قطر پر اسرائیلی حملہ: عرب ممالک کا ردعمل کیا ہوگا؟

امریکا کے لیے کچھ اتحادی دیگر سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، لہٰذا سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیجی ممالک ٹوٹ پھوٹ کا شکار خطے میں امریکی دفاعی صلاحیتوں پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟
شائع September 15, 2025

دوحہ میں اسرائیل کے حالیہ حملے نے ایک ایسی سرخ لکیر عبور کی ہے جسے خلیجی رہنماؤں نے طویل عرصے سے مقدس جانا۔ ان کا خیال تھا کہ خلیجی عرب ریاستیں امریکی سیکیورٹی چھتری تلے ہیں اور اسی وجہ سے غزہ تنازع کے آپریشنل زون سے باہر ہیں۔

لیکن اب نہیں۔ خلیجی ریاستیں اب ایک نئی حقیقت کا سامنا کررہی ہیں۔ اسرائیل اب جرأت مندانہ خطرات مول لینے اور مشرق وسطیٰ کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہے پھر چاہے وہ خلیج میں امریکا کے روایتی اتحادیوں کو نقصان پہنچا کر ہی اس مقصد کو کیوں نہ حاصل کرے۔

خلیجی رہنماؤں کے لیے اسرائیل کو روکنے میں امریکی ناکامی پریشان کن امر ہے۔ بنیادی طور پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا وہ اب بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار خطے میں امریکی دفاعی صلاحیتوں پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟

’کچھ اتحادی دیگر سے زیادہ اہم ہیں‘

قطری قیادت چونکا دینے والے اسرائیلی حملے پر ششدر تھی اور اس نے حمایت کے لیے واشنگٹن اور اپنے خلیجی شراکت داروں کی جانب دیکھا۔ دوسری جانب امریکا نے اپنے قریبی عرب اتحادی کو نشانہ بنانے پر اسرائیل کی معمولی سی سرزنش کی جو کہ خطے کے سب سے بڑے امریکی اڈے العدید کی میزبانی کرتا ہے جسے سینٹ کام کا علاقائی مرکز کہا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے قطر کے ساتھ گہرے دفاعی تعاون کا وعدہ کیا اور دعویٰ کیا کہ آخری لمحات میں دوحہ کو حملے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ اس دعوے پر قطر نے کہا کہ انہیں حملے کی اطلاع بہت دیر سے دی گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس نے قطر کو ایک مشکل اور غیر مانوس سیاسی پوزیشن میں ڈال دیا اور اسے ایک غیر جانبدار، قابل اعتماد ثالث کے طور پر اپنے کردار کا دفاع کرنے پر مجبور کیا۔

حالیہ برسوں میں سفارتی ثالث کے طور پر قطر کا تشخص، اس کی خارجہ پالیسی کا مرکز بن چکا ہے۔ دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل کا حملہ، قطر کی اس حکمت عملی کی بنیاد پر ضرب تھی جس نے جنگی فریقین کے درمیان بات چیت کے لیے محفوظ اور غیر جانبدار مقام فراہم کیا۔

دوحہ کے لیے ایک بھروسہ مند ثالث کے طور پر اس کا کردار جسے امریکی حمایت بھی حاصل ہے، بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنی سفارتی مطابقت کو بڑھانے اور بین الاقوامی فورمز میں اپنی ساکھ کو محفوظ بنانے میں مرکزی حیثیت حاصل رکھتا ہے۔

قطر کا یہ کردار محض علامتی نہیں۔ یہ قطر کی اپنی جغرافیائی کمزوری کو متوازی کرنے اور اسے ایک ایسے خطے میں بااثر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے بڑے ہمسایوں کا عموماً غلبہ ہے۔ لیکن اب اسرائیلی جارحیت کے بعد قطر انہیں ہمسایوں سے علاقائی جواب دینے کی امید لگا رہا ہے۔

صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے ابوظبی اور ریاض جو خطے کے سب سے طاقتور کھلاڑی ہیں، انہوں نے اسرائیلی حملے کو نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا۔ یہ جواب خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے مشترکہ دفاعی معاہدے کے آرٹیکل 2 سے ہم آہنگ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی رکن پر حملہ، تمام اراکین پر حملہ تصور کیا جائے گا اور کسی ایک کو لاحق کوئی خطرہ سب کے لیے خطرہ ہے‘۔

اصل چینلج اب یہ جاننا ہے کہ امریکا کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعلقات کو نقصان پہنچائے بغیر (جس کا کام ان کی حفاظت کرنا تھا) اسرائیل کا قطر پر حملے کا جواب کس طرح پورا جی سی سی خود پر خطرے کے طور پر دیتا ہے؟ خلیجی ریاستوں کے لیے تلخ حقیقت واضح ہوچکی ہے۔ امریکا کے لیے کچھ اتحادی دیگر سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

جی سی سی اب کیا کرے گا؟

اس مرحلے پر صرف حمایت کا اظہار کرنا یا مذمتی بیانات جاری کرنا کافی نہیں ہے۔ اسرائیل صرف بیانات سے باز نہیں آئے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ریاض اور ابوظبی کس حد تک امریکا کے سیکیورٹی ڈھانچے پر انحصار کرتے ہیں۔ حمایت کا اظہار کرنے کے باوجود متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے قطر کے ساتھ ماضی قریب میں کشیدہ تعلقات بھی ممالک کے ردعمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

فی الحال اسرائیل کے جارحانہ اقدامات یعنی اُن ہمسایہ ممالک پر بھی حملہ کرنا جو امن کی ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں، خلیجی ریاستوں کے ساتھ امریکا کے دیرینہ سیکیورٹی معاہدے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جی سی سی میں امریکا کو قطر کی صورت میں ایک عملی شرکت دار ملا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ثمرات ہم نے حالیہ برسوں میں دیکھے۔

تاہم اسرائیل کے پُرخطر رویے کی وجہ سے جی سی سی اور امریکا دونوں اب اپنے سلامتی کے تعاون کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

سب سے بڑا چیلنج تو قطر کے لیے ہے جسے اب اپنی سلامتی کو از سرِنو ترتیب دینا ہوگا اور ایک قابل اعتماد ثالث کے طور پر اپنی ساکھ کو بھی بحال کرنا ہوگا۔ صرف چند دنوں میں دوحہ اس تنازع کے ثالث سے شکار میں تبدیل ہوچکا ہے۔

افغان تنازع کو ختم کرنے میں امریکا اور طالبان کے درمیان ثالثی کرنے کے اپنے تجربے کی بنیاد پر دوحہ کا خیال تھا کہ تل ابیب اس ثالث پر حملہ نہیں کرے گا جو حماس، اسرائیل اور واشنگٹن کے درمیان واحد رابطہ ہے۔

قطر کی اولین ترجیح اب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اگر اسرائیل نے اگر دوبارہ حملہ کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں، ساتھ ہی ساتھ امن مذاکرات کے گرد سیکیورٹی کو بھی مضبوط بنانا ہے۔

قطر واشنگٹن سے اسرائیل کو کنٹرول کرنے کے لیے کہہ رہا ہے اور اس بات پر زور دے رہا ہے کہ دوحہ چینل مذاکرات کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن جب اسرائیل صرف فوجی راستہ اختیار کیے ہوئے ہے تو ایسے میں وہ کسی طور بھروسے مند نہیں۔ خلیجی ریاستیں بالخصوص قطر اب اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت حفاظتی حصار اور خلیجی سرزمین پر کارروائیوں کے لیے واضح قوانین بنانے کا مطالبہ کریں گی۔

امریکا کی جانب سے فراہم کردہ سلامتی ضمانتوں کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں ہے۔ چینی اور روسی سے سیکیورٹی خدمات لینا نہ ممکن ہے اور نہ ہی اس کی خواہش ہے۔ یہاں تک کہ علاقائی سلامتی کا ڈھانچہ جس میں مصر، ترکی یا پاکستان شامل ہیں، امریکی اجازت اور شرکت کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔

اہم بات یہ ہے کہ امریکا کا حفاظتی حصار کبھی بھی خلیجی ممالک کو امریکا کے سب سے اہم اتحادی اسرائیل کے حملے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ چونکہ یہ واضح ہوچکا اس لیے خلیجی ممالک کو ہم آہنگ ہونے کے لیے امریکی نظام سے باہر اپنا دفاع بنانے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ حفاظتی شیلڈ بنانے کے لیے اُن یورپی اور ایشیائی سپلائرز سے ابتدائی وارننگ سسٹم اور میزائل دفاعی نظام استعمال لے سکتے ہیں جو جزوی طور پر آزادانہ کام کرتے ہیں۔

دوحہ پر حملہ، محض قطر کی خودمختاری پر حملہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ یہ پورے خلیجی سیکیورٹی آرڈر کے لیے امتحان ہے۔ مستقبل کے حملوں کو روکے بغیر غم و غصہ ظاہر کرنا بے معنی ہے اور خلیج اس طرح بے اختیار رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

خلیجی ریاستوں کو واضح اور مضبوط پیغامات بھیجے جانے چاہئیں۔ اپنی فضائی حدود کا بہتر کنٹرول، خطرات کے بارے میں معلومات کا آپس میں اشتراک اور ایک غیر واضح اصول طے کرنا چاہئیں اور ساتھ ہی یہ ممکن بنانا چاہیے کہ جی سی سی ممالک پر حملہ کرنے والے کسی بھی ملک کو قطر کی ثالثی خدمات تک رسائی نہ ملے۔

واشنگٹن کے لیے اس کی ساکھ کئی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ اگر امریکا امن مذاکرات کے دوران ایک اتحادی کو دوسرے اتحادی پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکتا تو خطے میں اس کے سیکیورٹی انتظامات قابلِ اعتبار نہیں۔

آخر میں خلیجی خطہ جہاں جنگ کا اگلا ہدف بننے سے بچنے کے لیے ایک علاقائی سفارتی ردعمل پر غور کر رہا ہے وہیں قطر خود کو ایک فیصلہ کُن موڑ پر پاتا ہے۔ کیا اسے مذاکرات کی میزبانی جاری رکھنی چاہیے یا نہیں؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد فیصل

لکھاری یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی میں جنوبی ایشیا کے سیکورٹی ریسرچر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔