حسین آباد آبشار اور مسرور راک کی جادوئی دنیا کی سیر
سفر انسان کو وہ کچھ سکھا دیتا ہے جو شاید سیکڑوں کتابیں بھی نہ سکھا سکیں۔ گلگت بلتستان کی پتھریلی پہاڑیوں، سبز وادیوں کی خاموشی، چشموں کی سرگوشیوں اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی کو اپنے گزشتہ سفر میں، میں محسوس کرتا آیا ہوں۔ لیکن یہ سفر میرے لیے وہ موڑ تھا کہ جب میرے سامنے قدرت کے حسین ترین راز افشاں ہوئے۔
اب کی بار میں نے حسین آباد واٹر فال، مسرور راک اور حسین آباد بڑوق کی جانب سفر کیا۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں نہ صرف فطرت کی شان دیکھنے کو ملی بلکہ ایک مقامی شخص کی بصیرت، محنت اور سیاحت سے محبت بھی دل میں محسوس ہوئی۔
یہ ایک چھپے ہوئے قدرتی خزانے کا سفر ہے جو اسکردو سے محض کچھ کلومیٹرز کی دوری پر واقع ہے۔
قدرت کی دلکشی دیکھنے کے لیے حسین آباد آبشار پر جانے کے لیے ہم اسکردو سے صبح بہ ذریعہ گاڑی روانہ ہوئے۔ گاڑی بل کھاتی ہوئی منزل کی جانب بڑھتی رہی۔ پہاڑوں کی آغوش میں لپٹا یہ گاؤں، سادگی، خاموشی اور سبزے کا دلکش امتزاج پیش کرتا ہے۔
منزل پر پہنچنے پر ایک جانب لکھا تھا ’ویلکم ٹو حسین آباد واٹر فال‘، یہ دیکھ کر ہم سے مزید صبر نہ ہوا اور ہم فوراً اندر داخل ہوئے اور آبشار سے بہتے پانی کی آواز کو ڈھونڈنے لگے۔ چند قدم کے فاصلے پر پہنچے تو ہم ایک لمحے کے لیے ساکت ہوگئے کیونکہ سامنے ہی بہت ہی خوبصورت آبشار بہہ رہی تھی۔ اس کی خوبصورتی نے ہمیں چند لمحات کے لیے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ اس خوبصورت آبشار کے نیچے پتھریلی چٹان، اطراف میں سبزہ اور پس منظر میں ہلکی دھند نے گویا ہمیں کسی جادوئی دنیا میں ہونے کا احساس دلایا۔


حسین آباد آبشار ایک ایسا مقام ہے جو شاید سیاحوں میں زیادہ مقبول نہ ہو لیکن قدرت کا یہ دلکش نظارہ شدت سے اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یہیں میری ملاقات مرتضیٰ حسن سے ہوئی جو اس مقام کے نگہبان اور میزبان ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں خوش آمدید کہا بلکہ اپنی کہانی بھی سنائی۔
مرتضیٰ حسن نے بتایا کہ ’اس آبشار کے وجود سے 12 سے 15 سال پہلے صرف مقامی لوگ ہی آشنا تھے۔ کورونا کے دوران اسکردو آنے والے سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور جب رش بڑھا تو ہمیں لگا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس مقام کو ایک باقاعدہ سیاحتی مرکز بنایا جائے‘۔

انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر فال کے اردگرد صفائی، راستے بنانے، چھوٹے اسٹال لگانے اور گائیڈ سروسز کا انتظام شروع کیا اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ہزاروں سیاح آنا شروع ہوگئے۔
یہ واٹر فال اسکردو سے تقریباً 35 سے 40 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ راستہ تھوڑا کچا ضرور ہے لیکن گاڑی یا موٹر سائیکل پر باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ مرتضیٰ صاحب کے بقول آج اس آبشار پر روزانہ کی بنیاد پر درجنوں خاندان آتے ہیں۔ موسمِ گرما میں تو بعض دن ایسے ہوتے ہیں کہ جگہ کم پڑ جاتی ہے۔

مرتضیٰ حسن نے اپنی گفتگو میں ایک اہم پہلو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا، ’بدقسمتی سے کچھ سیاح یہاں خوبصورت تصاویر لیتے ہیں لیکن جاتے ہوئے پیچھے گندگی چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم نے کوڑے دان رکھے ہیں، بارہا صفائی کی اپیلیں کرتے ہیں مگر کچھ لوگ سنجیدگی نہیں دکھاتے‘۔
انہوں نے سیاحوں اور ٹریول کمپنیز سے اپیل کی کہ وہ صفائی کو سنجیدگی سے لیں تاکہ اسکردو کے تمام سیاحتی مقام کا حسن برقرار رکھا جا سکے۔

آبشار سے آگے جب ہم نے اپنا سفر جاری رکھا تو اگلی منزل مسرور راک (پتھر) تھا۔ یہ قدرتی پتھر اپنی نوعیت کا منفرد پتھر ہے جو دنیا میں صرف دو جگہ پایا جاتا ہے، ایک ناروے اور دوسرا اسکردو کے علاقے حسین آباد میں۔
حسین آباد واٹر فال سے مسرور راک جانے کے لیے 25 منٹ کی ڈرائیو کے بعد 3 گھنٹے کی سخت ہائیکنگ کرنا پڑتی ہے۔ یہ ہائیکنگ مشکل ضرور ہے لیکن جو منظر بلآخر سامنے آتا ہے، وہ تمام تھکن اتار دیتا ہے۔
مسرور راک 12 ہزار فٹ 327 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پتھر قدرت نے ایک بلند چوٹی پر بڑے توازن سے یوں نفیس انداز میں رکھا ہے جوکہ قدرت کے نظاروں میں کسی شاہکار سے کم نہیں۔
مسرور راک کی شکل، مقام اور اس کا پُرسرار توازن واقعی حیران کن ہے۔ لیکن یہاں بغیر مقامی گائیڈ کے جانا شدید خطرناک ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے مرتضیٰ حسن نے کہا، ’ہر سال کچھ لوگ راستہ بھٹک جاتے ہیں کیونکہ یہاں کے راستے نہ نشان زدہ ہیں اور نہ ہی حکومت نے کوئی باقاعدہ ٹریک بنایا ہے۔ مقامی گائیڈز نہ صرف محفوظ راستے دکھاتے ہیں بلکہ آپ کو اس علاقے کی تاریخ، جغرافیہ اور ثقافت سے بھی روشناس کرواتے ہیں‘۔
مسرور راک پر کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور واپسی پر ہم نے حسین آباد کے ایک اور حصے کا مشاہدہ کیا جسے ’حسین آباد بڑوق‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف حسین آباد کا قدیم حصہ ہے بلکہ یہاں کی ثقافت آج بھی اپنی اصل حالت میں زندہ ہے۔
یہاں آج بھی لوگ روایتی بلتی طرز کے گھروں میں رہتے ہیں۔ لکڑی، مٹی اور پتھروں سے بنے یہ گھر کئی دہائیوں پرانے ہیں لیکن پائیدار اور ماحول دوست ہیں جبکہ لوگ آج بھی مقامی لباس، خوراک اور روایات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔

اسی علاقے میں ایک نہایت خوبصورت ’بڑوق ریزارٹ‘ بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ ہوٹل بلتی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ لکڑی کی نقش و نگاری، دیسی فرنیچر اور مقامی کھانوں کا ذائقہ انمٹ یادیں آپ کے ذہن میں چھوڑ جائے گا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسرور راک اور حسین آباد آبشار کی بڑھتی ہوئی شہرت نے بڑوق کے باسیوں کے لیے روزگار کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ کئی گھروں نے گیسٹ ہاؤسز، ٹی شاپس اور لوکل گائیڈ سروسز شروع کی ہیں۔ خواتین بھی ہاتھ کی بنی اشیا بیچ کر اپنے طور پر روزگار کما رہی ہیں۔

اور ایک بات جو مرتضیٰ حسن اور دیگر مقامی افراد کی باتوں سے واضح تھی، وہ یہ تھی کہ یہ سب مقامی لوگوں کی محنت سے ممکن ہوا ہے جبکہ اس سب میں حکومت کی مدد بہت کم رہی ہے۔
مرتضیٰ حسن نے بتایا، ’گلگت بلتستان کے 96 فیصد سیاحتی مقامات مقامی افراد کے ذریعے ہی سنبھالے جا رہے ہیں۔ ہم خود صفائی کرتے ہیں، خود راستے بناتے ہیں اور خود سیاحوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اگر حکومت ان مقامات پر سڑکیں، بورڈز، بیت الخلا اور صفائی کا نظام مہیا کر دے تو یہ علاقے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سیاحوں کو متوجہ کر سکتے ہیں‘۔

ہم نے دن بھر حسین آباد کی سیر کی جس کے بعد رات کی سیاہی چھانے پر ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ کافی تھک بھی چکے تھے۔ لہٰذا ہم نے اسکردو شہر میں اپنی پناہ گاہ کی طرف راہ لی۔ مگر حسین آباد کا سفر بلاشبہ ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔ آبشار کا شور، مسرور راک کی پُراسراریت اور حسین آباد بڑوق کی ثقافت، ان سب کے امتزاج نے ایک ایسی کہانی تشکیل دی کہ جو صرف آنکھوں سے دیکھنے سے نہیں بلکہ دل سے حسوس کرنے سے مکمل ہوتی ہے۔
میری یہ تحریر صرف ایک جگہ کا تعارف نہیں بلکہ ان لوگوں کو سلام ہے جو اپنی زمین، ثقافت اور فطرت سے وفاداری سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ کا اسکردو جانا ہو تو حسین آباد کو اپنی فہرست میں ضرور شامل رکھیے گا۔
تمام تصاویر لکھاری نے مہیا کی ہیں۔

