آلودگی سے حل تک: ’ایشیائی ترقیاتی بینک کو قابلِ تجدید توانائی پر منتقلی میں ہماری مدد کرنا ہوگی‘
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کا 58واں سالانہ اجلاس 4 سے 7 مئی کو اٹلی کے شہر میلان میں ہونے جارہا ہے جبکہ اس وقت پاکستان کو گرمی کی شدید لہر کا سامنا ہے۔ اے ڈی بی کی تازہ ترین ’ایٹ دی گلانس‘ (2023ء) رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر بینک اپنی کُل سرمایہ کاری اور قرضوں کی لین دین کا 17 فیصد حصہ توانائی کے شعبے میں لگا رہا ہے جوکہ بتاتا ہے کہ اے ڈی بی پاکستان جیسے ممالک میں فوسل فیول پروجیکٹس سمیت بجلی کی پیداوار اور انفرااسٹرکچر کی مالی اعانت میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
اے ڈی بی کے این جی او فورم کا تخمینہ ہے کہ بینک نے پاکستان کے 74 توانائی کے منصوبوں میں 15.28 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ قابلِ تجدید توانائی سے زیادہ روایتی توانائی پر اس کی توجہ تشویش کا باعث ہے۔ 50.5 فیصد فنڈز قومی گرڈ کو جدید بنانے کے لیے مختص کیے گئے تھے، 17 فیصد روایتی توانائی کی توسیع (ایک ہزار 330 میگاواٹ) کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو کم سے کم فنڈنگ ملتی ہے۔ ہوا اور شمسی توانائی کے لیے مختص فنڈز واضح نہیں۔
سیدھی بات یہ کہ اے ڈی بی کی فوسل فیول توانائی پر توجہ اس کے پائیداری کے وعدوں کے منافی ہے جس سے ممکنہ طور پر پاکستان کے توانائی کی حفاظت اور ماحولیاتی اہداف کو نقصان پہنچتا ہے۔ فوسل فیول پر سرمایہ کاری ہوا کے معیار پر بھی اثرانداز ہوتی ہے جس سے پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم 2.5) میں اضافہ ہوتا ہے، ٹراپوسفیرک اوزون اور نائٹرس آکسائیڈ، غیر متناسب طور پر ملک پر صحت عامہ کے بحران، ماحولیاتی انحطاط اور معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
پالیسی اور عمل درآمد
ایشیائی ترقیاتی بینک کا 58واں سالانہ اجلاس فضائی آلودگی سے نمٹنے کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ فضائی آلودگی جو ایک اہم عالمی بحران ہے لیکن اجلاس کے ایجنڈا سے غائب ہے۔ اگرچہ اخراج کے ماحولیاتی اور صحت عامہ پر انتہائی خطرناک اثرات ہیں، اجلاس میں ابھی تک ایسے ٹھوس اقدامات کرنے کا عہد کرنا ہے جو اے ڈی بی کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی آلودگی کے اثرات کو کم کریں یا تکنیکی حل فراہم کرسکیں۔
رواں سال کے اجلاس میں سول سوسائٹی کی تنظیموں اور متاثرہ کمیونٹیز کے ساتھ تعمیری گفتگو شامل ہے۔ تاہم اس مکالمے پر بامعنی عمل ہونا چاہیے۔
ماحولیاتی آلودگی کرہِ ارض کے ہر کونے کو متاثر کررہی ہے، حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچا رہی ہے، صحت عامہ کے مسائل پیدا کررہی ہے جبکہ پیرس معاہدے میں طے پائے جانے والے 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف کے حصول کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ تاہم اے ڈی بی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ماحولیاتی نقصانات کے حوالے سے اصول تیار کیے ہیں لیکن پالیسی اور ان پر عمل در آمد کے درمیان ایک بڑا خلا ہے۔
پیرس معاہدہ میں ایک فریم ورک ہے جسے انہینسڈ ٹرانسپیرینسی فریم ورک (ای ٹی ایف) کہا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ممالک اور ادارے اپنے موسمیاتی اقدامات کے حوالے سے واضح اور ایماندار ہیں یا نہیں۔ لیکن اے ڈی بی جیسے بڑے قرض دہندگان اپنی ماحولیاتی پالیسیز یا توانائی کے منصوبوں کے ساتھ خود ان معیارات پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے ہیں۔
پیرس معاہدے کے ای ٹی ایف کو خراج کی تفصیلی رپورٹ چاہیے لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے ادارے اپنے منصوبوں بالخصوص کوئلے اور گیس کے حقیقی اثرات کو چھپاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں اے ڈی بی کی فنڈنگ سے چلنے والے کوئلے کے پلانٹس کی رپورٹ میں صرف کُل اخراج کا ذکر ہے لیکن مقامی آبادی اور ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے علاوہ پیرس معاہدہ زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائڈ پر مرکوز ہے جبکہ یہ قلیل مدتی آلودہ مواد جیسے میتھین اور بلیک کاربن کو نظرانداز کرتا ہے جوکہ تقریباً 45 فیصد گلوبل وارمنگ کا سبب بنتے ہیں اور اکثر یہ اے ڈی بی کے فوسل فیول پروجیکٹس کی وجہ سے خارج ہوتے ہیں۔
69 اراکین ممالک کے ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک طویل عرصے سے خود کو ’کلائمیٹ بینک‘ قرار دیتا آرہا ہے اور اپنے ماحولیاتی اور سماجی فریم ورک کے ذریعے خود کو پائیدار ترقی کا چیمپیئن کہہ رہا ہے۔ تاہم ماحولیاتی اور سماجی فریم ورک کے اصول سختی سے نافذ نہیں اس لیے انہیں اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے خاص طور پر جب بات لوگوں کو نقل مکانی، آلودگی اور مقامی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بچانے کی ہو۔ اس سے ماحولیات اور سماجی انصاف کے اہداف پر پورا اترنے کی بینک کی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں، گرین ہاؤس گیس پروٹوکول کی طرح اخراج کے مضبوط معیارات کی کمی کی وجہ سے اے ڈی بی پر صاف توانائی کے منصوبوں کے لیے دباؤ ڈالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان ایسی ترقی کررہا ہے جس سے آلودگی پھیل رہی ہے حالانکہ اے ڈی بی کا ایجنڈا تو ممالک کو پائیدار ترقی میں مدد فراہم کرنا ہے۔
اخراج کے مضبوط اصولوں اور ماہرین کی رہنمائی کی عدم موجودگی، صاف ٹیکنالوجی تک رسائی نہ ملنے یا نجی شعبے کی مدد کے بغیر پاکستان فوسل فیول پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس سے اس کی فضائی آلودگی اور ماحولیاتی مسائل مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ نقصان دہ گیسیز جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور ہوا میں چھوٹے ذرات، غریب اور کمزور کمیونٹیز کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو صحت کی اچھی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اور یہ معاشی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
زہریلی ہوا سانس کی بیماریوں کو بدتر بنا رہی ہے، صحت کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے اور جلد موت کا باعث بن رہی ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں پاکستان میں دل کے دورے، فالج، پھیپھڑوں کے مسائل اور کینسر جیسی بیماریوں میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
یہ بیماریاں پاکستان میں 50 فیصد سے زائد اموات کی ذمہ دار ہیں۔ پھیپھڑوں کے دائمی مرض سی او پی ڈی، دمہ اور اسٹروک سے قبل از اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح اس سے 10 سے 15 گنا زیادہ ہے جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) محفوظ سمجھتا ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ فضائی آلودگی سے متاثرہ دنیا کا تیسرا ملک ہے۔ یہ آلودگی بچوں کی صحت اور دماغی نشوونما کو نقصان پہنچا کر ان کے مستقبل کو محدود کرتی ہے جبکہ خاندان یونہی غربت میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے لیے نوکریاں تلاش کرنا، تعلیم حاصل کرنا یا صحت کی سہولیات تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ 2024ء میں لانچ ہونے والے اے ڈی بی کے نئے اپ ڈیٹڈ ماحولیاتی اور سماجی فریم ورک کا مقصد ماحولیاتی خطرات کو کم سے کم کرنا اور اس کے پروجیکٹس سے متاثرہ کمیونٹیز کی حفاظت کرنا ہے۔ فریم ورک 9 اہم معیارات کا احاطہ کرتا ہے جن میں ماحولیاتی اثرات کی جانچ کرنا، جبری آبادکاری سے نمٹنا، مقامی لوگوں کی حفاظت، کام کے منصفانہ حالات، حیاتیاتی تنوع کی حفاظت، آلودگی کو کنٹرول کرنا اور آب و ہوا میں لچک پیدا کرنا شامل ہیں۔
اے ڈی بی کے نئے فریم ورک میں سنگین مسائل ہیں۔ اس کے قوانین کا نفاذ سختی سے نہیں کیا گیا اور اب بھی اس میں خامیاں ہیں جو اسے کوئلے کے منصوبوں پر فنڈنگ کی اجازت دیتا ہے۔ یہ فیصلہ سازی میں مقامی کمیونٹیز، سول سوسائٹی گروپس یا خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو شامل کرنے میں بھی ناکام ہے۔ بینک توانائی کے ان ذرائع کی حمایت کرتا ہے جو ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے اصول اور احتساب کا نظام کتنا مؤثر ہے۔ یہ سب ماحولیاتی اور سماجی انصاف کے ضامن کے طور پر اے ڈی بی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کوئلے سے اخراج
حالیہ برسوں میں اے ڈی بی نے پاکستان میں کوئلے کی سرمایہ کاری کا یہ کہہ کر دفاع کرنے کی کوشش کی ہے کہ سپر کرٹیکل ٹیکنالوجی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والے صحت اور ماحولیات کے مسائل کو مکمل طور پر حل نہیں کرتی۔
اگرچہ سپرکریٹیکل پودے قدرے زیادہ کارآمد ہوسکتے ہیں، پھر بھی وہ پارٹیکولیٹ میٹر 2.5، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسے نقصان دہ آلودگی چھوڑتے ہیں۔ اس آلودگی کا تعلق براہ راست پھیپھڑوں کی بیماریوں، دل کے امراض اور متاثرہ کمیونٹیز میں قبل از وقت ہونے والی اموات سے ہے۔
درحقیقت پاکستان اور دیگر ممالک میں کاربن کے منصوبوں میں جمع شدہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو آئل ریکوری کے ذریعے تیل نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے فوسل فیولز کا استعمال کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کو زیرِزمین ذخیرہ کرنے کے اہم خطرات ہیں جس میں میتھین (ایسی گیس جو طویل مدتی میں کاربن ڈائی آکسائڈ سے 80 گنا زیادہ طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے) کی لیکیج اور زیرِ زمین پانی کی آلودگی شامل ہے۔
نقل مکانی اور زمینوں پر قبضہ
ایشیائی ترقیاتی بینک کی فنڈنگ سے چلنے والے فوسلز فیول پروجیکٹس نے پاکستان کی کمیونٹیز کے لیے سنگین سماجی مسائل پیدا کیے ہیں۔ کوئلے کے بڑے منصوبے جیسے سڑکیں اور بجلی کی لائنیں، سندھ اور پنجاب میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی ناردرن بائی پاس ہائی وے کے قریب رہنے والے لوگوں نے شکایات درج کروائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اے ڈی بی بے گھر افراد کی حفاظت کے لیے اپنے قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتا۔
دوسری جانب ٹھٹہ اور بدین کے کاشت کاروں کو پروجیکٹ کی بات چیت سے الگ رکھا گیا ہے جس نے 2021ء میں مظاہروں کی وجہ بنا تھا۔ حتیٰ کہ اے ڈی بی کی اپنی رپورٹس میں اعتراف کیا گیا کہ متاثرہ لوگوں کی شکایات سے نمٹنے میں انہیں مسائل کا سامنا رہا۔
اے ڈی بی کے توانائی کی منتقلی کے منصوبے اور شفافیت کے نظام اس بات کو حل کرنے میں ناکام ہیں کہ توانائی کے منصوبے خواتین کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ وہ اکثر خواتین کی صحت، زمین کے حقوق، زرعی نوکریاں، بغیر معاوضہ دیکھ بھال کا کام، صنفی بنیاد پر تشدد، توانائی تک رسائی اور گھریلو کرداروں میں تبدیلی جیسے مسائل کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ خواتین کی ملازمت یا محفوظ، منصفانہ کام کے حالات کی ضرورت پر بھی پوری طرح غور نہیں کرتے۔
دوسری جانب افرادی قوت جن حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے وہ بھی انتہائی ناقص ہے جہاں نہ ان سے مناسب معاہدے کیے جاتے ہیں نہ ہی محفوظ ماحول فراہم کیا جاتا ہے جبکہ ان کے حقوق بھی محدود ہیں حالانکہ اے ڈی بی کے ماحولیات اور سماجی فریم ورک کو تو انہیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
بینک کی احتسابی مکانزم پالیسی (2012ء) اس وقت زیرِ غور ہے جس میں لوگوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ قرض دہندہ ادارے کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پروجیکٹ سے متاثر ہونے والی کمیونٹیز، آلودگی، اپنی زمین سے بےدخلی اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ احتساب کا عمل بھی خاطر خواہ مددگار نہیں۔ مزید نقصان کو روکنے کے لیے میکینزم کو از سر نو ڈیزائن کرنے میں شفافیت اور متعلقہ افراد کی بامعنی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔
گرم موسم، فصل کی کاشت اور خوراک کا بحران
پاکستان کو اب انتہائی گرم موسم کا سامنا ہے جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں پہلے ہی گرمی سے متاثرہ علاقوں میں اے ڈی بی کی فنڈنگ سے چلنے والے کوئلے کے پروجیکٹس سے زرعی بحران مزید خراب ہوگا۔ ان پروجیکٹس میں میتھین، اوزون اور بلیک کاربن خارج ہوتا ہے جو کہ فوسل فیول کی ضمنی اخراج ہے۔ اس کا تعلق گندم اور چاول کی فصل کی پیداوار کو نقصان اور فصل کے معیار میں کمی سے ہے۔
اسی طرح کوئلے اور فصل کی باقیات جلانے سے پارٹیکولیٹ میٹر خراب ہوتا ہے اور اس سے پودوں میں فوٹوسینتھیسس کا عمل متاثر ہوتا ہے جبکہ غیرمتوقع بارشوں اور شدید گرمیوں نے فصلوں کی پیداوار کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے جانوروں میں سانس کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اگر یہ سب جاری رہا تو 2100ء تک جنوبی ایشیا کی 50 فیصد فصل مستقل طور پر ختم ہوجائے گی۔ یہ انتہائی سنگین صورت حال ہے کیونکہ پاکستان جیسے کمزور ممالک بڑے پیمانے پر زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔
کلائمیٹ فنانس اور صاف ہوا کا ایجنڈا
صاف ہوا کو اے ڈی بی کے کلائمیٹ فنانس ایجنڈا میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ 2015ء سے 2021ء تک بین الاقوامی ترقیاتی فنڈنگ کا ایک فیصد سے کم اور بین الاقوامی پبلک کلائمیٹ فنانس کا صرف 2 فیصد فضائی آلودگی کی کارروائی میں استعمال ہوا ہے۔
اس خلا کو بھرنے کے لیے بینک کو کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج کم کرنے سے زیادہ صاف توانائی اور آلودگی کو کنٹرول کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ بینک کے توانائی کی منتقلی کے منصوبوں کو پاکستان کے موسمیاتی اہداف اور صاف ہوا کی حکمت عملیوں کے مطابق لانا ہوگا۔ مضبوط معیار کے قواعد کے بغیر، اے ڈی بی کا نام نہاد ’کلائمیٹ فنانس‘ مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں مزید بدتر بنا سکتا ہے۔
پاکستان موسمیاتی بحران سے نبردآزما ممالک میں سب سے آگے ہے جبکہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔ اے ڈی بی کو پاکستانی عوام کے حقوق اور ضروریات کو قرض کی فراہمی پر ترجیح دینی چاہیے۔ قرضوں کی منسوخی پاکستان کے لیے آب و ہوا کے لیے لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، صاف ہوا فراہم کرنے اور پاکستانی عوام کے لیے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے اہم ہے۔
صاف ہوا کا مربوط حق
2024ء میں پاکستان نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 9اے کو شامل کرکے ایک تاریخی اقدام لیا جس میں صاف ہوا اور صحت مند ماحول کو بنیادی انسانی حقوق قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تاریخی 2022ء کی قرارداد واضح طور پر ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول تک رسائی کو عالمی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ مینڈیٹ اے ڈی بی جیسے اداروں کو اس اصول کو اپنے بنیادی مشن اور حکمت عملی میں شامل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اے ڈی بی کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے جسٹ انرجی ٹرانزیشن میکینزم اور کوئلے کے فیز آؤٹ پلانز جیسے انرجی ٹرانزیشن میکینزم، لوگوں کے حقوق کا صحیح معنوں میں تحفظ کریں۔
اے ڈی بی کو تمام گرین ہاؤس گیسز اور قلیل مدتی آلودگیوں خاص طور پر میتھین اور بلیک کاربن کی پروجیکٹ کے مطابق رپورٹنگ کی ضرورت بھی کرنی چاہیے جو پاکستان میں فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ یہ پیرس معاہدے کے بہتر شفافیت کے فریم ورک اور میتھین کے عالمی عہد کے اہداف جیسا ہے جس پر پاکستان نے 2023ء میں دستخط کیے تھے۔
فوسل فیول پر انحصار اور نقصان دہ اخراج کو کم کرنے کے لیے اے ڈی بی کو اسٹرٹیجی میں تبدیلی لا کر پاکستان کی مدد کرنا ہوگی اور اپنی فنڈنگ صاف توانائی کے حصول کی جانب منتقل کرنا ہوگی جبکہ اسے مضبوط احتساب کے قوانین بھی نافذ کرنا ہوں گے۔ یہ اے ڈی بی کے اپنے 2032ء-2023ء کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کی حمایت کرے گا جو ’کم کاربن ٹیکنالوجی کی منتقلی‘ کو فروغ دینے کا وعدہ کرتا ہے لیکن فی الحال فوسل فیول کو ختم کرنے کے لیے واضح اہداف نہیں ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا سالانہ اجلاس اہم موقع ہے کہ وہ آلودگی کی فنڈنگ کرنے سے حل کو مالیات فراہم کرنے کا اہم اقدام لے۔ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے جو زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں اور گرم آب و ہوا میں کھیتی باڑی کر رہے ہیں، انتخاب واضح ہونا چاہیے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا سالانہ اجلاس ایک نہایت اہم موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی سمت کو درست کریں، آلودگی کے حوالے سے مالی معاونت کرنے کے بجائے حل تلاش کرنے پر مالی اعانت کی جائے۔ لاکھوں پاکستانی جو زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں اور ایک گرم ہوتے ہوئے سیارے پر کھیتی باڑی کر رہے ہیں، اُن کی خاطر جواب بالکل واضح ہونا چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری کنٹری پروگرام لیڈ فار فیئر فنانس پاکستان ہیں اور انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف اور مالیاتی پالیسیز میں مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کا ایکس ہیڈل jaffry05@ ہے۔

