دوبارہ دریافت ہونیوالے عظیم شہر

ماضی میں گم ہو کر دوبارہ دریافت ہونیوالے عظیم شہر

سعدیہ امین

شاعر نے کہا تھا: گور سکندر، نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تو کچھ شہر جیسے اٹلانٹس یا پرستان ہمیشہ ہی تصور یا خواب کا حصہ بنے رہتے ہیں مگر ایسے بھی شہروں کی کمی نہیں جو ماضی میں پوری آب و تاب سے جگمگانے کے بعد وقت کی دھند میں کہیں گم ہوئے مگر انہیں ایک بار پھر ڈھونڈ نکالا گیا، ماچو پیکچو سے لے کر بابل اور موئن جو دڑو تک ان تاریخی آبادیوں کے کھنڈرات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کوئی بھی تہذیب یا جگہ اتنی بڑی نہیں ہوتی جسے زوال سے بچایا نہ جاسکے۔

ایسے ہی عظیم ترین گمشدہ شہروں کا ایک جائزہ یقیناً آپ کی دلچسپی کے لیے کافی اہم ثابت ہوگا۔


##موئن جو دڑو

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

چھبیس سو قبل مسیح کے لگ بھگ تعمیر کیا جانے والا وادیٔ سندھ کی تہذیب کا یہ سب سے بڑا شہر قدیم مصر کی تہذیب کا ہم عصر ہے، تاہم یہ علاقہ صدیوں تک کھنڈر بن جانے کے بعد وقت کی گرد میں کھو گیا تھا جسے 1921 میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ سرجان مارشل نے دریافت کیا، یہاں کے کھنڈرات ٹاﺅن پلاننگ کے ابتدائی شواہد کا حال دکھاتے ہیں اور مانا جاتا ہے کہ اپنے عہد میں یہ شہر ہندوستان کا بااثر ترین ہوگا کیونکہ یہاں کے باسیوں کا رہن سہن اس دور کے لحاظ سے کافی جدید تھا، آج یہ مقام عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔


##ممفس، مصر

— وکی پیڈیا فوٹو
— وکی پیڈیا فوٹو

یہ انسانی تاریخ کے چند عظیم ترین شہروں میں سے ایک تھا جسے فرعونوں کے پہلے خاندان نے 31 قبل مسیح کے زمانے میں دارالحکومت کے لیے تعمیر کیا تھا اور یہاں اب بھی اس کے تابناک ماضی کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں جیسے پتاہ کا عظیم مندر اور فرعونوں کے شاہی محلات وغیرہ، آج یہ کھنڈرات غزہ کے اہرام کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ بن چکے ہیں۔


##ماچو پیچو

وکی پیڈیا فوٹو
وکی پیڈیا فوٹو

یہ ایسی جگہ ہے جس سے بیرونی دنیا اس وقت تک لاعلم رہی جب تک امریکی تاریخ دان نے 1911 میں اسے دریافت نہیں کرلیا، ماچو پیکچو کو آج ماضی کی تہذیب کا سب سے معروف مقام سمجھا جاتا ہے، جسے انتہائی بلندی پر بہت مہارت سے چھپایا گیا تھا کہ لاطینی امریکی ملک پیرو پر حملہ کر کے قابض ہونے جانے والے ہسپانوی حملہ آوروں کو بھی کبھی اس کے بارے میں علم نہیں ہوسکا۔


##پیٹرا

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اردن کا یہ تاریخی عجوبہ پہاڑوں کو کاٹ کر کی جانے والی تعمیرات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، پہاڑوں کے رنگ میں کیموفلاج ہوجانے کے باعث یہ تاریخی شہر مغربی دنیا کی نظروں سے 1812 تک اوجھل رہا، کہا جاتا ہے کہ یہ شہر ممکنہ طور پر پانچویں قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا، آج یہ اپنی پُرہیبت عمارات کے باعث سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔


##اینکور

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ جنوب مشرقی ایشیاء کا سب سے اہم تاریخی مقام سمجھا جاتا ہے جو کہ کمبوڈیا کے 155 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا ہوا کھنڈرات پر مشتمل شہر ہے جس میں مشہور زمانہ اینکور واٹ مندر بھی شامل ہے۔ یہ کھمیر بادشاہت کا دارالحکومت تھا جو 9 سے پندرہویں صدی تک اس خطے پر حکمران رہے تاہم ان کے بعد یہ دنیا کی نظروں سے مختلف وجوہات کی بناء پر اوجھل ہوگیا اور لگ بھگ کئی صدیوں تک ویران پڑا رہا جس کے بعد ماہرین آثار قدیمہ انیسویں صدی میں اسے جنگلات سے نکال کر دنیا کے سامنے لائے، جبکہ اس کی مرمت کا کام اب تک جاری ہے۔


##میسا وردے

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ماضی کے پیوبلو افراد کی یہ تاریخی اور زبردست بستی ایک پہاڑی کے سائے تلے تعمیر کی گئی تھی، درحقیقت میسا وردے کو دنیا میں پہاڑی سے بنا سب سے بہترین مقام قرار دیا جاتا ہے، امریکا میں واقع اس مقام کو 1874 میں دریافت کیا تھا اور اس کے 4400 مقامات کو نیشنل پارک کا درجہ قرار دے دیا گیا ہے۔


##گریٹ زمبابوے

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ ملکہ شیبا کا دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے، گریٹ زمبابوے ایک کھنڈر شہر ہے جو صدیوں زمبابوے میں بادشاہوں کا دارالحکومت تھا، جسے بنٹو تہذیب نے تعمیر کیا، یہ عظیم شہر کسی دور میں اہم تجارتی مرکز بھی سمجھا جاتا تھا۔


##ٹکال

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ نا صرف تاریخی مایا شہروں میں سب سے بڑا تھا بلکہ صنعتی دنیا سے قبل ایک سب سے بڑا شہر بھی تھا، یہ شہر 200 سے 900 عیسوی کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا جب اس خطے میں سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے مایا قوم چھا چکی تھی، آج یہاں کے مندر ابھی بھی ملحقہ جنگلوں کے باوجود دور دراز سے دیکھے جاسکتے ہیں۔


##ٹرائے

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

کون ہے جو اس قدیم یونانی شہر کی کہانی سے واقف نہیں اب اس میں کتنی سچائی تھی اس سے قطع نظر یہ شواہد موجود ہیں کہ 1250 قبل مسیح میں اس قدیم شہر میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھا جو اس کے عظیم قلعے کے منہدم ہونے کا باعث بھی بنا، جس سے ٹروجن جنگ کافی حد تک حقیقی محسوس ہونے لگتی ہے۔


##وجے نگر

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

وجے نگر ہندوستان کی سب سے بڑی اور طاقتور بادشاہت کا امیر ترین دارالحکومت تھا، یہ ہندو دنیا کا دل سمجھا جاتا تھا تاہم 1565 میں مسلمانوں نے اسے فتح کر کے ڈھا دیا اس کے بعد یہ کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے اور آج اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا جاچکا ہے۔


##بابل

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

عراق کا یہ تاریخی شہر جس سے کئی حکایات جڑی ہوئی ہیں اور مانا جاتا ہے کہ یہاں ایک زمانے میں معلق باغات لہراتے تھے، جسے دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیا گیا تھا اور اپنے عروج کے دوران بلاشبہ اسے تعمیراتی عجوبہ سمجھا جاتا تھا، تاہم وقت کے ساتھ یہ تباہ حالی کا شکار ہو کر اب کھنڈر کی شکل میں ڈھل چکا ہے۔


##قرطاج

فوٹو وکی پیڈیا
فوٹو وکی پیڈیا

قرطاج یا قرطاجنہ یا قرطاجہ موجودہ تیونس شہر کے قریب فونیقیوں کا ایک شہر تھا جو 814 قبل مسیح میں آباد کیا گیا، آج صرف اس کے آثار باقی ہیں۔ یہ سلطنت قرطاج کے عہد میں قائم کیا گیا شہر تھا، جس کا تیسری صدی ق م میں یونانیوں سے ٹکراؤ ہوا تھا اور 218 تا 201 ق م میں قرطاجنہ کے ہنی بال نے روم پر چڑھائی کی تاہم حتمی شکست سے ہسپانیہ اور دیگر علاقے قرطاجنہ کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ 146 ق م میں رومیوں نے قرطاجنہ کو تباہ کر دیا۔ قرطاجنہ کا عظیم شہر سفید سنگ مرمر اور مختلف رنگ کے سنگ رخام سے تعمیر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اسی شہر کے باقی آثار سے تیونس شہر آباد کیا۔


##کارل

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

امریکا کا سب سے قدیم شہر جس کی سب سے بڑی بستی وادی سیوپے، پیرو میں واقع تھی۔ اس کے کھنڈرات میں بڑی عمارات اور یادگاری تعمیرات کے شواہد ملتے ہیں جس میں چھ بڑے اہرام جیسے اسٹرکچر قابل ذکر ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کی جنگ کے آثار نہیں ملتے اور مانا جاتا ہے کہ کارل ایک انتہائی مہذب معاشرے پر مشتمل شہر تھا جو تجارت اور تفریح کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔


##پومپی

تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

موجودہ دور کے اطالوی شہر نیپلز کے قریب واقع یہ قدیم رومن شہنشاہیت کا شہر 79 عیسوی میں ماﺅنٹ ویسویوز کا آتش فشاں پھٹنے سے آناًفاناً صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا، لاوے اور راکھ نے اتنی جلدی اس شہر کو لپیٹ میں لیا کہ اب بھی اس کے شواہد پومپی کے کھنڈرات میں دیکھے جاسکتے ہیں، آج یہ کھنڈر شہر عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔