لیاقت علی خان سے بےنظیر بھٹو تک: ’ہر سیاسی قتل کے پیچھے سازشیں ہوتی ہیں‘
بلوچستان مسئلے کے خصوصی سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
’وقت مقررہ پر میں راولپنڈی میں وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گیا جہاں وزیر اعظم کے اے ڈی سی افضل سعید خان میرے منتظر تھے۔ افضل سعید خان ایک برآمدے سے گزر کر مجھے وزیر اعظم کے سٹنگ روم لے گئے۔
’ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے ساتھ ان کے دو سینئر وزیر عبد الحفیظ پیرزاہ اور رفیع رضا کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ بھٹو صاحب سے ماضی میں جو ملاقاتیں ہوئی تھیں، وہ ون آن ون ہوا کرتی تھیں۔ بھٹو صاحب نے حسبِ روایت کشادہ ہاتھوں سے ملتے ہوئے حفیظ پیرزادہ اور رفیع رضا سے میرا تعارف یوں کروایا، ’آؤ میرے دوست، بلوچستان سے کیرالہ کے سوشلسٹ کٹی صاحب!‘
’میں حفیظ پیرزادہ سے ایک حد تک واقف تھا کہ 1973ء کے آئین کے حوالے سے وہ بھٹو صاحب کے بعد دوسرے نمبر پر سمجھے جاتے تھے۔ مگر رفیع رضا سے میں پہلی مرتبہ مل رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے ذرا چبھتے ہوئے انداز میں اپنے وزرا کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ’یہ رفیع رضا ہیں، مشہور سیاستدان جن کے تعارف کی ضرورت نہیں۔ یہ حفیظ پیرزادہ ہیں، وفاقی وزیر برائے انٹرپروینشل کوآرڈینیس‘۔
’بھٹو صاحب کے تعارف کے انداز سے گمان ہوا کہ وہ رفیع رضا کو حفیظ پیرزادہ پر ترجیح دے کر ان کی سبکی کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے میرے بیٹھتے ہی پوچھا کہ ’میانوالی والی جیل میں بزنجو صاحب سے ملاقات کے دوران کیا بلوچستان میں سوویت یونین کے کردار پر کوئی بات ہوئی تھی؟ اور کیا بلوچستان اور پیپلز پارٹی خاص طور پر بھٹو مخالف تحریک شروع کرنے میں ماسکو سے رابطہ کرنے کا ذکر آیا تھا؟‘
’میں نے بھٹو صاحب کا سوال سن کر حیرت سے کہا، ’ہماری اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی‘۔ بھٹو صاحب عبدالحفیظ پیزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’تمہاری انٹیلی جنس رپورٹ غلط تھی‘۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے جواب میں کہا، ’مگر کٹی صاحب یہ تو تسلیم کریں گے کہ نیپ کی قیادت میں اس مسئلے پر اختلاف ہے‘، جس پر بھٹو صاحب نے کہا، ’یہ تو ہر پارٹی میں ہوتا ہے، کیا ہماری پارٹی میں مسائل پر اختلاف نہیں پایا جاتا؟‘

’یہ کہہ کر بھٹو صاحب نے اپنے دونوں وزرا سے کہا کہ وہ جا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ میں بھی اٹھنے لگا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ بھٹو صاحب نے مجھ سے کہا، ’تم سمجھ گئے ہوگے کہ میں نے بزنجو کے بارے میں اپنے وزرا کی موجودگی میں یہ سوال کیوں کیا؟ عبدالحفیظ پیرزادہ اور وزیر داخلہ عبدالقیوم خان نے میانوالی جیل میں تمہارے اور بزنجو کے درمیان ہونے والی گفتگو کی جو انٹیلی جنس رپورٹ دی تھی، اس میں بزنجو نے تمہیں ماسکو سے بلوچستان کے حوالے سے رابطہ رکھنے کی ہدایت دی تھی۔ یہ میرے پاس ان لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اسکرپٹ لے کر آئے تھے اور تم نے دیکھا کہ جب میں نے یہ سوال کیا تو پیرزادہ کا چہرہ اتر گیا تھا‘‘۔
’بھٹو صاحب کہنے لگے کہ ’میں اپنے تجربے کی بنیاد پر پرکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ بزنجو متعصب نہیں۔ وہ اصولوں کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں۔ میں ان کا احترام کرتا ہوں اور اگلی ملاقات میں تم اس کا بزنجو سے ضرور ذکر کرنا‘۔
یہ اقتباس بی ایم کٹی کی کتاب ’سکسٹی ایئرز ان ایگزائل‘ سے لی گئی ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے بھٹو صاحب کی بابائے بلوچستان میر بزنجو کے مشیرِ خاص بی ایم کٹی سے یہ ملاقات جنوری 1975ء میں ہوئی تھی۔ اگلے ہی مہینے فروری میں پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں پیپلزپارٹی صوبہ سرحد کے رہنما حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل ہوگیا جس کا ذکر میں اپنے گزشتہ بلاگ میں تفصیل سے کرچکا ہوں۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ ہر سیاسی قتل کے پیچھے ایک سازش ہوتی ہے۔ سازشی عناصر مستقبل کے حوالے سے پوری منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسے میں چند فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ اس وقت کے پولیس افسران کی کارکردگی دیکھیں کہ سید اکبر نامی افغان نژاد قاتل کو جائے وقوعہ پر ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔
وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کا اصل فائدہ کسے پہنچا؟ جسمانی طور پر مفلوج گورنر غلام محمد جنہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑی، انگریز کے پروردہ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا جو بعد میں نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹ کر 8 اکتوبر 1958ء کو صدر بن گئے اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی یا پھر قیام پاکستان کے بعد ہی سے اقتدار میں آنے کی تیاری کرنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان جن کے بارے میں پہلے بھی میں لکھ چکا ہوں۔
جنرل شیر علی خان پٹودی نے اپنی کتاب The Story of Soldiering and Politics in India and Pakistan, میں لکھا ہے کہ ’انگریز جنرل ڈگلس گریسی جاتے جاتے جنرل ایوب خان کو یہ نصیحت کی تھی کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم پر ہمیشہ فوج کے جنرل کی بالادستی رہے‘۔
ذوالفقار بھٹو کا تو عدالتی قتل ہی ہوا، ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے قتل، ان کے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت جبکہ میر شاہنواز بھٹو کی پُراسرار موت میں تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشی ہاتھ بھی شامل تھا۔
جس دن بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خطاب کرنا تھا، اس دن صبح افغان صدر حامد کرزئی نے زور دے کر کہا تھا کہ وہ جلسے میں نہ جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے چاروں جانب سے خودکش حملے کی تیاری کی ہے۔
مگر بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ذہانت اور دانشمندی پر ہمیشہ ان کی ضدی طبیعت غالب رہی۔ صدر آصف علی زرداری کے دور میں جو اقوام متحدہ سے تفتیشی ٹیم آئی تھی، اس نے اپنی تحقیقات کو ایک کتاب ’گیٹنگ آوے ود مرڈر‘ کے نام سے شائع کیا تھا جو اردو میں ’قاتل پھر بچ نکلا‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں ان تمام افراد کی نشاندہی کی گئی تھی جو بے نظیر بھٹو کے قتل میں بالواسطہ ملوث تھے۔
بے نظیر بھٹو کےدور میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا بیرون ملک سے آنا اور دن دیہاڑے کراچی کی شارع پر قتل ہوجانا تو ایک کھلی سازش ہی تھی جس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت رخصت کردی گئی تھی۔
حیات محمد شیر پاؤ کا قتل بھی ایک ایسی سازش تھی جس نے ملک کا سیاسی نقشہ ہی بدل دیا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد نئے پاکستان میں پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے اتحاد سے جو مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی، اگر وہ اپنی مدت پوری کر لیتی تو آج کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہوتا۔

معذرت کے ساتھ حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا جب پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نیپ کی قیادت سے رابطہ قائم کرچکے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت تک نیپ کے حیدرآباد جیل میں قید رہنما انتقام کی حد تک بھٹو مخالف ہوچکے تھے۔ صرف ایک میر غوث بخش بزنجو ہی تھے جو بھٹو صاحب سے مفاہمت کے حق میں تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ضیا کی فوجی آمریت سے بھٹو کی بدترین جمہوریت بہتر ہے۔
میر غوث بخش بزنجو اپنی سوانح عمری ’مقصد سیاست‘ کے صفحہ 180 پر لکھتے ہیں کہ ’جب تک بھٹو صاحب کو یہ بات سمجھ آئی کہ اگر انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ تصفیہ نہ کیا تو مسلح افواج کو آگے بڑھنے کی ترغیب ملے گی، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حکومت کی جانب سے دھاندلی کرنے کے سنگین الزامات کے بعد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کی ملک گیر ہڑتال کی کال نے فوج کے لیے آگے بڑھنے کا سازگار ماحول پیدا کیا۔
جب بھٹو صاحب پی این اے کے ساتھ مذاکرات کی آنکھ مچولی کھیل رہے تھے تب ان کے منتخب کردہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی جرنیل ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے۔ اس سے قبل کہ بھٹو صاحب ان کے خلاف قدم اٹھاتے، انہوں نے پہلے قدم اٹھا لیا اور 5 جولائی 1977ء کو اقتدار پر قابض ہوگئے۔

اگرچہ واقعات کے یہ بدقسمت رخ اختیار کرنے کا تعلق زیادہ تر جرنیلوں کی حرص اقتدار سے ہے لیکن اُس وقت بیشتر سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کی نفرت میں اس حد تک اندھے ہوچکے تھے کہ اگر شیطان بھی بھٹو کو چھٹکارا دلانے میں ان کی مدد کو آتا تو وہ اس سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہوجاتے۔
’وہ یہ بات سمجھنے میں ناکام رہے کہ اپنی ذاتی خامیوں اور ان کی حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے کے باوجود جمہوری طرزِ حکومت بہرحال آمریت سے بہتر تھی‘۔
میر غوث بخش بزنجو اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیں کہ ’ایک دو کامریڈز کے علاوہ باقی سب بھی بھٹو صاحب کی حکومت ہٹانے پر متفق تھے۔ جہاں تک بلوچ قیادت کا تعلق ہے تو وہ ایک فیصلہ کن نکتے پر پہنچ چکی تھی۔ جیل میں جب ہماری میٹنگ ہوئی تو بلوچ قیادت کے دو مؤقف سامنے آئے۔
’ایک مؤقف پاکستان کے فریم ورک میں رہتے ہوئے قومی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا، مزاحمتی تحریک روک دینا تھا جو پُرتشدد تحریک کا رخ اختیار کرچکی ہے جبکہ پہاڑوں سے لڑنے والوں کو واپس بلانا بھی اس میں شامل تھا۔
’دوسری رائے موجودہ تحریک کو علیحدگی کی تحریک میں مکمل طور پر تبدیل کردینا تھی جو پہاڑوں میں انہیں وہیں رہ کر دوبارہ منظم کرنا نواب خیر بخش مری اور سردار عطا اللہ مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچ سمیت کسی بھی قومیت کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں کیونکہ پنجاب کسی دوسری قومیت کو عزت اور وقار دینے کو تیار نہیں تھا‘۔
میرغوث بخش بزنجو کی تمام تر کوششوں کے باوجود مری، مینگل خاص طور پر بلوچ طلبہ تنظیم (بی ایس او) کے عسکریت پسند علیحدگی کی تحریک پر ڈٹے ہوئے تھے۔ جیل سے باہر بی ایس او کا ایک بڑا گروپ چمن اور طورخم کے راستے کابل اور ماسکو پہنچ چکا تھا اور وہاں باقاعدہ مسلح جدوجہد کی تربیت لے رہا تھا۔
ادھر نیپ کی پشتون قیادت نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی بنیاد رکھی جس کے صدر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ایک بلوچ سردار شیر سرباز خان مزاری تھے بلکہ اس کی اصل قیادت نسیم ولی خان کے ہاتھ میں تھی۔ نیپ کی پشتون قیادت یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ انہیں بلوچستان کے تین بڑوں بزنجو، مینگل اور مری کی سیاست کے ساتھ نہیں چلنا ہے۔

پی این اے کی تحریک کے آخری دنوں میں این ڈی پی کے صدر شیر سرباز خان مزاری اور بیگم نسیم ولی خان جرنیلوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل ضیا الحق اپنے جرنیلوں کے ہمراہ حیدرآباد جیل پہنچ گئے اور فوجی آپریشن کا سارا ملبہ بھٹو صاحب پر ڈال دیا۔
سینئر صحافی فاروق عادل نے بی بی سی میں جنرل ضیا الحق کی متعدد ملاقاتوں میں پہلی ملاقات کا بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا ہے۔ جنرل ضیا الحق جب ایک دن حیدرآباد جیل پہنچے اور سازش کیس کے 55 ملزمان سے 4 کو ملاقات کا شرف بخشا تو ان میں کالعدم نیپ کے سربراہ خان عبد الولی خان، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ مینگل، میر بخش بزجو اور نواب بخش علی شامل تھے۔
نواب صاحب خاموش طبع لیکن بھاری بھرکم شخصیت رکھنے والے بزرگ تھے۔ وہ سفید کھدر کے کرتے پاجامے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتے سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں داخل ہوئے تو جنرل ضیا نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ ان کے سینے پر سوویت یونین کے بانی ولادیمیر لینن کی تصویر والا بڑا سا سنہری بیج چمک رہا تھا۔ اس منظر نے ان کے اور ملنے والوں کے درمیان جھجھک کی دیوار کھڑی کردی۔ جنرل ضیا نے ان سے معذرت کی تو نواب صاحب نے بےنیازی سے جواب دیا کہ ’سیاست میں تو اس طرح ہوتا ہے آپ پریشان نہ ہوں‘۔
عام طور پر جنرل ضیا کی جو ملاقاتیں ہوتی تھیں، بڑی طویل ہوتی تھیں جن میں وہ مذہبی معاملات پر روانی سے گفتگو کرتے اور نیپ قائدین سے کہا کرتے تھے کہ وہ مستقبل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ جنرل ضیا الحق کا زور اس بات پر ہوتا تھا کہ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
میں اپنے بلاگ تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ جنرل ضیا الحق نے اپریل 1974ء میں اسد اللہ مینگل کو قتل کرکے دفن کرنے والے جرنیلوں کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا تھا تو اس واقعے کو بھول جائیں کیونکہ اگر اس پر تفتیش ہوئی تو پہاڑوں پر لڑنے والی فوج کا مورال ڈاؤن ہوگا۔

حیدرآباد ٹربیونل ختم ہوجاتا ہے، نیپ کی قیادت جب جیل سے باہر نکلتی ہے تو ہر ایک کا راستہ مختلف ہوتا ہے۔ المیہ دیکھیے کہ ایک ساتھ برسوں جیل کی سختیاں برداشت کرنے والے جب باہر نکلتے ہیں تو گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالے ان رہنماؤں کا راستہ جدا ہو جاتا ہے۔
بیماری کے سبب خان عبدالولی خان کا راولپنڈی کے اسپتال میں علاج ہوا اور پھر وہ پشاور چلے گئے۔ عطااللہ مینگل اور خیر بخش مری کچھ عرصے بعد کابل اور لندن چلے گئے جبکہ واحد میر غوث بخش بزنجو ہی ہیں جو کوئٹہ واپس آئے اور ایک بار پھر کوشش کی جبکہ نیشل پارٹی کے نام سے جمہوری راستہ اختیار کیا۔
(جاری ہے)
ہیڈر: میٹا اے آئی
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

