• KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.8°C
  • ISB: Cloudy 11.9°C
  • KHI: Clear 18.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.8°C
  • ISB: Cloudy 11.9°C

وہ جھٹکا جو کے الیکٹرک کو ’ٹرپ‘ کرسکتا ہے!

نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کے ٹیرف میں کٹوتی سے ادارے کا منافع خسارے میں بدل سکتا ہے تو کیا یہ ادارہ اس جھٹکے سے بچ پائے گا؟
شائع October 27, 2025

یہ ایک ایسا جھٹکا ہے جو ٹائٹینک جیسے جہاز کو بھی ڈبو دے۔

چند ہی دنوں میں کے الیکٹرک کے شیئرز کی قیمتیں گر گئیں، غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بین الاقوامی ثالثی پر غور شروع کر دیا اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ کبھی منافع بخش سمجھی جانے والی یوٹیلٹی شدید نقصان میں جا سکتی ہے جس سے نہ صرف کراچی کو بجلی کی فراہمی متاثر ہوسکتی ہے بلکہ ممکنہ طور پر حکومت کے نجکاری منصوبے بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

اس دھچکے کی وجہ کے الیکٹرک کے کئی سالہ ٹیرف میں اچانک کٹوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے دو سال سے زائد مشاورت اور سماعتوں کے بعد مئی میں کیے گئے اپنے فیصلے کو مؤثر طریقے سے واپس لیتے ہوئے بجلی کی قیمت 7.6 روپے فی یونٹ سے کم کرتے ہوئے 32.37 روپے کر دی ہے جوکہ پہلے 39.97 روپے تھی۔

یہ تبدیلی وزارت توانائی اور دیگر کی جانب سے نظرثانی کی درخواست کے بعد یہ کہتے ہوئے کی گئی ہے کہ جیسا کہ دیگر نجی توانائی کمپنیز کے ساتھ بات چیت کی گئی تھی، کے الیکٹرک کے نرخ توانائی سیکٹر کے دیگر تقسیم کاروں میں استعمال ہونے والے نرخوں کے برابر ہونے چاہئیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ جائزہ کراچی کے لوگوں کے لیے بجلی کی قیمتوں کو منصفانہ اور مزید مستحکم بنانے میں ایک اہم قدم ہے۔

2026ء-2025ء کے لیے ریاست کی ملکیت میں آنے والی تقسیم کار کمپنیز (ڈسکوز) کی قومی اوسط ٹیرف 28 روپے فی یونٹ کے مقابلے میں کے الیکٹرک کے سابقہ ٹیرف سے تقریباً 40 فیصد زیادہ تھا۔ وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک کے صارفین کو سبسڈی فراہم کرکے یہ فرق پورا کیا۔

ٹائٹینک کی مثال کی جانب واپس آئیں تو کے الیکٹرک ایک کثیر منزلہ کروز شپ کی مانند ہے جس میں کئی سطحیں ہیں جہاں مختلف حصے عمودی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اور کروز شپ کے مسافروں کی طرح، اس کے گاہک بھی مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں جہاں ان کی بجلی تک رسائی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کتنی رقم کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

اور اب چونکہ یہ بڑا بحری جہاز برفانی تودے سے ٹکرا چکا ہے تو اس کے مالیاتی حصہ دار اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ کیا یہ ادارہ اس بڑے جھٹکے سے بچ سکتا ہے؟

کے الیکٹرک، پاکستان کی واحد نجی اور غیر ملکی ملکیت والی بجلی کی سہولیات فراہم کرنے والا یوٹیلیٹی ادارہ ہے جس میں سعودی عرب اور کوویت کے سرمایہ کاروں کے 66.4 فیصد شیئرز ہیں۔

بجلی کے نرخوں میں اچانک تبدیلی سرمایہ کاروں کو غیرمتوقع قواعد و ضوابط اور سیاسی مداخلت کے خدشات کو مزید تقویت دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ خطرات پہلے ہی مستقبل میں سرمایہ کاری میں اضافے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جبکہ یہ عمل حکومت کے لیے خسارے میں کام کرنے والی سرکاری توانائی تقسیم کار کمپنیز کی نجکاری کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

پاکستانی نقطہ نظر سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ان خدشات کی بنیاد پر کے الیکٹرک کے غیرملکی مالکان کی جانب سے حکومت کو کسی بین الاقوامی عدالتی فورم میں لے جانے کی دھمکی دی جارہی ہے۔

ٹیرف میں کمی کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں کے الیکٹرک کے شیئرز میں تیزی سے گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے کیونکہ بہت سے سرمایہ کاروں نے اپنے شیئرز فروخت کردیے۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ٹیرف میں کمی، غیر واضح ضوابط اور ممکنہ قانونی کارروائیاں، کمپنی کے مالیات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور توانائی سیکٹر کی نجکاری کے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دے سکتی ہیں۔

مارکیٹ اور سیکٹر کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف سے کے الیکٹرک کو 2030ء تک اپنی 7 سالہ مدت میں بہت کم یا بالکل بھی منافع حاصل نہیں ہوگا۔

’یہ واضح ہے کہ اس ٹیرف پر کمپنی کی بقا ممکن نہیں‘، یہ کہنا تھا ٹاپ لائنز سیکیورٹیز کے شنکر تلریجا کا جو کمپنی کے کام جاری رکھنے کی صلاحیت کے حوالے سے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اے کے ڈی سیکیورٹیز کے تجزیہ کار محمد علی اسے ’خسارہ کمانے والا‘ ٹیرف قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’نیپرا کا نظرثانی شدہ ٹیرف کا تعین، کے الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت، ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور سپلائی کے عوامل میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنے گا‘۔

محمد علی نے نوٹ کیا ہے کہ گزشتہ ٹیرف کی منظوری کے بعد مالی سال 2024ء میں کے الیکٹرک کا 4 ارب روپے کا منافع، اکاؤنٹس ری سیٹ ہونے کے بعد 70 سے 80 ارب روپے کے خسارے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ شنکر تلریجا کمپنی کو تقریباً 70 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگاتے ہیں۔

کے الیکٹرک کے غیر ملکی شراکت داروں سعودی عرب کے الجُمیح گروپ اور کوویت کے ڈینہم انویسٹمنٹس کا تخمینہ ہے کہ 2024ء سے 2030ء کے دوران کمپنی کا سالانہ خسارہ 100 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ ’یہ کمپنی کو ایک انتہائی نازک پوزیشن میں ڈال دیتا ہے۔ آئندہ سالوں میں معاملات کس طرح سامنے آتے ہیں، اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ کے الیکٹرک اس صورت حال کو کس طرح سنبھالتی ہے‘۔

سخت معیارات

نیا ٹیرف کے الیکٹرک کے متوقع منافع یعنی ایکویٹی پر منافع، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات، چوری کے نقصان کے اہداف اور بل کی ادائیگیوں کے بارے میں مفروضوں کو تبدیل کرتا ہے۔

ٹیرف میں ہر ایک روپے کی کٹوتی پر کمپنی کو سالانہ تقریباً 15 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ مزید سنگین رخ اختیار کرلے گا کیونکہ حکومت کے الیکٹرک کو اپنی سبسڈی کی ادائیگیوں میں بھی 7.6 روپے فی یونٹ کی کمی کر رہی ہے۔

حکومت اس سبسڈی کی ختم کرنے کا جواز یہ فراہم کررہی ہے کہ اس سے وفاقی بجٹ پر 7 سال میں تقریباً 700 ارب روپے کے مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔ اس کے بجائے اس لاگت کا بوجھ کمپنی پر ڈال دیا جائے گا۔

اگرچہ نظرثانی شدہ نیا ٹیرف کے الیکٹرک کی جنریشن کے ڈالر پر مبنی منافع کو برقرار رکھتا ہے لیکن نیپرا نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن ریٹ کو ڈالر سے روپے میں تبدیل کر دیا ہے جس سے کمپنی کے ایکویٹی پر منافع کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے۔

نیپرا نے کمپنی کے 4 پرانے گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے غیرفعال کردیا ہے اور باقی دو پلانٹس سے بجلی خریدنے کے لیے قیمتوں کا فارمولا تبدیل کردیا ہے۔

اب صرف 35 فیصد صلاحیت کی ادائیگی کی ضمانت دی جائے گی۔ باقی ادائیگیاں پرانے ’لینے یا قیمت دینے‘ کے سسٹم کی بجائے ’لینے اور قیمت ادا‘ کرنے کے سسٹم پر مبنی ہوں گی جیسا کہ آزاد توانائی کے پیداواری اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

نئے ٹیرف کے تحت کے الیکٹرک کا ریکوری کا معیار تقریباً 93.3 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کردیا گیا ہے جبکہ رائٹ آف کلیمز 3.5 فیصد تک محدود ہیں۔ یہ حد 2030ء تک مزید کم کرکے ایک فیصد کر دی جائے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کے الیکٹرک کو اپنے صارفین سے انوائس بلز میں 100 روپے وصول کرنے تھے لیکن وہ صرف 91.5 روپے ہی وصول کر پاتی ہے (جوکہ مالی سال 2024ء میں اصل ریکوری کی شرح ہے) تو اب وہ اس میکنزم کے تحت صرف 3.5 روپے کی وصول کرپائے گی تاکہ وہ صارفین کے قرضوں یا ناقابل وصول بلز کو معاف کر سکے جبکہ یہ بھی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کے الیکٹرک ضروری شرائط پوری کرے اور رقم کی سخت ریکوری کی کوششوں کے شواہد فراہم کرے۔

بقیہ 5 روپے کمپنی کے خسارے کے کھاتے میں جائیں گے۔ بنیادی طور پر رائٹ آف کلیم کرنے کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ کے الیکٹرک ممکنہ طور پر صارف سے کوئی رقم وصول ہی نہ کرپائے یعنی اسے بل کی وصولی میں نقصان کو مکمل طور پر خود ہی پورا کرنا پڑے گا۔

شنکر تیلراجا کا کہنا ہے کہ ’رائٹ آف کلیمز کے قوانین کے تحت کمپنی سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بجلی کے نادہندگان سے واجبات وصول کرنے کی کوششوں کا ناقابل تردید، دستاویزی ثبوت فراہم کرے جو کمپنی کے لیے تقریباً ناممکن ہے‘۔

اسی طرح ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات کے معیارات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ تقسیم کے نقصان کا ہدف اب 9 فیصد ہے جو 13.9 فیصد سے کم ہے، 8 فیصد تکنیکی نقصانات کے ساتھ امن و امان کے مسائل کے لیے ایک فیصد کی اجازت دی گئی ہے۔ مالی سال 2030ء تک مجموعی طور پر اس میں 0.97 فیصد کمی ہوگی۔ ٹرانسمیشن خسارہ اب 1.3 فیصد سے کم ہوکر 0.75 فیصد ہے اور امن و امان کی شرح مالی سال 2024ء میں 3.39 فیصد سے کم ہو کر ایک فیصد رہ گیا ہے۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں حکومت کے سالانہ سبسڈی کے بوجھ کو 100 یا 150 ارب روپے سے کم کرکے مکمل طور پر یوٹیلیٹی کے کھاتے میں ڈال دے گی۔

تاہم اس جھٹکے سے صرف کے الیکٹرک کو ہی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ نیا ٹیرف مالی سال 2024ء کی ایندھن کی لاگت کو بھی 15.99 روپے فی یونٹ سے کم کرکے 14.50 روپے فی یونٹ کر دے گا جس سے گزشتہ بینچ مارک کے مقابلے میں 28 ارب روپے کا شارٹ فال پیدا ہوگا۔

کراچی میں مقیم کاروباری رہنما ریحان جاوید کا کہنا ہے کہ نئے ٹیرف کے مطابق کے الیکٹرک کے صارفین سے اس شارٹ فال کی قیمت وصول کی جائے گی۔ اس کے علاوہ مالی سال 2025ء کے لیے ایندھن کی قیمت میں تبدیلی کی صورت میں صارفین پر مزید 24 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

ریحان جاوید کا کہنا ہے کہ ’چونکہ کمپنی مالی سال 2024ء اور مالی سال 2025ء میں فروخت ہونے والے یونٹس کے 52 ارب روپے کے بھاری بوجھ کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں اس لیے اسے صارفین تک پہنچانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیال کے متصادم، نیا ٹیرف صارفین کے لیے بالکل بھی غیرجانبدار نہیں ہے‘۔

جب تک حکومت لاگت کو برداشت کرنے اور کراچی کے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے قدم نہیں اٹھاتی تب تک نظرثانی شدہ ٹیرف بھی خود تسلیم کرتا ہے کہ صارفین پر بوجھ بڑھے گا جبکہ اے کے ڈی سیکیورٹیز کے محمد علی بھی اس کی توثیق کرتے ہیں۔

غیرمعمولی فیصلہ

معاملے کی حساسیت کے سبب کے الیکٹرک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایک سینئر اہلکار نے مسکراہٹ کے ساتھ طنزیہ انداز میں کہا، ’آپ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہو‘۔ انہوں نے یہ بیان اس اشارے کے ساتھ دیا کہ ماضی میں سیاستدانوں، صحافیوں اور کاروباری افراد کو مبینہ طور پر نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور انہیں صرف اس وقت رہائی ملی کہ جب انہوں نے حکمت عملی کے مطابق چلنے یا خاموش رہنے پر رضامندی ظاہر کی۔

کے الیکٹرک کا واحد سرکاری بیان سی ای او مونس علوی کے ویڈیو پیغام کی صورت میں سامنے آیا ہےجس میں انہوں نے متنبہ کیا کہ نیپرا کے حالیہ فیصلے کے کمپنی کے ٹیرف پر سنگین مالی نتائج مرتب ہوں گے جو اس کے آپریشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوٹیلیٹی ’وہ راستہ اختیار کرے گی جو کراچی کے عوام کے لیے ممکنہ طور پر بہترین ہو‘۔

انہوں نے خبردار کیا، ’ڈھائی سال کی تفصیلی بات چیت اور تجزیات کے بعد فیصلے کی اس طرح واپسی غیر معمولی ہے اور یہ فیصلہ کمپنی کی سرمایہ کاری، منصوبہ بندی اور طویل مدتی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے‘۔

ٹیرف کا فیصلہ دو دیگر دھچکوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ سب سے پہلے سرمایہ کار ضیا چشتی کی کے الیکٹرک کی پیرنٹ کمپنی، کے ای ایس پاور لمیٹڈ کو آف شور اداروں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش، انکشافات کے خدشات کی وجہ سے ناکام ہوگئی جسے کے الیکٹرک کے غیرملکی مالکان نے ’قبضے کی طے شدہ کوشش‘ قرار دیا۔ اس کے بعد شنگھائی الیکٹرک پاور، ریگولیٹری مسائل اور بگڑتے ہوئے کاروباری ماحول کا حوالہ دیتے ہوئے کے الیکٹرک کو خریدنے کے طویل عرصے سے زیرِالتوا اپنے 1.77 ارب ڈالر کے منصوبے سے دستبردار ہو گیا۔

اپنے خط میں کے الیکٹرک کے غیرملکی شیئر ہولڈرز، سرمایہ کاری کے تحفظات کی مبینہ خلاف ورزیوں جیسے کہ لین دین کو روکنے، ریگولیٹری عمل میں مداخلت کرنے اور تیسرے فریق کے غیر قانونی اقدامات سے کمپنی کو بچانے میں ناکامی کے بدلے 2 ارب ڈالر معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شنگھائی الیکٹرک کی فروخت کے التوا سے کم از کم 2 ارب ڈالر کے مجموعی نقصانات ہوئے ہیں جن میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں کمی، زیادہ قرضوں کے اخراجات اور شہرت کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایکویٹی پر مبنی منافع اور سخت نقصانات کے معیارات کے تعین سے کمپنی کو سالانہ تقریباً 100 ارب روپے کا نقصان پہنچ سکتا ہے جو کمپنی کی مالی پائیداری کے لیے ایک سنگین خطرہ بنے گا۔

نیپرا کی ساکھ

ناقدین کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کے ٹیرف میں ترمیم کرکے نیپرا نے اپنی ہی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تبدیلی جو وسیع پیمانے پر حکومت کے دباؤ کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہے، ریگولیٹرز کی خود مختاری، تسلسل اور صلاحیت پر سوالات اٹھاتی ہے۔

اس نے ریاست کے ماتحت آنے والی تقسیم کار کمپنیز کی نجکاری کرنے کے حکومت کے منصوبوں پر بھی تشویش کو جنم دیا ہے کیونکہ سرمایہ کار بغور دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اپنے پاس موجودہ واحد نجی یوٹیلیٹی ادارے کے ساتھ کس طرح کا سلوک کررہا ہے۔

ایک سابق نیپرا چیئرمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’یا ریگولیٹر جب اصل ٹیرف کا اعلان کر رہا تھا تو تب وہ غلط تھا یا اب وہ غلط ہے۔ یہ نااہلی اور دباؤ کا امتزاج ہے‘۔

ریحان جاوید نے متنبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک اب نقصانات کو کم کرنے کے لیے ممکنہ طور پر قومی گرڈ سے خریداری کو محدود کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی طویل بندش کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ کے الیکٹرک اس وقت گرڈ سے تقریباً 2 ہزار میگاواٹ بجلی درآمد کرتی ہے جو اضافی پیداوار کو استعمال میں لانے اور غیر فعال پلانٹس پر صلاحیت کے چارجز کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر کے الیکٹرک مالی دباؤ کی وجہ سے خریداری میں کمی لاتی ہے تو اضافی بجلی پھر بھی کم استعمال ہوگی حالانکہ طلب بڑھانے کے لیے رعایتی نرخ پیش کیے جا رہے ہیں۔

ریحان جاوید نے خبردار کیا، ’اب اصل سوال یہ ہے کہ ایسی شرائط کے ساتھ بھلا ڈسکوز کو کون خریدے گا؟ اس صورت حال نے غیرملکی سرمایہ کاروں بالخصوص سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کے لیے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے جو پاکستان میں مواقع کی تلاش میں ہیں‘۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ڈسکوز کے لیے اصل ٹیرف دراصل 34 روپے فی یونٹ نہیں بلکہ تقریباً 39 روپے فی یونٹ ہے کیونکہ حکومت ہر سال ٹیرف کے فرق کی سبسڈی کے ذریعے 500 سے 600 ارب روپے کے نقصانات کو برداشت کرتی ہے جو بلآخر گردشی قرضے میں شامل ہوجاتے ہیں۔

ریحان جاوید دلیل دیتے ہیں کہ ’ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی گردشی قرضوں میں حصہ نہیں ڈال رہا لیکن اس کے شہریوں کو ہر سال تقریباً 40 ارب روپے ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ 3.5 روپے فی یونٹ کی اضافی سرچارج ہے‘۔

یہ سرچارج پورے ملک میں یکساں طور پر عائد کیا گیا ہے جوکہ حکومت کے ماتحت آنے والی ڈسکوز کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے میں مدد دینے کے لیے ہے۔ چونکہ کے الیکٹرک کے صارفین اس قرضے میں اضافہ نہیں کرتے، اس لیے اضافی ادائیگی دراصل کراچی کے بجلی کے صارفین کو قومی گرڈ میں ہونے والی خرابیوں اور مالی نقصانات کی قیمت کسی سزا کی طرح ادا کرنا پڑتی ہے۔

ریحان جاوید کہتے ہیں، ’اگرچہ نیپرا حکومت کے لیے سبسڈی کے مسئلے کو حل کررہی ہے لیکن اسے چاہیے کہ وہ کے الیکٹرک کے صارفین پر سرچارج کے اس اضافی بوجھ کو ہٹائے‘۔

حکومتی مؤقف

حکومت نے کے الیکٹرک کے کئی سالہ ٹیرف پر نیپرا کے جائزے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے جو ’کراچی کے صارفین کے لیے انصاف اور ریگولیٹری تسلسل کو فروغ دیتا ہے‘۔

توانائی ڈویژن کے مطابق، نیپرا کے جائزے نے ایسے ٹیرف کو ہٹا دیا ہے جو قومی ریگولیٹری معیارات سے متصادم تھے جیسے غیرملکی کرنسی پر مبنی ریٹرن اور زیادہ نقصان والے الاؤنس اور ایکویٹی پر منافع کو ڈالر سے روپے میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور ورکنگ کیپیٹل کو ایڈجسٹ کرنے کا مقصد کے الیکٹرک کے جائز اخراجات کو متاثر کیے بغیر ساختی مسائل کو ٹھیک کرنا تھا۔

وزارت توانائی نے کے الیکٹرک کے لیے مقرر کردہ ٹیرف کو چیلنج کیا تھا اور اسے قومی خزانے اور بجلی کے صارفین پر ایک ناجائز مالی بوجھ قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

وزارت توانائی نے یہ دلیل دی کہ کے الیکٹرک کو قومی گرڈ سے فراہم کی جانے والی بجلی کے لیے منظور شدہ ٹیرف دیگر تقسیم کار کمپنیز کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھا اور خبردار کیا کہ یہ فرق اگلے دو سالوں میں وفاقی بجٹ کو تقریباً 59 ارب روپے کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اس درخواست میں کے الیکٹرک کے ٹیرف میں ریکوری نقصانات کو شامل کرنے پر بھی اعتراض کیا گیا جس کے حوالے سے دلیل دی گئی کہ یہ 7 سالہ مدت میں صارفین پر 200 ارب روپے کا اضافی اخراجات کا بوجھ ڈالے گا۔

اس نے ایکویٹی پر ڈالر میں منافع کی منظوری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس سے بوجھ میں مزید 37 ارب روپے کا اضافہ متوقع تھا۔ کمپنی کے پاور پلانٹس کو صلاحیت کی ادائیگیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا جن کا تخمینہ 82 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔

تاہم صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے اور قلیل مدتی مالی ریلیف کے لیے طویل مدتی استحکام کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے جس سے مبہم اشارے ملتے ہیں کیونکہ پاکستان اپنے توانائی کے سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔

وہ متنبہ کرتے ہیں کہ اس قسم کی پالیسی کی بے یقینی ڈسکوز کی نجکاری میں دلچسپی کو کم کر دے گی جبکہ کے الیکٹرک کا معاملہ اب ایک انتباہ کے طور پر کام کرتا ہے کہ کس طرح تجارتی فیصلے شفاف و منصفانہ ضوابط کے بجائے سیاست اور بیوروکریسی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ناصر جمال
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔