—ہیڈر: یونیسیف

کیا موسمیاتی تبدیلی سے غربت کے نہ ختم ہونے والے چکر سے چھٹکارے کی کوئی راہ ہے؟

موسمیاتی تبدیلی سے آبادی کو لاحق خطرہ حادثاتی نہیں ہے بلکہ کراچی جیسے شہر میں اسے باقاعدہ تشکیل دیا جارہا ہے۔

43 سالہ فریحہ جو اپنی فیملی کے ساتھ کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں رہتی ہیں، انہیں یاد ہے کہ پانی پر چلنا یا اس میں سے گزرنے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے خاندان کا انحصار نسلوں سے ماہی گیری کے لیے بدین کے نمکین پانی پر تھا مگر سمندر کے پانی نے میٹھے پانی کے تالابوں کو کھارا اور ذرخیز زمینوں کو بنجر بنا دیا ہے۔

اس مسلسل تبدیلی (جو سست نہیں) سے فریحہ کو مالی مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کے شوہر اور بیٹے اینٹوں کی بھٹی میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’سمندر ہمارے جال کھا گیا پھر ہمارا وقار۔۔۔ ہم بلآخر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے‘۔

بدین کے تقریباً 80 فیصد ماہی گیر خاندانوں کو فریحہ کے خاندان کی طرح مسائل کا سامنا ہے۔ کسی طرح کی مدد یا ماحولیات سے موافقت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ موسمیاتی تبدیلیوں اور غربت کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

اگرچہ موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا کے تمام افراد اس سے یکساں متاثر نہیں ہو رہے۔ عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کم سے کم شراکت کے باوجود، کم آمدنی والے ممالک اس بحران کے تباہ کن اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں زیادہ شدید موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس وسائل یا مضبوط نظام نہیں۔ یوں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان اقوام کے غربت میں پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025ء کے مطابق 2022ء میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل کیا گیا تھا۔ تین سال قبل ملک کے ایک تہائی حصے میں آنے والے سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا جبکہ 17 ہزار افراد جاں بحق ہوئے اور 30 ارب ڈالرز کا مالی نقصان ہوا۔

اسی دوران حالیہ برسوں میں سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے فصلیں سوکھ رہی ہیں اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی آفات سے پاکستان کو لاحق شدید خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی نے وجودی مسائل کو مزید سنگین رخ دیا ہے کیونکہ اس نے پسماندہ کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔ صنف، نسل اور کم آمدنی جیسے بے شمار سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ان کی کمزوریاں بڑھ جاتی ہیں جو کمیونٹیز کو موسمیاتی وجوہات کی بنیاد پر غربت کے جال میں پھنسا دیتی ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے حالات روزگار کو تباہ کر دیتے ہیں، خوراک اور پانی کی کمی کا باعث بنتے ہیں جبکہ کمیونٹیز کو گھروں سے محروم کر دیتے ہیں۔

پاکستان کے لیے ورلڈ بینک گروپ کی کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (سی سی ڈی آر) رپورٹ کے مطابق، ’موسمیاتی تبدیلی سے متعلق واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی کے مشترکہ خطرات 2050ء تک پاکستان کی جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کو کم از کم 18 فیصد سے 20 فیصد تک کم کرسکتے ہیں۔ اس سے معاشی ترقی میں نمایاں کمی آئے گی اور غربت کم کرنے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔

’یہ صرف قدرتی مسئلہ نہیں‘

پاکستان میں 40 فیصد آبادی متاثر ہے اور اکثر موسمیاتی آفات کا سامنا کرتی ہے جن میں سیلاب، طوفان، خشک سالی، شدید بارشوں اور شدید گرمی کی لہریں شامل ہیں۔ شہری علاقوں کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری، مقامی دیہی برادریاں، چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے کسان اور ماہی گیر ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

آکسفیم کی جانب سے بدین (سندھ)، راجن پور (پنجاب) اور خضدار (بلوچستان) میں دیہی آفات سے متاثرہ پاکستان کی کمیونٹیز کا مطالعہ کرنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں سامنے آیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی، غذائی عدم تحفظ اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ بدین میں سمندری پانی کی مداخلت نے میٹھے پانی کے وسائل کو تباہ کردیا ہے جس سے مچھلیوں اور جھینگے کی تعداد میں کمی آئی ہے اور بہت سے ماہی گیر اپنا روزگار برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سمندری طوفانوں کی بڑھتی ہوئی شرح نے ساحلی آبادیوں کو بے گھر کیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کے پاس موافق ہونے یا نقل مکانی کرنے کے لیے وسائل موجود نہیں۔

راجن پور میں بارشوں کے بے ترتیب پیٹرن اور شدید سیلاب نے زرعی زمینوں کو تباہ کر دیا ہے جس سے کسانوں کے لیے فصلیں بونے اور ان کی کٹائی کے وقت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ طویل خشک سالی نے خضدار میں زیرِ زمین پانی کی سطح کو تیزی سے کم کردیا ہے، چرنے کے لیے زمینیں کم ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مویشیوں کا کاروبار کرنے والے افراد کو روزگار کے خطرات لاحق ہیں۔ ان خطوں میں کسانوں کے وہ روایتی طریقے کافی نہیں جو وہ ہمیشہ سے اپناتے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاندان آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں موسمیاتی ہجرت پر مجبور ہورہے ہیں۔

پاکستان کے مرکزی شہری علاقوں میں غریب طبقہ اکثر ایسے غیر محفوظ مکانوں میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد آباد ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں میں رہنا نہ صرف ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ وہ موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے ساحلی شہر کی ہی مثال لے لیں جہاں 10 سے 16 گھنٹے تک بجلی کی طویل بندش شاہ فیصل کالونی، لیاری، بھٹ اور بابا آئی لینڈ جیسے کم آمدنی والے علاقوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔

یہ رکاوٹیں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہیں جس سے ان کے لیے روزگار کمانا مشکل ہوجاتا ہے۔ معاشی دباؤ کے علاوہ بجلی کی کمی کی وجہ سے بزرگوں، بچوں اور حاملہ خواتین کو صحت کے سنگین خطرات ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ، مالی بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے جو بہت سے لوگوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔

2021ء میں گجر اور اورنگی نالہ کے گرد رہنے والے تقریباً 15 ہزار خاندانوں کو غیرقانونی تجاوزات اور شہری سیلاب کو روکنے کے لیے اپنے گھروں سے بےدخل کردیا گیا جبکہ انہیں کوئی متبادل بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ حکومتی ادارے نہ صرف میٹرو پولس میں رہائش کے بحران کو حل کرنے میں بلکہ دوبارہ آبادکاری کی پالیسیز نافذ کرنے میں بھی ناکام رہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 2021ء کے غیرقانونی تجاوزات کے انہدام کے حکم نامے کو حکام نے لوگوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے کے پروانے کے طور پر استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سپریم کورٹ نے متاثرین کی آبادکاری اور بحالی کے لیے بھی ہدایات جاری کی تھیں۔ جب گھروں کو گرانے کی بات آتی ہے تو حکومت بہت تیزی سے کام کرتی ہے لیکن جب لوگوں کی نقل مکانی یا ان کے رہائشی مسائل کو حل کرنے میں مدد کی بات آتی ہے تو وہ سست ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں سیکڑوں خاندان برسوں سے حکومتی مدد کے منتظر ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑی کمپنیز کے اقدامات سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کے واٹر فرنٹ کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات اور 3 ارب ڈالر کے ایمار بنڈل آئی لینڈ پروجیکٹ نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روک دیا ہے۔ یہ قریب آباد غریب کمیونٹیز میں سیلاب کے خطرے کو مزید سنگین بناتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریٹ پروجیکٹ بھی موسمیاتی مسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچی آبادیوں کے رہنے والے کہتے ہیں، ’جیسے ہی بلڈرز کو اجازت نامہ مل جاتا ہے، ہم (غریب اور کمزور) اپنے گھروں سے بے دخل ہو جاتے ہیں‘۔ کراچی کی لیاری ندی کے کنارے ٹیکسٹائل کی بہت سی فیکٹریاں گندے فضلے کو صاف کیے بغیر پانی میں پھینک دیتی ہیں۔ یہ مون سون کے موسم میں بارش کے پانی کو نقصان دہ بنادیتا ہے لیکن سندھ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (سیپا) کے اہلکاروں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ یہ کہنا درست ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ حادثاتی نہیں ہے۔ کراچی جیسے شہر میں اسے باقاعدہ تشکیل دیا جارہا ہے۔

جب برداشت مزاحمت بن جائے

پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے ورلڈ بینک کے تقریباً 5 کروڑ ڈالر کے فنڈز کا اجراح بیوروکریٹک تاخیر کا شکار ہے۔ یہ واضح ہے کہ جب ادارے ناکام ہوتے ہیں تو غریب دو بار ڈوب جاتا ہے، پہلے سیلابی پانی میں اور پھر محکمے کی غفلت میں!

موسمیاتی تبدیلی کے غیر متناسب نقصانات صرف غریب طبقے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ صنفی اعتبار سے بھی اس کے اثرات مختلف ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو زیادہ چیلنج کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ بھی متفق ہے اور اس کی مختلف رپورٹس اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والوں میں سے 80 فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان میں دیہی علاقوں کی خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔

سندھ میں کمزور کمیونٹیز پر 2021ء کے مطالعے کے مطابق، زرعی پیداوار میں کمی اور کام کی تلاش میں سفر کرنے والے مردوں نے خواتین پر گھریلو اور مالی ذمہ داریوں کا دوہرا بوجھ ڈالا ہے جس سے خواتین کے لیے خوراک کی کمی، غذائیت کی کمی اور صحت کی پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

بلوچستان میں صورت حال مختلف نہیں۔ 51 سالہ روزینہ نے کہا، ’ہمارے مرد ہجرت کرچکے ہیں، ہم خواتین زمین کے لیے لڑنے کی غرض سے یہیں رہ رہی ہیں‘۔ وہ خضدار میں خواتین کسانوں کے ایک گروپ کی قیادت کرتی ہیں جو جوار اُگاتی ہیں جس سے خشک سالی سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی کوششیں اس نظام سے متصادم ہیں جو خواتین کو زمین کا حق اور ملکیت دینے سے انکار کرتا ہے۔

روزینہ زور دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’اور یہ وہ زمین ہے جس کی ہم (خواتین) حفاظت کررہی ہیں‘۔

پاکستان کی خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے صورت حال زیادہ بدتر ہے۔ سماج سے مسترد اور بدنام ہونے کی وجہ سے، بہت سے ایسے لوگوں کا اپنے خاندانوں سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس سے ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا، ملازمتیں تلاش کرنا یا محفوظ رہائش حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً بہت سے خواجہ سرا کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جو خاص طور پر سیلاب اور شدید گرمی جیسی موسمیاتی آفات سے خطرے میں ہیں۔

امتیازی سلوک اور معاشرے سے الگ ہونے کے احساس کے تحت بہت سے خواجہ سرا آفت کے بعد حکومت سے مدد حاصل نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر 2022ء کے خوفناک سیلاب کے دوران یہ دیکھا گیا کہ جب زیادہ تر متاثرہ افراد امدادی پروگرامز تک رسائی حاصل نہیں کر سکے کیونکہ ان کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں تھے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او کے مطابق 95 فیصد سیلاب متاثرین کو یا تو مدد سے انکار کیا گیا یا جان بوجھ کر انہیں محروم رکھا گیا۔

یہاں برداشت مزاحمت ہے۔

بہتری کی جانب سفر

لیکن کیا اس نقصان دہ اور نہ ختم ہونے والے چکر سے چھٹکارے کی کوئی راہ ہے؟ جی ہے۔

24 گھنٹے رسک سٹی‘ نامی ایک تحقیقی مقالے نے ایک نیا خیال ’موسمیاتی مرمت‘ (آب و ہوا میں بہتری) متعارف کروایا جو ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر انسانی اور ماحولیاتی بہبود دونوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے لوگوں اور ماحول دونوں کا باقاعدگی سے خیال رکھنا ہوگا۔ دیکھ بھال کا خیال یہ ہے کہ شہروں اور قدرت دونوں کی حفاظت اور انہیں بہتر بنانے کے لیے مستحکم، سوچی سمجھی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے تاکہ وہ صحت مند اور مضبوط رہ سکیں۔

آب و ہوا کی بہتری میں تین مختلف جہتیں شامل ہیں جن میں جسمانی و خاندانی اور مربوط بنیادی ڈھانچہ شامل ہیں۔ خاص طور پر کم آمدنی والے علاقوں میں جہاں ناکافی بنیادی سہولیات اور حکومتی ناکامیوں کے باعث کمیونٹیز زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔

مقالے میں بتایا گیا ہے کہ آب و ہوا کی بہتری میں اکثر خواتین اور دیگر پسماندہ گروہ کا کردار ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے خاندانوں اور برادریوں کی دیکھ بھال کے لیے روزمرہ کے کام انجام دیتے ہیں، شدید موسم، سیلاب اور گرمی کی لہر جیسی صورت حال سے نمٹنے میں ان کی مدد کرتے ہیں بالخصوص جب حکومت یا دیگر ادارے تعاون کی پیشکش نہیں کرتے۔

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پالیسی سازی میں ایک جامع نقطۂ نظر اختیار کرنا ناگزیر ہے، ایسا نقطۂ نظر جو صرف بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہ ہو بلکہ سماجی روابط کو مضبوط بنانے اور مقامی سطح کے حل کو شامل کرنے پر بھی زور دے تاکہ موسمیاتی اثرات کے منفی نتائج سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکے۔

آب و ہوا کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہو، لوگوں کو معاشی طور پر زیادہ محفوظ بنانے میں مدد کی جائے اور فیصلہ سازی میں کمیونٹیز سے مشورہ کیا جائے۔ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو موسمیاتی اقدامات کے مرکز میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نقطہ نظر ان حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو صرف اعلیٰ عہدیداروں کے فیصلوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی حقیقی زندگی کے تجربات کو استعمال کرکے خود کمیونٹیز بنانے کی مدد کرتی ہیں۔

پالیسی اصلاحات کو موسمیاتی انصاف پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ موسمیاتی موافقت اور تدارک کی کوششیں مزید محرومی کا سبب نہ بنیں بلکہ خواتین، بزرگوں، بچوں اور خواجہ سرا کمیونٹی پر خصوصی توجہ دی جائے جو سب سے زیادہ موسمیاتی غربت کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ بالخصوص خواتین کو موسمیاتی موافقت میں قائد کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ پانی کے انتظام، غذائی تحفظ اور خاندانی سطح پر مزاحمت پیدا کرنے میں ان کا کردار انہیں تبدیلی کا ایک اہم محرک بناتا ہے۔

آب و ہوا کی بہتری کا خیال دیہی برادریوں پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔جہاں چھوٹے کسان اور ماہی گیر مقامی طریقوں کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی محنت اور اکثر وسائل کی بچت پر مبنی حکمتِ عملیاں مؤثر پالیسی سازی اور غریب پرور، شراکتی حکومتی اقدامات کے لیے رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔

یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
محمد توحید

لکھاری شہری منصوبہ ساز ہیں اور آئی بی اے کی کراچی اربن لیب میں بطور سینئر محقق کام کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جویریہ اعوان

لکھاری بحریہ یونیورسٹی کے شعبہ ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنس میں ڈیولپمنٹ پریکٹیشنر اور سوشل سائنس اسکالر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔