—ہیڈر: اے آئی

حمیرا اصغر کی موت: شوبز میں تنہائی اور ذہنی دباؤ کی کہانی!

'حمیرا اصغر کی موت نے ثابت کیا کہ شوبزنس کی جھلملاتی اور جگمگاتی دنیا کے پیچھے ایک تاریک جہاں آباد ہے جو گاہے بگاہے اپنی بدصورتی کے ساتھ معاشرے کے سامنے آتا ہے'۔
شائع July 11, 2025

چکا چوند روشنیوں کی بستی سے وابستہ جواں سال اداکارہ حمیرا اصغر کب موت کے اندھیرے میں ڈوب گئیں کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ کراچی میں ان کی کئی ماہ پرانی نعش ملی تو وہ ہر جگہ موضوعِ گفتگو بن گئیں۔ اب ان کے ریکارڈ کھنگالے اور انٹرویو اُچھالے جارہے ہیں۔

والد نے بیٹی کی لاش وصول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ ان کی خواہش کے برخلاف شوبز کے شعبے سے منسلک ہوئیں۔ گھر والوں نے ان سے تعلقات منقطع کرلیے اور حمیرا شہرت حاصل کرنے کی دھن میں زندگی سے آگے نکل گئیں۔

تنہائی میں موت کا شکار ہونے والی اس اداکارہ کی زندگی کے ہر پہلو پر اب بات کی جا رہی ہے۔ کہا جارہا ہے وہ گلیمر کی دنیا کی منافقت کا نشانہ بن گئیں تو کوئی کہتا ہے ’برے کام کا برا انجام‘۔ غرضیکہ معاشرے کے عمومی رجحان، شوبز کے رویے، دینی و اخلاقی اقدار، حرام و حلال کی تمیز اور اولاد اور والدین کے تعلقات پر بحث ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ اجتماعی بیداری کا کوئی عمل ہو۔

اس ضمن میں ’ڈان نیوز ڈیجیٹل‘ نے چند متعلقہ شخصیات سے گفتگو کی ہے۔

معروف اداکارہ اور فنکاروں کی تنظیم ’دی ایکٹرز کولیکٹیو‘ کی چیئرپرسن عتیقہ اوڈھو نے ’ڈان نیوز ڈیجیٹل‘ سے گفتگو کرتے ہوئے حمیرا اصغر کی وفات کو المیہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’زندگی سے بھرپور حمیرا کا چہرہ میری نظروں کے سامنے ہے، اس نے ہمارے ساتھ سیریل ’احسان فراموش‘ میں کام کیا تھا۔ وہ بہت پیاری اور محنتی لڑکی تھی، وقت پر سیٹ پر آتی تھی۔ اسے شوبز میں شہرت حاصل کرنے کی تمنا تھی۔ سوشل میڈیا پر بہت سرگرم رہتی تھی اور ڈرامے کی پوسٹس شئیر کرتی تھی۔ وہ پینٹنگ بھی کرتی تھی، بظاہر بہت مضبوط شخصیت تھی جس کے متعلق یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خودکشی کرسکتی ہے جیسا کہ قیاس کیا جارہا ہے۔ اس کے انتقال کے متعلق جو حقائق سامنے آرہے ہیں وہ نہایت تکلیف دہ ہیں‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ اداکاروں کی تنظیم کو حمیرا اصغر کے مہینوں غائب رہنے کا علم کیوں نہ ہوا، عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ حمیرا ’دی ایکٹرز کولیکٹیو‘ کی رکن نہیں تھیں۔ اس سانحے کے فوراً بعد ہم نے سب فنکاروں سے کہا ہے کہ جو اکیلے رہتے ہیں یا دوسرے شہروں سے آئے ہیں، وہ ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے تاکہ اگر کسی کو فیملی سپورٹ نہیں یا کوئی اور مسائل ہیں تو مل کر انہیں حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم فنکاروں کو علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔

عتیقہ اوڈھو نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’بدقسمتی سے کافی عرصے سے حمیرا کے پاس کام نہیں تھا اسی لیے وہ انڈسٹری سے غائب تھیں۔ مصروف اداکار ہر روز سیٹ پر ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پروڈیوسر انہیں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ حمیرا کے پاس جب کام نہیں تھا تو انہوں نے خود کو الگ تھلگ کرلیا تھا، اس لیے کوئی انہیں ڈھونڈھ نہیں رہا تھا۔ مجھے دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ آج سوشل میڈیا پر ہر جگہ ان کی تصویر لگی ہوئی ہے، ہر شخص تبصرے کررہا ہے جن میں شوبز کے لوگ بھی شامل ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی تو انہیں جانتا ہوگا۔

’اگر اس کے خاندان نے قطع تعلق کر لیا تھا تو اس کی سہیلیاں، کوئی جان پہچان والا یا شوبز میں کسی نہ کسی سے تعلق تو ہوگا۔ کیسے سب نے انہیں نظرانداز کر دیا۔ اگر کسی نے ان کا ساتھ دیا ہوتا، ان کے کریئر میں مدد کی ہوتی تو ہوسکتا ہے وہ اس طرح سب سے الگ تھلگ، تنہائی میں موت کا شکار نہ ہوتیں۔ ہم سب کو اس المناک سانحے کی ذمہ داری لینی چاہیے‘۔

عتیقہ نے کہا کہ ’ابھی چند دن پہلے سینئر اداکارہ عائشہ خان بھی اسی تنہائی کے عالم میں وفات پاگئیں۔ فنکاروں کی خبر گیری جہاں ہماری اپنی برادری کی ذمہ داری ہے وہیں حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ پاکستان کی شناخت بننے والے فنکاروں کو تمغات سے نوازنے کے ساتھ ان کے لیے پینشن مقرر کرے۔ فنکار جس دن سیٹ پر ہوتا ہے اسی دن کماتا ہے۔ اگر متبادل ذریعہ آمدن نہیں بنا سکتا تو اسی کسمپرسی کا شکار ہوتا ہے جس کی افسوسناک مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں‘۔

سینئر اداکار عدنان صدیقی نے رئیلٹی شو ’تماشا‘ میں حمیرا کے ساتھ کام کیا تھا۔ ہم نے ان سے رابطہ کیا تو پہلے انہوں نے محتاط انداز میں کہا کہ ’میں کسی متنازع معاملے کا حصہ نہیں بننا چاہتا، لہٰذا اس پر بات نہیں کروں گا‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تلخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’اب میڈیا اور سب کو حمیرا کے متعلق جستجو ہے، اس کے متعلق خبریں ڈھونڈ رہے ہیں۔ پہلے اس کی فکر کی ہوتی تو وہ لاش نہ بنتی‘۔

عدنان صدیقی نے یہ بات کہتے ہوئے خود کو بھی قصور وار تسلیم کیا اور کہا، ’میں بھی ان سب میں شامل ہوں جنہوں نے منظر سے غائب ہونے والی ایک اداکارہ کو نظر انداز کیا‘۔

حمیرا اصغر کی موت کی وجوہات کے بارے میں پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔ لاش تقریباً 9 ماہ پرانی ہونے کی وجہ سے مسخ ہوچکی اور تحقیق میں مسائل ہیں۔ تفتیش ان پہلوؤں پر کی جارہی ہے کہ کیا یہ ایک قتل ہے، خودکشی ہے یا کسی طبی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔

حقائق کے مطابق حمیرا تنہا رہتی تھیں۔ والدین سے قطع تعلق تھا اور ان دنوں شوبز میں کوئی پروجیکٹ بھی نہیں کر رہی تھیں۔ اس طرح کی صورت حال کس طرح ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتی ہے اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، ہم نے اس بارے میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فوزیہ خان (پی ایچ ڈی پروفیشنل سائیکالوجی) سے بات کی۔ فوزیہ خان مختلف اداروں کے ساتھ باحیثیت ویل نیس ایکسپرٹ وابستہ رہی ہیں اور ٹی وی پروگرامز بھی کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے حمیرا اصغر کیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’خواتین پر عمومی طور پر سماجی، اخلاقی اقدار کے معیار پر پورا اترنے کے لیے بہت دباؤ ہوتا ہے جبکہ شوبز کی خواتین کے لیے یہ دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت تنہا رہتی ہے تو اس کا الگ اسٹگما ہے۔ معاشرے میں جوان عورت کا اکیلا رہنا برا سمجھا جاتا ہے اس کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں خاندانوں میں معاشرے کا خوف یعنی ’لوگ کیا کہیں گے‘ سب سے بڑا نفسیاتی دباؤ ہے۔ اسی بنیاد پر والدین اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انہیں شوبز یا ایسے کریئر جن میں وہ معاشرے کے متعین معیارات سے ہٹ کر کام کریں، اپنانے سے روکا جاتا ہے۔

’یہ صورت حال پورے خاندان کے لیے جذباتی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ والدین یا گھر والے خود بھی غم و غصے کا شکار ہوتے ہیں دوسری جانب جس فرد کو روکا جاتا ہے وہ اپنی بات منوانے کی ضد میں ذہنی دباؤ برداشت کرتا یا کرتی ہے۔

’حمیرا اصغر کے معاملے میں ہم یہی صورت حال دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کی رضامندی کے بغیر لاہور سے کراچی آگئیں، یہاں تنہا رہ رہی تھیں۔ اس میں سیکیورٹی کے مسائل بھی ہوسکتے ہیں، وہ مالی مشکلات کا شکار ہوئیں کیونکہ اس شعبے میں آمدن بے یقینی اور مستقل نہیں ہے خصوصاً ماڈلز کے لیے آمدنی کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر نئے، کم عمر چہرے متعارف کروائے جاتے ہیں۔ اس صورت میں شعبے میں پہلے سے موجود ماڈلز خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔

’انڈسٹری میں ’اِن‘ رہنے کے لیے آج کل طرح طرح کے بیوٹی ٹریٹمنٹس کروائے جاتے ہیں جو مہنگے بھی ہیں اور غلط ہوجانے یا سائیڈ افیکٹس کی وجہ سے بعض اوقات حسن و صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں‘۔ واضح رہے کہ حمیرا اصغر نے احمد علی بٹ کے ساتھ اپنی پوڈ کاسٹ میں یہ بات تسلیم کی کہ انہیں ماڈلنگ کے لیے بیوٹی ٹریٹمنٹ کروانے پر زور دیا گیا تھا۔ نیز انڈسٹری کے رجحان کے مطابق مصنوعی ذرائع استعمال نہ کرنے والی فنکاروں کو ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ خان نے کہا کہ ذہنی اور جذباتی دباؤ، شدید بے چینی اور بائی پولر ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خوف، سب کچھ چھن جانے کا احساس اور پچھتاوا پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق دنیا بھر میں یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ شدید ڈپریشن اور اس کی پیچیدگیاں موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) اور گلوبل برڈن آف ڈیزیز کے اعداد و شمار کے مطابق، ’دنیا میں 2 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی آبادی میں 3 اعشاریہ 8 فیصد افراد ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ خواتین کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی جائزوں کے مطابق، مردوں کے مقابلے میں خواتین کی ڈیڑھ سے دو فیصد سے زائد شرح ڈپریشن میں مبتلا ہوتی ہے‘۔

  ڈپریشن میں مبتلا خواتین خود کو معاشرے سے الگ کرلیتی ہیں
ڈپریشن میں مبتلا خواتین خود کو معاشرے سے الگ کرلیتی ہیں

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی کا نظام بھی ڈپریشن بڑھاتا ہے۔ شدید ڈپریشن افراد میں امراض قلب یہاں تک کہ ہارٹ فیلیئر کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈپریشن قوت مدافعت میں کمی، پیٹ اور معدہ کے مسائل، دمہ اور نیند غائب ہوجانے کے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ نیز مریض خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی جیسے کام کر گزرتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ خان نے کہا کہ ’ڈپریشن کی حالت میں تنہائی قاتل ہوتی ہے۔ ڈپریشن کا شکار فرد کے لیے جذباتی سہارا بہت ضروری ہے جو اسے فیملی اور دوست فراہم کرسکتے ہیں۔ ان کی مدد سے مریض کو زندگی کی جانب واپس لایا جاسکتا ہے‘۔

صحافی شازیہ انوار ایک نجی چینل کے تعلقاتِ عامہ اور اشاعتی شعبے سے منسلک ہیں۔ فنکاروں کے ساتھ اپنے میل جول کے تجربات کے حوالے سے انہوں نے حمیرا کے متعلق ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’میں نے اپنی صحافتی زندگی میں شوبزنس کی جھلملاتی اور جگمگاتی دنیا کے پیچھے ایک تاریک جہاں کو بھی آباد دیکھا ہے جو گاہے بگاہے اپنی بدصورتی کے ساتھ معاشرے کے سامنے آتا ہے اور ہمیں اس بات کا انتہائی شدت سے ادراک ہوتا ہے کہ جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا ہے اور جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں۔

’ایک میڈیا ہاؤس سے وابستگی نے میرے اس خیال پر یقین کی مہر ثبت کر رکھی ہے کیونکہ مجھے ہر قدم ایسی بہت سی لڑکیاں، بچیاں اور خواتین ملتی ہیں جو شوبز کی دنیا سے وابستگی کی چاہ میں دیوانگی کی حدیں پھلانگتی نظر آتی ہیں اور منہ کے بل نیچے گر کر نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان کا بڑا نقصان کر بیٹھتی ہیں بلکہ دیگر کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑا کردیتی ہیں۔

’حمیرا اصغر کے والدین نے اس سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی لاش وصول کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔ اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی ہمارے لوگ شوبز کو ایک خراب شعبہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کچھ لوگوں نے اسے خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بہت سی باتیں پردے کے پیچھے ہیں لیکن جو کچھ بھی سامنے ہے وہ اتنا بدصورت ہے کہ لوگ اپنے بچوں بالخصوص لڑکیوں کا اس جانب آنا پسند نہیں کرتے‘۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’میں سمجھتی ہوں حمیرا کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں نہیں ہوتا تھا کہ کامیابی جن کا راستہ دیکھتی ہے۔ اس سفر میں انہوں نے بہت دھکے کھائے ’چھوٹے موٹے کردار کیے‘ پہلی بار انہیں ’تماشا‘ میں نوٹس کیا گیا۔ بعدازاں انہوں نے ’گرو‘ اور ’احسان فراموش‘ نامی ڈراموں جبکہ فلم ’جلیبی‘ میں کام بھی کیا لیکن سب کچھ کرکے بھی جس مقام کی وہ متقاضی تھیں وہ انہیں حاصل نہیں ہوسکا اور عین ممکن ہے کہ اسی ذہنی اور قلبی دباؤ نے انہیں تسکین کے راستے دکھائے ہوں۔ وہ راستے جن پر چل کر آج وہ موضوع گفتگو بن گئیں‘۔

شازیہ نے مؤقف اپنایا کہ ’حمیرا کی موت کے حوالے سے سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کیا ان کی زندگی میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس کو ان کے منظر عام سے غائب ہونے پر تشویش ہوئی ہو؟ دوست، احباب، محلے دار، رشتے دار یا عام جان پہچان والے لوگ ہفتہ، دو ہفتے، مہینے اور دو مہینے کی غیرحاضری پر کیوں پریشان نہ ہوئے۔ گو کہ ان کا محلے والوں سے زیادہ رابطہ نہ تھا لیکن کوئی شخص کئی ماہ سے نظر نہ آئے تو قدرتی طور پر تشویش ہوجاتی ہے تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ باحیثیت معاشرہ ہم اتنے بے حس اور مطلبی ہوچکے ہیں کہ ہمیں اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں کہ کون جی رہا ہے اور کون مر چکا ہے‘۔

حمیرا اصغر کی المناک موت نے تنہائی اور ذہنی صحت کے مسائل پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ہماری شوبز کی دنیا میں ایسی بہت سی حمیرا اصغر ہیں جو اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے تنہائی کا شکار ہوجاتی ہیں، ناکامی کا زہر ان کی رگوں میں سرائیت کرکے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی تباہی کا باعث بنتا ہے جو صریحاً غلط ہے۔

شازیہ کہتی ہیں، ’حمیرا کی زندگی اور موت ہمیں یہ یاد دہانی کرواتی ہے کہ اس چمکتی دنیا کے پیچھے کئی چیلنجز اور قربانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں ضروری ہے کہ ہم ان خواتین کی حوصلہ افزائی کریں‘ ان کے مسائل کو سنیں اور انہیں ایک محفوظ اور باعزت ماحول فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں’۔

حمیرا اصغر اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کس کرب کا شکار ہوئیں، اس کی تفصیلات منظرعام پر نہیں آئیں لیکن اس واقعے سے پہلے شوبز کی کئی معروف شخصیات بھی اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی رضامندی حاصل نہ ہونے یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار رہیں۔

صدارتی اعزاز یافتہ فنکارہ زیبا شہناز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پچھتاوا ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے ابا اور فیملی میں کوئی نہیں چاہتا تھا کہ میں اداکارہ بنوں۔ سوچتی ہوں میں کیوں بنی‘۔ اس طرح اپنے رشتے داروں کے سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے زیبا شہناز روپڑی تھیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک اور اعزاز یافتہ سینئر فنکار فردوس جمال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میرے گھر کی عورتیں ڈراموں میں کام کریں، میں یہ برداشت نہیں کروں گا‘۔ انہوں نے اینکر کو اپنا گھر چھوڑ دینے کی وجہ یہ بتائی کہ ان کی بہو نے ان کی اجازت کے بغیر اداکاری شروع کردی تھی۔ انہوں نے ایک نامناسب لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہم *** نہیں جو ہماری عورتیں فلموں، ڈراموں میں کام کریں۔

فردوس جمال کے بیانات متنازع رہے لیکن یہ معاشرے کے حقائق ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حمیرا سے لاتعلقی اختیار کرنے والے والدین اس کے لیے چھپ کر روتے ہوں گے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ والد جس نے بیٹی کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہوگا، اسے قبر میں اتارنے کے خوف سے لرزاں نہ ہو۔ ان کی والدہ نے بیٹی کے چلے جانے کی تکلیف اپنی رگِ جاں میں محسوس کر لی ہوگی لیکن والدین، بہن بھائی سب معاشرتی دباؤ، اپنی سوچ، اپنی انا کے سامنے بے بس رہے اور حمیرا مر گئیں۔

گلیمر کی دنیا جس کی طرف سب متوجہ بھی ہیں اور اسے برا بھی سمجھا جاتا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں جب مصنوعی ذہانت کا انقلاب برپا ہوچکا ہے، بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ سوشل میڈیا کے باعث ہر شخص ’اسٹار‘ بن سکتا ہے۔ ہم گلیمر کے اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ سکتے۔

ان حقائق کو معاشرے کے تمام طبقات کو قبول کرنا چاہیے اور اس پر سوچ بچار کرنا چاہیے کہ کیسے ہم اپنی دینی، اخلاقی اور سماجی روایات کے مطابق اپنی ثقافت کو (جو بےحد متنوع، بہت پُرکشش ہے) پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہمارے لوگ بے حد ٹیلنٹڈ ہیں۔

پاکستان کی انڈسٹری نے دنیا بھر میں نام کمایا ہے، ضرورت اس ٹیلنٹ کو معاشرے سے متصادم ہونے سے بچانے کی ہے تاکہ حمیرا اصغر جیسی لڑکیوں کو تنہائی اور بے بسی کی موت مرنے سے بچایا جاسکے۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔