گرو ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی استاد یا پیشوا کے ہوتے ہیں۔ لیکن اس لفظ کو اصل فروغ سکھ مت کی وجہ سے ملا۔ سکھوں کے مذہبی پیشواؤں کو گرو کہتے ہیں جیسے سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی مطبوعہ اردو لغت کے مطابق سکھ مذہب کی کتاب کو گرو پرنالی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی مذہبی عبادت گاہ کو گرو دوارہ کہتے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب کا عام فہم نام گرو گرنتھ ہے۔ گرو دیو بھی ایک نام ہے یعنی بڑا گرو۔ اردو اور ہندی میں گرو گھنٹال کا چلن بھی عام ہے جو عموماً منفی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ تو ہوگئے لفظ گرو کے معنی اور مختلف استعمال۔ کراچی میں بسنے والے کروڑوں افراد میں شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جسے گرو مندر کے محل وقوع کا علم نہ ہو یا وہ کبھی اس چوک سے نہ گزرا ہو۔ ہمارا شمار بھی ان افراد میں کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دل میں ہمیشہ ایک خواہش رہی کہ گرو مندر کا چوک تو دیکھا ہوا ہے، کبھی گرو مندر بھی ہو آئیں۔ جب بھی مزارِ قائد کے سامنے واقع قائد اعظم اکادمی سے کسی دستاویز کی فوٹو اسٹیٹ کروانی ہوتی تو گرو مندر چوک پر فوٹو اسٹیٹ کے لیے جاتے۔ چوک کے اطراف میں ایک بہت بڑی مسجد ہے جسے سبیل والی مسجد کہا جاتا ہے موجود ہے، جبکہ دائیں جانب ایک گول ٹائپ مارکیٹ ہے جس میں ایک یتیم خانہ، اور پوشیدہ سی گوشت اور سبزی مارکیٹ ہے، لیکن مندر کہیں نہیں۔

ہمارے پاس موجودہ جمشید ٹاؤن کا ادھورا اور سابقہ جمشید کوارٹر کا 1971 کا مکمل نقشہ بھی موجود ہے لیکن اس نقشے میں بھی کہیں گرو مندر نظر نہیں آیا۔ یہ نقشہ لے کر ہم اپنے ایک دوست صحافی کفیل فیضان کے توسط سے جمشید ٹاؤن کے دفتر پہنچے اور وہاں شعبہ تعلقات عامہ کے فرحان صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے نقشہ دیکھنے سے قبل ہی یہ بتا دیا کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گرو مندر چوک تو ہے لیکن گرو مندر نہیں ہے۔ ہاں البتہ گرو مندر سے سولجر بازار کی جانب جاتے ہوئے ایک مندر ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ سبیل والی مسجد کے ساتھ ایک گلی میں گرو کا مندر ہے۔

خیر ہم اور ہمارے ساتھی ولید احسان اگلے دن گرو مندر کے علاقے میں پہنچے۔ سبیل والی مسجد کی عقب والی گلی، جو انتہائی چھوٹی سی ہے، میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے مندر کا پتہ پوچھا تو انہوں نے گرو مندر چوک پر گول مارکیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا کہ مندر مارکیٹ کے درمیان میں ہے۔ مارکیٹ کے مرکز میں پہنچے تو وہاں کوئی مندر نہیں تھا۔ وہاں موجود ایک صاحب سے معلوم کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ پیپلز سیکریٹیریٹ سے متصل سڑک جو کشمیر چوک کی جانب جا رہی ہے، اس پر تھوڑا سا آگے جا کر دائیں جانب ایک پیٹرول پمپ ہے اس کے ساتھ ہی گرو مندر ہے۔

ہم فوراً اس جانب چل دیے۔ وہاں پیٹرول پمپ پہنچے۔ وہاں پر موجود ایک صاحب سے مندر کے بارے میں دریافت کیا تو پہلے انہوں نے ہمیں سولجر بازار والے مندر کے بارے میں بتایا۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ اس مندر کا ہمیں پتہ ہے لیکن وہ گرو مندر نہیں ہے۔ چند لمحوں کے لیے وہ سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے مجبوراً پان تھوکتے ہوئے کہا 'بھائی جان اسلامیہ کالج کے سامنے گولہ دیکھا ہے؟' ہم نے کہا گولہ؟ وہ پھر بولے 'ہاں گولہ۔' ہم نے حیران ہو کر کہا کون سا گولہ؟ وہ بولے دنیا کا گولہ۔ بات ہماری سمجھ میں آرہی تھی، ان کا اشارہ داؤد انجینئرنگ کالج کے سامنے لگے ہوئے دنیا کے نقشے کی طرف تھا۔

ہم نے اقرار کیا کہ ہاں گولے پر پہنچ گئے۔ پھر وہ بولے، تین سے چار گلیاں کراس کر کے الٹے ہاتھ پر ایک گلی آئے گی۔ اس میں داخل ہوجائیں سامنے مندر ہے۔ اب داؤد انجینئرنگ کی مخالف سمت پر موجود سڑک پر پہنچے ایک گلی وہاں تو ہر گلی میں رکاوٹیں لگی ہوئی تھیں۔ خیر ایک گلی سے علاقے میں داخل ہوئے۔ 3 سے 4 گلیاں کراس کرنے کے بعد ہمیں ایک مندر نظر آگیا۔ مندر کو دیکھتے ہی سکون کا سانس لیا۔ مرکزی دروازے پر ایک تختی آویزاں تھی:

دروازہ اندر سے بند تھا۔ چاروں جانب خاموشی تھی۔ گھنٹی بجانے پر اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی کون؟ ہم نے مشرقی روایات کے مطابق معلوم کیا کہ گھر میں کوئی مرد ہے؟ اندر سے آواز آئی نہیں، کیا بات ہے؟ ہم نے کہا مندر کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہے۔ خاتون نے کہا کہ ان کے شوہر اس وقت گھر میں نہیں ہیں، دیر سے آئیں گے۔ ہم نے کہا کہ ان کا موبائل فون نمبر دے دیں۔ وہ بولیں میں لے کر آتی ہوں۔ کچھ دیر بعد ان کی آواز آئی، بھائی نمبر میرے پاس نہیں ہے۔ آپ صبح 8 بجے آجائیں۔ ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ یا پھر ہفتے کے دن آجائیں، اس دن ان کی چھٹی ہوگی۔

گرو مندر تلاش کرنے کی ہماری امید مندر پر لگی تختی پڑھ کر دم توڑ چکی تھی۔ مندر پر لگی تختی پر صاف لفظوں میں لکھا تھا ”شری شیوبائی شیوالا“ یعنی یہ گرو مندر نہیں بلکہ ”شیو“ کا مندر تھا۔

اس پورے عمل کے دوران ملیشیا لباس میں ملبوس ایک سکیورٹی گارڈ ہمارے پاس منڈلاتا رہا۔ جب ہم واپس لوٹنے لگے تو اس نے ہماری آمد کا مقصد دریافت کیا تو ہم نے اسے بتایا کہ ہم گرو مندر کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ان کا چہرہ اچانک روشن ہوگیا۔ وہ بولے کہ 10 سے 12 سال پہلے یہاں کچھ ہندو خواتین آتی تھیں، لیکن اب نہیں آتیں۔ ان کی گفتگو کا اگلہ حصہ انتہائی خوف ناک تھا۔ خاں صاحب بولے یہ عورت جس سے تم ابھی بات کیا ہے اس کا ایک بھائی ڈی ایس فی (پی) ہے دوسرا کسٹم میں ہوتا ہے۔ ادھری اگر ان لوگ کا شک ہوجائیں گا تو رینج رز (رینجرز) آجائے گا۔ ابھی دیکھو ام (ہم) اتنا ٹیم (ٹائم) سے ادھری (ادھر) گارڈ ہے۔ فولیس (پولیس) کو اگر بتاوے گا ادھر وارادات (واردات) ہوا ہے نئی (نہیں) آئے گا۔ مگر خدا قسم یہ ایک فون کرے تو سبھی آجائے گا۔

ہم نے ان کی بات سن کر ان سے صدر جانے کا راستہ پوچھا اور یوں ہم پریس کلب کی جانب روانہ ہوگئے۔ پریس کلب پہچنے کے بعد جب ہم نے اپنے دوست ماہر تعلیم پروفیسر کرن سنگھ سے اس مندر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ”شیوالا“ مندر کو بھی کہتے ہیں اور”شیو“ کے مندر کو بھی کہتے ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے احاطے میں واقع ایک مندر کے پجاری وجے مہاراج سے جب ہم نے گرومندر کی بابت معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ گرومندر چوک تو ضرور ہے لیکن اس علاقے میں گرومندر نامی کوئی مندر نہیں ہے۔

ہفتے کے دن میں اپنے ایک ساتھی عبدالوہاب حسن کے ساتھ مذکورہ مقام پر پہنچا۔ اس وقت دن کے تقریباً 12 بج رہے تھے۔ گھنٹی بجانے پر ایک صاحب نے دروازہ کھولا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے کہا کہ ہم مندر کے بارے میں کچھ معلومات لینے آئے ہیں۔ انہوں نے دوبارہ ہاتھ جوڑے اور کہا آجائیے۔ ہم اندر داخل ہوگئے۔ وہ خود مندر کے فرش پر بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ ایک ملاقاتی بھی تھا۔ ملاقاتی کی طرف ہاتھ جوڑ کر معذرت کی اور دوبارہ ہماری جانب ہاتھ جوڑ کر ہمیں ایک بار پھر خوش آمدید کہا اور اس کے بعد اپنے بیٹے کو آواز دی کہ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے ”رلّی“ (ایک سندھی چادر جو عموماً مہمانوں کو بٹھانے کے لیے فرش پر بچھائی جاتی ہے) لانے کے لیے کہا لیکن ہم تب تک مندر کے فرش پر بیٹھ گئے تھے اس لیے ان کا بیٹا ہمارا منہ ہی تکتا رہا۔

سنتوش صاحب نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر ہمارے آنے کا مقصد معلوم کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ”گرومندر“ کی تلاش میں آئے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ گرومندر چوک تو ہے لیکن گرو کا مندر کہاں ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اپنے مندر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 1992 میں جب بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تو اس کے ردِ عمل میں اس مندر کو بھی مسمار کر دیا گیا، یہاں تک کہ پجاری کشن چند نے بمشکل اپنی جان بچائی اور یہاں سے بھاگ نکلا۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ یہ مندر شیوالا کیوں ہے تو انہوں نے بتایا کہ شیوالا اس مندر کو کہتے ہیں جو شیو جی کا مندر ہو لیکن اس میں گئو (گائے) بھی موجود ہوں۔ مندر کے ساتھ والا جو پلاٹ آپ دیکھ رہے ہیں جس پر اب ایک کار شو روم والے کا قبضہ ہے دراصل یہاں پر گائے باندھی جاتی تھیں اور ان کے لیے پانی کا بندوبست بھی ہوتا تھا۔ لیکن بابری مسجد کے واقعے کے بعد یہ حصہ مندر سے جدا کر دیا گیا اور اب وہاں کاروں کا شو روم ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کیا یہ ”گرومندر“ ہے تو انہوں نے ایک بار پھر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ گرو کا مندر نہیں ہے۔

کافی دنوں بعد ہم اپنے فوٹو جرنلسٹ دوست آصف حسن (جو ایک مظاہرے کی کوریج کرتے ہوئے گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے) کی عیادت کے لیے آغا خان اسپتال گئے۔ وہاں سے واپس لوٹتے وقت ہمارے دوست فوٹو جرنلسٹ اختر سومرو ہمارے ہمراہ تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ گرومندر ہوتے ہوئے چلتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہو لیے۔ ”گرومندر“ پہنچ کر ہم نے ایک بار پھر لوگوں سے مندر کا پتہ دریافت کیا مگر لوگ ”گرومندر“ کے وجود سے انکاری تھے۔

ہم سبیل والی مسجد کی پچھلی گلیوں کی جانب گئے۔ ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک اختر سومروصاحب نے رکنے کو کہا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار ہنگاموں کے دوران ٹھیک اسی مقام پر ہمارے ساتھی فوٹو جرنلسٹ نعیم الحق کی موٹر سائیکل نذر آتش کی گئی تھی۔ اس جگہ کا دیدار کر کے ہم لوٹنے لگے تو ایک بار پھر اختر سومرو کی آواز آئی، رکو!! ہم نے کچھ جنجھلا کر کہا اب کیا ہوا۔ انہوں نے گلی کے کونے پر واقع ایک بنگلے کے کھلے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ بنگلے کے اندر عمارت کی پیشانی پر انگریزی میں کچھ لکھا تھا۔ ہم خاموشی سے بنگلے میں داخل ہوگئے۔ بنگلہ بالکل سنسان تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو انگریزی میں لکھا تھا:

'گر مندر'

ہم نے فوراً تصویریں بنانی شروع کردیں۔ ابھی ہم تصویریں بنا ہی رہے تھے کہ بنگلے کے اندر ایک کونے پر بنی ایک بد وضع مختصر سی دومنزلہ عمارت، جو تجاوزات لگ رہی تھی، اچانک اس کی بالائی منزل کی ایک کھڑکی کھلی جس میں سے ایک خاتون کا چہرہ نمودار ہوا اور وہ چلا چلا کر کہنے لگی 'گھر کی تصویریں کیوں بنا رہے ہو؟'۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور خاتون بھی اسی طرح چلانے لگیں۔ چند لمحوں بعد ایک خونخوار چہرے والے صاحب نمودار ہوئے اور وہ بھی اسی طرح چلانے لگے کہ کس کی اجازت سے آئے ہو۔ ہم کراچی کی قدیم عمارتوں کی تصویریں بناتے ہوئے بارہا ایسی صورت حال کا شکار ہوچکے ہیں اور کبھی کبھار اس کے نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ ہم نے وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔ گو کہ ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ بنگلے کا مکمل معائنہ کیا جائے اور مزید تصویریں بنائی جائیں۔ بہرحال ایک بات تو ثابت ہوئی کہ یہ گرو مندر نہیں بلکہ ”گر مندر“ ہے۔

گرو مندر کا نام بدلنے کی دو بار بڑے بھر پور انداز میں کوشش کی گئی۔ پہلی بار 1992 میں جب بھارت میں بابری مسجد کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت اس چوک کا نام بابری چوک رکھا گیا اور چوک کے آس پاس کی دیواروں پر بابری چوک لکھ دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ گرو مندر ہی رہا۔ 30 مئی 2004 کو جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نظام الدین شام زئی کے قتل کے بعد اسے شامزئی چوک بنایا گیا لیکن گروجی سے منسوب چوک کا نام بدلنے کی تمام کوشیں ناکام رہیں اور یوں یہ چوک آج بھی گرو مندر چوک ہے جبکہ مندر کا کچھ اتا پتا نہیں۔

گر مندر کی عمارت اپنی ظاہری وضع قطع سے نہ یہ مندر لگتی ہے، اور نہ ہی اس عمارت کی کوئی تصاویر یا اس سے متعلق معلومات کسی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ہم تو اپنی تحقیق میں یہیں تک پہنچ سکے، کیا آپ اس عمارت کو ڈھونڈ سکتے ہیں؟

— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ

تبصرے (39) بند ہیں

Afatqiamat Jan 28, 2015 02:02pm
Guru Mandir I have read somewhere was an area of wealthy Sikhs ,then during Partition when they tried to go back to India in Jan 48 , around 1000-1400 or them were killed at Cant Station and Karachi saw its first curfew in Jan 48 ..by the new zealous Muslims ,the same who have made Ram Bagh as AramBagh ...!!
Zubair Ahmed Jan 28, 2015 02:24pm
Nice esearch .Baloch
Chandani Jan 28, 2015 03:20pm
Dear Akhtar Shaib nice research and article, you have open discussion to other for a research.
Syed Saad Jan 28, 2015 05:48pm
in early 2000 it was called as Sabeel Wali Masjid Chowk as well by extremist muslims, but somehow the original name still exists. I am glad and thankful to the journalist for such effort.
عدنان Jan 28, 2015 05:53pm
اختر بلوچ صاحب ، آپ کے لیئے دل سے دعاء نکلتی ہے۔ آپ ایسی ایسی نایاب معلومات ہمیں دیتے ہیں۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ
Capt C M Khan Jan 28, 2015 06:16pm
Well done. Good Research. Please keep the place a secret just in case in the next riots it is burned dow
irfan Jan 28, 2015 06:34pm
janab main bi ye nakam koshish kar chuka hun or aapki poori kahani parhi is khayal se ke guroo mandir ke dekhne ka khuwab poora hoga par aapki bi maloomat adhoori rahi
Qazi Mehran Jan 28, 2015 06:48pm
سائين اختر بلوچ صاحب توهان جا مضمون هميشه هڪ نئي بحث کي جنم ڏيندا آهن۔۔۔توهان جي تحقيقي ڪالمن جا اسين انتظار ڪندا آهيون پر هڪ ڳالهه سمجهه ۾ نه آئي آهي ته اصل ۾ گر مندر آهي يا گرو مندر۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔۔!!!!!! شال هميشه ائين لکندا رهو۔۔۔۔
Mohsin Soomro Jan 28, 2015 06:48pm
Very Nice Story By Akhtar Baloch Sahab..Though i have heard and saw a lot about Guru Manir, but i have not found it yet...I request Mr Akhtar Baloch to write about that place and also include address this time...
abdul razzak abro Jan 28, 2015 07:04pm
Interesting and research oriented blog by Akhtar sahib. If the building shown as 'Gur Mandar' was not a mandar than what was it ? No doubt author is doing good job in difficult circumstances.
Farrukh Ali Jan 28, 2015 07:15pm
Hats off to the writer. -FA-
عقیل عباس جعفری Jan 28, 2015 07:20pm
کیا خوب صورت اور پرتجسس تحریر ہے۔ ویسے اگر آپ گرومندر سے لسبیلہ کی جانب سفر کریں تو ایک موہوم سا امکان ہے کہ شاید اس مندر کا کچھ اتا پتا معلوم ہوسکے۔
M Yasir Jan 28, 2015 07:23pm
Good research Akhtar Sahib but where is Guru Mandir?, the question is yet to be answered.
Mohsin Soomro Jan 28, 2015 08:10pm
@irfan Dear Akhtar Baloch ne Guru Mandar YA Gur Mandar ki tasaweer bhi laga di hain.Ab ye hamar aur apka kaam hai k is imaarat ko talash karen.Unki tehqeeq adhoori nahi hai balke mukammal hai aur iske saath saath ek sawaal bhi paida karti hai k jis mandar ko talash karne main apko na jaane kitna arsaa laga lekin phir bhi ap nakaam rahe.Tehqeeq ek bohat hi mushkil kaam hai lekin nakaam aur maayoos nahi hona chahiye.Main bhi is imaarat ko aaj k baad se talaash karne ki koshish karunga aur ap bhi karen.shayad hum koi naya mandir saamne le ayen.
Anwar Khan Jan 28, 2015 08:45pm
Excellent finding, dear Akhtar Baluch Sahib. I have been to the same area across Sabil Masjid several times even several years sitting there on footpath for hours having tea but could .not even peek into the house that had Gur Mandir I thing you did it again, when all those claim to be gurusof knowing the city .well and writing features and articles on its history were left nail-biting I hope this piece of writing will be the first and utmost importance to .history of the city with Gur Mandir discovery to all. God Bless You
waheed rajpar Jan 28, 2015 09:07pm
زبردست ڪالم آهي،مندر ڳولهڻ ۾ مان اوهان جي مدد ڪندس
shaukat korai Jan 28, 2015 09:12pm
Thats great, Its commitment finally you found the guru mandir, I heard about guru mandir never seen and know about mandir. I ever read your blog because your writes up consist on huge amount of information. Keep it up
Muhammad Iqbal Jan 28, 2015 09:46pm
Good research.
meena Jan 28, 2015 10:33pm
Veey Good sir I reaaly appreciate your hard work and very informative feature.
nazik jatoi Jan 28, 2015 11:22pm
well done dear Akhtar you have done splended piece of work. keep it it on. very good.
MALIK Jan 29, 2015 01:37am
I read your article very slowly, because every line and every words tells their story itself. While reading your article you feel that you are also there and you are one of the character of the story. Because so many golden days are around your article. God bless you.
یمین الاسلام زبیری Jan 29, 2015 05:10am
@Qazi Mehran جناب بہت عرصے میں سندھی پڑھی۔ بڑی خوشی ہوئی۔ آپ سندھی ہی میں لکھا کریں اور زیادہ لکھا کریں۔ آپ کا شکریہ۔
یمین الاسلام زبیری Jan 29, 2015 05:11am
بلوچ سائیں آپ کی محنت کا شکریہ۔ غالب کا مصرعہ یاد آرہا ہے: ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔
Mahan Singh Jan 29, 2015 10:11am
Sir g ap to cha gae very good job hatsoff to you
rizwan Jan 29, 2015 10:19am
Hidden away behind a huge mosque, known as Sabeel Wali Masjid, near a banyan tree is one of the oldest temples in the city, known as Gurumandir. The veranda is spacious and clean. A man at the temple, Mohammad Zaki, says the temple has been here long before Partition. “I used to live nearby and still live in the premises,” he shares. Pointing towards a pile of tattered blankets in a small space below the staircase, Zaki shows his home. Once inside, however, it was discovered that the temple is completely bereft of any idol or deity as it has been used by the excise department for the past “many years,” a man sitting in the office informs. Without divulging much, he says the office has been there since 1986 and he does not know much about its history. Shuja Bukhari, administrator at the Evacuee Trust Board in Islamabad, says a legal row has been carrying on between the excise department and the evacuee board over the owne ship of the temple for last 20 years. “They claim that the plot is allotted to them now, whereas we have documents verifying our stance that the temple belongs to the evacuee trust,” explains Bukhari. The reason the case has stalled for so long, he says, is because the people concerned keep “getting transferred.” Despite knowing that there is no religious idol or deity inside, some residents of the area still visit the temple, even if it is just for a few minutes. http://www.thenews.com.pk/Todays-News-4-94091-Looking-for-the-Mandir-at-Gurumandir
rizwan Jan 29, 2015 10:23am
Gurudwara Pehli Patshahi at Karachi When Sat Gur Nanak Dev Ji came to Karachi he first of all stayed at this place . It is located on Justice Kayani road opposite Karachi Art Council. Guru Dev Ji went to the cave of the goddess of sea from this very place The people took light from that cave and built Gurmandir (temple) in the city. Now Guru Mandir is the name of a very big locality of Karachi. The building of the Gurdwara is strong and beautifully built. The Government of Pakistan has got it repaired recently spending lacs of rupees. https://www.allaboutsikhs.com/gurudwaras-in-pakistan/gurudwara-pehli-patshahi-at-karachi
saleemullah Jan 29, 2015 01:52pm
sir aap ki mehnat barawr sabit hui he lgta he yeh gru nahi gur mandir he he
Aatif Jan 29, 2015 05:05pm
Great research and so beautifully written article. Hats off to you Akhtar Baloch sahib. It has forced me to initiate my own search of sorts and the following article - written by another Baloch - is worth reading too. http://www.thenews.com.pk/Todays-News-4-94091-Looking-for-the-Mandir-at-Gurumandir
Anwar Khan Jan 29, 2015 05:49pm
@rizwan :The blog is about ‘Gur Mandar’ and not ‘Guru Mandir’ and please do not confuse both. The story in reference to the blog you mentioned with a name ‘Zaki’ but the question is who ‘Zaki’ is? The story, you mentioned, suggests: “Zaki reveals that the reason people visit the temple often is a pair of snakes in the veranda which are “seen only during festivals,” much to the horror of the excise officers mentioned earlier. Visitors bring milk for the snakes in order for their wishes to be granted.” Seemingly the story is based on Hindu mythology and not the reality of the world. My question is who will believe in narration on “a snake’s pair” appears in festivals? I still work around the Mandar area for the last eight years sitting there with friends to have tea nearly on a daily basis for hours, yet I could not find any evidence of the Mandar as none visits there and the festivals. I just want to know when the festival falls? Similarly, I just came to know about the Mandar after Akhtar Baluch wrote his blog on it. At the end let me say that Akhtar Baluch’s story is about ‘Gur Mandar’ and not Guru Mandir as the article, you shared a link, indicates. It seems that the previous writers had just narrated the story on Guru Mandir on hearsay and never visited the exact location. Akhtar has given all pictorial proofs as well to substantiate his narration.
Waheed Ayaz Jan 29, 2015 07:52pm
جناب یہی گر مندر جو عین گرو مندر بس اسٹاپ پر سبیل سبیل مسجد کے بالمقابل ہے، گرو مندر ہی ہے، آپ کسی دن دوبارہ جائیں اور کوشش کریں کہ آ پ کی ملاقات اس مندر کی انتظامیہ سے ہو جائے۔ گر مندر کو ہی اب عرف عام میں گرو مندر کہا جاتا ہے۔
رانا محمد طاھر Jan 29, 2015 08:10pm
اختر بلوچ کی اچھی تحقیق ھے ۔ھو سکتا ھے یہی گر مندر بگڑ کر گرو مندر ھو گیا ھو ۔باہر حال معلومات میں اضافہ ھوا ۔
رانا محمد طاھر Jan 29, 2015 08:13pm
اچھا معلوماتی تحقیقاتی مضمون ھے
Ali Arqam Jan 29, 2015 09:19pm
اختر بلوچ صاحب گرومندر چوک کے قریب واقع مدرسے کا نام جامعہ بنوریہ نہیں ہے،بلکہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ ہے اور انہوں نے نیو ٹاؤن کا نام اپنے بانی مولانا یوسف بنوری کے نام پر بنوری ٹاؤن لکھنا شروع کیا جو کسی حد تک اب مستعمل ہے. جبکہ مفتی شامزئی مرحوم اس کے شیخ الحدیث تھے مہتمم کبھی نہیں رہے،98میں مولانا حبیب اللہ مختار کے قتل کے بعد سے مولانا عبدالرزاق سکندر ہی مہتمم چلے آرہے ہیں. جامعہ بنوریہ تو سائٹ تھانے کے قریب ہے جس کے مہتمم مفتی نعیم ہیں.
Syed Jan 30, 2015 12:05am
Although I grew up not too far from Shivala mandir, I did not know of it's name. Back in summer of 1986 , as a young teenager I discovered this mandir while walking past it. Me and my cousin went inside it and to our surprise it was a mandir. Yes, in those days the doors remained open and the person inside showed us around. There was an urban myth about the mandir regarding supernatural beings haunting passers by after dark.
mukhtar ahmed Jan 30, 2015 01:21pm
AKHTAR BALOUCH SB NE JO GROMANDIR KE NAM KA RAZ JANE KE LIE KAWISH KI HE WO QABIL TAHSEEN HE KUN K BHASIET HISTORY KE AIK TALIB ILM KE ME NE BHI BAHOT ZEADA TAHQIQ KI OR GROMENDER KA RAZ JANE KI KOSISH KI MGER IS RAZ SE PERDAH NA UTTHA SKA LEHAZA DIL KI GHARION SE INHEN MUBAREK BAD PESH KERTA HUN
Faizan Qadri Jan 30, 2015 03:29pm
بہت معلوماتی اور بہترین تحریر ہے سر
یمین الاسلام زبیری Jan 31, 2015 12:58am
@rizwan آپ کا مراسلہ پڑھ کر میرا خیال ہے کہ اختر بلوچ صاحب کو چاہیے کہ گرو مندر پر ایک اور مضمون لکھیں۔
Kiyya Jan 31, 2015 01:54pm
Its very much informative my lord, looking forward to read the next piece coming up with the address of mentioned Mandar this time. Well done sir. keep up this interesting work
Shoaib Feb 03, 2015 02:54pm
Brilliant. Enjoyed reading & finally you found GUR(u) Mandar ;)