ٹرمپ کا امن منصوبہ، غزہ جنگ کا خاتمہ ہے یا مذاکرات کے نئے دور کا نقطہ آغاز؟

دستاویز میں استعمال ہونے والی زبان جیسے بورڈ، چیئرمین اور سی ای او سے گمان ہوتا ہے جیسے کسی ملک یا علاقے کی نہیں بلکہ کسی کاروباری ڈھانچے کے متعلق بات کی جارہی ہے۔
شائع September 30, 2025

بہت سے اہم معاملات غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد ’جامع منصوبے‘ پر منحصر ہیں، اس لیے یہ امکان نہیں ہے کہ اس منصوبے کو مکمل طور پر ناکام ہونے دیا جائے گا۔

امریکی صدر نے یقینی بنایا ہے کہ خود اسرائیل، مسلم ممالک کے بلاک اور یورپ سمیت تمام بااثر اسٹیک ہولڈرز کو اس منصوبے کے لیے اعتماد میں لیا جائے جو جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی علاقوں میں ایک مثالی صورت حال کا تصور پیش کرتا ہے۔

لیکن اس امن مسودے کے کچھ ایسے حصے ہیں جن پر تل ابیب اور فلسطینی گروہوں، دونوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مسودہ، زیادہ عرصے تک کسی رد و بدل سے محفوظ رہ پائے گا۔

مثال کے طور پر مجوزہ منصوبے میں حماس اراکین یا کم از کم وہ جو پُرامن رہنے اور ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوں گے، انہیں معاف کردیا جائے گا یا غزہ سے نکلنے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ امکان نہیں کہ یہ نکتہ بنیامن نیتن یاہو کی کابینہ کے سخت گیر اراکین کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔

اس کے علاوہ بی بی سی کے جان اسڈورتھ کے مطابق، ’وہ ایسے منصوبے کو پسند نہیں کریں گے جس کا نفاذ غزہ پر قبضہ کرنے کی اسرائیلی صلاحیت کو روکے۔۔۔ جبکہ وہ مسودے کے نکتہ 19 کی سختی سے مخالفت کریں گے جو فسلطینی ریاست کی راہ ہموار کرتا ہے‘۔

لیکن امریکی صدر کے نقطہ نظر سے، اس میں ایک ’گیٹ آؤٹ‘ شق بھی موجود ہے یعنی انہوں نے کہا، ’اگر حماس معاہدے کو مسترد کرتا ہے۔۔۔ تو اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی کہ وہ جو کرنا چاہے کرسکتا ہے‘۔

فلسطینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ منصوبہ زیادہ تر ان مفادات کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے جبکہ یہ فلسطینی مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔ حماس نے زور دیا ہے کہ وہ ایسے کسی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے کہ جس میں جنگ کا خاتمہ نہ ہو اورجو غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کی ضمانت نہ دیتا ہو لیکن حماس اب مستقبل میں خود کو ایسی پوزیشن میں پا سکتا ہے جہاں وہ ماضی میں پیش کیے گئے مسودے جنہیں انہوں نے مسترد کردیا تھا، موجودہ پیش کش سے زیادہ پُرکشش محسوس کریں گے۔

الجزیرہ کے مطابق فلسطینی اسلامی جہاد کے رہنما زیاد النخالہ نے کہا کہ وہ غزہ کے لیے امریکی منصوبہ، خطے کے لیے ’تباہی کا نسخہ‘ سمجھتے ہیں۔

عبوری انتظام

اگرچہ ٹرمپ کا ’جامع منصوبہ‘ پہلی بار پیر کی رات کو عوامی طور پر جاری کیا گیا لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی جانب سے اس اور اس سے متعلقہ تجاویز کی اطلاع ایک سیریز کی صورت میں دی جارہی تھیں۔

حماس سے پاک غزہ کا تصور کرنے کے علاوہ، اس 20 نکاتی مسودے میں جنگ کے خاتمے کے بعد تباہ حال پٹی میں ’بحالی و تعمیر نو‘ کے عمل پر توجہ دی گئی ہے جہاں عبوری، ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کو بنیادی عوامی اور میونسپل خدمات کی فراہمی کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔

اسرائیلی خبررساں ادارے ہاریٹز (Haaretz) کے مطابق، ممکنہ طور پر اس مجوزہ منصوبے میں یہاں غزہ بین الاقوامی عبوری اتھارٹی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

اس منصوبے میں ایک ایسے نظام کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں ارب پتی اور دولت مند کاروباری حضرات بین الاقوامی بورڈ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے جبکہ احتیاط سے منتخب کردہ ’غیرجانبدار‘ فلسطینی منتظمین نچلے عہدوں پر ہوں گے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے پیش کردہ مسودے کے تحت، یہ اتھارٹی ایک بین الاقوامی بورڈ کے ذریعے چلائی جائے گی جس کے پاس ’عبوری مدت کے دوران غزہ کے لیے اعلیٰ ترین سیاسی و قانونی اختیارات‘ ہوں گے۔

یہ انتظامیہ اسرائیل، مصر اور امریکا کے تعاون سے کام کرے گی اور ہاریٹز کے اسرائیلی ذرائع کے مطابق، اسے وائٹ ہاؤس کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ بورڈ تمام تقرریوں کا ذمہ دار ہوگا اور اتھارٹی کے ہر جزو کی نگرانی کرے گا۔

ایسا لگتا ہے یہ اتھارٹی وہی ’بورڈ آف پیس‘ ہے جس کا ذکر گزشتہ رات اپنی پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا کہ وہ بذات خود اس کی سربراہی کریں گے۔

بی بی سی کے ٹام بیٹ مین کے خیال میں، ایسے وہ موثر طریقے سے ’غزہ کے گورنر‘ بن جائیں گے۔

اس بورڈ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سینئر عہدیدارکو بھی شامل کیا جائے گا جبکہ ایگزیکٹیو اور مالیاتی مہارت رکھنے والی سرکردہ معروف بین الاقوامی شخصیات’ کی بھی اس میں شمولیت کا امکان ہے۔ اس بورڈ میں ’کم از کم ایک اہل فلسطینی نمائندہ‘ ہوگا جس کا تعلق ممکنہ طور پر ’کاروبار یا سیکیورٹی سیکٹر‘ سے ہوگا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ یہاں ’اہل‘ کے معنیٰ کیا ہیں۔

آخر میں دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بورڈ میں بہت سے مسلمان ممبران کو شامل کیا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس اتھارٹی کو علاقائی اور ثقافتی اعتبار سے مسلم اراکین کی حمایت حاصل ہے’۔ ان مسلم اراکین کو مثالی طور پر اپنے ممالک کی سیاسی حمایت حاصل ہوگی جبکہ وہ ’دیرینہ کاروباری ساکھ‘ کے بھی مالک ہوں گے۔

فلسطینی اتھارٹی کا کیا کردار رہ جائے گا؟

اگرچہ اسے فلسطینی ایگزیکٹو اتھارٹی کہا جاتا ہے لیکن اپنے نام کے برعکس یہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے نئے نظام میں سب سے نچلی سطح پر ہوگی اور اس کے پاس حقیقی آزاد اختیارات زیادہ نہیں ہوں گے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق یہ اُس فلسطینی اتھارٹی سے الگ ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے کا انتظام سنبھالتی ہے۔ فلسطینی ایگزیکٹو اتھارٹی، ٹیکنو کریٹک وزارتوں پر مشتمل ہوگی جو صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی اور توانائی، لیبر مارکیٹ کی پالیسیز، ہاؤسنگ، مقامی فوجداری نظام عدل اور فلاح و بہبود کے علاوہ کچھ دیگر پالیسی شعبوں کا انتظام سنبھالے گی۔

اس کی سربراہی ایک ’فلسطینی چیف ایگزیکٹو آفیسر‘ کرے گا جسے بین الاقوامی بورڈ تعینات کرے گا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ پوری دستاویز میں تمام کرداروں کے لیے استعمال ہونے والی زبان جیسے بورڈ، چیئرمین اور سی ای او سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی ملک یا علاقے کی نہیں بلکہ کسی کاروباری ڈھانچے کے متعلق بات ہورہی ہو۔

فلسطینی سی ای او، صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر اور منصوبہ بندی جیسے مختلف شعبوں کے لیے ’ڈائریکٹرز‘ کی سربراہی کرے گا اور ان ڈائریکٹرز کے انتخاب کا اختیار سی ای او کو حاصل ہوگا۔ ڈائریکٹرز کو ’تکنیکی قابلیت، دیانتداری اور غیر جانبداری کے معیارات پر پورا اترنا‘ ہوگا۔

ارب پتی اور کاروباری افراد کا بین الاقوامی گروپ اس بات کا حتمی فیصلہ کرے گا کہ کس کو تعینات کیا جائے، تاکہ ’ادارہ جاتی ساکھ اور اس کی خودمختاری کو تحفظ فراہم کیا جاسکے‘۔

دستاویز کے مطابق، ’تمام محکمہ جات کے سربراہان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور انہیں اپنی عبوری حکمرانی کے طریقہ کار کی بنیاد پر برطرف یا تبدیل کیا جاسکتا ہے‘۔

حماس سے کون نمٹے گا؟

نیتن یاہو کے ساتھ گفتگو میں، امریکی صدر نے واضح کیا کہ مسلم ممالک ’حماس کے ساتھ ڈیل‘ کریں گے۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ مسلم بلاک پر منصوبے پر تعمیل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری دے رہے ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اس تجویز کے نکات کے حوالے سے بظاہر آگاہ کیا گیا تھا۔

لیکن اس کے باوجود اس مسودے میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جو شاید اتحادیوں کے عدم اطمینان کا باعث بنیں۔ اگرچہ اب حماس پر قطر و دیگر عرب ممالک کی جانب سے نکات کو قبول کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا اب حقیقی مذاکرات کا آغاز ہوگا جہاں دونوں فریقین ’جامع منصوبے‘ میں استعمال ہونے والی مبہم زبان پر آپس میں بحث کریں گے۔

اس تناظر میں بی بی سی کے ٹام بیٹ مین کے مطابق، یہ تازہ ترین پیش رفت جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک طرح سے مذاکرات کی بحالی کی بنیاد ہے۔

پاکستان، سعودی عرب، قطر، اردن، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، مصر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ’تعمیری‘ کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے جنگ کے خاتمے کی ٹرمپ کی ’مخلصانہ کوششوں‘ کا خیرمقدم کیا جس سے غزہ کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکے گا اور فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکا جاسکے گا۔ اس بیان میں امریکی صدر کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق کی اجازت نہ دینے کی بھی تعریف کی گئی ہے۔

وزرائے خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’دو ریاستی حل کی بنیاد پر امن کا قیام‘ چاہتے ہیں اور غزہ کا مکمل طور پر مغربی کنارے کے ساتھ فلسطینی ریاست میں ضم کے خواہاں ہیں۔

اس کے بعد انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا سوال آتا ہے جو کسی حد تک غزہ میں امن کو یقینی بنانے والی فوج کی طرح کام کرے گی۔

’جامع منصوبہ‘ کہتا ہے کہ یہ نئی فورس اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے وقت کنٹرول سنبھالے گی اور حالات کو مستحکم رکھے گی۔ اس نے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں جنہیں فوج کے انخلا کے لیے پورا کرنا ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم نظریاتی طور پر، امریکا کی یہ توقع ہے کہ اسرائیلی فوج اور نئی سیکیورٹی فورس مل کر کام کریں گی۔

گزشتہ رات وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں، بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ ’اسرائیل مستقبل قریب میں غزہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں سیکیورٹی کا ذمہ دار رہے گا‘۔

لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیروں میں سے ایک مشرف زیدی کے بقول، پاکستان کبھی بھی اپنی افواج کو اسرائیل کے زیرِ کنٹرول کسی بھی علاقے میں نہیں بھیجے گا۔ ٹرمپ کی فہرست میں شامل دیگر مسلم ممالک بھی شاید ایسا ہی محسوس کرتے ہوں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

حسن بلال زیدی

حسن بلال زیدی ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mightyobvious@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔