دوران کیا ہوا تھا۔ ہیرمان گوئرنگ، چیف پراسیکیوٹر رابرٹ جیکسن سے دو قدم آگے رہے۔ انہوں نے عدالتی کارروائی کا فائدہ اٹھایا اور ریڈیو پر ٹرائل کی براڈکاسٹنگ نے نازی پروپیگنڈے کو مزید تقویت دی۔ بعدازاں سربیا کے صدر سلوبوڈان میلوشیویچ بھی ہیرمان گوئرنگ کے نقشِ قدم پر چلے اور اپنے خلاف عالمی عدالت کی کارروائی کی مدد سے انہوں نے بھی اپنی پوزیشن مستحکم کی اور اپنے ٹرائل کے دوران ہی وہ انتخابات جیتنے میں کامیاب رہے۔ انہیں مہم تک چلانی نہیں پڑی۔

مجھے اس حوالے سے شکوک ہیں کہ کیا کرمنل جسٹس وہ تقاضے پورے کرسکتا ہے جس کی ہم اس سے امید کرتے ہیں جیسے کیا یہ ان مجرمان کو جرائم سے روکنے میں کامیاب ہوگا، کیا وہ دیرپا امن میں اپنا کردار ادا کرے گا یا یہ ان لوگوں کی صرف مذمت کرے گا جو ایسے کام کرتے ہیں جو بطور انسان ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں؟

کچھ لوگوں کے نزدیک جب سربراہِ مملکت دی ہیگ میں ٹرائل کا سامنا کرتے ہیں تو غیرمقبول رہنماؤں کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ دوسرے ممالک کا ان کے لیڈر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے خیال کی وجہ سے وہ اپنے لیڈر کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔

لیکن انصاف کے حصول کی اس کوشش کا اصل مقصد یہ نہیں کہ اس سے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے بلکہ یہ تو تاریخ کے اوراق میں اضافے کے لیے ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں دیکھ سکیں کہ کس طرح طاقت کے بجائے منطق سے کام لیا گیا۔ اور جب مظالم ہورہے تھے، ہم نے انہیں روکنے کی کم از کم کچھ تو کوشش کی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عائشہ ملک

لکھاری اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتی تھیں، اور آج کل جنوبی سوڈان میں کام کر رہی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر AyeshaAMalik@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔