موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ، کیا پاکستان رواں سال اسموگ سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

لندن نے دنیا کو دکھایا کہ جب قوانین سائنسی مشوروں کے مطابق ہوں تو فضائی آلودگی تیزی سے بہتر ہو سکتی ہے۔
شائع October 10, 2025

جیسے جیسے 2025ء کا موسمِ سرما قریب آتا جارہا ہے، جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں اسموگ کا بےقابو جن بوتل سے نکلنے کی تیاری کررہا ہے۔

یہ مسئلہ ہر سال موسم خزاں کے آخر اور سردیوں کے مہینوں میں سر اٹھاتا ہے کہ جب درجہ حرارت میں تبدیلی سے دھندلی چادر سندھ اور گنگا کے میدانی علاقوں کی نچلی سطح کو ڈھانپ لیتی ہے۔

فضا میں آلودگی اور نقصان دہ ہواؤں کے ساتھ، علاقوں میں آسمان کے نیچے زمین کے قریب اخراج جمع ہو جاتا ہے جو آبادی کے لیے صحت کے شدید خطرات کا باعث بنتا ہے۔ صحت کا بنیادی مسئلہ ہوا میں موجود چھوٹے ذرات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ اکثر زمین کے قریب نقصان دہ اوزون کی وجہ سے بدتر ہو جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج کی چھٹی تشخیصی رپورٹ (IPCC AR6) کے مطابق، یہ آلودگی دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پیدا کرنے میں کردار ادا کرتی ہے، خاص طور پر بوڑھے افراد اور بچوں کو اس سے زیادہ مضر خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

پاکستان میں حکام اور رہنما اس لیے پریشان ہیں کیونکہ انہوں نے اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کی ہے جو ملک کے بہت سے بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور ان کے قریبی علاقوں کو متاثر کرتی ہے۔

جو پہلے ہو چکا، دوبارہ کیا جا سکتا ہے

گزشتہ سال لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 700 سے اوپر چلا گیا تھا۔ نومبر 2024ء میں، یہ 1500 سے بھی تجاوز کر گیا جس سے یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک بن گیا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے پاس موجود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسے کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ جوابات تلاش کرنے کے لیے، آئیے چین اور انگلینڈ کی دو بڑی مثالیں دیکھتے ہیں جہاں 1950ء کی دہائی میں اسموگ اور آلودگی پر قابو پانے کی پالیسیز لاگو کی گئی تھیں۔

دسمبر 1952ء میں، لندن میں خشک موسم کی وجہ سے کوئلے کا دھواں کئی دنوں تک شہر کی فضا میں معلق رہا۔ فضا دھندلی ہوئی، حدنگاہ کم ہوگئی جبکہ ہزاروں لوگ سانس اور دل کی تکالیف سے ہلاک ہوئے۔ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، برطانوی حکومت نے 1956ء میں کلین ایئر ایکٹ پاس کیا۔ اس اہم قانون نے ظاہر کیا کہ مضبوط قوانین پر تیزی سے عمل کرنے سے اسموگ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

برسوں بعد چین کے کئی بڑے شہر اسموگ کے سنگین مسائل سے گزرے۔ حکومت نے ایندھن اور فیکٹری قوانین کو سخت کرکے اسموگ سے نمٹنے کے لیے کارروائی کی۔ چند سالوں میں وہ لوگ جو پارٹیکل میٹر 2.5 کے مطابق بہت آلودہ ہوا میں سانس لے رہے تھے، انہوں نے فضائی معیار میں بڑی بہتری دیکھی۔

یہ دو مثالیں پاکستان کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اپنا منصوبہ تشکیل دینے میں اہم مدد فراہم کرسکتی ہیں۔ پاکستان میں موسم کی صورت حال یکساں ہے اور وہ یکساں پالیسی استعمال کر سکتے ہیں، چاہے ان کی آلودگی مختلف ذرائع کا نتیجہ کیوں نہ ہو۔

اگرچہ پاکستان میں کچھ فریم ورکس موجود ہیں، پھر بھی وہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ مؤثر عمل درآمد کے لیے ملک کو مضبوط قیادت، ہنر مند اور سرشار حکام، عوام کی حمایت اور قوانین کے منصفانہ نفاذ کی ضرورت ہے لیکن ان تمام عوامل کی کمی ہے۔ نتیجتاً اسموگ اور فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلے کے طور پر برقرار ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں سے اسموگ

پاکستان میں اسموگ کی سب سے بڑی وجہ گاڑیاں ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ایندھن کے جدید معیار کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن سڑک پر چلنے والی زیادہ تر گاڑیاں اور ٹرک پرانے ہیں اور انہیں مناسب طریقے سے کنٹرول نہیں کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں طویل فاصلے کا سفر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے زیادہ تر ٹرک اور بسیں پرانی ہیں اور اخراج کے جدید معیار پر پورا نہیں اترتی ہیں۔ گاڑیوں کی جانچ اور دیکھ بھال بھی باقاعدگی سے نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ کم معیار کے تیل اور ڈیزل، جنریٹرز کا زیادہ استعمال آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ شہروں میں موٹر سائیکلز، رکشے اور چھوٹے انجن والی گاڑیاں بہت زیادہ کالا دھواں اور نقصان دہ گیسیز خارج کرتی ہیں۔ یہ سردیوں میں اسموگ اور فضا آلودہ کرنے والے چھوٹے ذرات کی بڑی وجوہات ہیں۔

اس کے علاوہ پنجاب کے شہروں کے اردگرد اینٹوں کے بھٹے اکثر کم معیار کا کوئلہ جلاتے ہیں اور یہ بہت زیادہ آلودگی کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ مسلسل چلتے رہتے ہیں جبکہ ایندھن میں گندھک، نمی اور بھاری دھاتیں جیسے نقصان دہ مواد ہوتے ہیں۔ آلودگی کو کم کرنے اور ایندھن کی بچت کے لیے ایک آسان اقدام یہ ہے کہ پرانے طرز کے بھٹوں کو زیادہ کارآمد زگ زیگ کی شکل میں تبدیل کیا جائے تاکہ اخراج کم ہو۔

صنعتوں جیسے سیمنٹ، اسٹیل، ٹیکسٹائل، فاؤنڈری اور شیشے کے کارخانے، ہوا میں بڑی مقدار میں سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈز اور دیگر نقصان دہ گیسز اور ذرات خارج کرتے ہیں۔ اگرچہ ان اخراج کو محدود کرنے کے قواعد موجود ہیں لیکن باقاعدہ جانچ پڑتال اور معائنہ تقریباً کبھی نہیں ہوتا ہے۔

فلٹریشن سسٹم اور کم نائٹروجن آکسائیڈ ٹیکنالوجیز جہاں انسٹال ہیں، وہ اکثر خراب دیکھ بھال یا غیر مستقل طور پر چلائی جاتی ہیں۔جب موسم کی وجہ سے آلودگی زمین کے قریب ہی فضا میں اکٹھا ہوجاتی ہے تو ان صنعتوں سے اخراج پورے خطوں میں ہوا کو خطرناک حد تک غیرصحت بخش بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانا اور شفاف رپورٹنگ کو یقینی بنانا ہوگا۔ حالیہ حکومت میں پالیسی دستاویزات اور ہوا کے معیار کے جائزوں میں یہ نگرانی کے نظام، کلیدی ترجیحات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ کاشتکاری بھی ہے۔ ہر سال اکتوبر اور نومبر میں کسان فصلوں کے فضلے کو کھلے میدانوں میں جلا دیتے ہیں جس سے آلودگی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا ہے۔ پنجاب میں یہ اکثر اسی وقت ہوتا ہے کہ جب بھارتی پنجاب میں سرحد پار بھی فصلوں کو جلایا جارہا ہوتا ہے۔

جب شمال مشرق سے ٹھنڈی، مستحکم ہوائیں چلتی ہیں تو فصلوں کی باقیات کا دھواں لاہور اور وسطی پاکستان کے بیشتر حصوں میں پھیل جاتا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ موسم سرما میں اسموگ کی صورت حال کو مزید بگاڑتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کھیتوں میں فصل کی باقیات کا متبادل انتظام کرنے کی ضرورت ہے یا اس کے دیگر استعمال تلاش کیے جائیں۔

صاف فضا کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

اسموگ صرف سانس لینے میں دشواری کا باعث نہیں بنتی۔ ہوا میں چھوٹے ذرات پھیپھڑوں میں سرایت کرجاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ خون میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سے دل کے دورے، فالج، دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر، حمل کے مسائل اور دیگر طویل مدتی صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

زائد عمر لوگ، باہر کام کرنے والے شہری، بچے اور دل یا پھیپھڑوں کے مسائل کا شکار افراد اسموگ کے مختصر موسم کے دوران بھی زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ جبکہ کراچی جیسے ساحلی شہروں میں گرمی اور نمی ان صحت کے خطرات کو مزید سنگین بنا سکتی ہے۔

فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی اکثر ایک ہی ذرائع سے ہوتی ہیں جیسے کارخانوں کی چمنی اور گاڑیوں کا اخراج اس کے کلیدی محرکات ہیں۔ کچھ آلودگی جیسے بلیک کاربن، میتھین اور گیسز جو اوزون کو نقصان پہنچاتی ہیں، نہ صرف ہوا کو مضر بناتی ہیں بلکہ کرہ ارض کو گرم کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں۔

صورت حال کتنی سنگین ہے، اس کے پیش نظر پاکستان کو اپنی نقل و حمل، صنعت اور کاشتکاری میں بڑی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کو صاف ستھرا اور بہتر بنایا جا سکے۔

اس سے پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 13 کو پورا کرنے میں مدد ملے گی جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق، ان نقصان دہ آلودگیوں کے خاتمے سے صحت تیزی سے بہتر ہوسکتی ہے اور یہ آب و ہوا کی بہتری میں مدد کر سکتا ہے خاص طور پر جب کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کے اخراج میں بتدریخ کمی لائی جائے۔

ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان کو کاروں، موٹر سائیکل اور رکشوں کی باقاعدگی سے جانچ اور دیکھ بھال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پرانے، آلودگی پھیلانے والے ٹرکوں کے سڑکوں پر نکلنے پر پابنی ہونی چاہیے اور تمام گاڑیوں کو مناسب رجسٹریشن اور ٹول قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔

ایک ہی وقت میں جدید یورو 5 اور یورو 6 کے معیارات پر پورا اترنے کے لیے آئل ریفائنریز میں ایندھن کے معیار کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ صحت عامہ کی حفاظت کے لیے مصروف شاہراہوں پر صاف، کم اخراج والی بسیں لانا بھی ضروری ہے۔

صنعتی شعبے کے لیے پاکستان کو مکمل طور پر صاف ستھرے اینٹوں کے بھٹے کے ڈیزائن پر کام کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اس تحریر میں پہلے زگ زیگ ماڈل کا ذکر کیا گیا ہے۔ بڑی فیکٹریوں کو بھی اپنے اخراج کی حقیقی وقت میں مسلسل نگرانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آلودگی کی سطح کو ٹریک کر سکیں اور ضرورت پڑنے پر مسائل کو جلد حل کر سکیں۔

ان کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے پاکستان کو معیاری تھرڈ پارٹی آڈٹ مرتب کرنا چاہیے اور رپورٹ شائع کرنی چاہیے کہ آیا صنعتیں قواعد پر عمل کر رہی ہیں یا نہیں۔ اس سے ریگولیٹرز، مقامی کمیونٹیز اور سرمایہ کاروں کو یہ دیکھنے میں مدد ملے گی کہ صنعتی علاقے آلودگی کو کم کرنے میں کتنا مؤثر کام کر رہے ہیں۔

پاکستان کو فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس پابندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے معاملات کو قریب سے دیکھا جائے اور کھلے عام رپورٹ کیا جائے۔ جلانے کے بجائے کسانوں کو کھیتوں میں بچ جانے والی فصل کا انتظام کرنے یا اسے صنعتوں میں استعمال کے لیے فروخت کرنے جیسے بائیو گیس کی پیداوار اور گولیاں بنانے جیسے بہتر اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ دھواں سرحدوں سے گزرتا ہے۔ یہ سرحدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔

لندن نے دنیا کو دکھایا کہ جب قوانین سائنسی مشوروں کے مطابق ہوں تو فضائی آلودگی تیزی سے بہتر ہو سکتی ہے۔ چین نے ظاہر کیا کہ بڑی تبدیلیاں اس وقت ممکن ہیں کہ جب قوانین، نگرانی اور نفاذ سب مل کر کام کریں۔

پاکستان کے لی گاڑیوں سے آلودگی کو کم کرنے، اینٹوں کے بھٹوں اور کارخانوں کو اپ گریڈ کرنے، فصلوں کی باقیات کو کھلے عام جلانے پر پابندی لگا کر اور لوگوں کو اپنی عادات بدلنے کی ترغیب دے کر بھی صاف ہوا کے ہدف کا حصول ممکن ہے۔

سائنس تو واضح ہے لیکن کارروائی کرنے کی خواہش ابھی تک غائب ہے۔ اگر ہم یہ تبدیلیاں کرنا شروع کر دیں اور ثابت قدم رہیں تو ہمارے ابر آلود آسمان دوبارہ نیلے ہو سکتے ہیں۔


ہیڈر: 24 نومبر 2021ء کو لاہور میں اسموگ کے درمیان گاڑیاں نظر آرہی ہیں—تصویر: رائٹرز/ محسن رضا


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
فہد سعید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔