دنیا جلد محروم ہوجائے گی ان زبردست جانوروں سے

دنیا جلد محروم ہوجائے گی ان زبردست جانوروں سے

سعدیہ امین اور فیصل ظفر


دنیا میں اکثر لوگ اس بات سے پریشان رہتے ہیں کہ ان کے بچے گھروں کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں اور وہ ٹیلیویژن اور ڈیجیٹل ڈیوائسز سے اپنے بچوں کی جنگ ہار رہے ہیں حالانکہ بچوں کو گھروں سے باہر نکالنے پر زور دیا جاتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ والدین بچوں کو موبائلز کے جال سے نکال کر باہر لے بھی جائیں تو باہر کی دنیا میں انہیں کیا نیا دیکھنے کو ملے گا درحقیقت ہمارے اس رنگا رنگ کرہ ارض کی رنگینی عطا کرنے والی جنگلی حیات کا بڑا حصہ تو ہمارے ہی ہاتھوں تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے بلکہ چھوٹے اور غیر اہم کو تو چھوڑیں ہماری اپنی ہی زندگی میں ایسے اہم ترین جانوروں کے خاتمے کا خطرہ ہے جن کو دیکھتے اور ان کی کہانیاں سنتے ہوئے ہم پلتے بڑھتے ہیں مگر ہمارے بچے ممکنہ طور پر انہیں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔

ایک چونکا دینے والی رپورٹ (ڈبلیو ڈبلیو ایف اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن) نے جنگلی حیات کے بارے میں رونگھٹے کھڑے کردینے والے انکشافات کیے ہیں جس میں سب سے اہم تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں 1970 کے بعد سے ہر طرح کے جانوروں کی مجموعی آبادی میں 52 فیصد تک کمی آئی ہے۔

اور آپ ان جانوروں کے بارے میں جانیے جو ہوسکتا ہے جلد ہی محض ان تصویروں کی حد تک ہی آپ دیکھنے کے قابل ہوسکیں کیونکہ دنیا میں تو ان کا خاتمہ لگ بھگ ہو ہی چکا ہے۔

تتلیاں

— آن لائن فوٹو
— آن لائن فوٹو

کون شخص ہے جو اس رنگا رنگ کیڑے کی محبت میں گرفتار نہ ہو اور اس کی دید کو پسند نہ کرتا ہو آپ نے بھی یقیناً اپنے بچپن میں ان کے پیچھے بھاگ کر کافی وقت گزارا ہوگا مگر آپ نے کبھی غور کیا کہ ہمارے لڑکپن میں جگہ جگہ نظر آنے والی تتلیاں اب باغات تک میں بہت کم نظر آتی ہیں؟

زیادہ امکان یہی ہے کہ زندگی کی مصروفیت نے آپ کو اس بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہ دیا ہو مگر حقیقت تو یہی ہے کیڑے مار ادویات کے بے تحاشہ استعمال اور جنیات کے استعمال سے تیار کی گئی فصلوں نے ان خوبصورت تتلیوں کا صفایا کرکے رکھ دیا ہے، ایک وقت تھا دنیا کو چھوڑیں صرف براعظم امریکا میں ہی اربوں کی تعداد میں تتلیاں اڑتی پھرتی تھیں مگر 1995 یا صرف بیس سال سے بھی کم عرصے میں ان کی نسل کا نوے فیصد صفایا ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں بمشکل یہ چند کروڑ یا زیادہ سے زیادہ ایک ارب تک ہی رہ گئی ہوگی جس کے بھی جلد ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

برفانی ریچھ

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

زمین کے سب سے بڑے گوشت خور شکاری درندہ بننا آسان نہیں مگر برف زاروں میں پائے جانے والے ان ریچھوں کو یہ خطاب مل چکا ہے جن کے لمبے ناخن وہیل مچھلی تک کا کام تمام کرسکتے ہیں، ایک مکمل بالغ برفانی ریچھ کا وزن آدھے ٹن سے زیادہ ہوسکتا ہے جس میں زیادہ حصہ چربی کا ہی ہوتا ہے مگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف کے پگھلاﺅ میں اضافے اور ان کے پسندیدہ شکار سیلز کی کمی نے انہیں بقاء کی جدوجہد پر مجبور کردیا ہے۔

یہ ریچھ ایک وقت میں سو پونڈز تک گوشت کھا سکتے ہیں مگر خوراک کی کمی کے باعث یہ ایک سے دوسری جگہ تیرتے ہوئے جانے کی کوشش میں ڈوب کر مرجاتے ہیں جبکہ شکاریوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد الگ ہے۔

شہد کی مکھیاں

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ماہرین اس کا ذمہ دار کھیتوں میں استعمال کی جانے والی کیڑے مار ادویات کو قرار دیتے ہیں۔ کیڑے مار ادویات میں موجود کیمیائی مادے شہد کی مکھیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

30 برس قبل امریکہ میں موجود شہد کی مکھیوں کی تقریباً 40 لاکھ کالونیاں موجود تھیں لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر صرف 20 لاکھ تک رہ گئی ہے۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کیڑے مار ادویات ہیں۔

گریٹ وائٹ شارک

— اے پی فوٹو
— اے پی فوٹو

گرم خون کی یہ سمندروں کی سب سے بڑی شکاری مچھلی جو پانیوں سے 35 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چھلانگ لگا سکتی ہے مگر شکار کے لیے استعمال کیے جانے والے کمرشل نیٹس یا جال نے انہیں شدید نقصان پہنچایا ہے، شارک مچھلی کا شکار دنیا کے بیشتر ممالک میں غیرقانونی قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کی نسل کے خاتمے کا خطرہ ہے تاہم اس کے بعد ہر سال سینکڑوں شارکس انسانوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔

شارکس مچھلیوں کی نشوونما کافی سست ہوتی ہے اور انہیں مکمل شعور حاصل کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے جبکہ ان کے ہاں افزائش نسل کی شرح کی بہت کم ہے، ایک اندازے کے مطابق گزشتہ بیس سال کے دوران گریٹ وائٹ شارک کی تعداد میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے، شکار کے علاوہ سمندر میں خام تیل کے پھیلاﺅ نے بھی انہیں کافی متاثر کیا ہے۔

ہاتھی

— آن لائن فوٹو
— آن لائن فوٹو

کرہ ارض کی سطح زمین کا سب سے بڑا اور بھاری جانور جو غصے میں ہو تو بے پناہ تباہی مچا سکتا ہے، درخت کیا بھاری بھاری چٹانیں بھی اس کی ٹکر برداشت نہیں کرسکتے مگر اس بات کا خدشہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کہ چڑیا گھر میں بچوں کا سب سے پسندیدہ یہ جانور ہماری اگلی نسل دیکھنے سے محروم رہ جائے گی۔

ایک اندازے کے مطابق 2002 کے بعد سے جنگلوں میں پائے جانے والے ہاتھیوں کی تعداد میں ساٹھ فیصد کمی آئی ہے اور اب ان کی مجموعی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ہاتھیوں کو افریقی جنگلات کی کٹائی اور ہاتھی دانت کے لیے ان کے شکار کے باعث خاتمے کا خطرہ درپیش ہے۔

ٹائیگر یا بنگال شیر

— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

زرد اور سیاہ دھاریوں والا یہ پرہیبت اور خوبصورت درندہ دیکھنے میں چاہے کتنا بھی خوفناک اور انسانوں کا شکار کرنے میں بدنام ہو مگر ہماری نسل کے افراد نے ہی اسے خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ چینی ادویات ساز مارکیٹ کے لیے اس کے بے تحاشہ شکار نے گزشتہ سو برسوں کے دوران ٹائیگر کی 97 فیصد آبادی کا خاتمہ کردیا ہے اور اب جنگلوں میں اس کی تعداد ایک تخمینے کے بعد 3200 ہی رہ گئی ہے۔

افریقی شیر

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

افریقہ ویسے تو جانوروں کی جنت ہے مگر ان کا بادشاہ شیر ہی ہے جس کی حکمرانی کو چیلنج کرنا کسی جانور کے بس کی بات نہیں۔ ببر شیر اور شیرنیوں پر مشتمل اس کے گروپس لگ بھگ ہر افریقی ملک کے جنگلات یا وسیع میدانوں میں پائے جاتے ہیں مگر یہ پرشکوہ شکاری جانور بھی شکاریوں اور اعضاء کے حصول کے لیے بے تحاشہ شکار ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق چالیس برسوں کے دوران انسانوں نے افریقی شیر کی نوے فیصد نسل کا صفایا کردیا ہے اور اب ان کی تعداد سترہ ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے جس کا بھی آئندہ چند برسوں میں خاتمے کا امکان ہے۔

شارٹ بیکڈ ڈولفن مچھلی

— وکی میڈیا کامنز
— وکی میڈیا کامنز

یہ خوبصورت اور انسان دوست مچھلی بچوں بڑوں سب میں بہت مقبول ہے مگر شکاریوں کو بھی یہ کچھ زیادہ ہی پسند ہے جب ہی تو نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک نوے فیصد ڈولفنز کو مارا جاچکا ہے اور اب ان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ مختلف مچھلیوں کے شکار کے دوران ان کا مارا جانا ہی ڈولفن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔

لیدر بیک کچھوے

— رائٹرز فوٹو
— رائٹرز فوٹو

سمندر میں پائے جانے والے یہ خوبصورت کچھوے بھی خاتمے کے قریب پہنچ گئے ہیں، کمرشل فشنگ جال کے بے تحاشہ استعمال کے نتیجے میں ان کی 95 فیصد آبادی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اب دنیا میں ان کی تعداد محض دس ہزار کے قریب ہی رہ گئی ہے اور ماہرین کے مطابق اگر احتیاطی تدابیر نہ کی گئی تو اس کچھوے کو دنیا سے معدوم ہونے کے لیے چار سے پانچ سال سے زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔

گینڈے

— وکی پیڈیا فوٹو
— وکی پیڈیا فوٹو

گینڈے جو اپنی عظیم جسامت اور پیشانی پر ابھرے ایک سینگ کی بدولت جانے جاتے ہیں اب خاتمے کے قریب ہیں، ان کی مختلف نسلوں کا تو پہلے ہی خاتمہ ہوچکا ہے اور جو باقی بچی ہیں وہ بھی اپنے سینگوں کے باعث شکاریوں کے لیے مرغوب ہدف ثابت ہوتے ہیں۔

گینڈوں کے بے تحاشہ شکار کے باعث خدشہ ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران یہ جانور جنگلات کی بجائے صرف چڑیا گھروں کی حد تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گا اور وہاں بھی ان کی نسل زیادہ عرصے تک اپنی بقا کی جدوجہد جاری نہیں رکھ سکے گی۔

نارتھ پیسیفک رائٹ وہیلز

— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

وہیل مچھلی کی یہ قسم دنیا میں خطرے سے دوچار جانوروں میں سے ایک ہے، مختلف اندازوں کے مطابق ان کی تعداد امریکی پانیوں میں صرف 30 ہی رہ گئی ہے جبکہ 60 کی دہائی میں یہ تعداد تیس ہزار تھی تاہم نامعلوم وجوہات یا شکار کے باعث یہ خوبصورت مچھلی جلد ہی محض اپنی تصویروں تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔