• KHI: Partly Cloudy 21.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.3°C

کراچی کے شپاٹر!

یہ سوار زیادہ تر کم عمر اور نوجوان ہوتے ہیں، ان کے پاس حفاظتی سامان کے نام پر صرف آنکھوں پر لگے گوگلز ہوتے ہیں، تاکہ گرد و غبار سے نظر دھندلی نہ ہو۔ ان کی موٹر سائیکلیں بالکل برہنہ ہوتی ہیں، تیز رفتاری کی غرض سے ہر غیر ضروری پرزہ ہٹا دیا جاتا ہے۔
شائع 26 دسمبر 2025 04:16pm

کراچی کی بڑی شاہراہوں پر گاڑی چلانے والے اکثر ڈرائیوروں نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے، خاص طور پر ویک اینڈ کی راتوں اور سرکاری تعطیلات پر، پیچھے سے تیزی سے قریب آتی ہوئی ایک ’ایسی موٹر سائیکل جس پر کوئی سوار نہ ہو‘۔

ابتدا میں وہ ریئر ویو مرر میں محض ایک دھندلا سا سایہ ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ قریب آتی ہے، ڈرائیور کو آخرکار ایک نوجوان نظر آتا ہے جو پوری موٹر سائیکل پر چپکا ہوا لیٹا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں ہینڈل کے عین اوپر سے سڑک کو گھور رہی ہوتی ہیں، اسپیڈومیٹر غائب ہوتا ہے، بازو جسم کے ساتھ جکڑے ہوتے ہیں یا تو ہینڈل کو مضبوطی سے تھامے ہوئے یا بعض اوقات سائڈ پر سسپنشن کو پکڑ کر، کاندھوں کی مدد سے ہینڈل کو موڑتے ہوئے۔ ٹانگیں یا تو بالکل سیدھی لیٹی ہوتی ہیں یا ٹخنوں پر قینچی کی طرح جڑی ہوتی ہیں، پورا جسم ہوا کی رفتار کو کم کرنے والی پوزیشن میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔

زیادہ تر ڈرائیور جانتے ہیں کہ ایسی موٹر سائیکل کا سامنا ہو تو انہیں کیا کرنا چاہیے: اپنی لائن برقرار رکھیں، دائیں جائیں نہ بائیں۔ اچانک بریک نہ لگائیں۔ اسٹیئرنگ نہ موڑیں۔ تقریباً ہر بار، موٹر سائیکل سوار آخری لمحے میں مڑتا ہے، گاڑیوں کے درمیان سے زِگ زیگ کرتا ہوا نکل جاتا ہے اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ شاذ و نادر ہی اکیلا ہوتا ہے۔ اس کے فوراً بعد ایسی ہی کئی موٹر سائیکلوں کا جھنڈ آتا ہے، جو ہر سمت سے گزر جاتا ہے، ڈرائیوروں کو اسٹیئرنگ وہیل مضبوطی سے پکڑنے اور دل ہی دل میں دعائیں مانگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کی سلامتی کے لیے بھی اور اپنی جان کے لیے بھی۔ اس برق رفتاری پر معمولی سی غلطی، اچانک لین بدلنا، گھبراہٹ میں بریک لگانا، لمحہ بھر کی ہچکچاہٹ۔ نہ صرف موٹر سائیکل سوار بلکہ سڑک پر موجود کسی بھی شخص کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ سوار زیادہ تر کم عمر اور نوجوان ہوتے ہیں۔ ان کے پاس حفاظتی سامان کے نام پر صرف آنکھوں پر لگے گوگلز ہوتے ہیں، تاکہ گرد و غبار سے نظر دھندلی نہ ہو۔ ان کی موٹر سائیکلیں بالکل برہنہ ہوتی ہیں، تیزرفتاری کی غرض سے ہر غیر ضروری پرزہ ہٹا دیا جاتا ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر انہیں ایک ہی نام سے جانا جاتا ہے، شپاٹر۔

فوٹو: وائٹ اسٹار
فوٹو: وائٹ اسٹار

شپاٹر کیا ہوتا ہے؟

اس لفظ کے اصل اور درست معنی واضح نہیں تاہم کراچی کے تجربہ کار موٹر سائیکل ریسرز کے مطابق یہ غالباً ’شارپ‘ اور ’فنٹر‘ (مقامی طور پر punter کا بگڑی ہوئی شکل) کا مجموعہ ہے، جس سے مراد کم عمری میں دو پہیوں پر غیر معمولی مہارت دکھانے والا فرد ہے۔

یہ اصطلاح 1990 کی دہائی سے رائج ہے اور بعض اوقات اسے سیاسی طاقت اور چھوٹے جرائم سے بھی جوڑا گیا، اگرچہ ریسرز اس تصور کو اب غیر متعلق سمجھتے ہیں۔

24 سالہ محمد طارق جو طارق 180 کے نام سے مشہور ہیں، نے بتایا کہ ’ہم میں سے زیادہ تر محنت کش لوگ ہیں، جو ریسنگ کے شوقین ہیں‘۔ مضبوط جسامت کے حامل طارق ایک ماہر مکینک بھی ہیں اور اب اپنی ورکشاپ چلاتے ہیں۔ انہوں نے 2009 میں اسکول چھوڑ کر بطور اپرینٹس کام شروع کیا تھا۔

طارق ریسنگ کی دنیا میں موٹرسائیکل پر وہیلی کرنے سے داخل ہوا۔

طارق نے بتایا کہ’ 14-2013 میں، میں نے CB 180cc بائیک خریدی، جس کے بعد مجھے 180 کا نام ملا‘۔ تاہم طارق کو اپنے بیشتر ہم عصروں پر ایک نمایاں برتری حاصل ہے۔ وہ صرف سوار نہیں بلکہ استاد بھی ہیں، ایک ایسا ماہر مکینک جو موٹر سائیکل کے ہر پرزے کو سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ کسی خاص ریس کے لیے اسے کس طرح بہترین بنایا جائے۔

لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا، جس نے محض اپنی رائیڈنگ مہارت کے بل پر کراچی کے اس غیر قانونی ریسنگ سرکٹ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی سب سے مشہور ریس جو اس کی آخری بھی ثابت ہوئی آج بھی معما بنی ہوئی ہے اور شاید یہی اس کے افسانوی کردار کو مزید مضبوط کرتی ہے۔

 اُذیب اپنی بیٹی کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوا ہیں۔ فوٹو: بذریعہ فیملی
اُذیب اپنی بیٹی کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوا ہیں۔ فوٹو: بذریعہ فیملی

بابو 70 کی داستان

اُزیب مصطفیٰ جو بابو 70 کے نام سے مشہور ہوئے، کا جنون بھی گزدرآباد (رنچھوڑ لائنز) میں بچپن کے دوران سائیکل پر وہیلی کرنے سے شروع ہوا۔ ان کے بھائی مرتضیٰ کے مطابق علاقے کے بیشتر نوجوانوں کی طرح وہ بھی ریحان استاد کی ورکشاپ میں بیٹھنے لگے، جہاں موٹر سائیکلوں کے پرزوں اور مرمت کا کاروبار عروج پر ہے۔

دُبلے جسم کے حامل تقریباً 5 فٹ 6 انچ قد کے بابو ریسنگ کے لیے موزوں جسم رکھتے تھے۔ سائیکل اور پھر موٹر سائیکل پر وہیلی کرنے میں ان کی مہارت پہلے ہی انہیں ممتاز بنا چکی تھی۔ انہیں بابو 70 کا نام اپنے والد کی وجہ سے ملا، جو فٹبالر تھے اور 70cc موٹر سائیکل چلاتے تھے۔

زیادہ تر شپاٹروں کی طرح بابو نے بھی لائسنس کے بغیر ریسنگ شروع کی۔ 2011 میں 18 برس کی عمر میں انہوں نے چیمپئن ریسر بالی ایکس کو شکست دے کر اپنی پہچان بنائی۔ اگلے پانچ برسوں میں انہوں نے شاہراہِ فیصل اور دیگر ٹریکس پر اپنی برتری قائم کر لی۔ 2016 تک وہ کراچی کے اس وقت کے سرِفہرست شپاٹر، ثاقب سنکی کے برابر آ چکے تھے۔ ان کی رقابت ایک آخری جان لیوا ریس پر ختم ہوئی۔

مرتضیٰ کے مطابق ایک موقع پر سنکی اس ریس سے پیچھے ہٹنا چاہتے تھے کیونکہ پہلے کی ایک ریس کے فیصلے پر بابو اور ان کے درمیان تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ مگر بابو نے اصرار کیا، کیونکہ وہ دو دن بعد دبئی جا رہے تھے، جہاں ان کے دوست ان کے لیے کاروبار قائم کرنے میں مدد کر رہے تھے۔
یہ ریس نومبر 2016 کی ایک صبح 4 بجے ہوئی۔ ابتدا میں منصوبہ تھا کہ 12 کلومیٹر کی ریس شاہراہِ فیصل پر ہو، جو ایئرپورٹ کے قریب سے شروع ہو کر ایف ٹی سی پل پر ختم ہو۔ مگر سڑک پر تیل ہونے کے باعث آغاز کا مقام ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب منتقل کر دیا گیا۔
ریس شروع ہوتے ہی بابو نے برتری حاصل کر لی، جو آدھے راستے سے آگے تک برقرار رہی۔ اس پر سب متفق ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس پر اختلاف ہے۔
مرتضیٰ کہتے ہیں کہ بابو کو ایک کار نے ٹکر ماری تاہم انہیں یاد نہیں کہ وہ سیڈان تھی یا ہیچ بیک۔ علی جو اب ریسنگ چھوڑ چکے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ثاقب سنکی کے لوگ تھے اور ثاقب سنکی نے خود بھی بابو کی موٹر سائیکل کو لات ماری۔
طارق 180 ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’بابو کی موٹر سائیکل کا انجن ریس کے دوران خراب ہو گیا تھا، تیل بہنے لگا، جو پہیے پر آ گیا اور وہ کنٹرول کھو بیٹھا‘۔
مرتضیٰ کے مطابق حادثہ اس وقت پیش آیا جب جیت چند لمحوں کی دوری پر تھی۔ ’وہ تقریباً ایک کلومیٹر تک زمین پر رگڑتا رہا اور شدید زخمی ہو گیا‘۔
بابو تقریباً چار ہفتے اسپتال میں زیر علاج رہے اور پھر انتقال کر گئے۔ اہلِ خانہ نے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کرائی، جس سے طارق کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ کوئی سازش نہیں تھی۔
ڈان نے ثاقب سنکی سے رابطے کی کئی کوششیں کیں، مگر ان کے شاگردوں نے بتایا کہ وہ کسی صحافی سے بات نہیں کرنا چاہتے، حالانکہ ان کی ویڈیوز اور ریس باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہیں۔ ایک وجہ ان کے قانونی مسائل ہو سکتے ہیں۔ ثاقب اس وقت 2022 کے ایک ڈکیتی کیس میں ضمانت پر ہیں۔
اس کے باوجود ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام پر ان کے نام سے متعدد اکاؤنٹس چل رہے ہیں۔
پھر بھی بہت سے لوگ آج بھی بابو کو ان سے بہتر مانتے ہیں۔ ’بابو واضح طور پر بہتر رائیڈر تھے، اور اگر وہ ثاقب سنکی کو ہرا دیتے تو کراچی کے بے تاج بادشاہ بن جاتے‘۔ سابق ریسر ابراہیم کہتے ہیں ’آج بھی اگر نوجوانوں سے پوچھیں کہ وہ کس جیسے بننا چاہتے ہیں تو اکثر بابو 70 کا نام لیں گے۔‘

بابو کی موت کے بعد چند برس تک ان کے مداح ان کی برسی پر یادگاری ریلیاں نکالتے رہے۔ ان کی ریسوں کی ویڈیوز اور کارنامے آج بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر چھائے ہوئے ہیں۔ کراچی یا پاکستان کے بہترین رائیڈرز پر جب بھی بحث ہوتی ہے تو ان کا نام لازماً سامنے آتا ہے اور اس بات پر دعوے اور جوابی دعوے ہوتے ہیں کہ کراچی کی سڑکوں پر سب سے بڑا شپاٹر کون تھا۔

فوٹو: وائٹ اسٹار
فوٹو: وائٹ اسٹار

ریس، رائیڈر اور مشین

طارق کے مطابق عزت و شہرت حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین رائیڈر کافی نہیں ایک ماہر استاد بھی ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جان تو رائیڈر داؤ پر لگاتا ہے، مگر موٹر سائیکل کو ریس کے لیے تیار استاد ہی کرتا ہے‘۔

یہ زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ موٹر سائیکل سوار اپنے عملی تجربے کے ذریعے طبیعیات کے بعض اصولوں جیسے ایروڈائنامکس اور ہوا کے دباؤ کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ شپاٹر کی لیٹی ہوئی پوزیشن ہوا کی مزاحمت کم کرتی ہے اور کسی گاڑی کے پیچھے چلنا ہوا کے دباؤ کو گھٹا کر رفتار بڑھاتا ہے۔ طارق اپنے فون میں جی پی ایس میٹر استعمال کرتے ہیں تاکہ ریس سے پہلے موٹر سائیکل کی کارکردگی جانچ سکیں۔

لیکن اصل کمال استاد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ برسوں کے تجربے، پرزے کھولنے، جوڑنے اور آزمائش سے یہ مہارت حاصل ہوتی ہے۔ طارق بتاتے ہیں کہ ’اسی طرح 70cc بائیک 150 کلومیٹر فی گھنٹہ سے اوپر جاتی ہے، استاد رائیڈر کو ناقابلِ شکست بنا سکتا ہے، مگر ریسر اور استاد دنوں ہی یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔

اسی لیے جب کوئی رائیڈر چیلنج دیتا ہے تو وہ اپنے استاد کا نام بھی لیتا ہے۔ یہ چیلنج اب زیادہ تر فیس بک گروپس میں دیے جاتے ہیں۔ قبولیت کے بعد ایک منصف طے کیا جاتا ہے جو عموماً تجربہ کار رائیڈر ہوتا ہے اور موٹر سائیکل پر سوار دونوں ریسرز کو فالو کر کے ویڈیو بناتا ہے۔ شرط کی رقم، جو 15 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے، منصف کے پاس جمع ہوتی ہے۔

ریس کی شرائط مقامی اصطلاحات میں طے ہوتی ہیں: جیسے ’اپنی ہوا‘ (دوسرے کے پیچھے نہ چلنا)، ’سی ایس آلٹر‘ (کاربوریٹر اور سپروکیٹس میں تبدیلی کی اجازت)۔ سب سے خطرناک فارمیٹ ’فری اسٹائل‘ ہوتا ہے، جس میں ایک دوسرے کو مارنا، پکڑنا یا لات مارنا شامل ہے ۔ طارق نے بتایا کہ استادوں کے اتفاق سے اب یہ فری اسٹائل کافی حد تک ختم ہو چکا ہے۔

ریس سے قبل دونوں فریق موٹر سائیکلوں کا معائنہ کرتے ہیں تاکہ کسی خلاف ورزی کا پتا چلایا جا سکے۔ اگر اعتراضات درست ثابت ہوں تو منصف کسی بھی فریق کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔

شو روم سے شو روم ریسیں بھی ہوتی ہیں، جن میں دونوں فریق شو روم سے موٹر سائیکل لیتے ہیں اور سیدھا طے شدہ ٹریک پر ریس کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ طارق کے مطابق یہ رجحان موٹر سائیکلوں میں تبدیلیوں کی نئی جدت کے باعث سامنے آیا۔ ان کے بقول آج کل ایسی ہوشیاری ہو چکی ہے کہ بڑے بڑے استاد بھی تبدیلیاں نہیں پکڑ پاتے، زیادہ تر تبدیلیاں لاہور کے مکینک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں رائیڈر بہتر ہیں لیکن استاد لاہور میں زیادہ ماہر ہیں۔

فوٹو: وائٹ اسٹار
فوٹو: وائٹ اسٹار

خطرے کی قیمت

تمام مہارت، دلیری اور کہانیوں کے باوجود شپاٹر جو خطرات مول لیتے ہیں وہ صرف ان تک محدود نہیں رہتے۔

کراچی کی مصروف اور تنگ سڑکیں پہلے ہی شہریوں کے لیے خطرہ ہیں۔ گزشتہ برس شہر میں کم از کم پانچ سو سڑک حادثات میں ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، جن میں اکثریت موٹر سائیکل سواروں کی تھی تاہم اعداد و شمار میں ریس کرنے والوں کی الگ شناخت موجود نہیں۔

روڈ ٹریفک انجری ریسرچ اینڈ پریوینشن پروگرام جو نیورو سرجن ڈاکٹر راشد جوما نے شروع کیا تھا، کراچی میں ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار جمع کرنے والا واحد پروگرام تھا۔ فنڈز اور سرکاری سرپرستی نہ ملنے پر 2017 میں بند ہونے والے اس پروگرام کی نومبر 2016 کی رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2014 کے دوران 9 ہزار 129 افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 8 ہزار 654 کیسز میں سے 3 ہزار 871 یعنی 44.7 فیصد ہلاکتوں میں حادثے کا شکار گاڑی موٹر سائیکل تھی۔

کسی بھی ریس کرنے والے موٹر سائیکل سوار سے بات کریں تو وہ دوستوں کے نام گنوا دے گا جو ریسنگ یا پریکٹس کے دوران جان سے گئے۔ طارق اپنے سر کا زخم دکھاتے ہیں جس پر ان کے بقول دو درجن ٹانکے آئے تھے، جبکہ ایک زخم ان کی پشت پر بھی ہے۔ ان کے مطابق محمود آباد کے پانچ چھ لڑکے حالیہ برسوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں استاد سہیل ایس ون بھی شامل ہیں۔

ٹریفک پولیس کے مطابق قانونی کارروائی بہت مشکل ہے کیونکہ ریسیں اچانک طے پاتی ہیں اور اکثر صبح سویرے ہوتی ہیں جب سڑکیں بظاہر خالی ہوتی ہیں۔ کراچی ٹریفک کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پیر محمد شاہ کے مطابق یہ موٹر سائیکل سوار بغیر نمبر پلیٹ اور حفاظتی سامان کے ہوتے ہیں اور اپنی مہارت کے باعث پکڑ میں نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں فضائی نگرانی متعارف کرائی گئی ہے اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی امید پے۔

زیادہ تر ریس کرنے والے ای چالان یا کریک ڈاؤن کی پروا نہیں کرتے۔ ان کی اصل تشویش ریس کے آغاز کے وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی ہوتی ہے۔ طارق کے مطابق ریس کے وقت حتیٰ کہ ہائی وے پر بھی رائیڈر آغاز کے مقام پر جمع ہو کر لمحاتی طور پر سڑک بند کرتے ہیں تاکہ ٹریک خالی ہو سکے۔ اس موقع پر پولیس کی آمد سڑک روکنے والوں کے لیے مشکل کھڑی کر سکتی ہے۔

تجربہ کار پولیس افسر نصراللہ خان جو مختلف ریسنگ ہاٹ اسپاٹس میں ایس ایچ او رہے، کہتے ہیں کہ یہ ریسیں غیر قانونی ہیں اور موٹر سائیکلوں میں غیر مجاز تبدیلیاں بھی جرم ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو 70 سی سی کی موٹر سائیکل کا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جبکہ گاڑی 150 سی سی کی طرح چلتی ہے۔

نصراللہ خان کے مطابق سی ویو کا ’شیطانی پوائنٹ‘ مختلف ریسوں کا مرکز تھا، جسے سڑک کے درمیان بیریئرز لگا کر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ داخلی اور خارجی راستے بند کر کے کاروں اور بائیکس کی ریسوں میں شامل افراد کو گرفتار کرتے تھے، تاہم عموماً ان پر لاپروائی سے ڈرائیونگ کا مقدمہ ہی بن پاتا اور گاڑیاں ضبط کی جاتیں۔

ان کے بقول ریسوں میں استعمال ہونے والی بہت سی موٹر سائیکلیں چوری کی ہوتی ہیں یا ان میں چوری شدہ پرزے لگے ہوتے ہیں۔ طارق کا کہنا ہے کہ وہ اس خدشے سے بچنے کے لیے گاہکوں سے گاڑیوں کے کاغذات طلب کرتے ہیں۔

پولیس افسر اور رائیڈر دونوں متفق ہیں کہ پابندیوں یا کریک ڈاؤن کے باوجود بائیک ریسنگ جاری رہے گی۔

نصراللہ خان کے مطابق واحد حل یہ ہے کہ ریسنگ کو کم خطرناک بنایا جائے، نہ صرف شپاٹرز کے لیے بلکہ سڑک پر موجود دیگر افراد کے لیے بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ ریسنگ کے لیے مخصوص جگہ فراہم کی جائے جیسا کہ جیپ ریلیوں اور دیگر مقابلوں میں ہوتا ہے۔

کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے ڈان کو بتایا کہ شہر کی انتظامیہ اس خیال کے لیے تیار ہے، تاہم اگر ایسی جگہ ملی بھی تو وہ شہر کے مضافات میں ہو گی جہاں زیادہ تر لوگ جانا نہیں چاہتے۔

طارق کے مطابق بڑی ریس پہلے ہی ہائی وے کے حصوں پر اور شہر سے باہر نوری آباد تک ہوتی تھی۔

جب تک ان کے پاس اپنی جگہ نہیں ہوتی، شپاٹرز کراچی کی سڑکوں پر ریئر ویو مررز میں نظر آتے رہیں گے، ایک تیز رفتار دھندلا سایہ جو اچانک پیچھے سے آتا ہے اور ڈرائیوروں کو اپنی لائن پکڑ کر رکھنے اور خیر کی اُمید کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ان سڑکوں پر افسانے اور المیے کے درمیان فاصلہ کلومیٹرز میں نہیں بلکہ لمحوں میں ناپا جاتا ہے اور ہر بابو کے افسانہ بن جانے کے باوجود درجنوں ایسے ہیں جو اسی عارضی شہرت کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

حسین دادا

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔