• KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.3°C
  • ISB: Cloudy 13.7°C
  • KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.3°C
  • ISB: Cloudy 13.7°C

’ایک آنکھ زمین ایک آسمان پر‘، بنوں پولیس عسکریت پسندوں کے جدید حربوں سے کیسے نمٹ رہی ہے؟

جدید امریکی تھرمل امیجنگ، کواڈ کاپٹرز اور نائٹ وژن کے ہتھیاروں سے لیس دہشتگردوں سے نبرد آزما بنوں پولیس ڈرون حملے روکنے میں مؤثر کام کررہی ہے۔
شائع November 26, 2025

جون یا یہ کہہ لیجیے کہ گزشتہ 5 ماہ سے خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کی پولیس نہ صرف زمینی سطح پر عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہے بلکہ انہیں فضا سے ہونے والے دشمن کے حملوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔

’ہم اپنی ایک آنکھ بندوق کی نالی جبکہ دوسری آنکھ آسمان پر رکھتے ہیں‘، بنوں کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے تبصرہ کیا۔

کئی ماہ سے ملحقہ قبائلی علاقوں سے آنے والے شرپسندوں نے پولیس چوکیوں اور تھانوں پر حملے کی کوشش میں متعدد مسلح کواڈ کاپٹر پروازیں لانچ کی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) ذوالفقار حمید بتاتے ہیں، ’ایک ہی ہفتے میں 50 ایسی کوششیں کی گئیں‘۔

بنوں میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے 200 سے زائد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں عسکریت پسندوں نے عام سطح پر دستیاب کم قیمت کے ڈرونز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

حکمت عملی میں تبدیلی

دہشتگرد عموماً کواڈ کاپٹر حملوں کے دوران دیسی ساختہ گولہ بارود استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ ہتھیار روسی ساخت کے انڈر بیرل گرینیڈ لانچرز جیسے GP-25 میں استعمال ہونے والے گرینیڈ اور چھوٹے کیلیبر کے مارٹر راؤنڈ ہوتے ہیں۔

دہشتگردوں کی جانب سے کواڈ کاپٹرز کے اس استعمال جن میں ہدف پر دیسی ساختہ گولہ بارود گرانے کے لیے ترمیم کیا گیا تھا، اس حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس نے اپنی تنصیبات کے اوپر جال بچھانا شروع کیے، ایک چھت نما شیلٹر نصب کیا تاکہ گولہ بارود کو ٹکرانے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔

بنوں کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (اے آئی جی) سجاد خان نے کہا، ’ہمیں کسی بھی قریب آتی ہوئی شے کو مار گرانے کے لیے چھتوں پر اسنائپر تعینات کرنا پڑے‘۔

ایک موقع پر ایک ڈرون نے اُس گاڑی کا پیچھا کیا جو شہر کے نواح میں گھات لگا کر کیے گئے حملے میں 11 پولیس اہلکار جن میں سے ایک زخمی بھی شامل تھا، کو منتقل کر رہی تھی۔

اس وقت گاڑی چلانے والے بنوں پولیس کے نائب کمانڈنٹ عباد وزیر یاد کرکے بتاتے ہیں کہ ’ڈرون منڈلا رہا تھا اور پیچھا کر رہا تھا‘۔ عسکریت پسندوں نے اس تعاقب کی ویڈیو بھی بنائی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

عسکریت پسندوں کی جانب سے ڈرون کا استعمال جو پاکستانی فورسز کے خلاف پہلی بار ہوا، نے دہائیوں پر محیط جنگ میں ایک نئے مرحلے اور شاید سب سے مہلک تبدیلی کو ظاہر کیا جس میں ہزاروں شہری اور سیکیورٹی اہلکار اپنی جان سے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہونے ہر مجبور ہوچکے ہیں۔

ہیٹ سینسنگ کیمرے یا تھرمل امیجنگ سے لیس یہ کواڈ کاپٹرز ہدف کی نگرانی کرنے اور بم گرانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دہشتگرد بھی جدید جنگی حالات سے خود کو موافق کررہے ہیں جبکہ اب وہ باقاعدہ اپنے ڈرونز کی آپریٹنگ فریکوئنسی تبدیل کرتے رہتے ہیں تاکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے استعمال ہونے والے جیمرز سے بچ سکیں۔

خفیہ ایجنسی اور پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ایسی حکمتِ عملی اور معلومات کے لیے تربیت درکار ہوتی ہے اور یہ مہارت صرف ایسے تجربہ کار دہشت گردوں سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جو اس بارے میں مکمل مہارت رکھتے ہوں۔

’پیچیدہ خودکش حملوں میں استعمال کی جانے والی حکمتِ عملی بھی اسی بات کی واضح علامتیں ظاہر کرتی ہے‘۔

حکام نے خطے میں غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا ہے اور کہا کہ اس نوعیت کی مہارت کی تربیت کے ممکنہ ذرائع وہی ہو سکتے ہیں۔

برتری کھونا

تقریباً دو دہائیوں یعنی اگست 2021ء تک، اسلام آباد اور اس کی فورسز کو ہتھیاروں اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے برتری حاصل تھی۔ اگرچہ پولیس کے لیے یہ اب بھی تقریباً برابر کی جنگ تھی جہاں وہ اے کے–47 رائفلز سے لیس ہو کر قریبی فاصلے کے مقابلے لڑتے تھے۔

سب اُس وقت بدل گیا جب امریکا نے افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد، نہ ختم ہونے والی جنگ سے تھک کر انخلا کا فیصلہ کیا اور امریکی افواج نے اپنے پیچھے 7.1 ارب ڈالر مالیت کا فوجی ساز و سامان اور دفاعی آلات چھوڑے۔

نومبر 2022ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے چھوڑے گئے ہتھیاروں میں M-4، 16، M-24 اور M-249 جیسی 3 لاکھ بندوقیں شامل تھیں۔ 48 ہزار خصوصی آلات بھی تھے جیسے نائٹ وژن چشمے، تھرمل امیجنگ اسکوپس اور ریڈیو نگرانی کے آلات بھی شامل تھے۔

’امریکا نے جان بوجھ کر افغانستان کو انتشار کی حالت میں چھوڑا‘، یہ کہنا تھا ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار کا جو اُس وقت کابل میں تین فریقی کمیشن کے رکن کے طور پر تعینات تھے۔

پاکستان کے کچھ حلقوں میں خوشیوں کا ماحول زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور یہ جلد ہی برے خواب میں بدل گیا۔ نہ صرف عسکریت پسندوں کے حملے کئی گنا بڑھ گئے بلکہ ان حملوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا۔

جنگ کے میدان کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر بدل گیا۔ نائٹ وژن اور تھرمل صلاحیتوں والے امریکی ہتھیاروں سے لیس اسنائپرز نے ایک ہزار 500 میٹر دور سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور شہید کیا جبکہ اسٹیل کور سے 5.56 ملی میٹر کی گولیاں بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ سے بھی گزر سکتی ہیں۔

پولیس اہلکار نے کہا، ’وہ ہمارے لوگوں کو بہت آسانی سے نشانہ بنا رہے ہیں‘۔

  جنوری 2016ء سے پشاور میں قبضے میں لی گئی M4A1 رائفلز اور دیگر امریکی آلات — تصویر:علی اکبر/فائل فوٹو
جنوری 2016ء سے پشاور میں قبضے میں لی گئی M4A1 رائفلز اور دیگر امریکی آلات — تصویر:علی اکبر/فائل فوٹو

یہاں تک کہ فوجی فراہم کردہ G-3 رائفلز جو 7.62 ملی میٹر نیٹو کیلیبر میں ہیں، امریکی M-4 اور M-16 کے مقابلے میں مؤثریت میں کمزور ثابت ہوئیں۔

پولیس اہلکار نے مزید کہا، ’انہیں ہم پر برتری حاصل تھی‘۔

جب اموات کی تعداد بڑھنے لگی اور عسکریت پسند تھرمل امیجنگ اسکوپس سے لاعلم اہلکاروں کو نشانہ بنا کر ویڈیوز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے لگے تو پالیسی سازوں نے غور کرنا شروع کیا کہ اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔

سینئر پولیس افسران کے مطابق اس کے بعد غور و فکر کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس میں انٹرویوز اور بریفنگز ہوئیں جن میں اُن کے درجنوں باوردی ساتھی شامل تھے جنہوں نے دہشت گروں کے رات کے حملوں کا سامنا کیا تاکہ عسکریت پسندوں کی حکمتِ عملی اور حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کو سمجھا جا سکے اور ’اپنی حکمتِ عملی کو ازسرِ نو ترتیب دیا جا سکے‘۔

زیادہ دیر نہ گزری کہ یہ احساس پیدا ہو گیا کہ نہ صرف عسکریت پسندوں نے اپنی حکمتِ عملی اور طریقۂ کار بہتر کیے تھے بلکہ ان کے پاس ہتھیار بھی کہیں زیادہ بہتر ہیں۔

’ہم نے نئی ٹیکنالوجی اپنانے میں کافی دیر کردی‘، آئی جی نے اعتراف کیا۔

ان کے اہلکار کے پاس نہ صرف بہتر ہتھیاروں کی کمی تھی بلکہ اُن ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھی کافی نہ تھا۔ ہتھیار حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کے لیے ایک ٹیم تیار کرنے میں وقت کی دوڑ کا حصہ بننے کی کوشش کررہے تھے۔

سوویت دور کی مخصوص نشانہ باز دراگونوف رائفلز جن پر بہت سے فوجی اعتماد کیا کرتے ہیں اور آج بھی انہیں استعمال کیا جاتا ہے، زیادہ درستی کے ساتھ طویل فاصلے تک دیکھنے والے تھرمل اسکوپس سے آراستہ کی گئیں۔

توازن میں تبدیلی

اس کے بعد فوج کی مدد سے بین الاقوامی مارکیٹ سے مختلف ہتھیاروں اور آلات کی خریداری کی کوششیں فوراً شروع کر دی گئیں۔

اربوں روپے خرچ کیے گئے اور آئندہ مالی سال کے اختتام تک مزید کئی ارب روپے ہتھیاروں اور آلات کی خریداری پر صرف کیے جائیں گے تاکہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے اس دیوہیکل چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اب تک خریدے گئے سسٹمز کی فہرست میں امریکی M-16 رائفلز، M-24 اسنائپر رائفلز، M-249 مشین گنز، لائٹ اسنائپر رائفلز، تھرمل ویپن سائٹس، اینٹی ڈرون گنز، درمیانی اور طویل فاصلے تک نگرانی اور حملے کے ڈرونز اور ہائی فریکوئنسی جیمرز شامل ہیں جو بکتربند گاڑیوں کو سڑک کنارے دھماکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

  خیبرپختونخوا پولیس نے پشاور میں اتوار کے روز ہونے والی عاشورہ کی جلوس کے دوران اینٹی ڈرون جیمنگ ٹیکنالوجی استعمال کی— تصویر: ڈان نیوز ٹی وی
خیبرپختونخوا پولیس نے پشاور میں اتوار کے روز ہونے والی عاشورہ کی جلوس کے دوران اینٹی ڈرون جیمنگ ٹیکنالوجی استعمال کی— تصویر: ڈان نیوز ٹی وی

اہلکاروں کو نشانہ بازی کی تربیت بھی دی جا رہی ہے اور ڈویژن کی سطح پر اسپیشل آپریشن ٹیمز تشکیل دی جا رہی ہیں۔ بعدازاں انہیں ضلعی سطح تک توسیع دی جائے گی اور خطرات کا مقابلہ کرنے اور اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے انہیں جدید ترین ہتھیاروں اور آلات سے لیس کیا جا رہا ہے۔

پولیس اور فوجی حکام کہتے ہیں کہ بہتر ہتھیاروں کی دستیابی کا اثر جنگی میدان میں نظر آنے لگا ہے۔

آئی جی نے کہا، ’ہم طاقت کا توازن پلٹ رہے ہیں‘۔

بنوں میں پولیس کا کہنا ہے کہ اینٹی ڈرون گنز کی بدولت اب اُن کے تھانوں پر کواڈ کاپٹر حملے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے میں 5 ڈرون حملوں کو ناکام بنایا گیا، ایک ڈرون کو پولیس کے اسنائپر نے مار گرایا جبکہ دو دیگر کو اینٹی ڈرون گنز کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا۔

Blue and White Non Profit Organization Report by Dawn

ان علاقوں میں جہاں عسکریت پسندوں کو معلوم ہے کہ ریاستی فورسز کے پاس نائٹ وژن اور اینٹی ڈرون صلاحیتیں ہیں، وہاں ڈرون اور رات کے اندھیرے میں حملوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

لیکن جیسا کہ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، یہ ایک طویل جدوجہد تھی، ایک ایسی لڑائی جس میں حوصلہ، وسائل اور حکمتِ عملی سب کی آزمائش تھی۔

’ہو سکتا ہے ہم انہیں مار رہے ہوں لیکن کیا ہم اصل مسئلے کو حل کر رہے ہیں؟‘


ہیڈر: پاکستانی فوج کے جوان 2 ستمبر 2025ء کو بنوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری  (ایف سی) ہیڈ کوارٹر پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد علاقے کو محفوظ بنا رہے ہیں — تصویر: رائٹرز


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اسماعیل خان

اسماعیل خان ڈان اخبار پشاور کے بیورو چیف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔