
Get the latest news and updates from DawnNews
گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
دی انٹرسیپٹ کی 4 نومبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کی دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔
یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور ’دی بیچ‘ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔
الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں، کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع نصر ہسپتال نےتصدیق کہ ہے کہ اسے امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ہسپتال نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اب تک مجموعی طور پر 285 شہدا کی لاشیں وصول کی جا چکی ہیں، شہدا کی یہ لاشیں اسرائیلی و امریکی فوجی اِتائے چن کی لاش کے بدلے میں واپس کی گئیں، جسے منگل کے روز حماس نے غزہ سے واپس کیا تھا۔
امریکی ثالثی سے 10 اکتوبر سے نافذ معاہدے کی شرائط کے مطابق اسرائیل کو جب بھی کسی اسرائیلی یرغمالی کی لاش واپس ملتی ہے، تو وہ بدلے میں 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں واپس کرتا ہے۔
جنگ بندی کے آغاز پر حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود تھے، جن میں سے 20 زندہ اور 28 ہلاک ہو چکے تھے، بعد ازاں مزاحمتی گروپ نے تمام زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا اور 21 ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں واپس کر دیں۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس ہلاک یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے میں تاخیر کر رہی ہے، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ یہ عمل اس لیے سست ہے کیونکہ کئی لاشیں غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے موجود ہیں۔
گروپ نے متعدد بار ثالثوں اور ریڈ کراس سے اپیل کی ہے کہ وہ لاشوں کی بازیابی کے لیے ضروری آلات اور عملہ فراہم کریں۔
واضح رہے کہ 2 سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں اب تک 68 ہزار 875 فلسطینی شہید جب کہ ایک لاکھ 70 ہزار 679 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
ایشیائی ملک سنگاپور جہاں عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں 97 فیصد میں سزائیں سنائی جاتی ہیں، وہاں فسلطین کے حق میں مظاہرہ نکالنے کے الزامات کا سامنا کرنے والی تین مسلمان خواتین کو عدالت نے بری کردیا۔
برطانوی اخبار کے مطابق سنگاپور کی عدالت نے کوکلا انندمالی، سیتی امیرا محمد اسراوی اور محمد سوبِکُن کو عدم شواہد کی بناد پر بری کردیا اور کہا کہ وکلا ان کے خلاف الزامات ثابت نہ کر سکے۔
تینوں خواتین کو ایک غیر منظور شدہ فلسطین کے حق میں نکالے گئے مارچ کے منتظمین ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن عدالت نے حیران کن طور پر انہیں بری کر دیا۔
فروری 2024 میں تقریبا 70 افراد نے فلسطین کے حق میں ایک پرامن مارچ نکالاا تھا، جو سنگاپور کی مرکزی شاہراہ سے شروع ہوا اور صدراتی محل پر ختم ہوا تھا۔
مذکورہ مارچ کا مقصد فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ تھا۔
شرکاء نے تربوز نما امبرالے (جو فلسطینی پرچم کے رنگوں کی علامت ہیں) بھی اٹھائے تھے۔
مذکورہ مارچ کے ضمن میں تینوں خواتین کو جون 2024 میں اجازت کے بغیر عوامی جلوس منعقد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ ان کی سربراہی میں نکالا گیا مارچ ایسے علاقے سے گزرا جہاں عوامی جلوس ممنوع تھے۔
تینوں خواتین پر گزشتہ ڈیڑھ سال سے مقدمہ زیر سماعت تھا اور ہر کسی کا خیال تھا کہ انہیں سزا ہوگی اور خود خواتین بھی ذہنی طور پر تیار تھیں کہ انہیں سزا سنائی جائے گی لیکن عدالت نے ان کے برعکس فیصلہ دیا۔
عدالت نے 21 اکتوبر 2025 کو تینوں کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے دلیل دی کہ حکومتی وکیل یہ ثابت نہیں کرسکے کہ تینوں خواتین ’جان بوجھ کر ممنوع علاقے‘ کا شعور رکھنے کے باوجود وہاں سے گزرے اور یہ کہ مذکورہ علاقے کی حد بندی بھھی واضح نہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد الزام میں گرفتار کی گئی تین میں سے ایک خاتون کوکیلا انندمالی نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ انہیں سزا سنائی جائے گی اور وہ ایک بیان تیار کرچکی تھیں جس میں وہ ’سسٹم کی خامیوں‘ کا ذکر کرنے والی تھیں لیکن رہائی کے حکم پر وہ بھی حیران ہوئیں۔
خواتین کو عدالت کی جانب سے رہا کرنے کے حکم کے بعد زیادہ تر ماہرین نے فیصلے کو چھوٹا لیکن اہم قدم قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں احتجاج کی آزادی سخت ضابطوں کے تحت ہے اور سنگاپور میں عدالتوں کی مجرم ٹھہرانے کی شرح تقریباً 97 فیصد ہے۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نظامی تبدیلی کا عندیہ نہیں بلکہ قانونی تکنیکی بنیاد پر لیا گیا اور یہ حکومتی پالیسی میں بڑی نرمی کا ثبوت نہیں دیتا۔
امریکا نے اقوام متحدہ سے غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی منظوری طلب کرلی ہے، جس کا مینڈیٹ کم از کم 2 سال کے لیے ہوگا۔
امریکی ویب سائٹ ’ایکسِیوس‘ نے منگل کو رپورٹ کیا کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے کئی رکن ممالک کو ایک ڈرافٹ قرارداد بھیجی ہے، جس میں غزہ کی پٹی میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے مجوزہ فورس کے قیام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
ایکسِیوس (نے اس ڈرافٹ کی ایک کاپی حاصل کی) کے مطابق یہ قرارداد حساس مگر غیر خفیہ قرار دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرارداد امریکا اور دیگر شریک ممالک کو غزہ کے نظم و نسق کے لیے 2027 کے اختتام تک سیکیورٹی فورس تعینات کرنے کا وسیع اختیار دیتی ہے، اور اس مدت میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
یہ فورس ’غزہ بورڈ آف پیس‘ کے مشورے سے قائم کی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بورڈ بھی کم از کم 2027 کے اختتام تک قائم رہے گا۔
تاہم، ایک امریکی عہدیدار نے ’ایکسِیوس‘ کو بتایا کہ آئی ایس ایف پرامن مشن نہیں بلکہ نفاذی فورس ہوگی، ہدف یہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں قرارداد پر ووٹنگ ہو جائے اور پہلے فوجی جنوری تک غزہ پہنچا دیے جائیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ ڈرافٹ سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان آئندہ مذاکرات کی بنیاد بنے گا، اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ کی سرحدوں کی سیکیورٹی (اسرائیل اور مصر کے ساتھ)، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت اور شراکت داری کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
ڈرافٹ کے مطابق آئی ایس ایف غزہ میں سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے ذمہ دار ہوگی، جس میں غزہ پٹی کو غیر عسکری بنانا، عسکری و دہشت گرد انفرااسٹرکچر کی تباہی اور دوبارہ تعمیر کی روک تھام، غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیار مستقل طور پر ضبط کرنا شامل ہوگا۔
ایکسِیوس کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ فورس کا مینڈیٹ حماس کو غیر مسلح کرنے تک پھیلا ہوا ہے، اگر وہ خود ایسا نہیں کرتی تو عالمی فورس یہ کام کرے گی۔
مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ میں ’بورڈ آف پیس کو قابلِ قبول متحدہ کمان‘ کے تحت تعینات کیا جائے گا اور مصر و اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت و تعاون کیا جائے گا۔
مجوزہ فورس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی قوانین، خصوصاً انسانی قوانین کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرے۔
ایکسِیوس کے مطابق آئی ایس ایف کا مقصد عبوری دور میں غزہ میں سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، جس دوران اسرائیل بتدریج مزید علاقوں سے انخلا کرے گا اور فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی اقدامات کے ذریعے طویل المدتی طور پر غزہ کا انتظام سنبھالنے کے قابل ہوگی۔
ڈرافٹ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ بورڈ آف پیس کو عبوری انتظامی ادارے کے طور پر اختیارات تفویض کیے جائیں گے، اس کے تحت بورڈ ایک غیر سیاسی، ٹیکنوکریٹ فلسطینی کمیٹی کی نگرانی کرے گا جو غزہ کی سول انتظامیہ اور روزمرہ معاملات کی ذمہ دار ہوگی۔
قرارداد میں یہ بھی شامل ہے کہ امداد کی ترسیل بورڈ آف پیس کے تعاون سے اقوام متحدہ، ریڈ کراس، اور ریڈ کریسنٹ کے ذریعے کی جائے گی، اور اگر کوئی تنظیم اس امداد کا غلط استعمال یا انحراف کرے تو اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی سخت مذمت کی اور قابض اسرائیلی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
پاکستان ان 8 عرب و مسلمان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، اگرچہ وقفے وقفے سے جھڑپیں اور کشیدگی سامنے آتی رہی ہے، تاہم غزہ میں نازک نوعیت کی جنگ بندی اب تک قائم ہے۔
یہ جنگ بندی کئی پیچیدہ مسائل (مثلاً حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی انخلا کا ٹائم فریم) کو حل کیے بغیر طے پائی تھی، جس کی اسرائیل نے فضائی حملوں کی صورت میں بارہا خلاف ورزی کی۔
پیر کو ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اسلامی و عرب وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں استنبول میں ملاقات کی، تاکہ غزہ میں جنگ بندی کی صورتحال پر غور کیا جا سکے، یہ وہی ممالک ہیں جو 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سمیت دیگر اسلامی و عرب سفارتکاروں نے پائیدار جنگ بندی اور غزہ میں دیرپا امن کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کی۔
بیان میں کہا گیا کہ رہنماؤں نے فلسطینی عوام کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کیا اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دیا۔
بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے عین مطابق فلسطین کی ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہیے، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق جس دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک نے کہا کہ غزہ کا مستقبل فلسطینیوں کی قیادت میں ہونا چاہیے اور وہاں کسی نئے سرپرستی یا بیرونی کنٹرول کے نظام سے گریز کیا جانا چاہیے۔
ترکیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ مسلمان ممالک کو غزہ کی بحالی و تعمیر نو میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔
ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے مذاکرات کے بعد کہا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں کو خود اپنے معاملات اور سیکیورٹی کا انتظام سنبھالنا چاہیے، اور عالمی برادری کو اس میں سفارتی، ادارہ جاتی اور معاشی طور پر بہترین ممکنہ مدد فراہم کرنی چاہیے۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہاں نیا سرپرستی یا نگران کا نظام آئے، ہم ایک نہایت اہم اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ غزہ میں نسل کشی دوبارہ شروع ہو۔
حاقان فیدان نے مزید بتایا کہ تمام 7 ممالک اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی خود غزہ کی سیکیورٹی اور حکمرانی کا کنٹرول سنبھالیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے اختتام پر انہوں نے حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ کی قیادت میں ایک وفد سے ملاقات کی تھی اور حماس نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
ترک وزیرِ خارجہ نے امید ظاہر کی کہ حماس اور مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مصالحتی کوششیں جلد کامیاب ہوں گی، کیونکہ بین الفلسطينی اتحاد سے فلسطین کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی مزید مضبوط ہوگی۔
حاقان فیدان نے کہا کہ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف )، جو ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی، کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اختیار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے قانونی جواز حاصل ہو۔
انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن اس وقت عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس فورس کی تشکیل پر مشاورت کر رہا ہے، اور ترکیہ اس میں کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے، اگرچہ اسرائیل اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔
حاقان فیدان کے مطابق جن ممالک سے ہماری بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ اسرائیلی فوج کے مینڈیٹ اور اختیارات کی بنیاد پر کریں گے، پہلے ایک متفقہ مسودہ تیار کیا جائے گا، پھر اسے سلامتی کونسل کے اراکین کی منظوری درکار ہوگی اور یہ لازمی ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں سے کوئی بھی ویٹو استعمال نہ کرے۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ یہ ویٹو اکثر امریکا استعمال کرتا ہے جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے۔
اسرائیل طویل عرصے سے ترکیہ کے سفارتی اقدامات پر شک و شبہ رکھتا ہے، خصوصاً اس کے حماس سے قریبی روابط کی وجہ سے، اور اسی لیے وہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد بننے والی فورس میں ترکیہ کی شمولیت کی شدید مخالفت کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی، بل بدھ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے کوآرڈینیٹر نے آج کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ایک ایسے بل کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکے گی۔
یہ بل دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ’جیوش پاور پارٹی‘ نے پیش کیا ہے، جس کی قیادت وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر کر رہے ہیں، یہ بل بدھ کو اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ میں پہلی بار منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اس شخص کو سزائے موت دی جائے گی جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کسی اسرائیلی شہری کو نسلی تعصب، نفرت یا ریاستِ اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ہلاک کردے۔
اسرائیل میں کوئی بھی بل قانون بننے کے لیے کنیسٹ میں تین مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کے مطابق کوآرڈینیٹر گل ہیرش نے پیر کو کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتایا کہ نیتن یاہو نے اس بل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
گل ہیرش نے کہا کہ وہ اس سے پہلے اس بل کے مخالف تھے، کیونکہ یہ غزہ میں زندہ یرغمالیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب یرغمالی زندہ ہیں، اس لیے میری مخالفت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔
اسی روز کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ جیوش پاور پارٹی کی درخواست پر اس بل کو پہلے مرحلے کے لیے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اسرائیلی وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر بارہا اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے لیے سزائے موت کے قانون کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ مہینے اکتوبر میں حماس نے ایک عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی زندہ قیدیوں کو رہا کیا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت طے پایا تھا۔
اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں) اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، فلسطینی اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قیدی تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا شکار ہیں، اور متعدد قیدی حراست کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔
حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بن گویر نے جیلوں کے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے اور قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقاتوں پر پابندی، خوراک میں کٹوتی، اور نہانے کی سہولت محدود کر دی گئی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔
استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔
اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔
مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔
اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
یاد رہے کہ استنبول میں آج مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں غزہ کی خودمختاری، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سمیت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اقدامات پر غور متوقع ہے۔
نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نائب وزیراعظم نے ترک ہم منصب سے ملاقات میں پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ترکیہ کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط کرے گا۔
اسحٰق ڈار کی یہ ملاقات غزہ پر عرب و اسلامی وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس کے موقع پر ہوئی، جس کے لیے وزیر خارجہ اسی روز استنبول پہنچے تھے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان سے دوطرفہ ملاقات کی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ملاقات کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں مثبت پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں فریقین نے فلسطین کے مسئلے پر، خصوصاً غزہ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے بھائی چارے اور باہمی تعاون کے مضبوط رشتوں کو ایک بار پھر دہرایا، جو ہمیشہ سے پاکستان-ترکیہ تعلقات کی بنیاد رہے ہیں، اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر قریبی رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق دن کے آغاز میں جب وزیرِ خارجہ ڈار استنبول پہنچے، تو ان کا استقبال سفیر احمد جمیل میروغلو، ڈائریکٹر جنرل آف پروٹوکول، اور پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مذاکرات پاکستانی وقت کے مطابق شام 4 بجے استنبول کے ایک ہوٹل میں شروع ہونا تھے، اور پریس کانفرنس چند گھنٹے بعد متوقع تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق حماس اور اسرائیل نے 9 اکتوبر کو ایک فائر بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جانا تھا۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ تھا جبکہ پاکستان ان 8 عرب و مسلم ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر ٹرمپ کے ساتھ کام کیا۔
تاہم، معاہدے پر دستخط کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔
آج کے اجلاس میں ان ممالک کے وزرائے خارجہ ایک جگہ اکھٹا ہوں گے، جو 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ سے ملے تھے، ان میں ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب، اور اردن شامل ہیں۔
اے ایف پی نے ترک وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ انقرہ ان معزز شرکا سے فلسطینیوں کے غزہ کی سیکیورٹی اور حکمرانی کے کنٹرول کے منصوبے کی حمایت کی اپیل کرے گا۔
رائٹرز کے مطابق ترک وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے نے بتایا کہ وزیرِ خارجہ فیدان اس بات پر زور دیں گے کہ مسلم ممالک کی مربوط کارروائی فائر بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان اجلاس میں فائر بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور اسرائیلی افواج کے غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلا پر زور دے گا۔
پاکستان اس بات کا بھی مطالبہ کرے گا کہ فلسطینی عوام کو بلا روک ٹوک انسانی امداد فراہم کی جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے اقدامات کیے جائیں، ساتھ ہی پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، قابلِ عمل اور مسلسل ریاستِ فلسطین کے قیام کے مطالبے کو دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
پشاور میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ نے واضح کیا کہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کریں گے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے یا ہمارے حوالے کرے جب کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمائندہ حکومت کے حامی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 19 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان نے دوحہ میں اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے کا عہد کیا تھا۔
استنبول مذاکرات کے دوسرے دور میں پاکستان نے افغان طالبان کے اقدامات کی نگرانی کے لیے ایک ٹھوس نظام بنانے پر زور دیا، تاکہ سرحد پار دہشت گردی روکی جا سکے۔
اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان کی طرف سے رکھی گئی شرائط کی کوئی اہمیت نہیں، اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کے ضامن پاک فوج ہیں، افغانستان نہیں، اور یہ بھی واضح کیا کہ اسلام آباد نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، مزید کہا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کریں، یہ ان کا کام ہے کہ وہ کیسے کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم آئین و قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے، خیبرپختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منشات بنائی جاتی ہیں، تیراہ میں آپریشن کی وجہ سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔
بریفنگ میں شریک سینئر صحافی حامد میر نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ صحافیوں کو وہی ثبوت دکھائے گئے جو دوحہ میں افغان طالبان کو پیش کیے گئے تھے جب کہ ان ثبوتوں میں ایسے افغان فوجی شامل تھے جن کے پاس افغان اور افغان آرمی کے شناختی کارڈ موجود تھے، اور وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تھے۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے، ہم سیاست کرنا نہیں چاہتے اگر گھسیٹنا ہے تو یہ ان کی اسٹریٹجی ہے، جب کہ غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ملک میں 2025 کے دوران 62 ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے، اس دوران آپریشنز میں 1667 دہشت گرد مارے گئے جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے فتنۃ الخوارج کے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے ذیادہ شدید جواب ملے گا۔
اسرائیلی پولیس نے فلسطینی قیدی کے جنسی استحصال کی ویڈیو لیک کرنے پر پیر کے روز سابق خاتون ملٹری پراسیکیوٹر یفات تومر-یروشلمی کو گرفتار کرلیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیل میں قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے کہا کہ یہ اقدام اس اسکینڈل کے بعد سامنے آیا ہے، جب ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں بظاہر فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ بدسلوکی (جنسی استحصال) کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یفات تومر-یروشلمی اتوار کو اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بعد کئی گھنٹوں کے لیے لاپتا ہوگئی تھیں، اور میڈیا میں ان کی ممکنہ خودکشی کی کوشش کے حوالے سے قیاس آرائیاں گردش کرنے لگی تھیں۔
ویڈیو کے 2024 میں لیک ہونے کے بعد 5 ریزروسٹ اہلکاروں پر باضابطہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی، ان پر لگنے والے الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے ایک ’نوکیلے آلے‘ سے قیدی کو نازک عضو کے قریب زخمی کیا۔
قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے پیر کو ’ٹیلی گرام‘ پر کہا کہ یہ طے پایا کہ گزشتہ رات کے واقعات کے پیشِ نظر جیل سروس اضافی چوکس رہے گی، تاکہ اس قیدی (یعنی تومر-یروشلمی) کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے جسے حراست میں رکھا گیا ہے۔
بیان میں بن گویر نے اس بات پر زور دیا کہ تحقیق کو پیشہ ورانہ انداز میں انجام دینا اہم ہے، تاکہ اس کیس کی مکمل حقیقت سامنے آئے جس نے آئی ڈی ایف (فوج) کے فوجیوں کے خلاف تہمت لگائی۔
بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان پر کون سے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
پیر کو چینل 12 نے اطلاع دی کہ پولیس کو شبہ ہے کہ تومر-یروشلمی نے اپنی جان لینے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اپنی گمشدگی کا ڈرامہ اس لیے رچایا تاکہ اپنے فون سے چھٹکارا حاصل کر سکیں، جس میں ممکنہ طور پر حساس معلومات موجود تھیں۔
کچھ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ انہوں نے ایک خط چھوڑا ہے، جسے خودکشی کے نوٹ کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
جمعہ کے روز اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ تومر-یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، جب کہ سدی تیمن فوجی اڈے پر گزشتہ سال لی گئی ویڈیو کے افشا ہونے کی تحقیقات جاری ہیں۔
اس وقت کی نگرانی کیمرہ فوٹیج سے اشارہ ملتا تھا کہ فوجیوں نے غیرقانونی کارروائیاں کیں، اگرچہ منظر صاف نظر نہیں آ رہا تھا، کیوں کہ یہ واقعات ان فوجیوں کے پیچھے موجود اہلکار ڈھال اٹھائے کھڑے تھے۔
یہ ویڈیو کئی میڈیا اداروں نے نشر کی، اور اس کیس نے بین الاقوامی سطح پر غصے اور اسرائیل کے اندر احتجاج کو جنم دیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے فروری میں کہا کہ اس نے سدی تیمن میں بدسلوکی سے جڑے پانچ ریزروسٹ فوجیوں پر فردِ جرم عائد کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے قیدی پر شدید تشدد کیا، جس میں ایک نوکیلے آلے سے قیدی کے جسم کے نچلے حصے کو زخمی کیا، جو مقعد کے قریب تک جا پہنچا۔
مزید کہا گیا کہ تشدد کے ان واقعات سے قیدی کو شدید جسمانی نقصان پہنچا، جس میں پسلیوں کا ٹوٹنا، پھیپھڑے کا زخمی ہونا، اور اندرونی ریکٹل چوٹ شامل ہیں۔
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بدسلوکی 5 جولائی 2024 کو اس وقت ہوئی، جب قیدی کی تلاشی لی جا رہی تھی، اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑی لگا کر جیل کے قریب ایک علاقے میں لے جایا گیا تھا۔
اس میں تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے متعدد شواہد کا ذکر ہے، جن میں نگرانی کی فوٹیج اور طبی دستاویزات شامل ہیں۔
اکتوبر 2024 میں، اقوامِ متحدہ کے ایک کمیشن نے کہا تھا کہ ہزاروں قیدیوں کو اسرائیلی فوجی کیمپوں اور حراستی مراکز میں وسیع اور منظم تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو ’جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف تشدد‘ کے مترادف ہے۔
اسرائیل نے ان الزامات کو ’غیرمعقول‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے بین الاقوامی قانونی معیارات پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار غزہ کی صورتحال پر اجلاس میں شرکت کے لیے استنبول پہنچ گئے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار پیر کو ترکی کے شہر استنبول پہنچ گئے، جہاں وہ غزہ کی تازہ صورتحال پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ نے ایک روز قبل اعلان کیا تھا کہ وزیرِ خارجہ ترکی میں عرب و اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں شرکت کے لیے ایک روزہ دورے پر جائیں گے، جہاں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں اسحٰق ڈار کی شرکت کی تصدیق وزارتِ خارجہ نے اپنے سماجی رابطوں کے اکاؤنٹ پر کی، بیان میں بتایا گیا کہ استنبول پہنچنے پر وزیرِ خارجہ کا استقبال ترک دفترِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے پروٹوکول احمد جمیل میروغلو اور پاکستان کے سفارت خانے کے حکام نے کیا۔
واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا گیا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ختم کرنے کے امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، پاکستان ان 8 عرب و مسلم ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے پر امریکا کے ساتھ کام کیا، تاہم معاہدے کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔
آج ہونے والے اجلاس میں ترکی، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے، یہی وہ ممالک ہیں جنہوں نے 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی اجلاس میں فلسطینیوں کے غزہ پر مکمل انتظامی اور سیکیورٹی کنٹرول کے حق میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ حکان فیدان اجلاس میں اس بات پر زور دیں گے کہ مسلم ممالک کی ہم آہنگ کوششوں سے جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان اجلاس میں اس امر پر زور دے گا کہ جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور اسرائیلی افواج کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ سے مکمل انخلا یقینی بنایا جائے۔
پاکستان انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ بھی کرے گا، جبکہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاستِ فلسطین کے قیام کے عزم کا اعادہ کرے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ حماس جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم دکھائی دیتی ہے، انہوں نے زور دیا کہ مسلم ممالک کو غزہ کی تعمیرِ نو میں قیادت کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رجیب طیب اردوان نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر کاربند رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے کہ او آئی سی غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے‘۔
ترک صدر نے کہا کہ ’اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ انسانی امداد پہنچانی چاہیے اور اس کے بعد تعمیرِ نو کے اقدامات شروع کرنا ہوں گے، مگر اسرائیلی حکومت اس عمل کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘۔
اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی، جس کی قیادت تنظیم کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیة کر رہے تھے۔
حکان فیدان نے کہا کہ ’ہمیں غزہ میں قتلِ عام ختم کرنا ہوگا، صرف جنگ بندی کافی نہیں‘، انہوں نے دو ریاستی حل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’غزہ کو فلسطینیوں کے زیرِ انتظام ہونا چاہیے، اور ہمیں اس حوالے سے محتاط حکمتِ عملی اپنانی چاہیے‘۔
حماس نے مزید 3 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں جبکہ امریکی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی افواج نے غزہ میں ایک اور فلسطینی کو شہید کردیا، جس کے بعد جنگ بندی کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 236 تک پہنچ گئی ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں بین الاقوامی ادارہ برائے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے ذریعے اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں، اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ان لاشوں کے وصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق ان باقیات کا معائنہ تل ابیب کے ابو کبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ میں کیا جائے گا اور شناختی عمل میں دو دن تک لگ سکتے ہیں۔
معاہدے کے مطابق اسرائیل کو اب ایک اسرائیلی کی لاش کے بدلے 15 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں حوالے کرنا ہوں گی اور مجموعی طور پر 45 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی تباہی کا سلسلہ ان علاقوں میں اب بھی جاری ہے، چاہے وہ بنی سہیلہ ہو، جہاں اتوار کو تین اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ملی تھیں، یا پھر غزہ شہر کے مشرق میں واقع الشجاعیہ محلہ، جہاں مزید اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔
ماہرین اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ باقی 8 لاشوں کی تلاش مزید پیچیدہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ’غزہ میں سیکڑوں ٹن ملبہ موجود ہے اور یہ واضح نہیں کہ حماس تمام لاشوں کو تلاش کر پائے گی یا نہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کے عمل کو آگے بڑھائے، کیونکہ اسرائیل نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی پیش رفت کو تمام اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے مشروط کر دیا ہے‘۔
دوسری جانب میں اسرائیلی فوج نے زرد لکیر عبور کرنے پر ایک اور فلسطینی کو شہید کردیا، طبی ذرائع کے مطابق فلسطینی شہری کو اتوار کے روز غزہ شہر کے علاقے الشجاعیہ میں اسرائیلی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا، جہاں اسرائیلی فوج صبح سے عمارتوں کو مسمار کرنے کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والا شخص جنگ بندی کی حدِ فاصل کے طور پر مقرر ’زرد لکیر‘ عبور کر کے ان کے اہلکاروں کے قریب پہنچ گیا تھا، تاہم اس الزام کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اسرائیلی افواج نے کم از کم 236 فلسطینیوں کو شہید اور 600 کو زخمی کیا ہے۔ وزارت نے بتایا کہ تباہ شدہ گھروں اور عمارتوں کے ملبے سے مزید 502 لاشیں بھی نکالی گئی ہیں، جس سے اسرائیلی جنگ میں مجموعی اموات کی تعداد 68 ہزار 856 ہو گئی ہے۔
استنبول میں آج مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں غزہ کی خودمختاری، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سمیت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اقدامات پر غور متوقع ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ترکیہ سے توقع ہے کہ وہ غزہ کا انتظام اور سیکیورٹی فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر زور دے گا، جب کہ وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار آج استنبول میں ہونے والے 8 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے، یہ اجلاس غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں غزہ کی جنگ بندی کے اس معاہدے پر بات چیت ہونے کی توقع ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے طے ہوا تھا۔
لیکن اس جنگ بندی میں حماس کے ہتھیار چھوڑنے اور اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا جیسے اہم مسائل حل نہیں ہو سکے اور جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی مسلسل بمباری نے اس معاہدے کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
استنبول کے اجلاس میں ترکیہ، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے، یہ وہی ممالک ہیں جن کے نمائندے 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے کے مطابق اجلاس میں توقع ہے کہ ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ مسلم ممالک کو جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق حکان فیدان اجلاس میں یہ مؤقف اختیار کریں گے کہ اسرائیل جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے، اس لیے عالمی برادری کو اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کے خلاف واضح اور مضبوط مؤقف اپنانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ میں جانے والی انسانی امداد بہت کم ہے اور اسرائیل نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق حکان فیدان اس بات پر زور دیں گے کہ فلسطینیوں کو جلد از جلد غزہ کی سیکیورٹی اور انتظام سنبھالنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں، تاکہ ان کے جائز حقوق محفوظ رہیں اور دو ریاستی حل کا مقصد برقرار رکھا جا سکے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے فورمز پر مشترکہ حکمتِ عملی اور قریبی رابطے برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
غزہ کی جنگ کے دوران ترکی اور اسرائیل کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں، کیونکہ صدر طیب اردوان نے اسرائیلی حملوں پر سخت تنقید کی ہے، ترکیہ نے حماس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو قبول کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انقرہ نے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مجوزہ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔
تاہم، اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں ترک افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا، دیگر ممالک جو اس فورس میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں، ان میں اردن، مصر، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے آئی ایس ایف میں ممکنہ فوجی شمولیت کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت جاری ہے اور اس بارے میں باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔
لیکن جرمنی اور اردن کی طرح اسلام آباد بھی یہ چاہے گا کہ غزہ میں کسی بھی فوجی فورس کی تعیناتی اقوامِ متحدہ کے دائرے میں ہو۔
ہفتے کے روز اردن اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے آئی ایس ایف کے لیے اقوامِ متحدہ کی منظوری حاصل کرنے پر زور دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اس فورس کے لیے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد ہونا ضروری ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق استنبول اجلاس میں پاکستان اس بات پر زور دے گا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، اسرائیلی افواج مقبوضہ فلسطینی علاقوں، خصوصاً غزہ سے مکمل انخلا کریں، فلسطینیوں کو بلا رکاوٹ انسانی امداد فراہم کی جائے اور غزہ کی تعمیر نو کو یقینی بنایا جائے۔
دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس امن منصوبے کا حصہ رہا ہے، جس کے نتیجے میں شرم الشیخ میں غزہ امن معاہدہ طے پایا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اس بات پر بھی زور دے گا کہ اجتماعی کوششوں کے ذریعے ایک آزاد، مضبوط اور پائیدار فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف (یروشلم) ہو اور یہ سب کچھ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن منصوبے کی روشنی میں ہو۔
دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے لیے امن، انصاف اور وقار کی بحالی اور ان کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ غزہ صحافیوں کے لیے کسی بھی تنازعے میں سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔
صحافیوں کے خلاف جرائم پر استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے بیان میں انتونیو گوتریس نےکہا کہ دنیا بھر میں صحافی سچائی کی تلاش میں بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں — جن میں زبانی بدسلوکی، قانونی دھمکیاں، جسمانی حملے، قید، اور تشدد شامل ہیں— اور کچھ صحافی تو اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم پر استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ غزہ صحافیوں کے لیے کسی بھی تنازعے میں سب سے خطرناک جگہ رہی ہے۔ میں ایک بار پھر آزاد اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً دس میں سے نو صحافیوں کے قتل کے واقعات تاحال حل طلب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہیں بھی استثنیٰ صرف متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ، مزید تشدد کی دعوت، اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔
انتونیو گوتریس کا مزید کہنا تھا کہ تمام حکومتوں کو ہر کیس کی تحقیقات کرنی چاہئیں، ہر مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی ہر جگہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔
بیان میں مزید کہا کہ ہمیں خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن بدسلوکی میں تشویشناک اضافے کا بھی سامنا ہے، جو اکثر بلا سزا رہتی ہے اور کئی بار حقیقی دنیا میں نقصان کا سبب بنتی ہے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ ڈیجیٹل دنیا کو اُن افراد کے لیے محفوظ بنایا جانا چاہیے جو خبر اکٹھی کرتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔
اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔
یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔
اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔
تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈےفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔
اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے حکومتی ترجمان دانیال چوہدری کے اُس متنازع بیان کو سختی سے مسترد اور اس کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ امن فورس میں پاکستانی فوج کا کردار حماس کو غیر مسلح کرنا بھی ہوگا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے وفاقی پارلیمانی سیکریٹری برائے اطلاعات و نشریات دانیال چوہدری کے متنازع بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہو، یہ کس نوعیت کا بیان دیا گیا ؟ ان میں سے کوئی بھی بات نہ تو ہمارا ہدف ہے اور نہ یہ ہمیں زیب دیتی ہے۔
یاد رہے کہ دانیال چوہدری نے 28 اکتوبر کو اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آر‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک جنہیں امن فورس کا حصہ بنایا جائے گا، اُن کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ یقینی بنائیں کہ وہاں کوئی انتہاپسندی یا تشدد کا واقعہ پیش نہ آئے اور نہ ہی سرحد پار سے کوئی حملہ ہو، پاکستان اس بات کو یقینی بنائے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ غزہ امن فورس میں شامل کسی بھی پاکستانی فوجی کی حفاظت اولین ترجیح ہوگی، ہم اپنا فرض نبھائیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کا تحفظ کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سرحد پار خلاف ورزی یا دہشت گردی نہ ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، تو انہوں نے کہا کہ جی بالکل، اگر (حماس کو) غیر مسلح کیا جائے گا، تب ہی دوسری فورس اپنا کام جاری رکھ سکے گی، معاملات صرف غیر مسلح ہونے کے بعد ہی آگے بڑھیں گے۔
امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا ایک اہم جزو انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا قیام ہے، جس میں زیادہ تر فوجی مسلم ممالک سے ہوں گے، ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے جلد اعلان متوقع ہے۔
دانیال چوہدری کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس فورس کے لیے جو بھی اجتماعی فیصلہ کیا جائے گا، پاکستان اسی پر عمل کرے گا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاقی پارلیمانی سیکریٹری کس کے نمائندے کے طور پر امن نافذ کرنے کی بات کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی ٹی وی پروگرام میں ذاتی حیثیت میں اس طرح کے بیانات دے رہا ہے تو یہ نامناسب ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس فورس کا کردار واقعی دانیال چوہدری کے بیان کے مطابق ہے، تو انہوں نے کہا کہ میں اس کے حق میں نہیں ہوں، ایسی کوئی بات زیرِ بحث نہیں آئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کے پیش نظر کسی بھی پاکستانی فوجی کو ایسی فورس میں شامل کرنا ایک پیچیدہ صورتحال کا باعث بنے گا؟ تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔
حساس نوعیت کے اس معاملے پر باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان مشاورت ’ آخری مراحل‘ میں داخل ہو چکی ہے، ذرائع کے مطابق بات چیت کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں شمولیت کے حق میں ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایس ایف کا مینڈیٹ داخلی امن و امان برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کی حفاظت اور انسانی امداد و تعمیرِ نو میں تعاون شامل ہوگا، یہ سب ایک عبوری فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں ہوگا۔
اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ شمولیت، اخلاقی ذمہ داری اور سفارتی ضرورت دونوں پر مبنی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان 8 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 2024 میں امن تجویز تیار کی تھی، جس کی بنیاد پر امریکی ثالثی سے غزہ امن منصوبہ رواں ماہ کے آغاز میں طے پایا۔
چونکہ آئی ایس ایف اس منصوبے کا بنیادی حصہ ہے، حکام کے مطابق اسی لیے پاکستان کی شرکت اس کے تسلسل اور ساکھ کو ظاہر کرے گی، حکومتی حلقوں کا ایک اور مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی امن مشنز میں کردار اس فورس میں شرکت کے لیے موزوں تجربہ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں سب سے زیادہ فوجی فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اب تک پاکستان افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں 40 سے زائد آپریشنز میں 2 لاکھ سے زائد اہلکار بھیج چکا ہے۔
اخلاقی اور آپریشنل بنیادوں کے علاوہ، خارجہ پالیسی کے تقاضے بھی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہیں، ذرائع کے مطابق غزہ امن فورس میں شمولیت سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کثیرالملکی منصوبے میں شرکت دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون، دفاعی معاونت اور علاقائی اثر و رسوخ کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔
تاہم حکام نے خبردار کیا کہ تعیناتی کے قانونی فریم ورک پر ابھی وضاحت سامنے نہیں آئی، ایک اہلکار نے کہا کہ ہم ترجیح دیں گے کہ یہ تعیناتی اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ہو۔
اس کے باوجود، یہ مشن خطرات سے خالی نہیں، غزہ اب بھی ایک غیر مستحکم خطہ ہے اور پاکستان کے اندر عوامی رائے ایک اضافی چیلنج بن سکتی ہے۔
کئی پاکستانی جو فلسطینی کاز کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے ہیں، وہ امریکی منصوبے کے تحت اس امن فورس میں شمولیت کو اسرائیلی مفادات کی خدمت یا فلسطینی مزاحمت سے غداری کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، ایک سرکاری عہدیدار نے کہاکہ یہ ایک مشکل مگر فیصلہ کن انتخاب ہوگا۔
خواجہ آصف نے 28 اکتوبر کو کہا تھا کہ غزہ امن فورس کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کا فیصلہ ابھی زیرِ غور ہے، جس پر حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
دوسری جانب، افغان طالبان کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت جنگ بندی برقرار رکھنے، آئندہ مذاکرات اور خلاف ورزیوں کی نگرانی کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس نظام میں طویل المدتی پائیداری کے لیے ممکنہ طور پر دیگر ممالک کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ 12 یا 15 ماہ بعد اس میں تعطل پیدا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی سرحدی گزرگاہ سے دہشت گردوں کو ’کھلی چھوٹ دینا‘ دراصل انہیں مدد فراہم کرنے یا ان کے ساتھ ملی بھگت کے مترادف ہے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس کی روک تھام یا نگرانی نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی رضامندی اور شمولیت دہشت گردوں کے پاکستان میں خون بہانے میں شامل ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا افغان طالبان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ان کی سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، تو خواجہ آصف نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں (طالبان اور ٹی ٹی پی) ایک دوسرے میں ملے ہوئے ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کی پوری قیادت کابل میں موجود ہے،کابل میں ان کے ٹھکانے یقینا افغان طالبان کی فراہم کردہ پناہ گاہیں ہیں، وہ (ٹی ٹی پی) کسی ہوٹل میں تو نہیں رہ رہے ہوں گے۔
فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعہ کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں 3 فلسطینی شہید ہوگئے، یہ واقعہ جنگ بندی معاہدے کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیل نے شمالی غزہ کے علاقوں میں گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی پر قائم ہے۔
اسرائیلی فوج نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق ایک اور فلسطینی شہری گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا ہے۔
امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی میں کئی حساس معاملات، جیسے کہ حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی فوج کے انخلا کا شیڈول، تاحال حل طلب ہیں، یہ معاہدہ 3 ہفتے قبل عمل میں آیا تھا، تاہم وقفے وقفے سے ہونے والے پُر تشدد واقعات نے اسے بار بار آزمایا ہے۔
28 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز نے اپنے فوجی کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جس کے بعد غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں 104 فلسطینی شہید ہوئے۔
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا، بدلے میں تقریبا 2 ہزار فلسطینی قیدیوں اور نظر بند شہریوں کو رہا کیا گیا، اسرائیل نے اس کے بدلے میں اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے، حملے روکنے اور امداد میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
حماس نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ وہ تمام 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرے گی، بدلے میں اسرائیل 360 شہید فلسطینی کی لاشیں واپس کرے گا، حماس اب تک مجموعی طور پر 17 لاشیں اسرائیلی حکام کے حوالے کر چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر 225 فلسطینیوں کی لاشیں واپس غزہ منتقل کی گئی ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور انہیں ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ حماس تاخیر کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
غزہ میں 2 سالہ جنگ میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور پورا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔
وزارت اطلاعات نے ایک بھارتی نیوز چینل کے ان غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں کی تردید کی ہے کہ پاکستان غزہ میں 20 ہزار فوجی بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے اور یہ کہ پاکستان نے اپنے پاسپورٹ سے یہ شق ہٹا دی ہے کہ یہ ’اسرائیل کیلئے کارآمد نہیں‘۔
بھارتی نیوز آؤٹ لَیٹ ’ری پبلک ٹی وی‘ نے یہ الزامات لگائے تھے، جس میں فوجیوں کی تعداد کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان اپنی افواج مغربی ممالک اور اسرائیل کی نگرانی میں غزہ بھیجنے کا ارادہ کر رہا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک بیان کے مطابق چینل نے یہ ’مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان نے پاسپورٹ سے ’اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں‘ کی شق بھی ہٹا دی ہے۔‘
وزارت اطلاعات نے ایکس پر جاری ایک بیان میں وزارتِ خارجہ کے ایک پریس ریلیز کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف بدستور قائم ہے، اسلام آباد اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اور کسی بھی قسم کا فوجی تعاون یا تعلقات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی زیرِ بحث ہیں۔
اس کے علاوہ، وزارت نے واضح کیا کہ پاسپورٹ کی شق برقرار ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس پر اب بھی ’سوائے اسرائیل کے تمام ممالک کے لیے کارآمد‘ درج ہے۔
وزارت اطلاعات نے بتایا کہ وزارت خارجہ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی پرزور حمایت کرتا ہے، جس میں 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
وزارت اطلاعات نے مزید کہا کہ یہ دعویٰ ’ری پبلک ٹی وی‘ کی جانب سے کیا گیا، جو سنسنی خیز اور پاکستان مخالف بیانیے کے لیے جانا جاتا ہے، کسی بین الاقوامی یا علاقائی میڈیا آؤٹ لَیٹ نے اس دعوے کو نشر نہیں کیا۔’
وزارت اطلاعات نے مزید زور دیا کہ سرکاری بیانات اور تصدیق شدہ پالیسی اپ ڈیٹس پر بھروسہ کیا جائے اور جانبدار میڈیا کے غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں سے گریز کیا جائے۔
واضح رہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ غزہ امن فورس کے لیے پاکستانی فوجی بھیجنے کے حوالے سے فیصلے کو ابھی حتمی شکل دی جا رہی ہے اور یہ عمل جاری ہے۔
امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا ایک اہم ستون ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ (آئی ایس ایف) کا قیام ہے، جو بنیادی طور پر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی، مذاکراتی عمل سے منسلک رہنے والے حکام کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں جلد ہی ایک اعلان متوقع ہے۔
معاملے کی نزاکت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والے حکام نے بتایا تھا کہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بات چیت آخری مراحل میں ہے، ان کے مطابق اندرونی مشاورت کا لہجہ بتاتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جیو نیوز کے شو ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں ایک انٹرویو کے دوران جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا اس طرح کا کوئی اقدام زیرِ غور ہے یا نہیں، تو خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے اور یہ عمل جاری ہے، حکومت اس عمل سے گزرنے کا فیصلہ کرے گی اور میں اس سے پہلے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا اور تمام اداروں کو اس اقدام کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔
وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اگر مسلمان ممالک امن فورس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پاکستان کو بھی حصہ لینا پڑتا ہے، تو ’فلسطینیوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا ملک کے لیے فخر کا لمحہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ اگر یہ موقع ہمیں دستیاب ہوتا ہے تو پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔’
غزہ میں جنگ بندی کے بعد حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرنے کا سلسلہ جاری ہے، مزاحمتی تنظیم نے آج مزید 2 افراد کی لاشیں ریڈ کراس کے زریعے اسرائیلی حکام کے حوالے کر دی ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حوالے کی جانے والی دونوں لاشوں کی باقیات کو اسرائیل کے قومی فرانزک انسٹیٹیوٹ منتقل کیا جائے گا، ان لاشوں کی حوالگی کے بعد باقی رہ جانے والی مزید 11 افراد کی لاشیں اسرائیل کے سپرد کرنا ہوں گی۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں ایک ہزار 139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جبکہ تقریبا 200 شہریوں کو مزاحمتی تنظیم نے یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے لاشوں ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ مغویوں کی واپسی کی کوششیں مسلسل کر رہے ہیں اور آخری مغوی کی واپسی تک یہ جاری رہیں گی۔
دریں اثنا، حماس نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں کی لاشوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے ہیوی میشنری کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے، مزاحمتی تنظیم نے کہا کہ وہ لاشوں کو نکالنے کے عمل میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جو اسرائیلی بمباری سے متاثر ہوئے ہیں۔
جب کہ اسرائیل نے حماس پر زور دیا ہےکہ وہ معاہدے پر عمل درآمدکرے اور تمام ہلاک شدہ مغویوں کی واپسی کے لیے ضروری اقدامات کرے، اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ حماس جان بوجھ کر لاشوں کی حوالگی میں تاخیر کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ جنگ بندی کے باوجود 29 اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ پر بدترین بمباری کی، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 سے اب تک نہتے 68 ہزار 527 فلسطینیوں کو شہید، جبکہ بے رحمانہ حملوں میں ایک لاکھ 70 ہزار 395 افراد کو زخمی کیا ہے۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے ایک ’ فلسطینی گروہ’ کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا، ان کا اشارہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں منگل کے روز یک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت کی جانب تھا۔
نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں گفتگو کرتے ہوئے قطری وزیراعظم نے میزبان ایمن محی الدین کو بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں پر حملہ ’ بنیادی طور پر فلسطینی فریق کی جانب سے ایک ’خلاف ورزی‘ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ان کا اس گروہ سے کوئی رابطہ نہیں، لیکن ’ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ بات درست ہے یا نہیں۔’
خیال رہے کہ 28 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ میں حملے کا حکم دیا تھا، الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے بتایا تھا کہ صہیونی فوج کے حملوں میں 104 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل تھے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حملوں کا ہدف حماس کے سینیئر جانباز تھے، جن میں سے درجنوں شہید ہوگئے، اور بعد میں کہا کہ وہ بدھ کی دوپہر سے دوبارہ جنگ بندی پر عمل شروع کرے گا۔
قطر کے وزیرِاعظم نے کہا کہ ’ہم دونوں فریقین کے ساتھ بہت سرگرمی سے رابطے میں ہیں تاکہ جنگ بندی برقرار رہے، امریکا کی شمولیت، یقیناً، اس معاملے میں کلیدی رہی، اور میری رائے میں جو کچھ کل(منگل) کو ہوا، وہ ایک خلاف ورزی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بات چیت کے دوران حماس کی جانب سے ’ لاشوں کی منتقلی میں تاخیر’ پر بھی گفتگو ہوئی، ہم نے انہیں بہت واضح طور پر کہا کہ یہ اس معاہدے کا حصہ ہے جس پر عملدرآمد ضروری ہے۔’
قطری وزیراعظم نے کہا کہ ’ ہماری نظر میں، جب سے یہ معاملہ شروع ہوا (7 اکتوبر 2023 سے آج تک) اگر آپ پورے عمل کو دیکھیں، تو ہم نے بے شمار چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، یہ آسان راستہ نہیں تھا، ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ پہلے، دوسرے، اور اب اس تیسرے جنگ بندی معاہدے کو یقینی بنائیں جو، امید ہے، برقرار رہے گا۔’
شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے اس واقعے کو ’ انتہائی مایوس کن اور افسوسناک’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’ ہم نے فوراً ردعمل دیا اور امریکا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں کام کیا، ہم نے دیکھا ہے کہ امریکا بھی اس معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔’
اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں تباہ کن بمباری اور اس کے نتیجے میں 100 سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے بعد ’جنگ بندی برقرار رہنے‘ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے رہائشی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی سے متعلق امید کھو رہے ہیں، بدھ کو اسرائیل کی جانب سے اب تک کی سب سے ہلاکت خیز خلاف ورزی میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اب بھی ’مضبوط‘ ہے، جب کہ ثالث ملک قطر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثالث اگلے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی ’دوبارہ شروعات‘ کر رہا ہے، قبل ازیں اس نے غزہ پر بڑے پیمانے پر حملے کیے تھے، جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ حماس کی جانب سے جنوبی غزہ میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک کرنے کے بدلے میں کیے گئے تھے، تاہم حماس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
فلسطینی خاندان مایوسی کے ساتھ اپنے پیاروں کی باقیات کی تلاش کر رہے ہیں، 2 سالہ جنگ کے بعد، ہزاروں لاشیں ملبے کے ڈھیر تلے موجود ہیں۔
ایمرجنسی ٹیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنی بھاری مشینری یا آلات نہیں ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لاشوں کو نکال سکیں یا شناخت کر سکیں۔
قطر میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے لیکچرار زیدون الکنانی نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ امریکی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی ختم ہونے کے ’انتہائی قریب‘ ہے، کیوں کہ اسرائیل کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ امریکا کب تسلیم کرے گا کہ اسے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل کے ‘استثنٰی کے احساس’ کا خاتمہ کیا جا سکے۔
الکنانی کے مطابق، اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو امید کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنی توجہ ایشیا میں دیگر سرمایہ کاری پر مرکوز کر لیں گے، اور غزہ کی تعمیرِ نو کے منصوبے سے دستبردار ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل جتنا ممکن ہو سکے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ اپنی کارروائیوں، زمینوں کے انضمام اور نوآبادیاتی منصوبے کو معمول پر لا سکے۔
تحقیق کے مطابق، یہ خفیہ انتباہی نظام کمپنیوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ادائیگیوں میں پوشیدہ اشارے بھیجیں تاکہ اسرائیلی حکومت کو اطلاع دی جا سکے، جب وہ اسرائیلی ڈیٹا غیر ملکی عدالتوں یا تفتیش کاروں کے ساتھ شیئر کریں۔
اس معاہدے کو ’پروجیکٹ نیمبس‘ کہا جاتا ہے، جس کے تحت یہ ادائیگیاں غیر ملکی ملک کے ٹیلی فون ڈائلنگ کوڈ کے مطابق، یعنی ایک ہزار سے 9 ہزار 999 شیکل (تقریباً 307 سے 3,066 امریکی ڈالر) کے درمیان کی جاتی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نے یہ نگرانی کا نظام متوقع خطرات سے نمٹنے کے لیے شامل کیا، انہیں خدشہ تھا کہ گوگل یا ایمازون اپنے ملازمین یا شیئر ہولڈرز کے دباؤ میں آ کر اسرائیل کی ان مصنوعات اور خدمات تک رسائی واپس لے سکتے ہیں، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے منسلک ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گوگل اور ایمازون دونوں کی کلاؤڈ شاخوں نے کسی بھی قانونی ذمہ داری سے بچنے کے الزام کی تردید کی ہے۔
مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانونی ماہرین، بشمول کئی سابق امریکی پراسیکیوٹرز نے اس انتظام کو انتہائی غیر معمولی قرار دیا اور خبردار کیا تھا کہ یہ نظام کمپنیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، کیوں کہ یہ خفیہ پیغامات امریکی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں، خاص طور پر وہ قوانین جو کمپنیوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ عدالتی سمن کو خفیہ رکھیں۔
اقوام متحدہ کے فلسطین کے لیے خصوصی نمائندے کی آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت 63 ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی 2 سالہ نسل کشی میں شریک یا معاون رہے ہیں۔
فرانسسکا البانیز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے یہ اقدامات اکیلے نہیں بلکہ ’تیسرے فریق ممالک‘ کی مدد سے انجام پائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی صرف اسرائیل کارروائیوں ہی نہیں بلکہ ایک عالمی شراکتِ جرم کے نظام کا حصہ تھی۔
مزید کہا گیا کہ طاقتور ممالک، جو نوآبادیاتی اور نسلی سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیتے رہے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے بجائے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کا احترام کرے، ایسے پُرتشدد حملوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ممالک نے اسرائیل کو مدد اور جواب دہی سے تحفظ فراہم کر کے اسے موقع دیا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے آبادکار نسل پرستانہ نظام کو مزید مضبوط کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کو بین الاقوامی طور پر ممکن بنائے گئے جرم کے طور پر سمجھنا چاہیے، بیشتر مغربی ممالک نے اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ اسے جائز اور معمول کی کارروائی بنا دیا۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ فلسطینی شہریوں کو ’انسانی ڈھال‘ قرار دے کر اور غزہ پر حملوں کو ’تہذیب و سفاکیت کی جنگ‘ کے طور پر پیش کر کے ان ممالک نے اسرائیلی بیانیے کو تقویت دی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو جواز بخشا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف، رودیشیا اور دیگر نوآبادیاتی حکومتوں کے خلاف کیے گئے کامیاب اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے ذریعے انصاف اور حقِ خودارادیت حاصل کی جا سکتی ہے۔
بین الاقوامی عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود اسرائیل کو اس کے دیرینہ جرائم پر جواب دہ نہ ٹھہرانا عالمی برادری کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔
مزید کہا گیا کہ ممالک کے پاس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے کئی اختیارات ہیں، جیسے طاقت کا استعمال، ہتھیاروں اور تجارت پر پابندیاں، محفوظ گزرگاہ سے انکار، اور قانونی کارروائیاں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اثرورسوخ رکھنے والے‘ دیگر ممالک کی حمایت نے اسرائیل کو اپنے حملے جاری رکھنے کا موقع دیا، یہ حمایت اسرائیلی بیانیے کو اپنانے اور امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں پر ویٹو کے ذریعے ظاہر ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کو کھیل، ثقافت اور دیگر بین الاقوامی فورمز سے بھی باہر نہیں نکالا گیا۔
اِن ممالک نے صورتِ حال کو ایک انسانی بحران کے طور پر لیا، جسے بس سنبھالنا تھا، نہ کہ حل کرنا اور اسرائیل سے غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ نہ کر کے غزہ پر حملے کے لیے مزید گنجائش پیدا کی۔
فروری 2024 میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور نیدرلینڈز نے ایک طرف اسرائیل کے رفح پر حملے کی مذمت کی، لیکن ساتھ ہی یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بھی روک دی۔
رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت کی، لیکن ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئیں۔
قانونی کارروائیوں کے حوالے سے بھی پیش رفت نہیں ہوئی، کیونکہ صرف 13 ممالک نے جنوبی افریقہ کے کیس (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں) کی حمایت کی، جب کہ کئی مغربی ممالک نے مسلسل یہ ماننے سے انکار کیا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نسل کشی کے واضح شواہد کے باوجود کئی ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، اسرائیل اپنی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی درآمد پر منحصر کرتا ہے، اہم سپلائرز میں امریکا، جرمنی اور اٹلی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے درمیان تیسری مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) کے تحت 2028 تک ہر سال 3.3 ارب ڈالر کی فوجی امداد اور 50 کروڑ ڈالر کے میزائل دفاع کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے امریکا نے 742 کھیپوں پر مشتمل ہتھیار اور گولہ بارود اسرائیل بھیجے اور اربوں ڈالر کی نئی اسلحہ فروخت کی منظوری دی، اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2025 تک 26 ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کم از کم 10 کھیپیں بھیجیں، جن میں چین، تائیوان، بھارت، اٹلی، آسٹریا، اسپین، جمہوریہ چیک، رومانیہ اور فرانس شامل ہیں۔
برطانیہ نے اگرچہ براہِ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے، مگر اس نے قبرص میں موجود اپنے اڈوں کے ذریعے امریکی سپلائی لائن کو اسرائیل تک پہنچنے دیا اور گزشتہ 2 برسوں میں غزہ پر 600 جاسوسی پروازیں کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ممالک نہ صرف اسرائیل کو سہولت فراہم کر رہے ہیں بلکہ غزہ کے عوام تک مناسب امداد نہ پہنچا کر بھی نسل کشی میں شریک ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی نافذ کی، اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 کے دوران امدادی ٹرکوں کی روزانہ اوسط تعداد 107 رہی، جو 2023 سے پہلے کی سطح کے ایک تہائی سے بھی کم تھی۔
اگست 2025 تک غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق ہو چکی تھی۔
اسرائیل کی نسل کشی کی مہم نے جان بوجھ کر انسانی امدادی نظام کو تباہ کیا، جس میں یو این آر ڈبلیو اے کے گوداموں، اسکولوں، کلینکس اور خوراک کے مراکز پر حملے کیے گئے۔
کینیڈا، برطانیہ، بیلجیم، ڈنمارک اور اردن جیسے ممالک نے اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے فضا سے امداد گرانے (ایئرفورڈ) کی مہنگی، غیر مؤثر اور خطرناک کوششیں کیں۔
مزید کہا گیا کہ بحری امدادی مشن اور شہری تنظیموں کے قافلے جو اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں غیر قانونی طور پر روکا اور دیگر ممالک خاموش رہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی معیشت غیر ملکی تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، مگر کسی مغربی ملک نے اسرائیل کے ساتھ تجارت بند نہیں کی بلکہ کئی کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا۔
جرمنی کے ساتھ 836 ملین ڈالر سے زائد، پولینڈ 237 ملین ڈالر، یونان 186 ملین ڈالر، اٹلی 117 ملین ڈالر، ڈنمارک 99 ملین ڈالر، فرانس 75 ملین ڈالر، سربیا 56 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات 237 ملین ڈالر، مصر 199 ملین ڈالر، اردن 41 ملین ڈالر، مراکش6 ملین ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی۔
صرف کولمبیا نے 2024 میں اسرائیل کو کوئلے کی برآمد پر پابندی لگا کر عملی قدم اٹھایا تھا۔
جب نسل کشی واضح ہو چکی تھی، تب بھی بیشتر مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی، سفارتی، معاشی اور نظریاتی مدد فراہم کرتے رہے، حتیٰ کہ جب اسرائیل نے قحط اور انسانی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
گزشتہ دو سالوں کے یہ مظالم کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری عالمی شراکتِ جرم کا نتیجہ ہیں، رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی حمایت میں خاموشی اور غیر جانبدار رویہ رکھنے والے ممالک کو بھی نسل کشی میں شریک یا معاون سمجھا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے درج ذیل اقدامات کرنے کی سفارش کی۔
جن میں مکمل اور مستقل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنانا، غزہ کے محاصرے کا فوری خاتمہ اور زمینی و بحری قافلوں کے ذریعے انسانی امداد اور رہائش کی فراہمی، ساتجھ ہی غزہ کا ہوائی اڈہ اور بندرگاہ دوبارہ کھولنا تاکہ امداد مؤثر طریقے سے وہاں پہنچ سکے۔
فلسطینی حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنا اور اسے پائیدار امن کی بنیاد قرار دینا، اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات معطل کرنا، ان تمام افراد، اداروں اور کمپنیوں کی تحقیقات و سزا جو نسل کشی، اشتعال انگیزی یا جنگی جرائم میں ملوث ہوں اور غزہ کی تعمیرِ نو اور متاثرین کے معاوضے کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، یو این آر ڈبلیو اے اور اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 6 کے تحت اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا شامل ہے۔
یونائٹنگ فار پیس، جنرل اسمبلی ریزولوشن 377 (5) کے تحت کارروائی کر کے اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کو یقینی بنانے کی بھی سفارش کی گئی۔
آئس کریم ذائقوں کی وجہ سے دنیا بھر میں منفرد اہمیت رکھنے والی کمپنی بین اینڈ جیریز کے شریک بانی 74 سالہ بین کوہن نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوڈ کمپنی یونی لیور نے انہیں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آئس کریم فلیور بنانے سے روکا۔
بین اینڈ جیریز پہلے خود مختار کمپنی تھی، تاہم سال 2000 میں یونی لیور نے اسے خرید لیا تھا، شریک بانی بین کوہن کے اس میں کچھ شیئر اب بھی ہیں۔
یونی لیور نے بعد ازاں بین اینڈ جیریز کو اپنے دوسرے آئس کریم برانڈ ’میگنم‘ کے ساتھ بھی ملایا۔
اب بین اینڈ جیریز کے شریک بانی 74 سالہ بین کوہن نے انسٹاگرام اور ایکس پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنی کمپنی کی مالک کمپنی یونی لور پر الزام عائد کیا ہے کہ انہیں فلسطین میں امن کی حمایت میں ایک خصوصی تربوز فلیور آئس کریم بنانے سے روک دیا گیا۔
بین کوہن نے ویڈیو میں بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے بین اینڈ جیریز نے فلسطین میں انصاف اور امن کے لیے ایک فلیور تیار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یونی لور اور اس کی ذیلی کمپنی میگنم نے اسے روک دیا۔
انہوں نے بتایا کہ بین اینڈ جیریز کو روکے جانے کے بعد اب وہ خود اس فلیور کو گھر پر تیار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے عوام سے اجزا اور پیکنگ کے ڈیزائن کے لیے آئیڈیاز بھی مانگے۔
ویڈیو میں انہیں تربوز کو مکسنگ باؤل میں ملاتے بھی دیکھا جا سکتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ فلیور فلسطین میں مستقل امن اور وہاں ہونے والے نقصان کی تلافی کا پیغام دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سالوں میں فلسطینی عوام بالخصوص بچوں پر جو ظلم ہوا، وہ ناقابلِ برداشت ہے، سیز فائر تو خوش آئند ہے مگر اب دوبارہ تعمیر اور حقوق کی بحالی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ انقلاب تخلیقی ہوتے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے عوام کو اس پروجیکٹ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔
سوشل میڈیا صارفین نے ان کی ویڈیوز پر ردعمل دیا اور کئی دلچسپ تجاویز بھی پیش کیں۔
بعض صارفین نے انہیں تجویز دی کہ وہ مذکورہ آئس کریم کا نام’فرام دی ریور ٹو دی سیڈ لیس واٹر میلن‘ یعنی بغیر بیج والا تربوز رکھیں، کسی نے انہیں فلسطینی مٹھائی کنافہ سے متاثر فلیور بنانے کا مشورہ بھی دیا۔
کچھ صارفین نے انہیں اسٹرابیری، پستہ اور چاکلیٹ ملا کر تربوز جیسا رنگ دینے کی ترکیب بتائی، جب کہ کئی لوگوں نے اے آئی سے بنے خوبصورت ٹب ڈیزائن شیئر کیے جن پر ’فریڈم فروٹ‘، ’کنافیہ ٹوئسٹ‘ اور ’فرام دی ریور ٹو دی پنٹ‘ جیسے نام لکھے تھے۔
یاد رہے کہ بین کوہن اور جیری گرین فیلڈ نے 2000 میں کمپنی یونیلور کو بیچی تھی، لیکن ایک خاص ڈھانچہ بنایا تھا تاکہ کمپنی کا سماجی مشن برقرار رہے مگر دونوں بانی بارہا یونی لور پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اس آزادی کو ختم کر رہی ہے۔
ماضی میں بھی فلسطین کے معاملے پر کمپنی اور یونی لور کے درمیان تناؤ عروج پر پہنچ گیا تھا، 2021 میں کمپنی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں میں آئس کریم بیچنا بند کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر یونی لور نے قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
گزشتہ سال کمپنی نے یونی لور پر مقدمہ کیا کہ وہ سیز فائر اور فلسطینی حقوق کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بین کوہن خود فلسطین کی حمایت میں سرگرم ہیں، مئی میں وہ امریکی سینیٹ کی سماعت کے دوران اسرائیل کو فوجی امداد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔
پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، جن کے نتیجے میں جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق یہ کارروائیاں بین الاقوامی قانون اور حال ہی میں طے پانے والے امن معاہدے کی صریح اور سنگین خلاف ورزی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی قابض افواج کے ایسے جارحانہ اقدامات خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے قیام کے لیے جاری بین الاقوامی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی افواج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر بند کرائے۔
پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد منصفانہ حل ایک آزاد، خودمختار، قابلِ عمل اور متصل فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جو جون 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کو حماس پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ میں حملے کا حکم تھا۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ فوج کو فوری طور پر غزہ میں شدید حملے کرنے کی ہدایت دی ہے۔
نیتن یاہو کی دھمکی کے بعد اسرائیلی فورسز نے فضائی حملے کرکے غزہ شہر کے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں 24 بچوں سمیت 91 فلسطینی شہید اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے تھے۔
سی این این کے مطابق حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل، غزہ میں ’نئے حملے کرنے کی تیاری کے لیے جھوٹے بہانے گھڑنے‘ کی کوشش کر رہا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں لاشوں کی تلاش کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، اور اس نے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں کو انسانی بنیادوں پر اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت دیں، تاکہ یہ عمل سیاسی یا جارحانہ مفادات سے آزاد ہو۔
حماس نے کہا تھا کہ وہ امریکا، مصر، قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے پر قائم ہے، تاہم اسے اب بھی دو سالہ جنگ سے پیدا ہونے والے ملبے تلے دفن باقیات کو تلاش کرنے کے لیے مدد درکار ہے۔
یاد رہے کہ 25 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ حماس نے یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ کیں تو امن عمل میں شریک ممالک کارروائی کریں گے۔
اسرائیلی فورسز نے فضائی حملے کرکے غزہ شہر کے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 24 بچوں سمیت 91 فلسطینی شہید ہوگئے اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات بھر کے دوران غزہ میں کم از کم 91 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جن میں کم از کم 24 بچے شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ’جوابی کارروائی‘ کی ہے، کیونکہ ایک سپاہی مارا گیا تھا، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ بھی جنگ بندی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا، حماس کو مناسب برتاؤ کرنا ہوگا۔
غزہ میں یہ اموات اُس وقت ہوئی ہیں جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’طاقتور‘ حملوں کا حکم دیا، اسرائیلی فوج نے بعد میں تصدیق کی کہ اس کا ایک سپاہی مارا گیا تھا۔
اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 68 ہزار 527 فلسطینی شہید ایک لاکھ 70 ہزار 395 زخمی ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
الجزیرہ عربی نے اطلاع دی کہ صبح سویرے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے شمال میں واقع گاؤں عطّارہ میں اسرائیلی آبادکاروں کے گروہ نے فلسطینیوں کی ملکیت والی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
اکتوبر 2023 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو اسرائیلی آبادکاروں اور فوج کی جانب سے حملوں اور ہراسانی کی شدید لہر کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم ایک ہزار 59 فلسطینی شہید، تقریباً 10 ہزار زخمی ہوچکے ہیں اور 20 ہزار سے زائد فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن میں ایک ہزار 600 بچے بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ مرکز برائے تنازعات اور انسانی مطالعات کے نان ریذیڈنٹ فیلو معین ربانی کے مطابق، اسرائیل دانستہ طور پر جنگ بندی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس معاہدے کو امریکا کے دباؤ پر اسرائیل نے مجبوری میں قبول کیا تھا۔
معین ربانی نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ اسرائیل نے کبھی بھی اس معاہدے کے تحت اپنی کسی بھی ذمہ داری کو حقیقتاً پورا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی موجود تھی، لیکن اسرائیل پہلے ہی 100 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں طے شدہ حد تک اپنی فوجیں پیچھے ہٹائیں نہ ہی متفقہ مقدار میں امداد کو داخل ہونے دیا۔
ان ک کہنا تھا کہ اب اسرائیل ایک طرف تو یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ ملبے کے نیچے لاشوں کی تلاش کے لیے درکار بھاری مشینری کے داخلے کو روکا جائے، اور دوسری طرف انہی تاخیری وجوہات کو (جو قدرتی طور پر متوقع تھیں) معاہدے کو کمزور کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
معین ربانی نے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسرائیل خود سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاہدے کو بتدریج ختم کرنے کا عمل ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ امریکا اس پر کیا ردعمل دے گا۔
آج صبح تک جو معمولی سی امید تھی کہ شاید حالات پرسکون رہیں گے، وہ مکمل طور پر مایوسی میں بدل گئی ہے، آسمان جنگی طیاروں، ڈرونز اور جاسوس جہازوں سے بھرا ہوا ہے۔
اب خوف یہ ہے کہ جو کچھ گزشتہ رات شروع ہوا، وہ آنے والے کئی دنوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
غزہ کا عمومی ماحول خوف اور دہشت سے لبریز ہے، کیونکہ غزہ نے اپنی تاریخ کی سب سے ہولناک راتوں میں سے ایک رات گزاری ہے، بہت سے لوگوں کے لیے یہ ان ابتدائی ہفتوں کی یاد تازہ کر رہی ہے جب نسل کشی کے آغاز میں شدید بمباری کے نتیجے میں بے پناہ تباہی پھیلی تھی۔
اب تک اطلاعات کے مطابق 91 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
مرکزی غزہ میں مارے جانے والے 42 افراد میں سے 18 ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، 3 نسلیں ایک ہی حملے میں ختم ہو گئیں، بچے، ان کے والدین اور دادا دادی سب شہید ہو گئے۔
یہاں غزہ سٹی میں جب حملے شروع ہوئے تو دھماکوں کی آوازیں پوری رات گونجتی رہیں، رہائشی علاقے لرز اٹھے، آسمان آگ اور روشنی سے بھر گیا، اور لوگوں میں خوف مزید بڑھ گیا۔
ہسپتال شدید دباؤ میں ہیں، الجزیرہ نے دیکھا کہ ہسپتالوں کی راہداریوں میں اسٹریچرز پر لاشیں پڑی ہیں، زخمی اور ان کے لواحقین خون میں لت پت ہیں، ہر طرف چیخ و پکار ہے۔
لوگوں کی وہ امید کہ جنگ بندی قائم رہے گی اور ذہنی سکون بحال ہوگا، اب مایوسی میں بدل چکی ہے۔
اگر جنگ بندی کی حالت یہ ہے، تو اس کے پائیدار ہونے اور برقرار رہنے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔