Get the latest news and updates from DawnNews
اسرائیل نے غزہ میں بمباری کرکے مزید 93 فلسطینیوں کو شہید کردیا، مغربی کنارے کا دورہ کرنے والے سفارت کاروں پر بھی گولیاں چلادیں، یہودی آباد کاروں نے فلسطین کے گاؤں پر حملہ کرکے آگ لگادی، مسجد کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے کے بعد زخمی بچوں کو قریبی ہسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے، جابلیہ میں النضر خاندان کے ایک گھر کو نشانہ بناتے ہوئے کیے گئے حملے میں 4 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ بدھ کی صبح سے اب تک اسرائیلی حملوں میں غزہ کی پٹی میں کم از کم 93 افراد شہید ہو چکے۔
اسرائیلی بربریت کیخلاف عالمی سطح پر مذمت میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں واقع جنین پناہ گزین کیمپ کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں پر ’خبردار‘ کرنے کے لیے فائرنگ کی۔
اقوام متحدہ کے ترجمانِ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جو تھوڑی بہت انسانی امداد پہنچ رہی ہے، وہ اس جنگ زدہ علاقے کی بھوک میں مبتلا آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ’قطعی ناکافی‘ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 53 ہزار 655 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 22 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ قرار دیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے دوران اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی آبادکاروں نے نابلس کے قریب گاؤں پر دھاوا بول دیا، اور آگ لگادی، اس دوران مسجد کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود فلسطینی کارکن ایہاب حسن کے مطابق اسرائیلی آبادکاروں نے نابلس کے جنوب مشرق میں واقع عقربا گاؤں پر دھاوا بولا اور فلسطینیوں کی املاک پر حملے شروع کردیے۔
ایہاب حسن نے بتایا کہ آبادکاروں نے ایک فلسطینی کی گاڑی کو آگ لگا دی، اور نمازیوں کی موجودگی میں ہی مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی، انہوں نے اس عمل کو ’لوگوں کو زندہ جلانے کی واضح کوشش‘ قرار دیا۔
دوسری جانب عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ 100 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی بندش کے باعث اسرائیل کو متعدد ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
برطانیہ نے اسرائیل سے ازادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روک دی تھی، جب کہ یورپی یونین نے بھی اسرائیل سے ازادانہ تجارتی معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ضرورت مند افراد تک کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔
امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں فائرنگ سے اسرائیلی سفارتی عملےکے 2 ارکان ہلاک ہوگئے، امریکی سیکیورٹی چیف نے اسرائیلی سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کردی، پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا، جس نے گرفتاری کے بعد ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگائے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی رات واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل یہودی میوزیم میں منعقدہ ایک تقریب کے باہر فائرنگ کے واقعے میں اسرائیلی سفارت خانے کے عملے کے 2 ارکان ہلاک ہو گئے جبکہ حکام و میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایک مرد اور ایک خاتون کو تھرڈ اور ایف اسٹریٹس، نارتھ ویسٹ کے علاقے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا، یہ علاقہ یہودی میوزیم، ایف بی آئی فیلڈ آفس اور امریکی اٹارنی آفس کے قریب واقع ہے۔
واشنگٹن پولیس چیف پامیلا اسمتھ نے بتایا کہ تقریب سے پہلے میوزیم کے باہر ایک شخص چہل قدمی کررہا تھا، وہ 4 افراد کے گروپ کے قریب آیا اور مذکورہ 2 افراد پر فائرنگ کردی اور پھر میوزیم میں داخل ہوگیا، جسے تقریب کی سیکیورٹی نے حراست میں لے لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہتھکڑی لگائے جانے کے بعد مشتبہ شخص نے واردات میں استعمال ہونے والے اسلحے کی نشاندہی کردی جس کے بعد وہ پستول برآمد کرلیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ملزم حراست میں ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مشتبہ شخص کی شناخت 30 ایلیئس روڈری گوئیز کے نام سے ہوئی ہے، ریاست شکاگو کے شہر ایلانوئے کا رہائشی ہے۔
واقعےکے بعد سامنے آنے والی وڈیو میں مشتبہ شخص کو حراست میں لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس نے سیاہ پینٹ کوٹ اور سفید شرٹ زیب تن کررکھی ہے جبکہ وہ ’ فری فری فلسطین’ کے نعرے لگارہا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا دل متاثرہ خاندانوں کے لیے دکھی ہے، جن کی زندگیاں ایک سفاک اور یہود مخالف قاتل کے ہاتھوں ختم ہو گئیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہود دشمنی اور ریاستِ اسرائیل کے خلاف شدید اشتعال انگیزی کی ایک بھیانک قیمت دیکھ رہے ہیں، اسرائیل کے خلاف لگائے جانے والے خون کے الزامات خون میں ڈوب رہے ہیں، اور ہمیں ان کے خلاف آخری حد تک لڑنا ہوگا۔
اس سے قبل اسرائیلی سفارتخانے نے متاثرین کی تصویر جاری کی تھی، اب اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے ان کے مکمل ناموں کی تصدیق کی ہے، جو کہ یارون لیشنسکی اور سارہ لن ملگرِم ہیں۔
واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے ترجمان تل نائیم کوہن ہیں نے بتایا کہ سفارت خانے کے عملے کے 2 افراد کو میوزیم میں ایک یہودی تقریب کے دوران قریب سے گولی ماری گئی۔
اسرائیلی سفارت خانے نے حملہ آور، متاثرین یا حملے کے محرک کے بارے میں سوالات کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
امریکی سیکیورٹی چیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوئے، دونوں اسرائیلی سفارت خانے کے عملے کے رکن تھے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈائریکٹر کرسٹی نوم نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’ ہم اس واقعے کی فعال طور پر تحقیقات کر رہے ہیں اور مزید معلومات حاصل کرنے اور شیئر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اس گھناؤنے مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے’۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے کہا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اس فائرنگ کے واقعے پر بریفنگ دی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل پم بانڈی اور واشنگٹن ڈی سی کے لیے امریکی اٹارنی جینین پیرو فائرنگ کی جگہ پر موجود تھیں۔
اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے اس واقعے کو یہود مخالف دہشت گردی کا ایک گھناؤنا عمل قرار دیا۔
سفیر ڈینی ڈینون نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ سفارتکاروں اور یہودی برادری کو نشانہ بنانا ایک سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے، ہمیں یقین ہے کہ امریکی حکام اس مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ سفارتی عملے کے 2 افراد کو میوزیم کی تقریب کے دوران قریب سے گولی ماری گئی۔
ترجمان تال نائیم کوہن نے کہا کہ ’ہم مقامی اور وفاقی دونوں سطحوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ حملہ آور کو گرفتار کریں گے اور امریکا بھر میں اسرائیلی نمائندوں اور یہودی برادریوں کی حفاظت کریں گے‘۔
امریکی میڈیا کے مطابق فائرنگ کے وقت اسرائیل کے سفیر میوزیم کی تقریب میں موجود نہیں تھے۔
سی بی ایس کے ذرائع کے مطابق مشتبہ شخص گھنی مونچھوں والا ایک مرد ہے جو نیلی جینز اور نیلی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔
امریکن جیوش کمیٹی (اے جے سی) کے سی ای او ٹیڈ ڈوئچ نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ ان کی تنظیم کے زیراہتمام تقریب کے باہر حملہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس ناقابلِ بیان پرتشدد واقعے پر شدید غمزدہ ہیں، اس وقت، جب ہم پولیس سے مزید معلومات کے منتظر ہیں کہ اصل میں کیا ہوا، ہماری تمام تر توجہ اور ہمدردیاں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔“
اسرائیل میں امریکا کے سفیر مائیک ہکابی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے اس حملے کو دہشت کی ایک ہولناک کارروائی قرار دیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے اس کے نیوز پارٹنر سی بی ایس کو بتایا کہ ایک مرد اور ایک خاتون کیپیٹل یہودی میوزیم میں ایک تقریب سے باہر نکلتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بنے اور ابتدائی معلومات کے مطابق یہ واقعہ جان بوجھ کر کیا گیا حملہ معلوم ہوتا ہے۔
فائرنگ کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجکر 5 منٹ پر تھرڈ اور ایف اسٹریٹس کے قریب پیش آیا، رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے وقت اسرائیلی سفارت خانے کے متعدد ملازمین مذکورہ میوزیم کی تقریب میں موجود تھے۔
واقعے کے بعد پولیس نے فوری اور بڑی کارروائی کرتے ہوئے شہر کی کئی مرکزی سڑکوں کو بند کر دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق متاثرین ایک مرد اور ایک خاتون ہیں، تاہم ان کے نام جاری نہیں کیے گئے۔
کیپیٹل یہودی میوزیم، امریکا کے دیگر کئی یہودی اداروں کی طرح بڑھتے ہوئے یہود مخالف جذبات کے باعث سیکیورٹی کے مسائل سے دوچار رہا ہے۔
میوزیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بیٹریس گُرووٹز نے بدھ کے حملے سے قبل این بی سی نیوز سے ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ’شہر بھر اور ملک بھر میں یہودی ادارے سیکیورٹی کے بارے میں فکرمند ہیں، کیونکہ کچھ اداروں کو خوفناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مجموعی طور پر یہود دشمنی کے ماحول نے تشویش میں اضافہ کیا ہے‘۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی تاہم اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنانے والی ’سیکیورٹی شرائط‘ کے تحت جنگ ختم کرنے کو تیار ہوں۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ وہ جنگ صرف ایک صورت میں ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، جب اسرائیلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ’واضح شرائط‘ موجود ہوں۔
مزید کہا کہ ’ ان شرائط میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا ہتھیار ڈالنا اور ان کی قیادت کا غزہ سے الگ ہونا، علاقے کا مکمل طور پر غیر مسلح کیا جانا شامل ہے جب کہ جو غزہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، انہیں جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیل کا حماس کو شکست دینے کا ’واضح اور جائز‘ مقصد ہے، اپنے مقصد کے حصول کے لیے آخر تک پرعزم ہیں اور ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا، ہمارے پاس ایک بہت منظم منصوبہ ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر حماس کے رہنما محمد سنوار کو بھی شہید کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اسرائیل سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، دراصل وہ چاہتے ہیں کہ غزہ پر حماس کی حکمرانی برقرار رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ اسرائیل نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا ہے لیکن اس کے باوجود ایران اسرائیل کے لیے اب بھی بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر ایک ایسے معاہدے کی کوشش کر رہا ہے جو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روک سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایسے کسی بھی معاہدے کا خیرمقدم کرے گا لیکن ساتھ ہی وہ یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ اپنی سلامتی کا دفاع خود کر سکے۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ غزہ کی پٹی مکمل طور پر اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول میں ہو گی اور حماس کو شکست دی جائے گی اور جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے۔
اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تین نکاتی منصوبہ پیش کیا جن کے تحت غزہ کو بنیادی امدادی اشیا فراہم کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی کمپنیوں کے ذریعے خوراک کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے جنہیں اسرائیلی فوج کی سیکیورٹی حاصل ہو گی اور غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک مخصوص زون قائم کیا جائے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے غزہ میں فوجی حملے بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ غزہ کے شہریوں تک انتہائی ضروری امداد اب تک نہیں پہنچ سکی ہے، حالانکہ گزشتہ 2 دنوں کے دوران تقریباً 100 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں، اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل میں نرمی کے باوجود زیادہ تر سامان گوداموں میں پڑا ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے مطابق اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے امداد کو فلسطینی سرحدی گزرگاہ پر روک لیا گیا اور اسے غزہ کے عام عوام میں تقسیم کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اب تک جو امداد دی جا رہی ہے وہ ’ناکافی‘ ہے اور ’ابھی تک صرف چند ہی ٹرک کیرم شالوم (سرحدی گزرگاہ) سے اور غزہ کے اندر موجود امدادی پلیٹ فارم سے نکل سکے ہیں‘۔
اس حوالے سے اسرائیلی حکام کی جانب سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، لیکن اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) انسانی امداد کی فراہمی کو جاری رکھے گی اور ہر ممکن کوشش کرے گی کہ یہ امداد حماس جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ نہ لگے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ اسرائیل یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ امداد حماس کے ہاتھ نہ لگے۔
دوسری جانب، پوپ لیو نے غزہ کے لیے امداد کی فراہمی بحال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور درد ناک ہے، جہاں بچوں، بزرگوں اور بیماروں کو دشمنی کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
پوپ لیو نے غزہ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بڑی مقدار میں انسانی امداد کی اجازت دی جائے۔
ادھر، ڈاکٹروں کی تنظیم ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں طبی سامان انتہائی کم ہوچکا ہے۔
خان یونس کی ایک فارماسسٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ’ہم امداد کے پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں ہے جب کہ یہاں صورتحال بہت سنگین ہے کیوں کہ پانی ہے نہ خوراک اور نہ ہی ایندھن، بس ہر طرف گولہ باری ہو رہی ہے۔
شمالی غزہ کے انڈونیشین ہسپتال میں موجود ایک خاتون نے بی بی سی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کے اندر مریض، ڈاکٹرز اور طبی عملہ موجود ہے جب کہ دو مریضوں کی حالت ’انتہائی تشویشناک‘ ہے جب کہ ہمارے پاس اب بھی کچھ خوراک موجود ہے لیکن ہمیں ’پانی کے بحران‘ کا سامنا ہے۔
انڈونیشین ہسپتال تعمیر کرنے والی این جی او کے چیئرمین ہدیدی حبیب کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ایک مریض ’بے ہوشی کی حالت میں‘ ہے جب کہ عمارت کے اندر موجود لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 82 افراد شہید اور 262 زخمی ہوئے ہیں جب کہ غزہ میں شہدا کی تعداد 53 ہزار 655 ہوگئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن تک ایمبولینس اور شہری دفاع کی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
اردن کے دارالحکومت عمان میں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی انروا کا کہنا ہے کہ امداد صرف 3 گھنٹے کی مسافت پر موجود ہے، غزہ کے لوگ ہر چیز کے محتاج ہیں لہذا امداد کو فوری طور پر اندر پہنچانا چاہیے۔
ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 2 لاکھ افراد کے لیے خوراک، 16 لاکھ افراد کے لیے ادویات، کمبل، صفائی کے سامان کے پیکٹس اور اسکول کا سامان تیار ہے۔
برطانیہ نے غزہ کے لیے 4 ملین پاؤنڈ کی انسانی امداد کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان برطانوی وزیرِ ترقی جینی چیپمین کے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورے کے دوران کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے کمزور اور متاثرہ افراد کو فوری طور پر مکمل امداد تک رسائی دی جانی چاہیے جب کہ یہ نئی امداد ان تنظیموں کی مدد کرے گی جو خوراک، پانی اور ادویات ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں جنہیں ان کی اشد ضرورت ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد فراہم کی جائے گی۔
یہ معاہدہ گزشتہ شب متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان اور ان کے اسرائیلی ہم منصب گیڈیون ساعر کے درمیان ہونے والی ایک فون کال کے بعد کیا گیا۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق یہ امداد ابتدائی مرحلے میں تقریباً 15 ہزار شہریوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امداد میں ’بنیادی اشیا‘ شامل ہیں، شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جب کہ ’نوزائیدہ بچوں کی نگہداشت کے لیے اہم اشیا‘ بھی اس میں شامل ہوں گی۔
تاہم، متحدہ عرب امارات نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ معاہدہ عملی طور پر کیسے نافذ کیا جائے گا یا امداد غزہ میں داخل اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہو گی جب کہ اسرائیل کی جانب سے بھی اس معاہدے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
کانز فلم فیسٹیول میں شرکت کرنے والے فلسطینی فلم سازوں عرب اور ترزان ناصر نے کہا ہے کہ غزہ میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا، اسرائیلی حملوں نے علاقے کو شمال سے جنوب تک تباہ کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی جڑواں بھائیوں نے اپنی نئی فلم ’ونس اپن اے ٹائم اِن غزہ‘ کے ذریعے فیسٹیول کے ایک سیکشن میں شرکت کی۔
فلم کے پریمیئر کے موقع پر ترزان ناصر کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں کچھ باقی نہیں رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حملوں نے نہ صرف شہر کو تباہ کیا بلکہ ان کے والد کا گھر بھی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اُن کے مطابق جب وہ چھوٹے تھے تو اس وقت غزہ ایک جنت تھا جسے اسرائیل نے تباہ کردیا ہے۔
عرب ناصر کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی آواز پہنچانا ضروری ہے تاکہ دنیا ہماری کہانی سن سکے۔
ان کے مطابق فلم کا مقصد صرف سیاسی پیغام دینا نہیں بلکہ غزہ کے عوام کی روزمرہ زندگی، ان کی امیدوں اور خوابوں کی عکاسی کرنا ہے۔
’ونس اپن اے ٹائم ان غزہ‘ کی کہانی 2007 میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کے غزہ پر مبنی ہے، جہاں دو نوجوان، یحییٰ اور اسامہ، منشیات کی اسمگلنگ اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف دکھائے گئے ہیں۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ بجلی کی کمی، معاشی زبوں حالی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود وہ بہتر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
فلم کے ایک منظر میں پروڈیوسر کا جملہ غزہ میں ہمارے پاس اسپیشل ایفیکٹس نہیں، لیکن لائیو گولیاں ضرور ہیں غزہ کی تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔
ناقدین نے ’ونس اپن اے ٹائم اِن غزہ‘ کو سراہا ہے اور اسے غزہ کی موجودہ صورت حال کی ایک مؤثر عکاسی قرار دیا ہے۔
ناصر برادران کی یہ فلم بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کو اجاگر کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے فلسطینی سرزمین کے ایک بڑے حصے کو ملبے میں بدل دیا ہے اور اب تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 53 ہزار 486 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس کی القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد سنوار زندہ ہیں اور غزہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں، گزشتہ ہفتے سعودی میڈیا میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ محمد سنوار اسرائیلی فوج کے فضائی حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔
ایران سے شائع ہونے والے روزنامہ تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ایک سینئر رکن نے بتایا ہے کہ محمد سنوار حیات ہیں اور غزہ کے محصور علاقے میں اسرائیلی فوج سے برسرپیکار ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ منگل کو اسرائیلی فوج نے ایک ہسپتال پر بمباری کی تھی، اور دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کے دوران حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی اور القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد سنوار کو شہید کردیا گیا ہے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اسامہ حمدان نے تہران ٹائمز کو بتایا، ’ یہ اسرائیل کا ہسپتال پر بمباری کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک جھوٹا دعویٰ تھا، غزہ میں ہمارے بھائیوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ محمد سنوار زندہ ہیں اور دشمن سے مضبوطی سے لڑ رہے ہیں۔’
خیال رہے کہ اسرائیلی دعوے کے بعد سعودی ذرائع ابلاغ العربیہ اور الحدث نے بھی اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ القسام بریگیڈ کے نئے کمانڈر کو نشانہ بنانےکے لیے کی گئی کارروائی کے کئی دنوں کی بے یقینی اور غیریقینی خبروں کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان یونس میں اسرائیل کے فضائی حملے میں محمد سنوار شہید ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ محمد سنوار کو ان کے بھائی یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد القسام بریگیڈ کی قیادت سونپی گئی تھی، جب اکتوبر 2024 میں اسرائیل نے انہیں شہید کردیا تھا، بعد ازاں جولائی 2024 میں حماس کے ایک اور مرکزی رہنما محمد الضیف کی شہادت کی بھی تصدیق ہوگئی تھی، حماس میں ان تینوں رہنماؤں کو 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کا اہم منصوبہ ساز قرار دیا جاتا تھا۔
گزشتہ برس 16 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک جھڑپ کے دوران حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اگلے روز شہادت سے قبل کی ان ڈرون سے بنائی گئی فوٹیج بھی جاری کی تھی جس کے 18 اکتوبر کو حماس نے یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی تھی۔
یاد رہے کہ حماس کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کی ایران میں کیے گئے مبینہ اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد یحییٰ سنوار کو 6 اگست 2024 کو حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ 31 جولائی 2024 کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی بم حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
اسمٰعیل ہنیہ کو نومنتخب ایرانی صدر کو تقریب حلف برداری کے لیے تہران مدعو کیا گیا تھا جہاں ایک عمارت میں اسرائیل کی جانب سے نصب کیے گئے بم کے ذریعے اسمٰعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور اپوزیشن پارٹی کے رہنما یائر گولان نے بینجمن نیتن یاہو کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کو مارنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے اور بطور ریاست ہم ’عالمی تنہائی‘ کے خطرے سے دوچار ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے ’این بی سی‘ کے مطابق اسرائیل کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور سابق جنرل نے مقامی ریڈیو اسٹیشن کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ایک باشعور ملک عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں لڑتا، بچوں کو مارنا اس کا مشغلہ نہیں ہوتا، اور وہ بڑے پیمانے پر آبادیوں کو بے دخل نہیں کرتا۔
انہوں نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست (اپارتھائیڈ) دور حکومت سے اسرائیل کے اقدامات کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ یہودی قوم نے تاریخ میں ظلم، قتلِ عام اور نسل کشی کا سامنا کیا، اب خود وہی اقدامات کر رہی ہے جو مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہیں’۔
دوسری جانب، وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے سابق اعلیٰ فوجی افسر کے بیان پر شدید غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات ’ہمارے بہادر سپاہیوں اور ریاستِ اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز ’ ہے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے بیان کو ’حاضر سروس اور ریزرو فوجیوں کے خلاف نفرت انگیز اور جھوٹا پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالیل سموترخ نے کہا کہ گولان ’جان بوجھ کر جھوٹ پھیلا رہے ہیں، وہ اسرائیل اور آئی ڈی ایف کی عالمی سطح پر بدنامی کر رہے ہیں۔
ادھر، سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود باراک نے یائر گولان کو ’بہادر اور صاف گو شخص‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ فوجیوں کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیلی سیاسی قیادت کے خلاف تھے۔
خیال رہے کہ یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیلی افواج نے حالیہ دنوں میں غزہ کی پٹی پر بمباری میں شدت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
نیتن یاہو نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ پر مکمل قبضہ کرنے جارہے ہیں تاکہ حماس کو شکست دی جاسکے اور ان 58 یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے جو اب بھی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے 23 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے دوسرے بڑے شہر خان یونس کے تمام شہریوں کو فوری جبری انخلا کا حکم بھی دیا تھا۔
واضح رہے کہ برطانوی حکومت نے غزہ میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کردیے ہیں۔
برطانیہ نے منگل کو یہ بھی اعلان کیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
برطانوی حکومت نے غزہ میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کردیے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے غزہ میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر اسرائیل کے ساتھ نئے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر مذاکرات معطل کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی شہید ہوئے ہیں اور اسرائیل نے ایک نئی زمینی کارروائی بھی شروع کردی ہے۔
برطانیہ نے منگل کو یہ بھی اعلان کیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
یہ اقدامات برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے غزہ جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل اور مغربی کنارے میں حملوں اور چھاپوں کی مذمت کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے منگل کو اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کی تکالیف’ بالکل ناقابل برداشت’ ہیں، انہوں نے جنگ بندی کے لیے اپنی اپیل بھی دہرائی۔
واضح رہے کہ لیبر پارٹی کی حکومت کو اندرون ملک اس بات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ غزہ میں مسلسل فائرنگ اور فاقہ کشی کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ رہی یا نہیں کر رہی۔
سیکریٹری دفتر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ برطانیہ کا موجودہ تجارتی معاہدہ اب بھی نافذ العمل ہے، لیکن غزہ اور مغربی کنارے میں ’ انتہائی جارحانہ پالیسیاں’ اختیار کرنے والی اسرائیلی حکومت کے ساتھ نئی بات چیت نہیں کی جا سکتی۔
ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے مسلسل تشدد کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پہلے عائد کی گئی پابندیوں کے علاوہ، برطانیہ اب مزید ’ تین افراد، دو غیر قانونی آباد کاروں کی چوکیوں اور فلسطینی کمیونٹی کے خلاف تشدد کی حمایت کرنے والی دو تنظیموں’ پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے مزید کہا کہ ’ اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جارحانہ کارروائیوں میں مداخلت کرے اور انہیں روکے، اس کی مسلسل ناکامی فلسطینی برادریوں اور دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔’
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں برطانوی پابندیوں کو ’ غیر منصفانہ اور قابل افسوس’ “ قرار دیتے ہوئے کہا، ’ آج کے اعلان سے پہلے بھی، موجودہ برطانوی حکومت کی طرف سے آزاد تجارتی معاہدے کی بات چیت بالکل بھی آگے نہیں بڑھائی جا رہی تھی۔’
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کو گیتوں کے مقابلے ’ یورو ویژن سونگ کانٹیسٹ’ اور دیگر بین الاقوامی ثقافتی تقریبات سے باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کا یہ بیان سویڈن کے شہر مالمو میں منعقدہ 2025 کے یوروویژن فائنل میں اسرائیل کے متنازع طور پر دوسرے نمبر پر آنے کے بعد سامنے آئے ہیں۔
میڈیا کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے، پیڈرو سانچیز نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے جاری فوجی آپریشنز کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرے، ان کا کہنا تھا کہ یوروویژن جیسے ثقافتی پلیٹ فارم کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والی ریاستوں کے لیے تعلقات عامہ کی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، پیڈرو سانچیز نے زور دیا کہ یورپی براڈکاسٹنگ یونین (ای بی یو)، جو یوروویژن کا اہتمام کرتی ہے، کو وہی اخلاقی معیار برقرار رکھنے چاہئیں جو اس نے 2022 میں روس کو یوکرین پر حملے کے بعد مقابلے سے باہر کرنے کے لیے لاگو کیے تھے۔
پیڈرو سانچیز نے کہا، ’ غزہ میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ قابل قبول نہیں ہے، شہریوں، بچوں، عورتوں کو بلا امتیاز شہیدکرنا، یہ سراسر ناقابل قبول ہے۔’
انہوں نے مزید کہا،’ جیسا کہ ہم نے یوکرین پر حملے کے بعد روس کے ساتھ کیا، ہمیں ثقافتی جگہوں پر امن اور انسانی حقوق کی اقدار کو برقرار رکھنے کے معاملے میں دہرا معیار نہیں رکھنا چاہیے۔’
انہوں نے مزید کہا، ’ ثقافت غیر جانبدار نہیں ہے، اس کی اقدار ہوتی ہیں، اور اگر ہم نے روس کو یوکرین میں اس کی جارحیت کی وجہ سے خارج کر دیا، تو ہمیں اسرائیل کی شرکت کا بھی اسی نظر سے جائزہ لینا چاہیے۔’
پیڈرو سانچیز کے بیان کی ہسپانوی بائیں بازو کی جماعتوں بشمول پودیموس اور ازکیئردا یونیدا نے بھی حمایت کی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو یوروویژن سے ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور اس کی شرکت کو ’ ثقافتی پروپیگنڈے’ کے آلے کے طور پر مذمت کی ہے۔
اسرائیل کی نااہلی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے ساتھ، اس سال یوروویژن کو اپنے ووٹنگ سسٹم کی بھی شدید جانچ پڑتال کا سامنا ہے، یوروویژن پر ووٹوں میں دھاندلی کی اجازت دینے کا الزام لگایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل غیر متوقع طور پر اس سال کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آیا۔
یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ عوامی ٹیلی ووٹ میں ہیرا پھیری کی گئی ہو، جس میں اسرائیل کی ایڈن گولان نے اسپین اور بیلجیئم دونوں سے زیادہ سے زیادہ 12 پوائنٹس حاصل کیے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، ٹیلی ووٹنگ کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی ممکنہ مربوط کوشش کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ہسپانوی سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی وی ای نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلاپنے قومی ٹیلی ووٹ میں سرفہرست رہا، جس میں 20 فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے، جس پر نشریاتی ادارے نے باضابطہ طور پر ایک آزاد آڈٹ کی درخواست کی۔
بیلجیئم کے وی آر ٹی اور کئی سکینڈینیوین نشریاتی اداروں نے عوامی ووٹنگ میں بے ضابطگیوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے اور ای بی یو کے اندرونی جائزے کا انتظار کر رہے ہیں۔
یورپی براڈکاسٹنگ یونین نے ابھی تک پیڈرو سانچیز کے بیان یا ٹیلی ووٹ سے متعلق آڈٹ کی درخواستوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہم غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی توسیع کی سخت مخالفت کرتے ہیں، ہم مغربی کنارے میں بستیوں کو وسعت دینے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرتے ہیں، اسرائیل نے یہ کوشش ترک نہ کی تو اس کے خلاف پابندیوں سمیت کسی بھی مزید کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
حکومت برطانیہ کی ویب سائٹ پر غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال پر برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے رہنماؤں کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہم غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی توسیع کی سخت مخالفت کرتے ہیں، غزہ میں انسانی مصائب کی سطح ناقابل برداشت ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کل یہ اعلان کہ اسرائیل غزہ میں خوراک کی بنیادی مقدار کی اجازت دے گا، بالکل ناکافی ہے، ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں بند کرے اور فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد داخل کرنے کی اجازت دے۔
اس میں انسانی اصولوں کے مطابق امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مشغول ہونا شامل ہونا چاہیے، ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ 7 اکتوبر 2023 سے یرغمال بنائے گئے باقی ماندہ افراد کو فوری طور پر رہا کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عام شہریوں کی ضروری انسانی امداد تک رسائی اسرائیلی حکومت کا انکار ناقابل قبول ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے، ہم اسرائیلی حکومت کے ارکان کی جانب سے حال ہی میں استعمال کی گئی گھناؤنی زبان کی مذمت کرتے ہیں، جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ غزہ کی تباہی پر مایوس ہوکر شہری نقل مکانی شروع کر دیں گے، مستقل جبری نقل مکانی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو 7 اکتوبر کو ایک وحشیانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے ہمیشہ اسرائیل کے اسرائیلیوں کے دہشت گردی کے خلاف دفاع کے حق کی حمایت کی ہے، لیکن یہ اضافہ بالکل غیر متناسب ہے۔
جب نیتن یاہو حکومت ان سنگین کارروائیوں کو جاری رکھے گی تو ہم خاموش نہیں رہیں گے، اگر اسرائیل نے اپنی تجدید شدہ فوجی جارحیت بند نہ کی اور انسانی امداد پر اپنی پابندیاں نہ ہٹائیں تو ہم جواب میں مزید ٹھوس اقدامات کریں گے۔
ہم مغربی کنارے میں بستیوں کو وسعت دینے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرتے ہیں، اسرائیل کو بستیوں کو روکنا چاہیے جو غیر قانونی ہیں اور ایک فلسطینی ریاست کے امکان اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہیں، ( اگر توسیع کی کوشش ترک نہ کی گئی تو ) ہم مزید کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، بشمول ہدف پابندیوں کے ۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، یہ جنگ بندی، تمام باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی اور ایک طویل المدتی سیاسی حل ہے جو دو ریاستی حل کی جانب ایک راستہ حاصل کرنے کی بہترین امید پیش کرتا ہے، جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں نیویارک میں 18 جون کی کانفرنس کے اہداف کے مطابق ہے۔
ان مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے، اور ہم سب کو دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے کام کرنا چاہیے، جو طویل المدتی امن اور سلامتی لانے کا واحد راستہ ہے جس کے اسرائیلی اور فلسطینی دونوں مستحق ہیں، اور خطے میں طویل المدتی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم فلسطینی اتھارٹی، علاقائی شراکت داروں، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ کے مستقبل کے انتظامات پر اتفاق رائے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام جاری رکھیں گے، جو عرب منصوبے پر مبنی ہوگا۔
ہم جون میں اقوام متحدہ میں ہونے والی اعلیٰ سطحی دو ریاستی حل کانفرنس کے اس مقصد کے گرد بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار کی تصدیق کرتے ہیں، اور ہم دو ریاستی حل کے حصول میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اس مقصد کے لیے دوسروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی قابض قوت نے اپنے فوجی ریزورسٹ کو بلا کر اب پہلے کے مقابلے میں کئی زیادہ فوجیوں کو مقبوضہ پٹی میں تعینات کردیا ہے۔ غزہ میں بھوک اور خوراک کی قلت کی صورت حال پر تمام بین الاقوامی اداروں کی جانب سے توجہ دلوائے جانے کے باوجود 6 ہفتے سے زائد عرصے سے خوراک کی امداد کے راستے بند ہیں جبکہ بمباری کی بڑھتی شدت نے ظاہر کیا ہے کہ نسل کشی کی مہم کو تیز کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے فوجی مقاصد انتہائی واضح ہیں۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کا آپریشن تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہے۔ تاہم بہت سے لوگ سچائی سے آگاہ ہیں اور ان میں سے ایک مارک سیڈن بھی ہیں جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نسل پرست حکومت کی غزہ میں جاری مہم کو وہی کہنے کی جرأت کر رہے ہیں جو حقیقت میں وہ ہے جیسے نسل کشی اور حالیہ تاریخ میں ظلم کی بدترین مثال وغیرہ۔
وہ کہتے ہیں، ’(ملٹری کارروائی کے ذریعے) اسرائیل صرف 8 یرغمالی رہا کروا سکا ہے، 33 انہیں کی فضائی بمباری میں مارے گئے جبکہ 148 کو مذاکرات کے ذریعے رہائی ملی۔ بات یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق نہیں بلکہ یہ فلسطینیوں کے خاتمے کے بارے میں ہے۔ لوگوں کو اس بات کو احساس کب ہوگا؟‘
غزہ میں تباہی کے مناظر ناقابلِ بیان ہیں۔ اردو لغت کی کوئی بھی صفت اس ظلم کو بیان نہیں کرسکتی۔ ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کے بےرحمانہ قتل کے بعد دنیا نے اعادہ کیا تھا کہ ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہوگا۔ واضح طور پر کسی کے لیے بھی یہ وعدہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
جمہوری مغربی ممالک اور ان کا میڈیا واضح طور پر اس تنازع میں صرف ایک فریق کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ ایسا کرکے وہ انسانیت، ’معروضیت‘ اور ان ’اقدار‘ کے احساسات کو کھو چکے ہیں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
نسل پرست اسرائیلی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی فلسطینیوں کو بطور دشمن پیش کرنا اور غزہ میں ان کی نسل کشی کو معمول بنانا ہے۔ چاہے شہادتوں کی تعداد 50 ہزار ہو، 75 ہزار یا ایک لاکھ، یہ کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ رہا یا ان لوگوں کو شہادتوں کی تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔
اگر کسی نے غزہ کے مناظر نہیں دیکھے تو ان کے لیے بیان کردیتا ہوں۔ مقتول بچوں کے خون آلود چہرے اور ہاتھ پاؤں کٹی لاشیں، شدید زخمی افراد، غم زدہ مائیں، ہسپتال کے بستروں پر لیٹے جلے ہوئے مریض جو بمباری کی زد میں آئے جبکہ ناامید صحت عامہ کا عملہ ان مریضوں کو خود اٹھا رہا ہے اور یہ عملہ خود ہاری ہوئی جنگ میں بنیادی صحت کی سہولیات اور ادویات کے بغیر زندگیاں بچانے کی کوشش کررہا ہے، وہ بھی اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر وہ خود ڈرونز کے حملوں میں زندہ بچ جائیں۔
شاید لوگوں کو شعور آجائے لیکن ان 18 ہزار شہید بچوں کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے جن کی عمر 10 سال سے بھی کم تھی۔ گھروں، ہسپتالوں، اسکولز، سول انفرااسٹرکچر کی تباہی اور امدادی تنظیموں پر پابندیوں کے علاوہ، غیر ملکی صحافیوں کو بھی کوریج سے روکا جارہا ہے کیونکہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ کے مقامی صحافیوں کی طرح ’حماس‘ قرار دے کر مارنا آسان نہیں۔ غیر ملکی میڈیا کو اس لیے روکا جارہا ہے تاکہ غزہ سے باہر دنیا کو نسل کشی اور قتلِ عام کی خبر نہ ہوسکے کیونکہ اگر انہیں علم ہوگیا تو یہ عالمی حکومتوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ دے گا۔
جی، میں نے حکومتیں کہا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مغرب میں مقیم کوئی عام آدمی یا عورت ایسے گھناؤنے جرم کی توثیق نہیں دیں گے جس کی ان کی حکومت نے اسرائیل کا دفاع کا حق قرار دے کر حمایت کی ہے۔ نہ آمریت پسند عرب دنیا کے عوام اپنی حکومتوں کے ساتھ ہوں گے کہ جنہوں نے فلسطینیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔
اگرچہ امریکا سے لے کر جرمنی، برطانیہ تک مظاہرین کو کچلنے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرف سے قوانین اور اختیارات کا سخت استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود غزہ سے سامنے آنے والی تصاویر مظاہرین کو اپنے ضمیر کی پکار کے جواب میں اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کردیتی ہیں۔ بیشتر عرب ممالک میں حکومتی دباؤ کی صورت حال زیادہ سنگین ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں سڑکیں خاموش ہیں۔
کئی ماہ سے بھوک سے لاغر، کمزور بچوں اور خون میں لت پت خاندانوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد، آزاد میڈیا رپورٹس کے مطابق شہادتوں کی تعداد لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس کے بعد مغربی رہنما بھی بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں۔
ان کے بنائے ہوئے دہرے معیار ہی ان کے سامنے آرہے ہیں کیونکہ وہ ایک جانب مسلسل ’ہماری اقدار، انسانیت‘ کی بات کرتے ہیں لیکن جب بات نہتے فلسطینیوں کی آتی ہے تو یہ تمام اصول بےمعنی ہوجاتے ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ، کیئر اسٹارمر اور ایمانوئل میکرون ایسے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے غزہ میں غذائی امداد کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مسلم دنیا کے رہنماؤں کے بارے میں جتنی کم بات کی جائے اتنا بہتر ہے۔ بہت سے امیر ترین اور طاقتور رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے شاندار استقبال کے بعد ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن جیسا کہ توقع تھی، ان مسلم رہنماؤں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں کم بات کی۔
شاید امریکی صدر کے دورے سے پہلے امریکی اور اسرائیلی میڈیا میں لیکس کا مقصد میزبانوں کو بہتر محسوس کروانا تھا اور انہیں ٹرمپ کا پرتپاک استقبال کرنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ بنیامن نیتن یاہو سے ناراض ہیں۔
لیکن اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مزید ظالمانہ منصوبے اب بھی بنائے جا رہے ہیں جیسا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نے بتایا۔ اس سے پہلے کہ امریکی صدر کا طیارہ مشرقِ وسطیٰ سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوتا، این بی سی نے رپورٹ کیا کہ غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
چار مختلف ذرائع نے این بی سی کو امریکی منصوبے کی تصدیق کی۔ اس منصوبے میں باراک اوباما، نکولس سرکوزی اور ڈیوڈ کیمرون کی نام نہاد ’قوم سازی‘ کی کوششوں کے بعد غیرمستحکم اور انتہائی لاقانونیت کا شکار ہونے والے ملک لیبیا کے لیے مراعات کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔ معاہدے کی صورت میں امریکا لیبیا کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کردے گا۔
اس پیش کش سے یورپی اور عرب رہنماؤں کو خبردار ہوجانا چاہیے۔ عرب ممالک کو نکبہ دوم کی صورت میں سڑکوں پر متوقع عوامی بھونچال سے خوفزدہ ہونا چاہیے جنہیں ان کی مضبوط حکومتیں بھی قابو میں نہیں کرپائیں گی۔ لیبیا کے ساحلوں سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے خدشے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے عروج کی وجہ سے یورپی معاشرے پہلے ہی بےچینی کا شکار ہیں۔
انہیں فکر کرنی چاہیے کہ اگر لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی ان کی زمین سے بےدخل کیا گیا تو کیا ہوگا۔ ناراض اور مایوس فلسطینی لیبیا میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ جانا چاہیں گے اور چند پناہ گزینوں کے پہنچنے سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو اسے مزید خوف اور بےامنی پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے۔
حال ہی میں القاعدہ سے منسلک ایک گروپ کی قیادت کرنے والے شامی صدر احمد الشرع جن کے سر پر ایک کروڑ ڈالرز کا انعام تھا، ڈونلڈ ٹرمپ اور کئی یورپی رہنماؤں کے ان سے مصافحے نے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کا مسئلہ ’دہشت گرد گروپ‘ حماس نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کا عزم ہے۔ مغرب اور دیگر ممالک کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہیں ایسے عزائم کی حمایت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
اسرائیلی فوج کے آج صبح جنوبی اور شمالی غزہ پر حملوں میں مزید 23 فلسطینی شہید ہوگئے، جب کہ صہیونی فورسز نے خان یونس میں نصیر ہسپتال پر دوبارہ وحشیانہ بمباری کی ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کم از کم 23 فلسطینی آج صبح کے ابتدائی اوقات میں غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے، ان میں ان 6 افراد خان یونس، جب کہ 5 افراد شمالی غزہ میں اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے، جب کہ جنوبی غزہ میں بھی شہادتیں ہوئی ہیں۔
یہ حملے اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی میں ’بڑے پیمانے پر زمینی آپریشن‘ کا حصہ ہیں، اتوار کو شدید ترین اور وحشیانہ بمباری میں کم از کم 151 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں محدود مقدار میں امداد داخل کرنے کی اجازت دیں گے، لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ امدادی سامان کب پہنچے گا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 53 ہزار 339 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جب کہ ایک لاکھ 21 ہزار 34 فلسطینی زخمی ہوئے۔
حکومت کے میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ہزاروں افراد جو ملبے تلے لاپتا ہیں، انہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد افراد کو قیدی بنالیا گیا، جس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ شہر کو مکمل تباہ کرکے قتل عام اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کی ہے، اسرائیل کو جنگی جرائم کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
اقوا متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مطابق غزہ میں بچے شدید بھوک میں مبتلا ہیں، لوگ خوراک، پانی، علاج اور دواؤں سمیت بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور غزہ میں اس وقت غیر انسانی صورتحال ہے۔
حماس کے عہدیدار نے اس بات کی تردید کی ہے کہ گروپ نے 2 ماہ کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
سمیع ابو زہری نے اس بات کی تردید کی کہ حماس نے 9 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 2 ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، ایک انٹرویو میں سینئر حماس عہدیدار نے کہا کہ گروپ قیدیوں کی بڑی تعداد میں رہائی کے لیے تیار ہے، اگر اسرائیل جنگ ختم کرنے کی بین الاقوامی ضمانتیں فراہم کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ماحول پیدا کرنے کے لیے امریکی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو حوالے کرنے کا اقدام کیا، لیکن امریکی انتظامیہ نے ہمارے اس اقدام کی قدر نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کے ساتھ بڑے فوجی عدم توازن کے باوجود حماس اپنے مستقبل کی فکر نہیں کرتا، اور اس کے آپریشنز جاری ہیں۔
اٹلی کے ارکان پارلیمنٹ نے مصر کے رفح بارڈر کے سامنے غزہ میں فلسطینیوں پر صہیونی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا، اور تباہ شدہ فلسطینی علاقے میں امداد کی رسائی اور تنازع کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
یورپی پارلیمنٹ کی رکن سیسیلیا اسٹرادہ نے کہا کہ یورپ کچھ نہیں کر رہا، قتل عام روکنے کے لیے بالکل کچھ نہیں کیا جا رہا۔
احتجاجی گروپ میں اطالوی پارلیمنٹ کے 11 ارکان، 3 یورپی پارلیمنٹ کے اراکین اور این جی اوز کے نمائندے شامل تھے، جنہوں نے ’اب نسل کشی بند کرو‘، غیر قانونی قبضہ ختم کرو اور اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنا بند کرو، جیسے نعروں والے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
یورپی پارلیمنٹ کی رکن سیسیلیا اسٹرادہ نے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور غیر قانونی ریاست کے ساتھ تجارت بند کرنی چاہیے۔
احتجاج کرنے والوں نے غزہ کے بچوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر زمین پر کھلونے رکھے، اسرائیل کی مکمل ناکہ بندی کو 2 ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اقوام متحدہ خبردار کرتا ہے کہ غزہ کے بچے ’بھوک، بیماری اور موت کے بڑھتے ہوئے خطرے‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اکتوبر 2023 میں اسرائیل-حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں کم از کم 15 ہزار بچے شہید ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے خوراک، صاف پانی، ایندھن اور دوائیوں کی شدید قلت کی وارننگ دے رہے ہیں، جس کے پیش نظر اسرائیل پر اپنی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اٹلی کی غیر منافع بخش تنظیم ایسوسیازیون ریکریٹیوا کلچرل اطالویہ کے سربراہ والٹر ماسا نے کہا کہ ہم اب بھی بموں کی آوازیں سن رہے ہیں، جب کہ ہم سرحد پر کھڑے ہیں، اسرائیلی فوج وہی کر رہی ہے جو اسے درست لگتا ہے، جب کہ بین الاقوامی برادری مداخلت نہیں کر رہی اور رفح کراسنگ کی سرحد کے پار غزہ میں لوگ مر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے ہفتے کو کہا تھا کہ وہ شدید تشویش میں ہیں اور فوری مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا، اٹلی کی حکومت نے ہفتے کو اسرائیل سے غزہ پر حملے بند کرنے کی اپیل دہرائی، جس میں وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا کہ حملے بند کیے جائیں، ہم مزید فلسطینی عوام کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
اتوار کو دی ہیگ میں ایک لاکھ کے قریب مظاہرین نے مارچ کیا اور ڈچ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اپنائے۔
آرگنائزر آکسیفم نووب نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ مظاہرین نے مارچ میں حصہ لیا ہے، جن کی اکثریت نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تاکہ غزہ پر اسرائیل کی محاصرے کے خلاف اپنی ’ریڈ لائن‘ کا اظہار کریں، جہاں طبی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند ہے۔
احتجاجی مارچ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کے مقام سے بھی گزرا جو جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر نسل کشی کا مقدمہ سن رہی ہے، اور پچھلے سال اسرائیل کو غزہ کے جنوبی شہر رفح پر فوجی حملہ روکنے کا حکم دیا تھا۔
آکسیفم نووب نے کہا کہ ڈچ حکومت نے اسرائیل کے غزہ میں کیے گئے جنگی جرائم کو نظر انداز کیا ہے، اور مظاہرین پر زور دیا کہ وہ سخت مؤقف کا مطالبہ کریں۔
ڈچ وزیر خارجہ کسپر ویلڈکامپ نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر نظر ثانی کرے، لیکن ڈچ حکومت نے اب تک زیادہ سخت تنقید سے گریز کیا ہے۔
حکومت کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما (جو مسلمان مخالف ہیں) گیرٹ ویلڈرز نے بار بار اسرائیل کی کھلی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
گیرٹ ویلڈرز نے اتوار کو مظاہرین کو ’کنفیوژ‘ قرار دیتے ہوئے ایک پوسٹ میں الزام لگایا کہ وہ حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم نے غزہ میں ’زندگی بچانے‘ والی امداد کی فوری رسائی کی اپیل کی ہے۔
مارک کارنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کینیڈین رہنما نے ویٹی کن سٹی میں اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کے دوران ’غزہ میں فوری جنگ بندی کی اہمیت‘ پر زور دیا۔
کارنی نے ’ہنگامی، زندگی بچانے والی انسانی امداد‘ کی رسائی کی اپیل بھی کی اور کینیڈا کی 2 ریاستی حل کی حمایت کی تصدیق کی۔
انہوں نے ’حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام یرغمالیوں کو آزاد کرے‘ اور ہرزوگ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ ’حماس کو اپنے ہتھیار ڈالنے چاہئیں اور غزہ کے انتظام میں اس کا کوئی مستقبل کا کردار نہیں ہونا چاہیے‘۔
کارنی نے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی ایچ میک کین سے بھی ملاقات کی، اور ’اس سال کے شروع میں غزہ کو خوراک اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے کینیڈا کی 10 کروڑ ڈالر کی حمایت‘ کو اجاگر کیا۔
سعودی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے مسلح ونگ القسام کے نئے کمانڈر اور سابق سربراہ یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار غزہ کے علاقے خان یونس میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اپنے 10 ساتھوں سمیت شہید ہوگئے۔
سعودی ذرائع ابلاغ العربیہ اور الحدث نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ القسام بریگیڈ کے نئے کمانڈر کو نشانہ بنانےکے لیے کی گئی کارروائی کے کئی دنوں کی بے یقینی اور غیریقینی خبروں کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان یونس میں اسرائیل کے فضائی حملے میں محمد سنوار شہید ہو چکے ہیں۔
اتوار کو العربیہ اور الحدث کو حاصل معلومات کے مطابق محمد سنوار کی لاش جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک سرنگ سے ملی ہے، جہاں ان کے 10 ساتھیوں کی لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق محمد سنوار گزشتہ دنوں خان یونس کے مشرق میں یورپی ہسپتال کے قریب اسرائیل کے شدید فضائی حملے میں نشانہ بنے، اسی حملے میں رفح بریگیڈ کے کمانڈر محمد شبانہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد سنوار جو حماس کے شہید رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی تھے، کو ایک خفیہ پناہ گاہ میں نشانہ بنایا گیا جو یورپی ہسپتال کے نیچے واقع تھی۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بدھ کے روز ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب محمد سنوار مذکورہ مقام پر موجود تھے، ویڈیو میں واضح طور پر دھماکا اور آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے حماس کے مسلح ونگ القسام کے نئے کمانڈر محمد السنوار کو نشانہ بنانےکے لیے کی گئی کارروائی کے کئی دنوں کی بے یقینی اور غیریقینی خبروں کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان یونس میں اسرائیل کے فضائی حملے میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد السنوار ہلاک ہو چکے ہیں۔
اتوار کے روز العربیہ اور الحدث کو حاصل معلومات کے مطابق محمد السنوار کی لاش جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک سرنگ سے ملی ہے، جہاں اس کے دس ساتھیوں کی لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق محمد السنوار گذشتہ دنوں خان یونس کے مشرق میں یورپی ہسپتال کے قریب اسرائیل کے شدید فضائی حملے میں نشانہ بنے۔ اسی حملے میں رفح بریگیڈ کے کمانڈر محمد شبانہ بھی مارے گئے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد السنوار جو حماس کے مقتول رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی تھے، کو ایک خفیہ پناہ گاہ میں نشانہ بنایا گیا جو یورپی ہسپتال کے نیچے واقع تھی۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بدھ کے روز ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب محمد السنوار مذکورہ مقام پر موجود تھے۔ ویڈیو میں واضح طور پر دھماکے اور آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ابتدائی طور پر اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس حملے میں شہید ہونے والے افراد کی شناخت کی تصدیق کے لیے مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں، تاہم اب العربیہ اور الحدث کے ذرائع نے محمد سنوار کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔
محمد سنوار کو ان کے بھائی یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد القسام بریگیڈ کی قیادت سونپی گئی تھی، جب اکتوبر 2024 میں اسرائیل نے انہیں شہید کردیا تھا، بعد ازاں جولائی 2024 میں حماس کے ایک اور مرکزی رہنما محمد الضیف کی شہادت کی بھی تصدیق ہوگئی تھی، حماس نے ان تینوں رہنماؤں کو 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کا اہم منصوبہ ساز قرار دیا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 16 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک جھڑپ کے دوران حماس کے سربراہ یحییٰ سنوارا کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اگلے روز شہادت سے قبل کی ان ڈرون سے بنائی گئی فوٹیج بھی جاری کی تھی جس کے 18 اکتوبر کو حماس نے یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی تھی۔
یاد رہے کہ حماس کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کی ایران میں کیے گئے مبینہ اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد یحییٰ سنوار کو 6 اگست 2024 کو حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہنیہ 31 جولائی 2024 کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی بم حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
اسمٰعیل ہنیہ کو نومنتخب ایرانی صدر کو تقریب حلف برداری کے لیے تہران مدعو کیا گیا تھا جہاں ایک عمارت میں اسرائیل کی جانب سے نصب کیے گئے بم کے ذریعے اسمٰعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اتوار کو صبح سویرے غزہ پر صہیونی فورسز کی بمباری سے کم از کم 119 فلسطینی شہید ہوگئے، جنگی جرائم میں ملوث نیتن یاہو کی فورسز نے غزہ کے نام نہاد ’سیف زون‘ المواسی میں بھی بمباری کی، 16 گھنٹوں میں 166 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق یہ شدید حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب اسرائیل غزہ پر ایک نئے زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے، اور قطر میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات دوبارہ شروع کر چکا ہے۔
بغداد میں عرب لیگ کے اجلاس میں شریک 22 ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ محصور علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
یاد رہے کہ گزشتہ 3 دن کے دوران اسرائیلی حملوں میں 450 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جنگ میں اب تک کم از کم 53 ہزار 272 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 20 ہزار 763 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومت کے میڈیا دفتر نے شہادتوں کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں لاپتہ افراد کو بھی مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یمن سے داغا گیا ایک میزائل روک لیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا کہ میزائل داغے جانے کے بعد وسطی اسرائیل کے مختلف علاقوں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے۔
اسرائیلی چینل 12 نے بھی فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یمن سے ایک دوسرا میزائل داغنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن وہ ناکام رہی۔
یمن کے حوثی جنگجو اسرائیل پر میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ حملے غزہ کے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر کیے جا رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے روکنے کے لیے امریکا کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
لیبیا میں امریکی سفارتخانے نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ سے لیبیا منتقل کرنے کے منصوبے کی تردید کی ہے۔
’ایکس‘ پر ایک مختصر پوسٹ میں سفارتخانے نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کو لیبیا منتقل کرنے کے مبینہ منصوبے کی رپورٹ درست نہیں ہے۔
جمعرات کو این بی سی نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت غزہ کی پٹی سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو مستقل طور پر لیبیا منتقل کیا جائے گا۔
این بی سی نیوز نے 5 افراد کا حوالہ دیا، جن میں سے 2 کو براہ راست اور ایک کو سابق امریکی عہدیدار ہونے کے ناطے معاملے کا علم تھا۔
طرابلس میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومتِ وحدتِ قومی نے تاحال اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں امریکا غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے اور وہاں کے فلسطینیوں کو کہیں اور آباد کرے۔
فلسطینی ایسے کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، جس میں انہیں غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے، اور وہ ان خیالات کو 1948 کے ’نکبہ‘ (تباہی) سے تشبیہ دیتے ہیں، جب لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔
حماس نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ غزہ میں سیز فائر پر مذاکرات کا نیا دور قطر میں جاری ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق حماس کے عہدیدار طاہر النونو نے بتایا کہ اسرائیل کے ساتھ غزہ میں سیز فائر پر مذاکرات کا ایک نیا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریق بغیر کسی پیشگی شرائط کے تمام معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
ادھر، اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے اسرائیل سے غزہ میں فوجی حملے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہت زیادہ حملے کیے جاچکے ہیں‘۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق انتونیو تاجانی نے جزیرے سسلی کے دورے کے دوران کہا کہ ہم اب فلسطینی عوام کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیز فائر کریں، یرغمالیوں کو رہا کریں۔
گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ میں بہت سے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے جارہے ہیں۔
ٹرمپ کا غزہ پر مختصر تبصرہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب ان کی دوسری مدت صدارت کے پہلے غیر ملکی دورے کا اختتام ہوا تھا، جس میں انہوں نے خلیجی ممالک کا دورہ کیا، لیکن کلیدی اتحادی ملک اسرائیل نہیں گئے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے ابوظبی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے، اور اس مسئلے کو حل کرنے جا رہے ہیں، بہت سے لوگ بھوکے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ کو غزہ کے لیے امداد روک دی تھی، یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو اسرائیل کے مطابق حماس سے پوزیشن میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اپنائی گئی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں بہت سے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے جارہے ہیں۔
ٹرمپ کا غزہ پر مختصر تبصرہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ان کی دوسری مدت صدارت کے پہلے غیر ملکی دورے کا اختتام ہوا جس میں انہوں نے خلیجی ممالک کا دورہ کیا، لیکن کلیدی اتحادی ملک اسرائیل نہیں گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے ابوظبی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا غزہ کی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے، اور اس مسئلے کو حل کرنے جا رہے ہیں، بہت سے لوگ بھوکے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ کو غزہ کے لیے امداد روک دی تھی، یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو اسرائیل کے مطابق حماس سے پوزیشن میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اپنائی گئی ہے۔
حماس نے جمعرات کو اصرار کیا تھا کہ جنگ سے متاثرہ علاقے میں انسانی امداد کی بحالی بات چیت کے لیے کم سے کم شرط ہے، حماس نے یہ بھی انتباہ کیا کہ غزہ ’ برائے فروخت’ نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ کی پٹی سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا مستقل طور پر منتقل کیا جائے گا۔
این بی سی نیوز کے مطابق اس کوشش کے بارے میں جاننے والے 5 لوگوں نے بتایا کہ منصوبہ سنجیدگی سے زیر غور ہے اور امریکی انتظامیہ نے اس پر لیبیا کی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔
منصوبے سے براہ راست واقف 2 اہلکاروں اور ایک سابق امریکی عہدیدار نے کہا کہ پناہ گزینوں کی آبادکاری کے بدلے میں انتظامیہ لیبیا کو اربوں ڈالر کے فنڈز جاری کرے گی جو کہ امریکا نے 10 سال سے زیادہ پہلے منجمد کر دیے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاہم اب تک کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچا جاسکا، اور اسرائیل کو انتظامیہ کی بات چیت کے بارے میں باخبر رکھا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ اور قومی سلامتی کونسل نے اس خبر کی اشاعت سے پہلے تبصرے کے لیے متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اشاعت کے بعد ایک ترجمان نے ’این بی سی نیوز‘ کو بتایا کہ ’یہ رپورٹس غلط ہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ زمینی صورتحال اس طرح کے منصوبے کے لیے ناقابل برداشت ہے، ایسا کوئی منصوبہ زیر بحث نہیں آیا۔
حماس کے ایک سینئر اہلکار بسیم نعیم نے بھی اس طرح کے کسی بھی منصوبے سے آگاہی کی تردید کی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 24 گھنٹے میں 120 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ 2 روز کے دوران اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید بچوں کی تعداد 45 تک جاپہنچی ہے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق گزشتہ روز طلوع آفتاب سے جاری اسرائیلی بمباری میں جاں بحق افراد کی تعداد 120 ہو چکی ہے۔
ان ہلاکتوں کے بعد حماس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس ’سفاکانہ جارحیت‘ پر جوابدہ ٹھہرائے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ حملے محصور غزہ پر جاری اسرائیلی کارروائی کا حصہ ہیں، جہاں ایک امریکی حمایت یافتہ تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں ماہ کے اختتام تک امدادی سامان کی ترسیل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
غزہ کو 2 مارچ سے امداد کی فراہمی معطل ہے، اسرائیل نے اسے حماس پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی قرار دیا ہے تاہم حماس کا کہنا ہے کہ انسانی امداد کی بحالی مذاکرات کے آغاز کے لیے کم از کم شرط ہے۔
تازہ ترین شہادتوں کے بعد حماس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس سفاکانہ جارحیت پر جوابدہ ٹھہرائے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی سربراہ کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ دنیا کو غزہ میں صرف دو دن میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 45 بچوں کے قتل پر چونک جانا چاہیے، تاہم بچوں کا یہ قتلِ عام زیادہ تر بےحسی سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق کیتھرین رسل نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’غزہ میں ایک ملین سے زائد بچے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، انہیں خوراک، پانی اور ادویات سے محروم کر دیا گیا ہے‘، انہوں نے کہا کہ غزہ میں بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں، یہ ہولناکی اب بند ہونی چاہیے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مائیکروسافٹ نے اعلان کیا ہے کہ ایک داخلی جائزے کے بعد اسے کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس کی ٹیکنالوجی غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال ہوئی ہے۔
کمپنی نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ہم ان خدشات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہ جائزہ درجنوں ملازمین کے انٹرویوز اور اندرونی دستاویزات کے معائنے پر مشتمل تھا۔
مائیکروسافٹ نے مزید کہا کہ اب تک ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مائیکروسافٹ کی ایژور (Azure) اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ٹیکنالوجیز کو غزہ کے تنازع میں لوگوں کو نشانہ بنانے یا نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔
کمپنی نے وضاحت کی کہ وہ اسرائیل کی وزارتِ دفاع کو سافٹ ویئر، کلاؤڈ انفرااسٹرکچر اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرتی ہے، اور حکومتِ اسرائیل کے ساتھ اس کا ایک معیاری تجارتی تعلق ہے۔
اسرائیل کے شمالی غزہ پر فضائی حملوں میں بچوں اور عورتوں سمیت مزید 50 فلسطینی شہید ہوگئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں غزہ کے ایک ہسپتال کے حوالے سے بتایا گیا کہ جبالیہ قصبے اور مہاجر کیمپ میں رات گئے متعدد گھروں پر حملے کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد کم از کم 50 ہوگئی، جن میں 22 بچے اور 15 خواتین شامل ہیں۔
آن لائن شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں کم از کم ایک درجن لاشیں فرش پر پڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے یہ بمباری اس وقت کی ہے جب اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ممبران پر زور دیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
نیویارک میں منگل کو ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے اسرائیل پر ’ دانستہ اور بے شرمی سے فلسطینیوں پر غیر انسانی حالات مسلط کرنے’ کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے اسرائیل سے غزہ پر عائد 10 ہفتوں کی ناکہ بندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور نجی کمپنیوں کے ذریعے انسانی امداد کی تقسیم کا کنٹرول سنبھالنے کے اسرائیلی-امریکی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں پر ’ مزید تشدد اور بے دخلی کے لیے ایک ظاہری بہانہ’ قرار دیا۔
شعبہ صحت سے منسلک مقامی حکام نے بتایا کہ بدھ کے روز غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں میں مجموعی طور پر 70 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے بیشتر جبالیہ کے آس پاس تھے۔
شمالی علاقے کے رہائشیوں نے رات گئے متعدد دھماکوں کی آوازیں سننے کی اطلاع دی، اور کارکنوں کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیوز میں شعلے آسمان کو روشن کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ ان رپورٹس کی جانچ کر رہی ہے، حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغے جانے کے بعد اس نے منگل کو جبالیہ اور ملحقہ علاقوں کے باشندوں کو انخلا کرنے کی تنبیہ کی تھی ۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ کو غزہ کے لیے تمام تر امداد اور دیگر سامان کی ترسیل بند کر دی تھی اور دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد 18 مارچ کو حماس کے خلاف اپنی کارروائی دوبارہ شروع کر دی تھی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 21 لاکھ کی آبادی میں سے 20 فیصد لوگ دوبارہ بے گھر ہوگئے ہیں، اور اب غزہ کا 70 فیصد یا تو اسرائیلی فوجی ’ ممنوعہ ’ علاقہ ہے یا پھر انخلا کے احکامات کے تحت ہے۔
خوراک اور ایندھن کی شدید قلت کے باعث اقوام متحدہ کے تعاون سے چلنے والی تمام بیکریاں اور گرم کھانا فراہم کرنے والے 180 کمیونٹی باورچی خانوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رضامندی کے ساتھے پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ پوری آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور پانچ لاکھ افراد فاقہ کشی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت غزہ کی آبادی کے لیے خوراک اور طبی سامان کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔
فلسطینی امید کر رہے ہیں کہ حماس کے پیر کے روز غزہ میں آخری اسرائیلی-امریکی مغوی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے کے فیصلے سے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ نئی جنگ بندی کے معاہدے اور ناکہ بندی کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
حماس نے کہا تھا کہ اس نے مغوی الیگزینڈر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے خیر سگالی کے عمل کے طور پر رہا کیا ہے، جو اس ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کر رہے ہیں۔
بدھ کے روز، ٹرمپ نے ریاض میں خلیجی رہنماؤں کے ایک سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ غزہ میں حماس کے زیر حراست 58 باقی مغویوں میں سے مزید کو رہا کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ امن کی جانب ایک قدم کے طور پر تمام مغویوں کو رہا کیا جانا چاہیے، اور مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔’
اسی وقت، ان کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایڈم بوہلر نے قطر میں مذاکرات کے ایک نئے دور میں شرکت کی۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے کی تیاری کر رہا ہے اور اصرار کیا کہ کوئی چیز جنگ کو نہیں روکے گی۔
انہوں نے پیر کے روز زخمی ریزرو فوجی اہلکاروں کو بتایا تھا کہ اسرائیلی افواج حماس کو تباہ کرنے کے لیے ’ آپریشن مکمل کرنے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ’ آنے والے دنوں میں اس علاقے میں داخل ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ ایسی کوئی صورتحال نہیں ہوگی جہاں ہم جنگ روک دیں، عارضی جنگ بندی ہو سکتی ہے، لیکن ہم آخر تک جائیں گے۔’
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 52 ہزار 928 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
عالمی سطح پر بھوک کے بحران پر نظر رکھنے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی ترسیل روکے جانے کی وجہ سے خطے میں ستمبر کے آخر تک قحط پیدا ہوسکتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) نے اپنی رپورٹ میں اکتوبر کے بعد سے نمایاں طور پر بڑھنے والے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے پیشگوئی کی کہ غزہ میں 21 لاکھ افراد جو کہ اُن کی تقریباً پوری آبادی پر مشتمل ہے ستمبر کے آخر تک شدید غذائی قلت کا سامنا کریں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت غزہ میں 4 لاکھ 69 ہزار 500 افراد بھوک کے حوالے سے تباہ کن صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جن کی تعداد اکتوبر میں کیے جانے والے گزشتہ تجزیے میں ایک لاکھ 33 ہزار تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کو اس وقت سیل کر دیا تھا جب اس نے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے اس حوالے سے کہا کہ ’آئی پی سی مسلسل قحط کے حوالے سے بات کر رہا ہے، لیکن خطے میں اسرائیل کی جانب سے امداد حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے کبھی قحط نہیں پڑا ہے۔‘
ساتھ ہی غزہ میں غذائی قلت کا الزام حماس پر لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حماس کی جانب سے مبینہ طور پر امداد چوری کی جارہی ہے، تاہم حماس اس کی تردید کرتے ہوئے اسرائیل پر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
آئی پی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوجی سرگرمیوں میں اضافے اور امدادی ایجنسیوں کی ضروری اشیا کی فراہمی میں مسلسل نااہلی کی وجہ سے 11 مئی سے 30 ستمبر کی مدت کے دوران غزہ کی آبادی کو قحط کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ خطے میں مزید اموات، فاقہ کشی، شدید غذائی قلت اور قحط سے محفوط رہنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اپریل 2025 سے مارچ 2026 کے درمیان شدید غذائی قلت کے تقریباً 71 ہزار کیسز، جن میں 14 ہزار 100 سنگین کیسز ہیں، سامنے آئیں گے جن میں 6 سے 59 ماہ تک کے بچے بھی شامل ہوں گے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (اے ایف او) کی ڈپٹی ڈائریکٹر بیت بیچڈول نے کہا کہ ’آئی پی سی کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ حالیہ مہینوں میں غزہ کی صورتحال کافی ڈرامائی طور پر خراب ہوئی ہے، مارچ کے اوائل سے ہی ناکہ بندی کی وجہ سے ضروری امدادی سامان کی عدم فراہمی ہو رہی ہے۔‘
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ دو ماہ کی جنگ بندی نے خوراک کی شدید قلت اور غذائی قلت کو عارضی طور پر ختم کرنے کا موقع فراہم کیا تھا، آئی پی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاری ناکہ بندی نے صورتحال کو مزید تبدیل کردیا ہے، کلیدی نتائج سے پتا چلتا ہے کہ 19 لاکھ افراد یا ساحلی انکلیو میں آبادی کا 93 فیصد حصہ شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلیٰ سطح سے گزر رہا ہے، جن میں 2 لاکھ 44 ہزار افراد تباہ کن سطحوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے میں سعودی عرب پہنچنے کے ساتھ ہی اسرائیلی فورسز نے غزہ پر حملے تیز کردیے ہیں، آج صبح سے 11 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق خان یونس میں نصیر میڈیکل کمپلیکس پر بمباری سے صحافی حسن اصلح سمیت 2 مریض شہید ہوئے، اس بمباری میں متعدد دیگر مریض اور عملے کے ارکان زخمی بھی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ بھوک کی نگرانی کرنے والے اہم عالمی ادارے نے کہا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ قطر میں جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ثالث بھیجیں گے۔
حماس نے گزشتہ روز امریکی حکام سے براہ راست ہونے والی بات چیت کے بعد امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کیا تھا۔
بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل اس وقت تک غزہ میں جنگ تیز کرنے کے منصوبوں کو ملتوی رکھے گا، جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ مکمل نہ ہو جائے۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں کم از کم 52 ہزار 862 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 19 ہزار 648 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق حکومت کے میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد کو 61 ہزار 700 سے زیادہ بتایا ہے اور کہا ہے کہ ملبے کے نیچے دبے ہزاروں لوگ لاپتا ہیں، جنہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو حملوں کے دوران اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے، اور 200 کے قریب یہودیوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیلی عہدیداروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جانے پر بے خوفی کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کا یہ فیصلہ اسرائیل میں واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو غزہ میں فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے امریکا کی طرف سے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع دی گئی ہے، یہ بات چیت براہ راست واشنگٹن اور حماس کے درمیان ہوئی تھی جس میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔
امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ واپس لینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر اسرائیل کے لیے کتنا نقصان دہ رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تصفیے کے اقدامات پر رضا مندی دے۔
سعودی عرب کو ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کہا جانا تھا جو نیتن یاہو کا بڑا ہدف رہا ہے، لیکن اب مقصد میں لامحدود تاخیر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ (جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچنے والے ہیں) نے پچھلے ہفتے اچانک یہ اعلان کرکے اسرائیل میں اضطراب پیدا کردیا تھا کہ امریکا یمن میں حوثیوں پر بمباری بند کر دے گا، چند دن بعد ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے مرکزی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا، یہ خطے کے لیے واضح پیغام تھا۔
اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ ’وائی نیٹ‘ کے مطابق اسرائیل اب امریکا کی پہلی ترجیح نہیں ہے اور یہ بات وائی نیٹ کے سفارتی نمائندے ایتامار آئچنر (جو سیاسی نظریے کی بنیاد پر میڈیا کے تبصرہ نگاروں میں شامل ہیں) نے لکھی ہے۔
اسرائیل نے مستقبل کے غزہ کے بارے میں امریکا کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اہلکار کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تعلقات مضبوط ہیں، لیکن کچھ اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے فیصلہ سازی سے حیران رہ گئے۔
حوثیوں کے بارے میں فیصلے (جس پر پہلے اسرائیل کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی) نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کے مذاکرات میں اسرائیلی بے چینی کو مزید بڑھا دیا، جو تہران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی فوجی کارروائی کی دھمکی کو کمزور کر سکتا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت مزید تشویش کا سامنا کرنا پڑا جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکا اب سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہا، جو کہ سول نیوکلیئر تعاون کے مذاکرات میں ترقی کے لیے شرط تھی۔
مارچ کے مہینے میں ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر نے ایسی ملاقاتیں کیں، جن کو حماس نے بہت مددگار قرار دیا، جو اسرائیل کو نظرانداز کرتے ہوئے اور فلسطینی گروپ کے ذریعے ایڈن الیگزینڈر کی رہائی پر مرکوز تھیں، پچھلے ہفتے امریکی سفیر مائیک ہکابی نے انکار کیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل سے خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو پیر کے روز تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب اسرائیلی اہلکار امریکی نژاد ایدن الیگزینڈر کی رہائی کا انتظار کیا جارہا تھا، عوام میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ واشنگٹن اور تل ابیب کی ترجیحات مختلف ہیں۔
تل ابیب کے پنشنر جیک گٹلیب نے کہا کہ اب کوئی قیادت نہیں ہے، یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ یہ معاہدہ نیتن یاہو کی پیٹھ کے پیچھے ہوا، یا یہ کہ امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے فی الحال مختلف ہیں، اس وقت ہر کوئی اپنے لیے سوچ رہا ہے۔
نیتن یاہو کے پاس حوثیوں کے فیصلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جنہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اسرائیل پر مزید میزائل داغتے رہیں گے۔
ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کو بھی اسرائیلی قدامت پسندوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے غزہ میں استعمال ہونے والے بھاری ہتھیاروں کی برآمدات روک دی تھیں، اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کرنے والے یہودی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کردیا
بی بی سی اور سی این این کی رپورٹ کے مطابق حماس نے بتایا کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی 21 سالہ ایڈان الیگزینڈر کو ریڈ کراس کے حوالے کیا، بعد ازاں انہیں غزہ سے باہر منتقل کر کے اسرائیلی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔
دریں اثنا، اسرائیلی عہدیدار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایڈان الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈان الیگزینڈر کی رہائی کے بعد 58 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے کم از کم 20 کے زندہ ہونے کا اندازہ ہے، ہلاک ہونے والے یرغمالیوں میں 4 امریکی شہری بھی شامل ہیں، جن میں شوہر اور بیوی گیڈی ہیگئی اور جوڈی وائنسٹائن ہاگئی کے علاوہ سپاہی ایتے چن اور اومر نیوٹرا شامل ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی آج صبح خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے آج غزہ میں رہا کیے جانے کا امکان ہے۔
21 سالہ ایڈن الیگزینڈر غزہ کی سرحد پر ایلیٹ انفنٹری یونٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا، جب اسے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ الیگزینڈر کی رہائی کے لیے غزہ میں ’ایک محفوظ راہداری‘ ہوگی، لیکن اس نے جنگ بندی کا وعدہ نہیں کیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ منگل سے شروع ہو رہا ہے، انہوں نے الیگزینڈر کی طے شدہ رہائی کو ’یادگار خبر‘ قرار دیا۔
ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا تھا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے پہلے ایک نیک نیتی کے اشارے کے طور پر کیا گیا، حماس یہ بھی کہتا ہے کہ رہائی کا مقصد امدادی معاہدے کو سہولت فراہم کرنا ہے، غزہ 2 ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ ہ اسرائیل کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ امریکا اور حماس کے حکام کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا، یہاں تک کہ ایڈن الیگزینڈر کی متوقع رہائی کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا۔
امریکا اور اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی خبر سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو حماس کی جانب سے آج غزہ میں رہا کیے جانے کا امکان ہے۔
بی بی سی نیوز کے مطابق 21 سالہ ایڈن الیگزینڈر غزہ کی سرحد پر ایلیٹ انفنٹری یونٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا، جب اسے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ الیگزینڈر کی رہائی کے لیے غزہ میں ’ایک محفوظ راہداری‘ ہوگی، لیکن اس نے جنگ بندی کا وعدہ نہیں کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ منگل سے شروع ہو رہا ہے، انہوں نے الیگزینڈر کی طے شدہ رہائی کو ’یادگار خبر‘ قرار دیا ہے۔
ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے پہلے ایک نیک نیتی کے اشارے کے طور پر کیا گیا ہے۔ حماس یہ بھی کہتا ہے کہ رہائی کا مقصد امدادی معاہدے کو سہولت فراہم کرنا ہے، غزہ 2 ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ ہے کہ اسرائیل کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی کہ امریکا اور حماس کے حکام کے درمیان براہ راست رابطہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ ایڈن الیگزینڈر کی متوقع رہائی کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا۔
حالیہ ہفتوں میں صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے اشارے بڑھتے جا رہے ہیں، جب کہ ٹرمپ ایران کے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے خطرے کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں، نیتن یاہو فوجی کارروائی کو ترجیح دیتے ہیں۔
غزہ کے بارے میں واشنگٹن نے نئی جنگ بندی اور یرغمالی رہائی کے معاہدے کے لیے دباؤ جاری رکھا ہوا ہے، جب کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ پر ایک شدید حملے کی منظوری دے دی ہے۔
اتوار کو ’این بی سی نیوز‘ نے امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے نجی طور پر اسرائیل کی حکمت عملی کو ’بے کار کوشش‘ اور ’اپنی تعمیر نو کی منصوبہ بندی‘ کے خلاف قرار دیا ہے۔
الجزیرہ نے خبر دی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے دوران جنگ بندی کے امکانات کو خارج کرتے ہوئے بمباری روکنے سے انکار کر دیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے زیر حراست امریکی اسرائیلی قیدی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے لیے کسی بھی طرح کی جنگ بندی پر اتفاق نہیں کیا تھا، لیکن وہ رہائی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ’محفوظ راہداری‘ فراہم کرے گا۔
حماس کا کہنا ہے کہ امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی کی رہائی آج ہوگی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں اسکول میں قائم کی گئی پناہ گاہ میں کم از کم 17 فلسطینی شہید ہوئے، جب کہ غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ 71ویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی وزارت کے مطابق کم از کم 52 ہزار 862 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 19 ہزار 648 زخمی ہوچکے ہیں۔
حکومت کے میڈیا دفتر نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے کے نیچے ہزاروں افراد لاپتا ہیں، جنہیں مردہ تصور کیا جارہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے میں ہے، 5 لاکھ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
بھوک کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک عالمی ادارے نے کہا ہے کہ غذائی تحفظ کے مرحلے کی درجہ بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نتائج آخری بار اکتوبر 2024 میں کی گئی تشخیص کے بعد بڑے بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تازہ ترین رپورٹ میں یکم اپریل سے 10 مئی 2025 کے دورانیے کا تجزیہ کیا اور کلیدی نتائج کے خلاصے کے مطابق ستمبر 2025 تک کی صورتحال کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے براہ راست رابطہ منقطع کرنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ اسرائیل میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے امداد کی فراہمی کا آپریشن جلد اسرائیلی شمولیت کے بغیر شروع ہونے والا ہے۔
ترک نشریاتی ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی آرمی ریڈیو کے رپورٹر یانر کوزین نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب قریبی رفقا نے اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر کو بتایا کہ صدر کو یقین ہے کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے مزید کہا کہ ریپبلکن رہنماؤں کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں رون ڈرمر کا لہجہ خود پسندانہ اور عدم تعاون پر مبنی سمجھاگیا، یہ مذاکرات اس بارے میں تھے کہ ٹرمپ کو کیا کرناچاہیے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں نے انہیں بتایا کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں، ٹرمپ کو اس بات سے سب سے زیادہ نفرت ہے کہ انہیں بیوقوف کے طور پر پیش کیا جائے یا کوئی ان سے کھیلے، اسی وجہ سے انہوں نے نیتن یاہو سے رابطہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یانر کوزین نے کہا کہ ایرانی اور یمن کے حوثیوں کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ اور وقت کی فراہمی نہ ہونا امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی بگڑتی حالت کا ایک سبب ہے۔
فوجی ریڈیو کے نمائندے نے بھی اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ کے بارے میں کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے۔
دوسری جانب انادولو نے اپنی رپورٹ میں یروشلم پوسٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ غزہ کے لیے امدادی خوراک کا آپریشن جلد شروع ہونے والا ہے اور یہ اسرائیل کی شمولیت کے بغیر جاری رہے گا۔
یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہکابی نے کہا کہ امداد کی فراہمی کا منصوبہ ایک ایسے طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا جس پر متعدد شراکت دار متفق ہوں گے اور وہ کسی براہ راست فوجی تعاون پر انحصار نہیں کریں گے۔
مائیک ہکابی نے کہا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ میں محفوظ اور موثر طریقے سے خوراک تقسیم کی جائے۔
یہ اعلان اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے کہ واشنگٹن محصور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی براہ راست شمولیت کے بغیر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت سے ایک نئے اقدام پر زور دے رہا ہے۔
عہدیدار نے شراکت داروں کا نام لیے بغیر کہا کہ متعدد شراکت داروں نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے، انہوں نے فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔
مائیک ہکابی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل آئندہ آپریشن میں حصہ نہیں لے گا، امداد کی فراہمی کے لیے درست ٹائم لائن اور لاجسٹکس ابھی تک عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی گزرگاہوں کو خوراک، طبی اور انسانی امداد کے لیے بند کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں پہلے سے جاری انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں تقریباً 52 ہزار 800 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گزشتہ نومبر میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ پر عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیل نے یمن، لبنان اور شام کے ساتھ ساتھ غزہ پر بھی ایک ہی دن میں حملے کیے، غزہ پر پیر کے روز فضائی حملوں میں کم از کم 54 فلسطینی شہید ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد افراد کو ایک نئی زمینی کارروائی کے ذریعے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کو 65 روز مکمل ہوگئے ہیں۔
غزہ میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتال 48 گھنٹے بعد تمام سہولیات سے محروم ہوجائیں گے، اور ہزاروں بیماروں اور زخمیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 52 ہزار 567 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ایک لاکھ 18 ہزار 610 زخمی ہوئے ہیں۔
سرکاری میڈیا آفس نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے اور کہا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی زیر قیادت حملوں کے دوران اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کے 30 جنگی جہازوں نے یمن میں الحدیدہ پر فضائی حملہ کیا، یہ حملہ تل ابیب کے مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حوثیوں کے میزائل حملے کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔
حوثی باغیوں کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ الحدیدہ کے مشرق میں واقع باجیل میں سیمنٹ فیکٹری پر اسرائیلی حملے میں ایک شخص ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے کہا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے مشن میں حصہ لیا، جس میں الحدیدہ اور آس پاس کے علاقوں میں حوثیوں کے درجنوں ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
آئی ڈی ایف نے ایک بیان میں کہا کہ الحدیدہ کی بندرگاہ ایرانی ہتھیاروں، فوجی مقاصد کے لیے سازوسامان اور دہشت گردی سے متعلق دیگر ضروریات کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے الحدیدہ کے مشرق میں واقع سیمنٹ فیکٹری کو سرنگوں اور فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں استعمال کرنے پر نشانہ بنایا۔
الجزیرہ کے علی ہاشم کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد یہ پہلا موقع نہیں، جب اسرائیل اور حوثیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے، اس سے قبل بھی اسرائیل یمن پر بمباری کرتا رہا ہے، حال ہی میں امریکا نے یمن کو متعدد بار بمباری کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں انجام دی ہیں۔
یمنی حوثیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل جب تک غزہ پر بمباری بند نہیں کرتا، وہ بھی اسرائیل اور امریکا کے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
ایک متفقہ فیصلے میں اسرائیل کی سلامتی کابینہ نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دینے، فلسطینی علاقے اور پٹی پر قبضہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق یہ منصوبہ فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں داخل ہونے پر مجبور کرے گا، اور اسرائیلی فوج کئی ماہ سے جاری شدید لڑائی میں مصروف رہے گی۔
ایک اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کا انتظار کر رہی ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقے کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے ایک بار پھر کچھ مغربی میڈیا اداروں کی جانب سے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی کوریج کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’مین اسٹریم مغربی میڈیا: آپ کی رگوں میں صحافت کی اخلاقیات کا کوئی احساس باقی ہے؟‘
البانیز ایک پوسٹ کا جواب دے رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کا اخبار ’ہارٹز‘ جنگ کی ’بربریت‘ کو اس انداز میں کور کر رہا ہے، جس طرح مغربی ذرائع ابلاغ نہیں کر رہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارت خانے کے زیر اہتمام اسرائیل کے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سال یوم آزادی منانا ’تلخ‘ ہے، جب 59 یرغمالیوں کو حماس نے بے رحمی سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے میں عہد کرتا ہوں کہ ہم اس سال انتھک محنت کریں گے، تاکہ اگلے سال کا یوم آزادی صرف خوشیوں کی خواہش نہ ہو بلکہ اسرائیل کے لیے امن، خوشحالی اور اتحاد کی حقیقت ہو۔
اسٹیو وٹکوف نے تقریب سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ابراہم امن معاہدے کی توسیع، غزہ کے لیے انسانی امداد کے اقدامات سمیت بہت سی کوششیں جاری ہیں، جن کی ہم ستائش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس محاذ پر اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے بہت جلد بہت سے اعلانات کیے جائیں گے۔
وٹکوف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے باغات اور کھیتوں میں داخل ہوکر ایک بار پھر اوچھی حرکتیں دہرائی ہیں۔
انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے فلسطینی کاشتکاروں کے زیتون کے متعدد درخت کاٹ دیے اور فرار ہوگئے، صبح کے وقت جب فلسطینی کاشتکار اپنے باغات میں پہنچے تو انہیں اس کارروائی کا علم ہوا، جس سے وہ افسردہ ہوگئے۔
اس سے قبل بھی یہودی آباد کار اسرائیلی فوج کی نگرانی میں فلسطینی کسانوں کے ساتھ زیادتی کرتے رہے ہیں، اسرائیلی فوجی الٹا فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انہیں زدوکوب کرتے ہیں۔