’تمام مشکلات کے باوجود، میں روز اسکول جاتی ہوں‘

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2014
کوئٹہ کے شمال میں واقع قصبے سارہ غورگئی کی طالبعلم پروین منظور، جو پشتونخوا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے نکالی گئی ایک ریلی میں شریک ہیں، انہیں اُمید ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیں گی۔ —. فوٹو علی شاہ
کوئٹہ کے شمال میں واقع قصبے سارہ غورگئی کی طالبعلم پروین منظور، جو پشتونخوا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے نکالی گئی ایک ریلی میں شریک ہیں، انہیں اُمید ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیں گی۔ —. فوٹو علی شاہ

جامنی رنگ کا روایتی ڈوپٹہ اوڑھے اور سُرخ رنگ کی ربن اپنے ماتھے پر باندھے ہوئے پروین منظور اپنے گردآلود گاؤں کے ہر بچے کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے بے تاب دکھائی دیں۔ پروین خود کافی خوش قسمت ہیں کہ کوئٹہ کے شمال میں واقع ایک قصبے سارہ غورگئی کے گرلز اسکول میں پڑھ رہی ہیں۔

پروین نے بتایا کہ ’’تمام مشکلات کے باوجود میں روزانہ اسکول جارہی ہوں۔‘‘

بلوچستان میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پروین کا یہ عزم سراہے جانے کے قابل ہے۔ صوبے کے محکمہ تعلیم کے حکام کے مطابق کوئٹہ اور بلوچستان بھر کے دیگر بتیس ضلعوں کے 23 لاکھ لڑکے اور لڑکیاں اب تک اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔

اس مسئلے پر ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے وزیراعلٰی کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بریچ نے کہا’’دس ہزار بستیوں کے بچے اب بھی اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔‘‘

کچھ تنظیموں نے تعلیم کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اس جانب قدم بڑھایا ہے، کہ تعلیم عام کرکے انتہاپسند رجحانات اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ایسا ہی ایک اقدام پشتونخوا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے اُٹھایا گیا ہے، جس کا عزم ہے کہ پختون اکثریتی علاقوں میں معیارِ تعلیم کو بہتر بنا کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے۔

اس تنظیم نے انہی خطوط پر اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مہینہ طویل مہم شروع کی، جس کے ذریعے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے خاندانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پروین نے بھی اس سلسلے میں نکالی جانے والی ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پروین کو اپنی کوششوں سے امید ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیں گی، انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک کہ میرا گھر جس سڑک پر ہے، وہاں بھی بچوں کی بڑی تعداد اسکول نہیں جاتی ہے۔‘‘

کچھ حوصلہ افزا پیش رفت تو ہوئی ہے۔ اس تنظیم کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ کبیر افغان کہتے ہیں کہ ’’اس مہم کے نتیجے میں ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کا اسکولوں میں داخلہ ہوا ہے۔‘‘

پروین کی مانند نوجوان صائمہ نے بھی اس ریلی میں حصہ لیا۔ ’’ہم تعلیم چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے اپنا مضبوط عزم ظاہر کیا۔ سارہ غورگئی میں نکالی گئی ایک ریلی میں وہ اپنی سہیلی کے ساتھ نعرے لگارہی تھیں۔ اس نے بلند آواز سے کہا:

’’ہم ہر کلاس میں ایک ٹیچر چاہتی ہیں۔‘‘

’’ہر بچے کو اسکول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’ہر گاؤں میں ایک اسکول چاہتے ہیں۔‘‘

ان نوجوانوں کے اس اقدام کی حمایت اور ان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے مقامی قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس ریلی میں شرکت کی اور والدین کو قائل کیا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں۔

دعوے اور جوابی دعوے:

صوبے کے دوردراز علاقوں میں مالی اور سماجی عوامل اس سلسلے میں اہم رکاوٹوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان بھر میں کل بائیس ہزار بستیاں تھیں۔

اس کے مقابلے میں بلوچستان کا محکمہ تعلیم حکومت کے زیرانتظام چلنے والی پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد بارہ ہزار چھ سو بتاتا ہے۔

کبیر افغان کہتے ہیں ’’صوبے کے بہت سے اسکول درحقیقت گھوسٹ اسکول ہیں۔‘‘

ایک ہزار سے زیادہ اسکولوں میں یہاں تک کہ چاردیواری ہی نہیں ہے اور ایک بڑی تعداد تو ایسی ہے جس میں چھت بھی نہیں ہے۔

سیکریٹری تعلیم غلام علی بلوچ کہتے ہیں کہ مناسب انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کے لیے بارش کے ساتھ ساتھ سخت سرد موسم سے بچاؤ کا انتظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اسکولوں میں نہ تو پینے کے پانی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ٹوائیلٹ موجود ہیں۔

رضا محمد بریچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے ناکافی وسائل کی وجہ سے اسکولوں کو تمام سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین ماہ کے دوران اپنے محدود وسائل کے باوجود محکمہ تعلیم نے تین سو اسکولوں کو فعال بنایا ہے۔

یہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ممکن ہوا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں صوبائی حکومت نے صوبے کے بجٹ کا چوبیس فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا ہے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا ’’ہم نے تہیّہ کرلیا ہے کہ ہم اپنی نسل کو تعلیم یافتہ بنا کر رہیں گے۔‘‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا عزم قابل ذکر ہے، لیکن بہت سے اہم عوامل ایسے ہیں کو ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کو ساتھ ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے، جو بہتر اسلوبِ حکمرانی کے لیے نہایت اہم ہے۔

حکومت نے 2014ء کے تعلیمی سال کے دوران طالبعلموں کے داخلوں میں اضافے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن بچوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اسکولوں سے باہر ہے۔

کبیر افغان نے کہا کہ ’’تعلیم کے معیار کو تو بھول جائیے، ہمارے بچے تو پرائمری تعلیم تک سے محروم ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ پشتونخوا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے اہم مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ طالبعلموں کو پڑھنے اور لکھنے کے قابل بنایا جائے۔

دیگر سنگِ راہ جو رکاوٹ بنے ہوئے ہیں:

بلوچستان میں اعلٰی معیار کی تعلیم انتہائی محدود ہے، تعلیمی اداروں کی ایک مٹھی بھر تعداد ایسی ہے، لیکن وہ بہت مہنگے ہیں اور صرف کوئٹہ میں موجود ہیں۔

غلام حیدر جو ایک سرکاری ملازم ہیں، ان کے بچے کوئٹہ کے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’میں پرائیویٹ اسکولوں کی مہنگی فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘

معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور تعلیم تک رسائی کے لیے کی جانے والی ان کوششوں کے باوجود بلوچستان کے دوردراز علاقے مثلاً ڈیرہ بگٹی، آواران اور موسٰی خیل اب بھی حکومت کے لیے سنگین چیلنج بنے ہوئے ہیں، جہاں سرکاری اسکولوں کی عمارتیں ہر طرح کے کاموں میں استعمال ہورہی ہیں، سوائے تعلیم کے۔

وسائل سے مالامال صوبے میں معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کا مضبوط اور مسلسل عزم ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں