سخت گیر نواب اکبر بگٹی، بلوچستان کے دیگر مزاحمتی رہنماؤں سے کیسے مختلف تھے؟

نواب اکبر بگٹی کی شخصیت کے ایسے بے شمار پہلو ہیں کہ جن میں جہاں ایک طرف ان کی سفاکانہ شخصیت سامنے آتی ہے وہیں ان کی سحر انگیزی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
شائع July 17, 2025

اس تحریر کی گزشتہ قسط یہاں پڑھیے۔


’12 سال کی عمر میں، میں نے پہلا قتل کیا۔ اس شخص نے مجھے غصہ دلایا یاد نہیں کس بات پر۔۔۔ میں وہ وجہ بھول چکا ہوں مگر میں نے بندوق اٹھائی اور اسے قتل کردیا کیونکہ میں اپنے سردار باپ کا بڑا بیٹا تھا اور ایسا کرنا قبائلی قانون کے تحت کوئی جرم نہیں‘۔

سیلویا میتھیسن اپنی کتاب ’دی ٹائیگرز آف بلوچستان‘ میں لکھتی ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور حلوے کا نوالہ لیتے ہوئے مجھ سے یہ الفاظ کہے اور ساتھ ہی کہا کہ ’مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں۔ میرا باپ بھی قتل کیا گیا تھا، اسے زہر دیا گیا تھا‘۔

1970ء میں بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ملنے سے قبل اور بعد کی تین دہائیوں تک جن 4 بڑے قوم پرست رہنماؤں کا ڈنکا بجتا رہا، ان میں نواب اکبر خان بگٹی اپنی شخصیت کی سحر انگیزی، مزاج کی سخت گیری، دوستی اور دشمنی کی آخری حدوں تک جانے کے سبب باقی تین بڑے رہنماؤں سے منفرد اور مختلف تھے۔ بقیہ تین سے میری مراد، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری اور سردار عطااللہ مینگل سے ہے۔

اپنے گزشتہ بلاگ میں، میں نے اس چوتھی بڑی بلوچ مزاحمتی جنگ کا تفصیل سے ذکر کیا تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے حکم پر 80 ہزار فوجی جوانوں نے حصہ لیا اور روایتی ہتھیاروں سے لیس 50 ہزار بلوچ چھاپہ ماروں نے 4 سال تک مقابلہ کیا مگر بہرحال 5 ہزار سے زائد ہلاکتوں کے بعد انہیں پسپا تو ہونا ہی تھا۔

  تھدڑی میں گوریلا جنگجو—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘
تھدڑی میں گوریلا جنگجو—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘

یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ 1948ء سے 1970ء تک چھوٹی بڑی تمام مزاحمتی جنگوں میں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے مری، مینگل، زہری قبائلی گوریلوں کے ساتھ لڑتے رہے مگر اس چوتھی بڑی چھاپہ مار جنگ سے بگٹی قبیلہ دور رہا بلکہ معذرت کے ساتھ نواب اکبر خان نے اپنے ساتھی قوم پرست رہنماؤں کا ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ محاورے کی زبان میں اس مزاحمتی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔

  مری کیمپ کے مزاحمت کار جنہوں نے گوریلا جنگوں میں حصہ لیا—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘
مری کیمپ کے مزاحمت کار جنہوں نے گوریلا جنگوں میں حصہ لیا—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘

انگریزوں کے خلاف بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کی ایک طویل تاریخ ہے، اسے سرداری نظام کو بچانے کی تحریک سے منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی یہ ایک منظم قوم پرست تحریک بن چکی تھی۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے لاہور کنونشن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک بھی بلوچ نمائندے نے شرکت نہیں کی تھی۔

آزادی سے قبل میر غوث بزنجو نے ایک وفد کے ساتھ کانگریس رہنما مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ بلوچستان ہندوستان کا کبھی حصہ نہیں رہا مگر مولانا آزاد نے اس حوالے سے بزنجو صاحب کے وفد کو مایوس کن جواب دیا۔

اس دوران خان آف قلات نے بلوچستان کے ایک آزاد خودمختار ریاست ہونے کا اعلان کردیا۔ خان آف قلات زیادہ عرصے یہ دباؤ برداشت نہ کرسکے اور قیام پاکستان کے 8 ماہ بعد اپریل 1948ء میں انہیں پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنا پڑا۔

یہ لیجیے میں پھر موضوع سے بھٹک کر ماضی میں چلا گیا کیونکہ بلوچستان مسئلہ ہی ایسا ہے۔ میں اس بلاگ کو 1970ء کی دہائی کی ہنگامہ خیزی اور اس میں بلوچستان کے سب سے بڑے قبیلے کے سردار نواب اکبر خان بگٹی کے کردار تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ جو 6 دہائی تک بلوچستان کی سیاست میں محض سرگرم ہی نہیں رہے بلکہ اس کا محور بھی بنے رہے۔

12 جولائی 1927ء کو پیدا ہونے والے نواب اکبر خان نے بلوچستان کے دیگر سرداروں کے مقابلے میں لاہور میں انگریز اشرافیہ کی درس گاہ ایچی سن سے گریجویشن کیا۔ 6 فٹ کے دراز قد 21 سالہ نواب اکبر خان کی ٹائی سوٹ میں قائد اعظم سے ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر یہ پیغام دیتی ہے کہ اپنے دیگر بلوچ قوم پرست و سرداروں کے مقابلے میں وہ پاکستانی فیڈریشن کے حامی تھے۔

  نواب اکبر بگٹی، بانی پاکستان سے مصافحہ کررہے ہیں—تصویر: ایکس
نواب اکبر بگٹی، بانی پاکستان سے مصافحہ کررہے ہیں—تصویر: ایکس

نواب اکبر خان نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز مئی 1958ء میں قبائلی رہنما کی ہلاکت سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے سے کیا۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم ملک فیروز خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ بھی بنے مگر فیروز خان کی وزارت عظمٰی چند ماہ ہی چل پائی اور اکتوبر 1958ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا مارشل لا چیختا چلاتا آگیا۔

نواب اکبر خان کی پہلی گرفتاری 1960ء میں ہوئی۔ فوجی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا کے ساتھ ساتھ زندگی بھر کے لیے انتخابات میں حصہ لینے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔ 1970ء کے انتخاب سے پہلے میر غوث بزنجو، نواب خیر بخش مری اور سردار عطااللہ مینگل کو نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں لانے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر سخت گیر نواب اکبر خان بگٹی کسی سیاسی جماعت کے نظم و ضبط میں آنے کے قائل نہیں تھے۔

تاہم بلوچستان میں نیپ نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں جو شاندار کامیابی حاصل کی اس میں نواب اکبر خان نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ وہ اپنے سیاسی اور سرداری قد کاٹھ کے سبب صوبے کا گورنر بننا اپنا حق سمجھتے تھے مگر نیپ کی وفاقی و صوبائی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق سردار عطااللہ مینگل وزیراعلیٰ جبکہ میر غوث بخش بزنجو اس وقت گورنری کے لیے نامزد ہوئے۔ بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے صدر نواب خیر بخش مری تھے جو اپنے نوابی مزاج کے باوجود سڑکوں کی سیاست میں بھرپور شرکت کرتے تھے۔

البتہ نواب اکبر خان نے یہ کڑوا گھونٹ بڑی مشکل سے پی لیا۔ نیپ کے ایک سینئر رہنما سے روایت ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جب کوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا تو نواب اکبر خان پچھلی نشستوں میں آکر بیٹھ گئے۔ میر غوث بخش بزنجو کے ایک قریبی ساتھی محمود عبدالعزیز کرد کے ایک جملے نے اس وقت سب کو چونکا دیا جب انہوں نے کہا کہ ’ہمارے درمیان آؤٹ سائیڈر (یعنی باہر کا آدمی) آ کر بیٹھ گیا ہے‘۔ یقیناً ان کا اشارہ نواب اکبر خان کی طرف تھا۔ نواب اکبر خان جیسے سرکش مزاج سردار نے اسے اپنی توہین سمجھا جوکہ بہرحال تھی بھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ نواب اکبر خان نے اس کا ذمہ دار میر غوث بخش بزنجو کو ٹھہرایا۔

  نواب اکبر بگٹی اور میر غوث بخش بزنجو—تصویر: فلیکر
نواب اکبر بگٹی اور میر غوث بخش بزنجو—تصویر: فلیکر

نیپ کے 10 ماہ کے دور اقتدار میں نواب اکبر خان بگٹی نے زیادہ وقت بلوچستان بلکہ پاکستان سے باہر لندن میں گزارا۔ نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب گورنر راج قائم ہوا تو ذہین و فتین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گورنری کی پگ نواب اکبر خان بگٹی کے سر پر رکھ دی۔ بلوچستان کی سیاست میں یہ ایک بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ نواب اکبر خان نے گورنری کا تاج پہن کر اپنے درینہ سیاسی رفیقوں سے انتقام تو لیا ہی مگر یہ بلوچستان کی قوم پرست مزاحمتی تحریک کے لیے بھی یہ ایک بڑا سیاسی دھچکا تھا۔

ملٹری آپریشن کے دوران پہاڑوں پر جانے والوں کے خلاف کارروائی میں نواب اکبر خان کتنے متحرک تھے، اس بارے میں کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس صوبے میں ملٹری آپریشن ہو رہا ہو، اس کا گورنر اپنے سرد کمرے میں آتش دان پر ہاتھ تاپ رہا ہو۔

حال ہی میں نواب خیر بخش مری سے باغی ہونے والے ایک کمانڈر میر ہزار خان پر لکھی ہوئی کتاب میں صفحہ 53 پر لکھا ہے کہ بگٹی حکومت کے کہنے پر سیکیورٹی فورسز نے تیزی سے حرکت کی تاکہ مری علاقے میں ہونے والی تمام نقل وحرکت کو روکا جائے۔ ہزار خان کے حوالے سے مزید لکھا گیا ہے کہ انہیں اکبر خان نے خط میں دھمکی دی کہ فراریوں سمیت ہتھیار ڈال دیں ورنہ وہ اتنی فوج بھیجیں گے کہ جتنے ان کے علاقے میں پتھر ہیں۔

  تھدڑی 1972ء میں نواب خیر بخش مری، میر ہزار خان کے ہمراہ فراریوں سے ملاقات کرتے ہوئے—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘
تھدڑی 1972ء میں نواب خیر بخش مری، میر ہزار خان کے ہمراہ فراریوں سے ملاقات کرتے ہوئے—تصویر: کتاب ’میر ہزار خان مری‘

بلوچستان کی گورنری نواب اکبر خان کے لیے کوئی ایسا اعزاز تو نہیں کہ جس کے لیے وہ بھٹو اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ سے اپنی غیرمشروط وفاداری جاری رکھتے۔ نیپ کی قیادت سے ان کا انتقامی جذبہ اور غصہ بتدریج سرد پڑنے لگا تھا کیونکہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ اور خود وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بلوچستان میں اپنے گورنر سے بلوچ مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لیے جو توقعات رکھتے تھے، وہ اس پر پورے نہیں اترے۔

اس حوالے سے روایت ہے کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک جلسے میں بلوچستان میں سرداری نظام کا خاتمہ کرنے کا اعلان کرنے کے بعد شام کے پہلے پہر میں گورنر ہاؤس میں نواب اکبر خان کو یہ خوشخبری دینے لگے کہ میں نے بلوچستان میں سرداری نظام کا خاتمہ کردیا ہے تو اس پر نواب اکبر خان نے اپنی مخصوص انداز میں مونچھوں کو موڑتے ہوئے کہا ’اچھا‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے دروازے سے باہر کھڑے بلوچ محافظ کو بلایا اور اسے یقیناً اپنی ہی زبان میں کہا ہوگا کہ اپنا ہاتھ لاؤ، اپنے سردار کے حکم کے مطابق اس نے ہاتھ آگے کر بھی دیا۔

نواب اکبر خان نے اپنے سامنے آتش دان میں سے جلتے ہوئے کوئلے بلوچ محافظ کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ حیران و پریشان وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کیفیت دیدنی تھی، نواب اکبر خان نے اپنی مخصوص مسکراہٹ اور چبھتی ہوئی زبان میں بھٹو صاحب سے کہا کہ اس کا ہاتھ راکھ ہوجائے گا مگر اپنے سردار کے سامنے اس کا ہاتھ نیچے نہیں ہوگا’۔

  ذوالفقار علی بھٹو اور نواب اکبر خان بگٹی
ذوالفقار علی بھٹو اور نواب اکبر خان بگٹی

یہ ہے سرداری نظام! نواب اکبر خان کی شخصیت کا یہ سفاکانہ پہلو اپنی جگہ کہ جو سرداری نظام کا خاصہ ہے مگر اکبر خان بگٹی کی شخصیت کا ایک اور پہلو دیکھیں کہ ان کی گورنری کے زمانے میں کوئٹہ کے لیاقت باغ میں نیپ کا جلسہ تھا جہاں لاہور سے خاص طور پر شاعر عوام حبیب جالب بھی آئے ہوئے تھے۔ جالب صاحب نے اس زمانے میں لکھی اپنی تازہ نظم سنائی۔

سن بھئی اکبر بگٹی،
بات کہوں میں ٹُھکتی،
جمہوری تحریک ہے یہ،
اب روکے سے نہیں رُکتی،
سن بھئی اکبر بگٹی،
ہم کو نہیں منظور کہ اپنے دیس کی ہو بربادی،
اپنی گردن کسی بھی آمر کے آگے نہیں جُھکتی

جلسے کے بعد جالب صاحب جناح روڈ پر کیفے ڈان میں بیٹھے تھے کہ نواب اکبر خان کے بہنوئی چند ساتھیوں کے ہمراہ جیپ میں آئے اور کہتے ہیں کہ نواب صاحب نے وائرلیس پر یہ نظم سن لی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے سامنے بھی سنیں۔ یہ بات سیف الرحمٰن مزاری نے ذرا تحکمانہ انداز میں کہی۔ جالب صاحب جیپ میں بیٹھ تو گئے مگر لوگ جانتے ہیں کہ شام کے پہر میں انہیں جس طرح اٹھایا گیا، اس پر انہیں غصہ تو ضرور آیا ہوگا۔

جالب صاحب جب گورنر ہاؤس پہنچے تو نواب صاحب کے کمرے کے باہر خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم بیٹھے تھے۔ اس دوران نواب صاحب کو احساس ہوگیا کہ انہوں نے جالب صاحب کو شام کے اس پہر میں بلا کر غلطی کی۔ اپنے نائب کو بلا کر کہا ایسا کرو پرنس کریم اور جالب کا کسی اور کمرے میں بندوبست کردو۔

نواب کی پہلو دار شخصیت کے ایسے بے شمار پہلو ہیں کہ جس میں جہاں ایک طرف ان کی سفاکانہ شخصیت سامنے آتی ہے وہیں ان کی شخصیت کی سحر انگیزی سے بھی پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔

جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد بلوچستان میں پوری ایک دہائی خاموشی رہی۔ ضیاالحق کے انتقال کے بعد 1988ء میں ہونے والے انتخابات میں نواب اکبر خان اپنے سیاسی کریئر کا دوبارہ آغاز کرتے ہیں، صوبے کے وزیر اعلیٰ بنتے ہیں مگر یہ دور بڑا مختصر ہے۔ نواب صاحب کی جس طرح مشرف دور میں ہلاکت ہوئی، اس کی وجہ سے انہیں آج بلوچستان میں ایک ہیرو کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل ذرا آگے چل کر! (جاری ہے )

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔