نچلی پرواز کرتے بادلوں کے سائے میں شال کی 5 آبشاروں کا سفر
یہ عاجز عموماً ایک عرصے سے کوشش کرتا رہا ہے کہ ایک نیا ٹریک جو آبشاروں، نئی وادیوں، نئی جھیلوں یا چراہ گاہوں پر مشتمل ہو، عوام کے سامنے لا سکے جس سے مقامی سیاحت کو فروغ ملے اور ارضِ پاکستان کی خوبصورتی کو دنیا میں بھرپور انداز سے دکھایا جاسکے۔ اس ریت کو قائم رکھتے ہوئے دو ایسے مزید خوبصورت مقامات قارئین کی پیش خدمت ہیں جو غیرمقامی سیاحت کی نظروں سے اوجھل ہی رہے ہوں گے۔
وادی آلائی ضلع بٹگرام میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے۔ اس وادی میں چوڑ اور کوپرا جیسے وسیع و عریض میدان شامل ہیں۔ اس طرح کھا پیرو جیسی بلند و بالا انتہائی نیلگوں جھیل بھی اسی وادی کا نصیب ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وادی آلائی مزرع گاہوں اور آبشاروں کی سرزمین ہے۔ آلائی قصبہ کا سفر روڈ کی بہتر حالت کی وجہ سے بہت آسان ہے۔ قصبے میں ایک بڑا بازار بھی ہے جہاں سے اشیائے خور و نوش باآسانی خریدی جاسکتی ہیں۔ ہم ایبٹ آباد سے بہ ذریعہ ٹیکسی اپنے دوست عبید اللہ کے ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ یہ ریسٹ ہاؤس آلائی بازار کے ساتھ ہی واقع ہے۔

بنہ آلائی سے ہی ہماری ٹیم نے ٹریکنگ کا آغاز کیا۔ آغاز میں ہی بھرپور چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک پرانے ٹوٹ پھوٹ کے شکار جیپ ٹریک پر ٹریکنگ کرنا پتھروں کی وجہ سے مشکل تھا۔ راستے میں پینے کے لیے پانی بھی کم ہے جبکہ آبادی بھی کم ہے۔

بہرحال تقریباً 3 گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہم ایک مقام پر کچھ دیر سستانے کےلیے رک گئے۔ یہ مقام کنڈاؤ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم دوستوں نے جیٹ فیول چولہے پر نوڈلز اور چائے بنا کر بمع لوازمات تناول کیے جبکہ اس موقع پر خوبصورت موسم نے مزہ دوبالا کردیا۔

کچھ دیر سستانے کے بعد دوبارہ ٹریکنگ شروع کی۔ یہاں سے انتہائی عمودی چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس چڑھائی کو مقامی لوگ چورھا کے نام سے پکارتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہم اپنی منزل کوپرا میدان تک پہنچے۔


یہ ایک بہت ہی بڑی چراہ گاہ ہے۔ یوں کہیے کہ ہر سو گھاس و سبزہ اُگا ہوا تھا۔ نچلی پرواز کرتے بادلوں کے نظارے اور دور دور تک میدان ہی میدان نظر آتے ہیں۔ مہندی لگائے ہوئے سورج کبھی بادلوں کی اوٹ لے رہا تھا اور کبھی اپنی سیماب کرنیں سبزہ مائل گھاس پر بکھیر رہا تھا، یہ ایک بہت ہی بھلا نظارہ تھا۔ قدرت کی یہ رعنائیاں انہی کے نصیب میں آتی ہیں جو اپنے قدموں پر چلتے اور ہمت کرکے دور افتادہ مقامات تک پہنچتے ہیں۔



ایک اندازے کے مطابق کوپرا میدان کی اونچائی 10 ہزار فٹ سے زائد ہے۔ کچھ دیر سستانے اور اردگرد کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد چند گھروں کے درمیان موجود مسجد میں رہائش کا قصد کیا۔ رات کا کھانا لکڑیوں والے چولہے پر پکایا اور رات کا کھانا کھا کر جلدہی سو گئے۔ ماہ جولائی میں بھی کوپرا میدان میں رات کافی ٹھنڈی تھی۔


صبح سویرے وادی کا نظارہ قابل دید تھا۔ بادل کی ٹکریوں نے مسجد کو چاروں اطراف سے گھیرا ہوا تھا۔ قرب میں موجود چشمے سے پانی لے کر چائے بنائی اور ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد جلد ہی نیچے اترنے کا قصد کیا اور بیاری گاؤں کی جانب سفر شروع کیا۔
چڑھائی سے مسلسل اترنے اور ٹوٹے ہوئے جیپ ٹریک پر چلنا ایک بار پھر مشکل ثابت ہوا۔ 18 کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے ہم دوپہر دو بجے کے قریب بیاری گاؤں پہنچے اور گاڑی پر سوار ہو کر واپس بنہ آلائی جا پہنچے۔

پاکستان میں عموماً ایک یا دو آبشاریں ایک ساتھ نظر آجانا بڑی غنیمت سے کم نہیں۔ آبشار کی ٹریکنگ جسم میں سے تھکاوٹ کے آثار نکال باہر دیتی ہے اور اردگرد کے ماحول کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ پاکستان میں چند ایک مقامات ایسے بھی ہیں جہاں پر اکٹھی کئی آبشاریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں جن میں ٹھوکی بہک (پھولاوائی) کی 4 آبشاریں اور کھلترو (گلگت بلتستان) میں ایک ساتھ 7 آبشاریں دل موہ لینے والا نظارہ پیش کرتی ہیں۔
اس مرتبہ ہم ہمارے مقامی دوست رئیس انقلابی کی نشاندہی پر شال کی 5 آبشاروں کی تلاش میں وادی نیلم کنڈل شاہی جا پہنچے۔ کنڈل شاہی سے کٹن جاگراں جانے والی پکی روڈ پر واقع شال آخری گاؤں ہے جہاں کنڈل شاہی کا موسم قدرے گرم اور مرطوب ہے وہیں شال کا موسم انتہائی خوشگوار ہے اور نظارے بھی انتہائی خوبصورت اور دل نشین ہیں۔ مظفر آباد سے شال گاؤں تک لوکل سواری میں بھی پہنچا جاسکتا ہے۔


ہم دوست صبح راولپنڈی سے بہ ذریعہ لوکل سواری شام کے وقت شال پہنچے جبکہ رات گئے ہمارے دوست رئیس بھی ہمیں جوائن کرچکے تھے۔ اگلے دن صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد ٹریکنگ کا آغاز کیا۔ شال گاؤں کے ساتھ بہنے والے نالے کی مغربی سمت آبشاریں واقع ہیں۔ لہٰذا ہمارا سفر نالے کی مخالف سمت میں شروع ہوا۔ کچھ برس قبل کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے نالے کے اردگرد موجود مکانات نالہ کی نذر ہوگئے تھے جس کی وجہ سے نالے کے کنارے پر بڑی تعداد میں پتھر ہی پتھر موجود ہیں اور نوکیلے پتھروں کی وجہ سے اس نالے میں چلنا کافی مشکل عمل ہے۔



الغرض مستقل 8 سے 10 کلومیٹر کی چڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹریکنگ جاری رہی۔ یہاں اردگرد کی وادی بہت ہی خوبصورت ہے۔ یہیں سے بابون اور بٹ کنالی جھیل کی طرف راستہ جاتا ہے اور رئیس انقلابی کے مطابق یہاں سے ایک راستہ مشہور جھیل سیف الملوک کی طرف بھی جاتا ہے۔ کچھ بکروال وادی بابون کی طرف جاتے نظر آئے۔ ان بہتی آبشاروں کا پانی ایک بڑے نالے میں گرتا ہے اور شال والے نالے میں ضم ہو جاتا ہے۔


تاہم فیصلہ ہوا کہ اس نالے کے ساتھ عمودی چڑھائی کی جائے۔ ان آبشاروں تک پہنچنے کا ایک دوسرا راستہ قدرے آسان مگر لمبا ہے لہٰذا وقت کی کمی کی وجہ سے سخت راستے کا ہی انتخاب کیا گیا۔ چڑھائی بہت ہی سخت ہے۔ کئی دوستوں کے مطابق چٹھہ کھٹا جھیل والی چڑھائی سے بھی زیادہ عمودی چڑھائی ہے۔ اس ٹریک کو درمیانی مشقت والا ٹریک کہا جاسکتا ہے۔
تین گھنٹے کی مسلسل چڑھائی کے بعد تھکاوٹ کے آثار واضح تھے کچھ دیر سستانے کے لیے آرام کی غرض سے سستانے لگے۔ اچانک نظر اردگرد لگی جنگلی اسٹرابیریز پر پڑی اور ہم اس میٹھے مگر چھوٹے سے پھل کو کھا کر تازہ دم ہوئے۔ ایسا لگا جیسے جسم میں کسی نے پھر سے جان ڈال دی ہو۔ دوبارہ چڑھائی شروع کی اور مزید دو گھنٹے کے بعد پہلی آبشار کے وسط میں جا پہنچے۔ آرام سے بیٹھ کر قدرت کے اس نظارہ کے ہر لمحہ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔



چند مزید دوستوں نے بڑی آبشار کے دامن میں جانے کا قصد کیا۔ راستہ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن ہمت کرکے آبشار کے دامن میں مزید ایک گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہم وہاں پہنچے۔ آبشار کی ہلکی پھوار نے جیسے ہم دوسروں کو خوش آمدید کہا اور ٹریکنگ کے دوران ہونے والی جسم کی ہر تھکاوٹ دور کردی۔


یہ پانچ آبشاریں بہت ہی خوبصورت اور بھلی لگتی ہیں اور اردگرد چرتے جانور اس ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف قدرت نے آج خاص احسان کیا اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے چڑھائی اور بعد میں نیچے اترنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

کچھ دیر نظارے سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم تین گھنٹے تک مسلسل نیچے اترے اور ایک گاؤں سے لسی پی کر تازہ دم ہوکر شام تک اپنی منزل پر واپس پہنچ گئے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ فاصلہ غیرمقامی احباب کے لیے دو دن اور ایک رات کا متقاضی ہے لیکن دوستوں کی انتھک محنت کی وجہ سے ہم انتہائی کم وقت میں ان خوبصورت نظاروں کی انمٹ یادوں کے ساتھ واپس شال پہنچے۔
اس تحریر میں شامل تمام تصاویر لکھاری نے عکس بند کی ہیں۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ .



