غیرت کے نام پر قتل ہو یا ریپ، ذمہ دار ہمیشہ عورت کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟

کاریوں کے قبرستان غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی عورتوں کی بے کفن لاشوں سے بھرے ہیں جبکہ یہاں کسی کو دعائے مغفرت پڑھنے تک کی اجازت بھی نہیں۔
شائع July 22, 2025

وہ سرخ لباس پہنے اور مٹیالے رنگ کی چادر کو ایک دو بار ٹھیک کرتی مردوں کے غول سے نکل کر چلتی ہوئی ایک طرف بڑھ رہی ہے۔ براہوی زبان میں وہ کہتی ہے کہ ’صرف گولی مارنے کی اجازت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں‘ اور پھر وہ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہوجاتی ہے جس کے چند سیکنڈز بعد گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کو اب تک لاکھوں بار دیکھا اور شیئر کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی کہ جس میں بندوق بردار شخص زخمی حالت میں پڑے احسان سمالانی نامی شخص پر ایک بار پھر گولیاں چلاتا ہے اور پھر وہ مردہ حالت میں پڑی بانو ساتکرئی پر بھی فائرنگ کرتا ہے جس کے بعد ایک آواز آتی ہے کہ ’بس کردو بس کردو‘۔

اپنی موت کے فیصلے کو گڑگڑائے، فریاد اور روئے بغیر قبول کرنے والی اعتماد سے کھڑی بانو کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تقریبا“ 50 کلومیٹر دور ڈیگاری کے علاقے میں لے جاکر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

’اس نے مجھ سے ملنے سے انکار کیا تھا‘، یہ الفاظ تھے عدالت میں پیش ہونے والے 22 سالہ نوجوان عمر حیات کے جس نے دن دہاڑے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں رواں سال جون میں 17 سالہ لڑکی ثنا یوسف کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کیا تھا۔ یہ لڑکی ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتی تھی اور ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر تھی۔

یہی نہیں رواں ماہ میں ہی پنجاب میں ایک نوجوان نے اپنی کزن کو اس لیے قتل کردیا کیونکہ مقتولہ نے شادی سے انکار کیا تھا۔ ایسی بہت سی خبریں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی اخبار کے کونے میں مل ہی جاتی ہیں جن میں پسند کی شادی، سوشل میڈیا پر موجودگی، کسی سے دوستی یا جائیداد کے تنازعے پر خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ کچھ خبریں سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ حاصل کرلیتی ہیں تو کچھ واقعات نظروں سے اس لیے اوجھل رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ سرے سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔

  خواتین کے خلاف جرائم میں اکثر ان کے قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی
خواتین کے خلاف جرائم میں اکثر ان کے قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی

لیکن بانو اور احسان کے قتل کی ویڈیو جو تین روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے، اس کے بارے میں اب تک کی معلومات کے مطابق کہا جارہا ہے کہ یہ واقعہ عید سے تین روز قبل کا ہے لیکن ویڈیو اب منظر عام پر آئی ہے جس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ایکشن لیتے ہوئے اس قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری کا یقین دلایا جبکہ جرگے کا فیصلہ سنانے والے شخص شیر باز ساتکزئی، بانو کے بھائی جلال ساتکزئی سمیت اب تک 11 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

کوئٹہ کے مقامی صحافی مرتضیٰ زہری کے مطابق مقتولین کی قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا گیا جس میں بتایا گیا کہ خاتون کو 7 جبکہ مرد کو 9 گولیاں ماری گئیں۔ تاہم لواحقین جس میں دونوں قبائل شامل ہیں، ان کی جانب سے قتل کی اصل وجوہات کی کوئی تصدیق نہیں کی جارہی ہے۔ مرتضیٰ کے مطابق معاملے سے جڑی کئی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ قبائلی ہے تو اس لیے سچ کا سامنے آنا انتہائی مشکل ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے اعداد و شمار

قتل کا یہ معاملہ جہاں دل دہلا دینے والا ہے وہیں سوشل میڈیا پر یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ ایسے جدید دور میں بھی ہمارے معاشرے میں فرسودہ روایات کا سلسلہ کیسے جاری ہے؟

ہیومن رائٹس کمیشن برائے پاکستان (ایچ آر سی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2021ء سے 2023ء کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے خواتین کے قتل کی تعداد ایک ہزار 203 ہے جن میں 492 تعداد کے ساتھ پنجاب سرفہرست ہے۔ سندھ میں 451، خیبرپختونخوا میں 196، بلوچستان میں 61، اسلام آباد میں 2 جبکہ گلگت بلتستان میں ایک خاتون کو قتل کیا گیا۔

  پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن واقعات کا سلسلہ نہیں رک رہا—تصویر: اے ایف پی
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن واقعات کا سلسلہ نہیں رک رہا—تصویر: اے ایف پی

سندھ میں 2023ء اور 2024ء کے جاری کردہ اعداد و شمار میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تعداد 307 ہے جن میں 134 مردوں اور 173 خواتین کو کاروکاری کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان 307 میں سے 4 مقتولین کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ قاتلوں میں قریبی رشتے دار شامل ہیں جن میں والد، بھائی، شوہر، سسرال و دیگر نمایاں ہیں۔

2024ء میں اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو 405 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ جبکہ 4 ہزار 175 ریپ کے کیسز رپورٹ ہوئے، ایک ہزار 641 کیسز جبکہ خواتین پر تشدد اور آن لائن ہراسانی کے کیسز کی تعداد 3 ہزار 121 بتائی جاتی ہے۔

ایسے فیصلے ماورائے عدالت کیسے ہورہے ہیں؟

کسی بھی عورت کا ایسا اقدام جو اس نے اپنی مرضی سے لیا ہو اور خاندان یا اس کی روایات کے خلاف ہو، اس پر علاقے کا سردار، جاگیردار، پنچائیت اسے سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ قتل کے اکثریتی فیصلوں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قتل ہونے والی عورت کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا، اس لیے اسے مارا گیا ہے۔

یہ عمل پورے ملک میں الگ الگ ناموں اور شکلوں میں موجود ہے۔ اگر سندھ کی بات کی جائے تو کاریوں کے قبرستان اس سے بھرے پڑے ہیں جہاں قتل کی جانے والی عورتوں کی بے کفن لاشیں بنا کسی کتبے یا شناخت کے مدفن ہیں اور ان قبرستانوں میں کسی کو دعائے مغفرت ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ لیکن ایسے فیصلے کا اختیار چند لوگوں کے ہاتھوں میں کیوں ہے؟ اس کے فیصلے ماورائے عدالت کیسے ہورہے ہیں؟

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر کے مطابق، ’قبائل اور کمیونٹی کے باہم رضامندی کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو بھی قتل کردیا جائے، اس عمل سے قبل پورا خاندان بیٹھ کر یہ طے کرتا ہے کہ فلاں عورت یا مرد کو قتل کرنا ہے کیونکہ انہیں معاشرے میں اپنی عزت بچانی ہوتی ہے اور اسی قبیلے میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ان کی لعن طعن سے بچنے کے لیے وہ یہ اقدام کرتے ہیں‘۔

  ’پورا قبیلہ مل کر عورت یا مرد کو قتل کرنے کا فیصلہ لیتا ہے
’پورا قبیلہ مل کر عورت یا مرد کو قتل کرنے کا فیصلہ لیتا ہے

جلیلہ کا مزید کہنا ہے کہ ملک بھر میں جہاں غیرت کے نام پر خواتین کو مارا جارہا ہو، یہ دراصل ’فیمی سائیڈ‘ ہے جس کے لیے کاروکاری یا سیاہ کاری جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

جلیلہ نے کہا، ’یہ آج کا قصہ نہیں یہ فرسودہ قدیم قبائلی روایات ہیں جن کے کیسز رپورٹ ہو بھی جائیں تو ان میں بھی ملزمان کو سزا ملنے کی شرح انتہائی کم ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری پینل کورٹ ہے جس میں 2016ء کی ترمیم کے باوجود بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نہیں رک سکے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ فریقین کسی نہ کسی طرح کوئی راستہ نکال کر قاتلوں کو معاف کردیتے ہیں۔

صحافت سے وابستہ نجی چینل کے بیورو چیف اے ایچ خانزادہ نے بلوچستان میں ہونے والے غیرت کے نام پر قتل کو بے غیرتی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عورتوں کے خلاف بڑھتے جرائم ہر شکل میں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ مغرب میں ان کی کوئی اور شکل ہے جبکہ پاکستان اور بھارت میں اسے جرگہ اور غیرت کا نام دیا جارہا ہے۔ اس طرح کے فیصلے نہ صرف اسلام، اخلاقیات اور آئین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے قبائل جو اس طرح کے جرائم کو غیرت کا نام دے کر لاگو کر رہے ہیں، وہ درحقیقت ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاست کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے اندر اس طرح کی سوچ اور فیصلے کرنے والے قبائل، پنچائیت، جرگوں کا فوری خاتمہ ضروری ہے اور ایسے جرائم میں ملوث کرداروں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔

سماجی رہنما اور تحریک نسواں کی بانی شیما کرمانی کا کہنا ہے، ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ پدرشاہی نظام پر مبنی ہے لیکن ایسے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ میں اسے میسوجینی یعنی عورتوں سے نفرت اور حقارت کے اثرات بھی سمجھتی ہوں۔ میں اسے انسانیت کے خلاف جرم کہتی ہوں جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس کے خاتمے کی ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے کہ جو لوگ یہ جرائم کر رہے ہیں انہیں حراست میں لے کر سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔

’میرے لیے سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اب اس واقعے کے بعد قتل ہونے والی عورت پر بات کر رہے ہیں کہ اس نے شادی کی تھی نہیں کی تھی، اس بات کا اس سے کوئی تعلق نہیں جرم، جرم ہوتا ہے۔ قتل سنگین اقدام ہے جو یہ کر رہے ہیں انہیں ہر صورت سزا ملنی چاہیے‘۔

وکٹم بلیمنگ نہ ختم ہونے والا سلسلہ

جون میں اسلام آباد میں قتل ہونے والی 14 سالہ لڑکی ثنا یوسف کے لیے جہاں سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی گئی وہیں کئی یوٹیوبرز کی جانب سے اور مختلف پلیٹ فارمز پر وکٹم بلیمنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں یہ تک کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر کسی لڑکی کی موجودگی یہ نوبت لاسکتی ہے۔ اسی طرح نور مقدم کیس میں بھی قتل ہونے والی نور کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

یہی نہیں 2020ء میں موٹر وے ریپ کیس پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو اس وقت معافی مانگنا پڑی کہ جب انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ متاثرہ خاتون اتنی رات کو نکلی ہی کیوں تھیں؟ غرض یہ کہ جب بھی کسی عورت کا قتل ہو یا اس کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آئے، اس کے کردار پر سوالات ضرور اٹھائے جاتے ہیں۔ اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

  ہمارے معاشرے میں متاثرہ خواتین کو ہی ان کے خلاف ہونے والے جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے—تصویر: ایکس
ہمارے معاشرے میں متاثرہ خواتین کو ہی ان کے خلاف ہونے والے جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے—تصویر: ایکس

اس واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی پریس کانفرنس کرنے آئے تو ان کے الفاظ تھے، ’میں نے دیکھا ہے کہ پورے پاکستان میں یہ خبریں سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں کہ یہ نوبیاہتا جوڑا تھا لیکن ایسا نہیں تھا، ان کا آپس میں کوئی ازدواجی رشتہ نہیں تھا۔ قتل ہونے والی خاتون کے 5 بچے ہیں۔ اسی طرح جو آدمی مارا گیا ہے اس کی عمر 45 یا 50 برس ہوگی اور ان کے بھی 4 یا 5 بچے ہیں۔

’کم سے کم پاکستان کے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کیونکہ میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے وہ انہیں شادی شدہ جوڑا ظاہر کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ ہاں قتل ہے جرم ہے چاہے کسی نے بھی کیا ہو کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اس بے دردی کے ساتھ گھناونے انداز میں ویڈیو بناکر کسی انسان کا قتل کرے۔ نہ معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے نہ ہی حکومت اس کی اجازت دیتی ہے‘۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا مقتولہ کے بارے یہ بیان کہ وہ مقتول کے ساتھ نکاح میں نہیں تھی، کیا وکٹم بلیمنگ نہیں کہلائے گی؟

معروف اینکر اور صحافی ماریہ میمن کا اس حوالے سے کہا کہ ’سرفراز بگٹی نے جب پریس کانفرنس کی تو ہم اس انتظار میں تھے کہ وہ ہمیں یہ بتائیں گے کہ جرگہ کا فیصلہ دینے والا سردار کون ہے، جرگے کے کیا حقائق ہیں لیکن ان سب کو نظرانداز کردیا گیا۔ بلکہ انہوں نے بہت باریک انداز میں مقتولہ کے لیے بہت کچھ کہا، انہوں نے مذمت بھی کردی اور کہا وکٹم بلیمنگ نہیں کر رہا لیکن یہ انتہائی سوچا سمجھا بیان تھا جس میں انہوں نے عورت اور مرد کے کردار پر بات کرکے معاملے کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے وہ لوگ جو قدامت پسند سوچ رکھتے ہیں، وہ اب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ قتل بالکل جائز تھا کیونکہ اس عورت کا کردار مشکوک تھا‘۔

سوشل میڈیا کیا خواتین کے خلاف استعمال ہورہا ہے؟

جلیلہ کے مطابق، ’سوشل میڈیا کے آنے سے ایسے قتل اور خواتین کے خلاف ہونے والے پرُتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز خواتین کو آسان ہدف بنا رہے ہیں جس کی ایک مثال قندیل بلوچ کا قتل بھی ہے جس میں اس کی باتوں کو اسی کے خلاف ٹرینڈ بنا کر پیش کیا گیا اور نفرت انگیزی پھیلائی گئی جو بعدازاں اس کے قتل کا سبب بن گئی۔

’اس کے برعکس میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جہاں اس سوشل میڈیا نے خواتین کو غیرمحفوظ بنایا ہے وہیں اس کے ذریعے ایسے واقعات رپورٹ بھی ہورہے ہیں۔ یہ بلوچستان والا واقعہ جو بھلے پرانا ہے اگر یہ منظرعام پر نہ آتا تو کسی کو نہ معلوم ہوتا کہ ایک عورت کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے‘۔

  اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا کسی کو دوردراز علاقے میں عورت کے قتل کی خبر نہ ہوتی
اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا کسی کو دوردراز علاقے میں عورت کے قتل کی خبر نہ ہوتی

ماریہ میمن نے کہا، ’وہ اس صورت حال کو ایک الگ انداز سے دیکھتی ہیں۔ عورتوں کے خلاف نفرت اور حقارت پہلے سے ہی موجود تھی یہاں تک کہ عورت کو اپنے برابر نہیں سمجھا جاتا تھا جہاں سوشل میڈیا پر ایسی آوازیں اٹھتی ہیں وہیں اب خواتین کے ہاتھ میں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کا طریقہ آچکا ہے اب بہت سی ایسی طاقتور اور توانا آوازیں ہیں جن میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہی جو اس طرح کی نفرت کے پرچار کو چیلنج کرتے ہیں اور اپنا بیانیہ آگے پہنچاتے ہیں۔

’اسی ویڈیو کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر خواتین نے اس قتل کے خلاف جہاں آواز اٹھا کر اپنا حصہ ڈالا وہیں ریاست کو بھی دباؤ محسوس کرتے ہوئے حرکت میں آنا پڑا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا کہ ایک سردار سرفراز بگٹی کو یہ کہنا پڑے کہ یہ غلط ہوا ہے ہم لوگوں کو گرفتارکررہے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا ہی پریشر تھا جس نے اس معاملے کو آگے بڑھایا‘۔

ریاست ایسے جرائم روکنے میں کیوں ناکام ہے؟

جلیلہ نے کہا، ’پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہونے اور روک تھام نہ ہونے کی ایک اہم وجہ تعلقات کی بنیاد پر قانون کا استعمال بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا تعلق کسی برادری یا مخصوص گروپ سے ہے تو وہ ریاست کی رٹ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاملات میں ریاست اور عوام کے درمیان بہت بڑی خلیج پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ قبائل، جرگہ، پنچائیت تب تک وجود رکھتے ہیں جب تک معاشرے میں ایسی ذہنیت اور سوچ موجود ہے۔

’ماسوائے کراچی یا پنجاب کے بڑے شہروں کے، یہ پورے ملک میں مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ دیہی علاقوں میں برادریاں اس نظام میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں اور اسی کی آڑ میں ہماری حکومتیں بھی ان سے فائدہ لیتی ہیں جیسے انتخابات کے دنوں میں پوری پوری برادری کے ووٹ لینا، اسی وجہ سے یہ اور مضبوط ہوجاتے ہیں۔

  برادریاں جرگہ سسٹم کو خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں—تصویر: میٹا اے آئی
برادریاں جرگہ سسٹم کو خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں—تصویر: میٹا اے آئی

’اگر آپ دیکھیں تو قبائلی سربراہ ریاست کے اندر ایک ریاست کا وجود رکھتا ہے اور یہی سربراہ اپنی سوچ، موڈ اور نفسیات کے ساتھ فیصلے سناتے ہیں اور اس پر عمل کرواتے ہیں۔ آئین پاکستان جس میں یہ واضح ہے کہ آپ ریاستی عدالتوں کے علاوہ کوئی قانون اور عدالتیں قائم نہیں کرسکتے لیکن چاہے وہ شادی کا فیصلہ ہو یا قتل کا یہ لوگ خود اسے طے کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ریاست کو طاقت کے مرکز میں رہنے کے لیے ان قبائل، جاگیرداروں کی ضرورت ہے، اس لیے انہیں سپورٹ ملتی رہے گی اور ایسے واقعات سامنے آتے رہیں گے‘۔

ماریہ میمن کے مطابق، ’ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی اس نظام سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ وہ اس نظام کو لاگو کروانے اور اس کی سہولت کاری کرنے والوں میں سے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ایک قبائلی سردار ہیں‘۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جس سردار کی بات کی جارہی ہے جس نے یہ فیصلہ سنایا وہ اس ویڈیو میں نہیں ہے تو وزیر اعلیٰ نے اس طرح کی بات کرکے اپنے ارادے کو بھی ظاہر کیا کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ زبانی کلامی باتیں بہت ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ خود اسی قبائلی نظام کا حصہ ہیں تو وہ اس کے خلاف کیسے کھڑے ہوں گے؟

سدرہ ڈار

لکھاری 2010ء سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں وہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا چینلز میں بطور رپورٹر کام کرتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق، کلائیمیٹ، انوائرمنٹ، سماجی مسائل ان کے موضوعات رہے ہیں )

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔