— فوٹو: ڈان نیوز

بجٹ میں ٹیکس بیس بڑھانے کیلئے بنیادی اصلاحات نظر نہیں آئیں، ماہرین

یہ بالکل وہی بجٹ ہے جس کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تحت توقع کی جا سکتی ہے، ماہرین اقتصادیات کی رائے
شائع June 10, 2025

ماہرین اقتصادیات نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ کے بارےمیں کہا ہے کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کے لیے جن بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت تھی، وہ نظر نہیں آئیں، یہ بالکل وہی بجٹ ہے جس کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تحت توقع کی جا سکتی ہے۔

منگل کو ایک ہنگامہ خیز قومی اسمبلی کے اجلاس میں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 26-2025 کے لیے 175.73 کھرب روپے کے کُل اخراجات اور 4.2 فیصد کے ترقی کے ہدف کے ساتھ بجٹ پیش کیا۔

اپنی بجٹ تقریر میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ بجٹ ایک ’ تاریخی لمحے’ پر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے ان کا اشارہ حال ہی میں ہونے والی پاکستان-بھارت مختصر جنگ کی طرف تھا، انہوں نے زور دیا کہ جس طرح قومی خودمختاری کا تحفظ کیا گیا ہے، اسی طرح ملک کی مالیاتی سلامتی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے اور ایک خوشحال پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ڈان ڈیجیٹل نے بجٹ کے اہم نکات کے لیے معروف ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا۔

’ ایک بے ضابطگی ’

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عادل ناخدا نے نشاندہی کی کہ حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے اپنے اخراجات کو کم کیا ہے، جو ان کے بقول ایک بے ضابطگی تھی، انہوں نے کہا کہ یہ غالباً سود کی ادائیگیوں میں نمایاں کمی کی وجہ سے ہے کیونکہ مجموعی قومی پیداوار کے فیصد کے طور پر حکومت کا قرض بھی کم ہوا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ بھی متوقع تھا۔

عادل ناخدا نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں اضافہ متوقع ہے، مگر یہ اضافہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود افراد پر بوجھ بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ کے حجم میں اضافے کے ذریعے ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ کی اہم خصوصیت حکومت کا ٹیرف کو معقول بنانا ہے، اگرچہ ٹیرف میں کٹوتیوں کا اعلان کیا گیا ہے، مگر اہم کام یہ یقینی بنانا ہے کہ اس عمل میں شفافیت کے لیے انہیں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز اور کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹیز سے تبدیل نہ کیا جائے۔

’بنیادی اور جرات مندانہ اصلاحات کی کمی‘

بجٹ کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے، ماہر معاشیات ساجد امین جاوید نے کہا کہ ٹیرف نظام کو معقول بنانا معیشت کو کھولنے اور صنعت کو جدید بنانے اور جدت لانے کی طرف اشارہ ہے ، انہوں نے کہا کہ اگلے چار سے پانچ سالوں میں کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر ڈیوٹیز کو صفر پر لانا ایک اچھی پالیسی سمت ہے۔

ساجد امین جاوید نے کہا کہ ٹیکس کو آسان بنانا ایک بہت اہم پہلو ہے، کیونکہ پاکستان میں عام آدمی کے لیے ٹیکس فائل کرنا پیچیدہ تھا، انہوں نے کہا کہ ایک اور اچھی بات نان فائلر کیٹیگری کو ختم کرنا ہے۔

دوسری طرف، ساجد امین نے نشاندہی کی کہ ایک اسٹریٹجک سطح پر، یہ بالکل وہی بجٹ ہے جس کی ایک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تحت توقع کی جا سکتی ہے یعنی استحکام کو ہدف بنانا اور ریونیو کے اہداف کو پورا کرنا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکسیشن سے متعلق زیادہ تر پالیسی اقدامات ریونیو کے اہداف کو پورا کرنے کے گرد گھومتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہ موجودہ نظام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں درست کرنے کی ایک کوشش ہے، لیکن وہ بڑی اصلاحات جن پر اکثر بحث کی جاتی ہے، جیسے ہول سیلرز اور ریٹیلرز، اور زراعت کو ٹیکس نیٹ میں لانا، اس پر زیادہ بات نہیں کی گئی۔

ماہر اقتصادیات نے زور دیا کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کے لیے جن بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت تھی، وہ نظر نہیں آئیں، مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ بجٹ بنیادی اصلاحات پر خاموش ہے، یہاں تک کہ ریلیف بھی۔

انہوں نے بجٹ میں کچھ تضادات کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف، ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم معیشت کو دستاویزی بنانا چاہتے ہیں اور مالی شمولیت کو بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے نان فائلرز کے لیے بینکوں سے پیسے نکالنے پر ٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر ایک فیصد کر دیا، جو مجھے لگتا ہے کہ مالی شمولیت کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر، مجھے لگتا ہے کہ بجٹ بنیادی اور جرات مندانہ اصلاحات میں ناکام رہا ہے، یہ بجٹ ریونیو کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، ایک اور چیز جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ بجٹ کی رہنمائی کرنے والا مقصد یا اصول آنے والی آئی ایم ایف کی قسط ہے۔

ساجد امین نے مزید کہا کہ کوئی غیر ضروری ریلیف نہیں دیا گیا، مالیاتی نظم و ضبط کو متوازن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

’غلط ترجیحات‘

لمز میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی حسنین نے کہا کہ کچھ مثبت خبر ہے اور وہ مالیاتی استحکام، انہوں نے کہا کہ ہم نے بجٹ خسارے کو نمایاں طور پر کم کیا ہے، اور ہم نے ایک بنیادی بجٹ سرپلس حاصل کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سال ہمارے اخراجات آمدنی سے کم تھے۔

انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہماری قرض کی صورتحال بہتر ہوگی، مجھے یقین ہے کہ ہم نے گزشتہ سال بہتر قرض کی پختگی دیکھی ہے، اور ہم دیکھیں گے کہ مجموعی سود کی ادائیگیوں میں کمی آئی ہے، مجموعی طور پر، قرض استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ہم اتنے برے قرض کے بحران میں نہیں ہیں جتنا ہم پہلے تھے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ دیکھی جانے والی بڑی تبدیلیوں کو بنیادی اصلاحات کے بجائے اکاؤنٹنگ کے نظم و ضبط کے طور پر زیادہ سمجھا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم نے ترقیاتی اخراجات میں کمی کی ہے اور سبسڈی میں کٹوتی کی ہے۔

اگرچہ ساختہ جاتی تبدیلیاں غائب تھیں، مگر اخراجات میں نظم و ضبط پر زور دیا گیا تھا، جسے پروفیسر علی حسنین نے ملا جلا قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ترقیاتی اخراجات اب بھی مسخ شدہ ترجیحات کی طرح نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر، ترقیاتی اخراجات کا 30 فیصد نقل و حمل پر اور 5 فیصد سے 6 فیصد تعلیم پر ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ آپ ایک پرانے ترقیاتی منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور آپ کی ترجیحات غلط جگہ پر ہیں۔

ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کم کیے گئے ٹیکس بل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کے مشورے کے خلاف تھا، انہوں نےکہا کہ اس سے قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

مزید برآں، پروفیسر علی حسنین نے کہا کہ قومی ٹیرف پالیسی میں کچھ سنجیدہ ٹیرف کٹوتیاں دیکھی گئیں، انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان نے گزشتہ دہائی میں کچھ صنعتوں جیسے آٹو اور موبائل مینوفیکچرنگ کو ٹیرف سے تحفظ دیا تھا۔

ان صنعتوں کے لیے خام مال سستے ٹیرف پر درآمد کیا جاتا تھا، جبکہ تیارشدہ اشیا مہنگے ٹیرف پر درآمد کی جاتی تھیں، انہوں نے کہا کہ اس قسم کی صنعت بے فائدہ ہے، کیونکہ یہ آپ کو عالمی سطح پر مسابقتی نہیں بناتی، اور نہ ہی یہ برآمدات میں اضافہ کرتی ہے۔

مجموعی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ نسبتاً نظم و ضبط والا تھا لیکن موجودہ صورتحال اور سیاسی مجبوریوں کے اندر تھا، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ساختیاتی اصلاحات اور ایک سنجیدہ اصلاحاتی ایجنڈا سامنے نہیں آیا، جب ایسا ہوگا تو کئی شعبوں میں تبدیلی دیکھی جائے گی۔

پروفیسر علی حسنین نے مزید کہا کہ اگر وہ واقعی ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے انہیں ( حکمرانوں کو) اس بات پر نظرثانی کرنی ہوگی کہ ملک کو چلایا کیسے جاتا ہے۔