بدامنی سے پاکستانی جواہرات کی صنعت متاثر

بدامنی سے پاکستانی جواہرات کی صنعت متاثر


پشاور کی ایک دکان میں قیمتی پتھر دیکھے جا سکتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
پشاور کی ایک دکان میں قیمتی پتھر دیکھے جا سکتے ہیں — اے ایف پی فوٹو

پشاور: چار سو سال سے دستکار اور پشاور کے صرافہ بازار کے تاجر شمال مغربی پاکستان سے نکالے جانے والے قیمتی پتھروں کی تراش خراش کا کام کر رہے ہیں۔

پاکستان سے جواہرات کی برآمدات میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا، مگر طالبان تشدد، بجلی کے بحران اور پیداوار کے قدیم طریقۂ کار سے گزشتہ بارہ ماہ کے دوران اس کاروبار میں مندی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

 پتھر لے جاتے ہوئے دو ملازم — اے ایف پی فوٹو
پتھر لے جاتے ہوئے دو ملازم — اے ایف پی فوٹو

تاریکی کے سائے گہرئے ہونے کے ساتھ پشاور کے شہر نمک منڈی میں سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔

پاکستانی تاجر ورکشاپ میں پتھر چنتے ہوئے — اے ایف پی فوٹو
پاکستانی تاجر ورکشاپ میں پتھر چنتے ہوئے — اے ایف پی فوٹو

تاجر حضرات زمرد، یاقوت اور دیگر کا معیار جانچنے میں مصروف ہیں جبکہ صارفین سبز چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں، بازار کے ارگرد کھانوں کے ٹھیلوں کی وجہ سے مصالحوں کی خوشبو فضاء میں پھیلی ہوئی ہے، مگر تاجر جیسے شہزاد سبز علی کا کہنا ہے کہ کاروبار ختم ہوتا جا رہا ہے اور غیر ملکی خریدار یہاں سے دور ہونے لگے ہیں جو کہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں اس کاروبار میں گزشتہ پچیس سال سے ہوں مگر طالبانائزیشن اور بدامنی کے باعث موجودہ حالات جیسا مندی کا رجحان کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہاں ماضی میں امریکہ، تھائی لینڈ، جرمنی اور دبئی سے خریدار آتے تھے جبکہ سبز علی کا کہنا ہے کہ خودکش دھماکوں اور بم دھماکوں نے ہمارے کاروبار کو متاثر کیا ہے، اور ہمارے پاس اب خریداروں سے انٹرنیٹ سے رابطے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

ایک ملازم کام کرتے ہوئے — اے ایف پی فوٹو
ایک ملازم کام کرتے ہوئے — اے ایف پی فوٹو

آن لائن ڈیلنگ موجودہ وقت کی ایجاد ہے مگر سبز علی جیسے تاجر جن کا کاروبار برسوں سے سیلزمین شپ اور ذاتی تعلقات پر چل رہا ہے وہ خود کو کافی غیر موثر محسوس کرتے ہیں۔

تاہم ساتھی تاجر شہزاد احمد کی نظر میں اس کا حل پاکستان کے مختلف شہروں میں تجارتی شوز کے انعقاد میں ہی چھپا ہوا ہے۔

ایک شخص پتھروں کی کٹائی کر رہا ہے — اے ایف پی فوٹو
ایک شخص پتھروں کی کٹائی کر رہا ہے — اے ایف پی فوٹو

قدیم طریقۂ کار


پاکستان میں اکثر قیمتی پتھر خیبرپختونخوا، شمالی گلگت بلتستان، فاٹا، کشمیر اور بلوچستان سے نکالے جاتے ہیں۔

ورکشاپ میں ایک خاتون پتھر کاٹنے کا کام کر رہی ہے — اے ایف پی فوٹو
ورکشاپ میں ایک خاتون پتھر کاٹنے کا کام کر رہی ہے — اے ایف پی فوٹو

پشاور کے ماہر جواہرات الیاس علی شاہ کے مطابق ان قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے ذخائر کی مالیت اربوں کھروں ڈالرز ہے، مگر اب بھی بیشتر ذخائر ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں جہاں عسکریت پسندی اور انفراسٹرکچر کا نظام نہ ہونے کے باعث رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔

قدیم طریقۂ کار سے پتھروں پر کام کیا جا رہا ہے — اے ایف پی فوٹو
قدیم طریقۂ کار سے پتھروں پر کام کیا جا رہا ہے — اے ایف پی فوٹو

الیاس کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی جواہرات کی برآمدات کو تین گنا تک بڑھا سکتا ہے تاہم اس کے لیے پرانے طریقۂ کار سے جان چھڑا کر موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا۔

یہ ختون پتھر کو کاٹ کر اسے شیپ دے رہی ہیں — اے ایف پی فوٹو
یہ ختون پتھر کو کاٹ کر اسے شیپ دے رہی ہیں — اے ایف پی فوٹو

پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی بھی لوگوں کی صلاحیت میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ دیگر ممالک ہندوستان اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کا مقابلہ کیا جا سکے۔

کچھ پاکستانی ملازم پشاور کی ورکشاپ میں قیمتی پتھروں کو تراش رہے ہیں — اے ایف پی فوٹو
کچھ پاکستانی ملازم پشاور کی ورکشاپ میں قیمتی پتھروں کو تراش رہے ہیں — اے ایف پی فوٹو

جواہرات کی برآمدات حالیہ برسوں میں اضافے کے ساتھ 2013 میں ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور 2017 تک اس کے ایک اعشاریہ سات ارب ڈالرز تک پہنچانے کا ہدف ہے۔