تھر: قصبو اور چوریو کا حقیقی جادو

تھر جانے کا موقع کسی کے اندر موجود خانہ بدوش کی بے چینی کو سکون میں بدلنے کا سبب بنتا ہے، متعدد بڑے قصبوں کے باوجود تھر تاحال اپنے خوش نما مناظر اور حقیقی سادگی کو برقرار رکھے ہوئے، سڑکوں کے نیٹ ورکس اور دیگر انفراسٹرکچرکی کمی نے معاشی سرگرمیوں کو تو ضرور متاثر کیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس سے مقامی افراد کو اپنے اصلی طرز زندگی کو محفوظ رکھنے میں بھی مدد ملی ہے۔

اس مشکل وقت میں تھر کے باسیوں کی مدد کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہاں کے نمایاں، پرتنوع اور رنگارنگ معاشرے کی روایات میں مداخلت نہ کریں۔

ہندوستانی سرحد کے قریب واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں قصبو تھر کی زبردست کشش کا لب لباب بھی سمجھا جاسکتا ہے، جہاں موسیقی اور مور تھر کے بنجر صحرا میں نیم اور کیکر کے درختوں کے سائے تلے زندگی میں سکون بھر دیتے ہیں، اگرچہ ہم سینکڑوں میل ڈرائیو کرکے یہاں پہنچے مگر اس جگہ کے جادو نے ساری تھکن ایک لمحے میں دھو کر رکھ دی، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رہائشی ہر روز نئے جوش سے جاگتے ہیں۔

ننگر پارکر سے قصبو پہنچنے میں ہمیں چالیس منٹ لگے، اس چھوٹے سے گاﺅں میں بیشتر جھونپڑیاں مٹی سے تیار کی گئی ہیں جن کی چھتیں بھوسے سے بنی ہوئی ہیں، یہاں کے گلی کوچے تنگ اور ایک وقت میں ایک ہی گاڑی ان میں سے گزر سکتی ہے، ہم نے ان میں سے ہی ایک گلی میں مور کو سرتانے دیکھا، یہ جنگلی مور قصبو کے ارگرد موجود گھاس کے قطعات میں بستے ہیں اور یہاں کے مناظر کو روشن اور شگفتہ بنا دیتے ہیں۔

ہم نے اپنا پہلا اسٹاپ سلدار مندر میں کیا جس کا احاطہ کافی چھوٹا ہے۔

یہ مندر جنگلی موروں کے اجتماع کی وجہ سے مشہور ہے جو یہاں پانی پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہاں کے نگران نے ہمیں بتایا کہ ان موروں کو کھانے کے لیے بھی کافی کچھ دیا جاتا ہے، اس مندر کو مجسموں، پھولوں، پرچموں اور یاتریوں کی دیگر چیزوں سے سجایا گیا ہے۔

یہاں کے نگران نے ہمیں اس جگہ کی تاریخ کے بارے میں زیادہ نہیں بتایا مگر اس کا اصرار تھا کہ یہ سینکڑوں برسوں سے موجود ہے، یہاں ایک تیس فٹ گہرا کنواں بھی مندر کے ساتھ واقع ہے، بعد میں، ہم نے دریافت کیا کہ اس طرح کے کنویں پانی کو ترستے تھر میں جگہ جگہ کھدے ہوئے ہیں، جن میں سے بیشتر حالیہ برسوں میں بارشوں کی کمی کے باعث سوکھ چکے ہیں۔

ہم مندر کے احاطے میں بلامقصد گھوم رہے تھے، مور ہمارے ساتھ دوڑ رہے تھے، جن میں سے کچھ اڑ کر درختوں پر بھی جابیٹھے، ان کی روایتی 'پیہو پیہو' اس پرسکون مقام پر گونجنے والی واحد آواز تھی۔

موسیقاروں کا ایک گروپ مندر کے داخلی دروازے کے قریب جمع ہوگیا اور قصبو کے نابینا فنکار محمد یوسف نے ایک لوک گیت سنایا، یوسف کے ساتھیوں ہے ہارمونیم اور ڈھول سے تال دی، وہ نابینا ضرور ہیں مگر ان کی انگلیاں ہارمونیم پر دوڑنا جانتی ہیں اور ایسا نظر آتا تھا کہ ہر انگلی بالکل درست انداز میں تاروں سے ٹکرا رہی ہیں، یہ جادوئی اثر تھا، اس خواب آور سہ پہر میں ہم تھر کے جادو کا جشن منا رہے تھے۔

یوسف کے چہرے پر موجود جھریاں عجب انداز سے ببول کی شاخوں سے مشابہہ لگ رہی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ ان کا اس دور سے کوئی تعلق نہیں۔

یوسف نے اس کے بعد کبیر کی ایک نظم گا کر سنائی جس کی کشش اب بھی عام عوام میں موجود ہے اور سرحد کے دونوں جانب اسے پسند کیا جاتا ہے۔

یہاں سے ہم رام دیو مندر کی جانب پیدل گئے جہاں ہمارا سامنا اس قصبے کے ایک اور دلربا کشش سے ہوا، اس وقت جب ہم لیموں کے باغیچے سے گزر رہے تھے تو ہم نے ایک خشک کنویں کے پاس شاندار سنگوں والی تھری گائیوں کا ایک جوڑا دیکھا۔

رام دیو مندر کا احاطہ بہت بڑا تھا اور یہاں سیمنٹ سے تیار کردہ پلیٹ فارم بھی موجود ہے جسے 19 ویں صدی کی ایک شخصیت کی یاد میں تعمیر کیا گیا جبکہ یہاں کی موجودہ مندر 1985 میں دوبارہ تعمیر ہوئی، ٹھنڈی مگر غبار بھری ہوا نیم کے درختوں سے ٹکراتے ہوئے گشت کر رہی تھی جس سے ایک عجیب آواز پیدا ہو رہی تھی۔

مقامی افراد کا ایک گروپ پلیٹ فارم پر بیٹھا اطمینان سے گپ شپ لگانے میں مصروف تھا، ان میں سے ایک نے ہمیں یہاں کا ایک پودا دکھایا اور پھر بتایا کہ اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے، وہاں سے ہم واپس اپنی گاڑیوں میں گئے۔

ہماری اگلی منزل چوریو تھی جو کہ انڈین سرحد سے ممکنہ طور پر سب سے قریبی بستی بھی ہے، یہ ایک جگہ ہے جس کی وجہ یہاں کی گرینائٹ کی چٹان پر واقع کالی کا مندر ہے۔

یہ مندر ایک قدرتی عجوبہ بھی سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسے عظیم ہوا میں معلق پتھر کے درمیان موجود خلاء میں واقع ہے جو ایک معمولی سے سہارے کے درمیان میں ٹکا ہوا ہے۔

اس کی بلندی تک جانا حال میں تعمیر کردہ سیڑھیوں کی بدولت آسان ہوگیا ہے، یہاں مندر کے باہر نظارے کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی ہے جہاں سے آپ ہندوستانی سرحد کی باڑوں کی جھل دیکھ سکتے ہیں، ہم غار کے اندر گئے جہاں ہمارا استقبال مندر کے نگران نے کیا۔

وہ اس مندر کی تاریخ سے تو زیادہ واقف نہیں مگر اس کا دعویٰ تھا کہ یہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے، یہاں درگا کا سیمنٹ سے بنا ایک مسجمہ شیر کے اوپر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔

ہم یہاں سے باہر نکلے اور چٹان کی چوٹی کا رخ کیا، جہاں سے ہم نے سرحدی باڑوں اور اس دور تک رن آف کچھ کے خالی مگر کشادہ صحرا کو دیکھا، یہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ سورج غروب ہوتے ہی یہ باڑیں روشنی سے جگمگا اٹھتی ہیں۔

ہم چٹان کی دوسری جانب سے چوریو گاﺅں کو بھی دیکھ سکتے ہیں، ہم چوٹی پر ہی کافی دیر خاموش بیٹھے رہے اور مغرب میں سورج کو غروب ہوتے دیکھتے رہے، یہ منظر سرحد کی دونوں جانب ایک جیسا ہی ہوتا ہے، جس نے ہمیں یہ سوچنے پر حیران کردیا کہ قدرت انسانوں کے مقابلے میں کتنی مہربان ہے، جو روزانہ اپنے لاتعداد عجائب کا اظہار کرتی ہے مگر ہم اور ہماری محدود سوچ ہماری پسند و ناپسند کے مطابق انتخاب کرتی ہے۔

سورج غروب ہونے کے بعد ہم نے اس توقع کے ساتھ ننگرپارکر کا رخ کیا ہے کہ ہم جلد ان علاقوں میں دوبارہ آئیں گے۔